تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 16


 

ARAZ RESHAB NOVELS


Dont copy paste without my permission kindly.

-----------------------------------------------------
"کچھ پتہ لگا جمال بیٹا "۔
فوزیہ نے آس بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھا جو منہ لٹکاۓ گھر کے اندر داخل ہوا۔
"نہیں خالا کوئ پتہ نہیں چل رہا وہ لوگ کہا ہے ,انہوں نے پولیس میں رپور ٹ درج کردی ہے "۔
جمال نے کولر سے پانی پیتے ہوۓ کہا۔
"اب کیا ہوگا جمال میرا تو دل بیٹھا جارہاہے"۔
فوزیہ سینے پہ ہاتھ رکھے چارپائ پر ڈھے سی گئ تھی ۔ان کے سر پہ تو جیسے آسمان ٹوٹ کے گرا تھا,جس کی نیک سیرت بچی پہ اس لڑکی نے سب کے سامنے بہتان لگایاتھا کے وہ بدکردار ہے۔
"خالا سب ٹھیک ہوجاۓ گا میں فلحال زینیہ کو بھیجتا ہوں آپ اپنا سامان لے کر ہمارے گھر چلے مجھے نہیں لگتا یہ ڈیسوزا آپ کو رہنے دے گی "۔
فوزیہ دلگرفتہ ہوئ اپنی چیخوں کا گلا نہ گھونٹ سکی اور اونچی اونچی آواز میں رونے لگی۔
"خالاہمت کرے اللہ سب بہتر کرے گا ,آپ سامان باندھ لےاپنا میں ذرا کوچنگ سے آکر آپ کو لے جاتا ہوں "۔
جمال ان کے ڈوپٹے سے آنسوں صاف کرتے ہوۓ باہر کی جانب نکل گیاجب ہی کچھ دیر بعد فوزیہ کو وسوسے سےستانے لگے وہ تیزی سے باہر کی جانب نکلی تاکہ جمال کو روک سکے مگر وہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی نکل ُچکا تھا, وہ خود ہی  اس راستے پر پیدل چلنے لگی تاکہ جمال سے مل سکے  ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کے اچانک کہی سے ایک کتا آگیا جس نے فوزیہ کے پیچھے چلنا شروع کردیا پہلے پہل تو وہ اسے پریشانی میں نظر انداز کر گئ تھی پر جب ُا سکے قدم ان کے قدموں کے ساتھ تیزی سے چلنے لگے تو وہ حواس باختہ سی ہوئ اچانک سڑک کے درمیان میں  آگئ جہاں سے گزرتی گاڑی نے بروقت بریک لگائ مگر پھر بھی بچاتے بچاتے بھی فوزیہ کی گاڑی سے ٹکڑ ہوگئ جس سے وہ اپنے کمزور اعصاب کے باعث بے ہوش ہوگئ  ۔
"کیا ُہوا ہے ڈڑائیور"۔
پیچھے بیٹھے مالک نے اپنے ڈڑائیور سے پوچھا۔
"سر کوئ لیڈی گاڑی سے ٹکڑا گئ ہے "۔
ڈڑائیور کی بات سن کر وہ تیزی سے گاڑی سے باہر نکل 
آیاجہاں سڑک پہ گِری عورت کے نزدیک جانے پر جو چہرہ ُاس کی آنکھوں کے سامنے آیا ُاس نے گویا اسے پتھر کا کردیاتھا۔
______________________________________________
ماضی"۔
بہن یہ لوگ آپ کو یہاں نہیں رہنے دے گے ,آپ میری بات مانے اور میرے ساتھ چلے جہاں اللہ نے آپ کو اب تک محفوظ رکھا ہے وہاں آگے بھی رکھے گا "۔۔۔
حسین بھٹی روتی بلکتی فِیا کو دلاسا دیتے ہوۓ اس کے سر پر دست شفقت رکھے اسے سمجھانے لگا۔۔۔
"اگر تم۔سچی ہو نا فیا تو اس کی بات مانو اور چلی جاؤ یہاں سے ویسے بھی یہاں تمھارے لیے کوئ جگہ نہیں ہے میری بھی جوان بیٹیاں ہیں میں تمھاری بات کا یقین کر بھی لوں گی پر یہ گاؤں والے نہیں کرے گے !!تمھارے ساتھ ساتھ ہمیں بھی مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے ہم۔سب کی اسی میں بھلائ ہے کے تم یہاں سے چلی جاؤ "۔
چھمی کی باتوں پہ وہ دل میں ملول لیے حسین بھٹی کے ساتھ روشنیوں کے شہر کراچی آگئ جہاں حسین بھٹی کی  بیوی نرگس حسین بھٹی, دو سالا بیٹا جمال حسین بھٹی اور ایک سال کی بیٹی زینیہ حسین بھٹی نے اسے دل سے خوشامدید کہا ,پھر دن یونہی بے کیف سے گزرتے گۓ ُاس نے لوگوں کے کپڑوں کی سلائیاں کرنا شروع کردی اس سےان کی زندگی کے دن گزرنے لگے ,دکھوں اور تکلیفوں کے ساتھ ساتھ فِیا نے ایک بہت خوبصورت بچی کو جنم دیاجس کا نام۔ُاس نے زھرہ عظیم خان رکھا ۔جو حسین بھٹی کے انتقال کے بعد سے سخت مفلسی کا شکار ہوگئ ,جیسے جیسے زھرہ بڑی ہوتی جارہی تھیِ فیا نے خود کو کاموں میں اور مصروف کرلیا ۔صبح کے وقت زھرہ کو اسکول چھوڑ کر وہ نرگس کے ساتھ فیکٹڑی جایا کرتی تھی جہاں دھاگے کاٹنے کا کام کرکے وہ ماہانا تنخواہ لیتی  ,جس سے ننھی زھرہ اور فیا کا گزر بسر ہونے لگا ۔
______________________________________________
حال:-
"شیر علی فلحال میری گمشدگی کا کسی سے زکر مت کرنا کے  ہم۔وہاں سے نکل آۓ ہیں "۔
زین العابدین ماتھے پر شکنوں کا جال لیے شیر علی سے سرد لہجے میں بولا ۔
"جی سر"۔
"اور ذرا معلوم کرو کے آج کل ہالے رخشندہ اور قاسم حیات خان کن ہواؤں میں ُاڑرہے ہیں !!اور ان میں سے کس کا اشہد عزیز سے رابطہ ہے"
اس نے اپنی سگریٹ کو سلگاتے ہوۓایک گہرا کش لیا ۔
"جی سر"۔
شیر علی کے جاتے ہی وہ اپنی سگریٹ ُبجھا کر اسپتال کے کمرے میں داخل ُہوا جہاں نرس اس کی ڈڑپ میں انجیکشن لگا رہی تھی۔
زھرہ نے اندر داخل ہوتے زین العابدین کو دیکھا جس کے چہرے پہ چھائ چٹانوں سی سختی کسی ُپر خطرناک طوفان کا اندیشہ دے رہی تھی۔نرس کے جاتے ہی وہ دو قدم چلتا ہوا  زھرہ کے نزدیک گیا جو اسے دیکھ کر اپنی ٹانگیں پسارے بیڈ کو اونچا کیۓ بیٹھی تھی۔
"سر مجھے امی سے بات کرنی ہے "۔
اس نے دھیمی آواز میں اسے بولا جو مسلسل ٹکٹکی باندھیں اس کے ظاہر ہوتے نشانوں کو دیکھ رہاتھا اس کی آنکھیں شدت ضبط سے ُسرخ ہورہی تھی وہ انہیں  زور سے میچے,لبوں کو آپس میں پیوست کیئے اپنے اندر اٹھتے ابال کو روکنے کی کوشش کررہاتھا۔ یہ کیا کر دیا میں نے,۔
اسے خود کی روح تک گھائل ہوتی ہوئ محسوس ہورہی تھی وہ دل میں ایک عہد کرچکا تھا خود سے کے وہ اس انسان سے اس ایک ایک زخم کا ِحساب لے گا۔
"ہم !!!کیاکہا"۔
وہ اپنے خیالوں سے باہر آیا چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
"مجھے امی سے بات کرنی ہے سر "۔
وہ اسے کہتے ہوۓ اپنا سر ُجھکا گئ تھی۔
"پہلے یہاں سے اٹھو،داکٹڑ نے تمہیں واک کرنے کے لیے کہا ہے"۔
 زین العابدین نے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا جسے دیکھ کر وہ نظر انداز کرگئ تھی۔ وہ ِاس وقت اس کی کیفیت کو سمجھ رہاتھا اس لیے ایک گہری سانس لیتے ہوۓ اس کا ہاتھ پورے استحقاق سے تھام کر اسے  کھڑا کیاتھا۔جو ُاٹھنے کے لیے تیار نہ تھی پھر سہارا دیتے ہوۓ اسے تین چار قدم چلایا جس سے وہ ایک بار  لڑکھڑائ بھی تھی, پر زین العابدین نے اسے گِرنے نہ دیا۔جو دو قدم ہی چل کر ہانپنے لگی تھی۔وہ اس کی حالت دیکھتے ہوۓ اسےصوفے پر لے آیا۔
"یہ لو پانی پیو " میز پر رکھاپانی کا گلاس اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا ،مگر وہ اس کی امید پر پورا اترتی ہوئ اس کے ہاتھ سے گلاس نہ تھامنے کا عہد کرچکی تھی۔مگر مقابل زبردستی اس کے لبوں سے پانی کا گلاس لگاگیا جسے اس نے دو گھونٹ بھر کے پیچھے کردیا۔
"آپ کیوں ہر بات پہ زبردستی کرتے ہے؟"۔۔۔
زھرہ نے اپنا جھکا سر ُاٹھا کے  اس کی آنکھوں میں جھانکا جہاں ُاس کے لیۓ محبت کا ٹھاٹھے مارتا سمندر موجزن تھاجسے دیکھ کراس کے چہرے کی سفید رنگت میں اس وقت سرخئیاں سی گھل گئی تھیں۔
۔"کیوں کے تم مجھے مجبور کرتی ہو ایسا کرنے پر"۔
۔وہ اس سے نظریں ُچراتی ہوئ کھڑکی کی جانب دیکھنے لگی۔
"ایک بات کہو زھرہ "۔
زین العابدین کی گھمبیر آواز نے رومانوی ماحول کا طلسم مزیدبڑھایا تھااس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا زھرہ نے سرسری سا اس کی جانب دیکھا ۔وہ صوفے پہ اس کے برابر میں براجمان ہوۓ اس کا۔نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام۔کے اسے سہلانے لگا , جس پر ابھی بھی اس کی انگلیوں کےنشان ثبت تھیں۔
"مسئلہ ہو تو نگاہیں نہ چُراؤ مجھ سے ,
اپنی توجہ سے اپنی چاہت سے مجھے حل کردو
اپنے غم۔سے کہو ہر وقت میرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کردو 
کام۔مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اس کو 
میرے مولا کو جونہی اشارہ ہوگا ۔۔۔۔
ٹھیک کہا نا میں نے مسسز خان ؟۔
ُاس نے ُاس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی تھی جہاں سواۓ آنسوؤں کے اسے کچھ نظر نہیں آیاتھا۔لمحوں میں فسوں خیز سحر ٹوٹا تھا زین العابدین واپس اپنے خول کو بند کرگیا 
"stop crying zahra".
وہ اس کی جانب ٹِشو بڑھاتے ہوۓ بولا ۔جسے وہ نظر انداز کرتی اپنی ہتیھلی کی پشت سے اپنی نم۔آنکھیں صاف کرنے لگی مگر پھر بھی آنسوں  تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
"آپ مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کرے سر,بس مجھ پر ایک احسان کردے میری امی بہت پریشان ہورہی ہوگی ان کا میرا سواۓ اس دنیا میں کوئ نہیں ہے ۔ ,آپ پلیز میری ان سے بات کرادے"۔
وہ زین العابدین کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئ بولی جس پر وہ برہم۔ہوتے ہوۓ اس کے بندھے ہوۓ ہاتھوں کو کھول گیا ۔
"تم التجاء کرنے کے لیے نہیں زین العابدین پر ُحکم۔چلانے کے لیے بنی ہو ِاس لیے آج کے بعد میرے سامنے اس طرح سےکبھی بھی ہاتھ مت جوڑنا اور آنٹی سے 
میں تمہاری بات کرادوں گا مگر تمہیں کل صبح تک کا انتظار کرنا ہوگا پھر ہم واپس کراچی جاۓ گے"۔
 وہ زھرہ کو کھڑا کرتے ہوۓ واپس بستر کی جانب لے جانے لگا۔جو میکانکی انداز میں اس کے ساتھ چلنے لگی۔
"کل کیوں!! آج کیوں نہیں آپ پلیز کیوں نہیں سمجھ رہے سر "۔
وہ ملتجی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
"کیوں کےِاس وقت میں مزید تمہیں خطرے میں نہیں ڈال سکتا جب کے میرے دشمنوں کی تعداد میرے دوستوں سے بڑھ کر ہیں ِاس لیے جب تک میں ُاس انسان کو پکڑ کے عبرتناک سزا نہیں دلا دیتا مجھے چین نہیں آۓ گا , اب سے بھول جاؤ سب جب تک میں سیٹیسفائیڈ نہیں ہوجاتا میں تمہیں کہی نہیں جانے دوں گا "۔۔۔۔
زھرہ اس کے لہجے میں چٹانوں سی سختی دیکھ کر متوحش ہوگئ تھی اگر اس نے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا تو وہ کیا کرے گی ۔۔۔
آخر آپ میری بات سمجھتے کیوں نہیں ہے، اگر خدانخواستہ میری امی کو کچھ بھی ہوانا تو میں آپ کوچھوڑوں گی نہیں"۔۔۔۔۔
وہ ضبط کے باوجود بند آنکھوں سے آنسوؤں کے جھرنے کو بہنے سے نہ روک سکی۔
"مت چھوڑنا میں چاہتا بھی یہی ہوں "۔
زین العابدین چہرے پہ پھیکی مسکراہٹ سجاۓ اس کی شفاف آنکھوں میں جھانکتے میں اچٹتی سی نگاہ ڈال کے بولا۔
------------------------------------------------------
"سر کیا کرنا ہے"۔
ڈڑائیور کی آواز پر عظیم خان کو جیسے ہوش آیا تھا وہ ُپھرتی سے اپنی متاع حیات کو ُاٹھاتے ہوۓ گاڑی کی جانب بڑھے تھے ۔
"ڈڑائیور جلدی سے اسپتال چلو "۔
وہ ہونقوں کی طرح اپنے مالک کو دیکھنے لگا جو پہلی بار کسی کے لیے ایسے ٹڑپ ُاٹھا تھا، وہ گاڑی کو ہوا کے دوش پہ ُاڑاتے ہوۓ اسپتال پہنچا تھا۔جہاں داکٹڑ نے فوزیہ کو فوری ٹڑیٹمنٹ  کے لیے اندر ایمرجنسی میں لے گۓ کافی دیر گزرنےکے بعد داکٹڑ باہر آۓ تو عظیم خان تیزی سے ان کی جانب بڑھے۔
"داکٹڑ میری وائف کیسی ہے؟۔
عظیم خان کے چہرے سے پریشانی جھلکتے دیکھ کر داکٹڑ نے ان کا شانہ تھپتھپایا ۔
"سر ایسا ہے کے سر کے علاوہ باقی چوٹیں معمولی نوعیت کی آئ ہے,وہ اس وقت بے ہوش ہے کیوں کے سر پہ گہری چوٹ آئ ہے۔ہم ان کے مزید ٹیسٹ کرے گے اس دوران ،آپ بس دعا کیجیے کے انھیں جلدی ہوش آجاۓ "۔
داکٹڑ کی بات پر عظیم خان رنجیدہ ہوا ِانتہائ نگہداشت واڑڈ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔جہاں شیشے کے پار ان کی زندگی بستر پر بے ُسدھ پڑی ہوئ تھی جو انھیں اتنے سالوں بعد ملی بھی تو کس حالت میں ,وہ شیشے کی دیوار کے ساتھ سر ٹکاۓ آنکھوں میں آنسوں سموۓ ہوۓاسے دیکھنے لگے۔انھیں ِاس وقت کسی سہارے کی ضرورت تھی جو اس وقت ان کا ساتھ دیتا وہ فوراً اپنے موبائل سے زین العابدین کو کال ملانے لگے جس کا نمبر مسلسل بند جارہاتھا  وہ گہری سانس لیتے ہوۓ نزدیک رکھے بینچ پر جا کر بیٹھ گۓ ۔
______________________________________________
"یوشع تجھے میری ساری بات سمجھ آرہی ہے نا تو نے کیا کرنا ہے؟"۔
زین العابدین اسپتال کے کمرے کے باہر راہداری میں چکر لگاتا ہوا بولا۔
"سب سمجھ آگیا تیرا یہ کام ہوجاۓ گا پر یہ نمبر کس کا ہے "۔
یوشع نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
"گاڑڈ کا ہے میرے فلحال میرے پاس ہی ہے باقی جو بھی مسئلہ ہو تو مجھے بتانا "۔
وہ پریشانی سے سر کو مسلتے ہوۓ بولا ۔
"یار ایک بات سمجھ میں  نہیں آئ تو اپنی گمشدگی کو راز میں کیوں رکھ رہاہے اور آنٹی پہ نظر رکھ کےکیا فائدہ؟ "۔
یوشع نے الجھتے ہوۓ پوچھا۔
"سمجھ لے بہتی گنگا میں کسی اور نے ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے،تجھے نہیں سمجھ آۓ گا تو بس اتنا کر جتنا میں نے کہا ہے "۔۔۔۔
زین العابدین نے سر کو مسلتے ہوۓ اپنی بازوں پہ لگی پٹی کو دیکھ کر کہا۔
"ٹھیک ہے پھر میں زھرہ کی امی کے گھر جانے کی کوشش کرتا ہوں کسی طرح سے,اس کے علاوہ آنٹی والا کام بھی جلدی کرکے تجھے بتاؤں گا تو اپنا اور بھابھی کا دیھان رکھنا ۔"
زین العابدین یوشع کی بات سنتے ہوۓ کمرے میں داخل ہوا جہاں زھرہ داکٹڑ سے چیک اپ کروانے میں مصروف تھی۔
"سر اب یہ بلکل ٹھیک ہے معمولی سےزخم ہے جو آہستہ آہستہ مندمل ہونا شروع ہوجاۓ گے ,میں نے ان کہ ساری میڈیسنز لکھ کر دے دی آپ باقاعدگی سے ان کا استعمال کرواتے رہے انشاللہ نشان بھی جلدی چلے جائ گے آپ ان پیپرز پر دستخط کردے پھر آپ لوگ جاسکتے ہیں" ۔
"شکریہ داکٹڑ "۔۔۔۔۔
زین العابدین نے دستخط کرتے ہوۓ داکٹڑ کا شکریہ ادا کیا جو پیشہ ورانہ مسکراہٹ اُچھالتی ہوئ باہر کی جانب نکل گئ۔
"چلے"۔
زین العابدین نے ُاس کی جانب دیکھا جو اس کی آواز پہ گھر واپس جانے کے لیے فوراً کھڑی ہوگئ وہ اسے بزریعہ جہاز پشاور سے کراچی لے آیاجہاں واپسی کے سفر میں خاموش بیٹھی زھرہ اپنے گھر پہنچنے سے پہلے اپنی امی کے بارے میں سوچنے لگی آخر وہ کتنی پریشان ہوگی میری وجہ سے ،زندگی میں پہلی بار امی کو اتنے دنوں کے لیے بِنا بتاۓ میں کہی گئ جانے وہ اپنی دوائ وقت پہ لے رہی ہوگی کے نہیں گزرتا ہوا وقت اسے خدشات و واہمات میں مبتلا کررہاتھا  سوچتے سوچتے اس کی غزالی آنکھوں میں آنسوؤں کے شفاف موتی چمکنے لگے ۔جب ہی گاڑی کی خاموشی کو موبائل کی چنگھاڑتی آواز نے توڑا جس پر یوشع کالنگ آرہاتھا۔
"ہاں یوشع بول کیا رپورٹ ہے؟"۔
زین العابدین نے پیچھے بیٹھے ہوۓ ُاس سے پوچھا۔
"یار ایک ُبری خبر ہے بھابھی کی امی دو دن سے لاپتہ ہے وہ کل شام سے گھر واپس نہیں آئ جب میں نے ان کی مالک مکان سے پوچھا تو ُاس نے ایسی واحیات زبان استعمال کی بھابھی کے بارے میں کے دل تو چاہ رہاتھا کے ُاس عورت کا وہی قتل کردو "۔۔۔۔
زین العابدین نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی ,اس کا بس نہیں چل رہاتھا کے وہ ایک بار مسسز ڈیسوزا کو بے نقط سنا ڈالتا ۔
"تو برابر میں جاتے وہاں پتہ کیا "۔۔۔۔
وہ باعجلت اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولا ,زھرہ کی موجودگی کی وجہ سے وہ یوشع سے ڈھکے ُچھپے لفظوں میں پوچھ رہاتھا۔
"یار ان کے گھر بھی بڑا سا تالا لگا ہوا ہے ُسنا ہے ان کی کسی رشتہ دار کی طبیعت بہت خراب ہے جہاں وہ لوگ گۓ ہیں"۔
یوشع سرد سپاٹ لہجے میں بولا ۔
"پھر تم آس پاس میں پتہ کرو کسی نے تو دیکھا ہوگا ان کو,یوشع کچھ بھی کرو مجھے وہ صحیح سلامت چائیے "۔
وہ سنجیدہ سے لہجے میں بولتا اپنے برابر بیٹھی زھرہ پہ اچٹتی سی نگاہ ڈالی جو ُاس کی باتیں سمجھنے کی کوشش کررہی تھی اس کا از حد سنجیدہ لہجہ جس کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ کی رمق بھی نہ تھی ضرور معاملے کی نوعیت کچھ غیر معمولی تھی وہ فون بند کرتا اپنے ِدماغ کے تانے بانے گھومانے لگا۔
"آپ کس کی بات کررہے تھے,کون نہیں مل رہا"۔۔۔۔۔۔
زھرہ سراسیمہ سی اس کی جانب دیکھنے لگی جیسے کوئ بہت ُبری خبر ملنے والی ہے زین العابدین نے ُاس کی آنکھوں میں چند لمحوں کے لیے دیکھا تھا جہاں ُاس کے چہرے پہ چھائ یاسیت اسے شرمندہ کرگئ تھی آخر اس سب کا ذمہ دارایک وہی تھا۔
"تمھارے جاننے کےلیے ضروری نہیں ہے ,ڈڑائیور گاڑی پہلے فلیٹ کی طرف لو"۔
زھرہ نے اس کی جانب حیرانگی سے دیکھا۔
"سر آپ پہلے مجھے گھر ڈڑاپ کردے ،پھر آپ جہاں مرضی جاۓ ,مجھے امی کے پاس جانا ہے "۔
وہ اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوۓ رسانیت سے بولی۔
"آنٹی سے بھی ملے گے پر پہلے تمھیں وہی جانا پڑے گا میرے ساتھ ,اسے تم التجاء سمجھ لو یا دھونس تمہاری مرضی ہے"۔
 زین العابدین کا لہجہ دو ٹوک تھا ,اس وقت ُاس کےچہرے پے غیر معمولی تاثرات اسے ٹھٹھکنے پر مجبور کرگۓ وہ خاموش رہنے میں ہی عافیت جان کے بیٹھ گئ, جہاں اتنا انتظار کیا ہے وہاں  تھوڑی دیر اور سہی کچھ ہی دیر میں ڈیفینس کے پورش ایریاں میں بنے فلیٹ کے سامنے ڈڑائیور نے گاڑی کھڑی کردیی جہاں زین العابدین ُاس کی جانب کا دروازہ کھول کے کھڑا ہوگیا۔
"اترو ۔۔۔" وہ ٹھنڈے سرد لہجے میں بولا ۔
" مگر ۔۔۔" زھرہ نے گڑبڑا کر اس کی جانب دیکھا۔
مگر کیا ؟؟ " زین العابدین کی آنکھوں میں سرخی اتر آئی تھی ۔
" آپ اپنا کام کر کے آجاۓ میں یہی انتظار کروں گی۔۔۔"
وہ سرسری سے لہجے میں بولی جس کے لہجے میں بے زاری جھلک رہی تھی۔وہ اس کی ُاس بات کو نظر انداز کرتے ہوۓ اس کا ہاتھ تھامے لِفٹ کی جانب بڑھنے لگا جو شاکڈ سی ہوئ  اس کے ساتھ کھینچتی چلی جارہی تھی ۔جو آس پاس میں گزرتے لوگوں کی بھی پرواہ نہیں کررہاتھا ۔زھرہ نے اسے تاسف سے دیکھا جو کچھ بھی سننے سمجھنے کے لئیے تیار نہیں تھا۔وہ فلیٹ کا لاک کھولتے ہوۓ اسے لیے اندر داخل ہوگیا۔جہاں فلیٹ کے نام پر ایک عالیشان فرنِشڈ گھر تھا جس کے ہر کونے سے ِاس گھر کے سجانے والے کی محنت جھلکتی تھی ۔
"تم یہاں بیٹھوں میں ابھی آیا اگر فریش ہونا ہے تو اس والے کمرے میں چلی جاؤ "۔
زین العابدین اس سے ہلکے ُپھلکے انداز میں بات کرتا ہوا بولا ۔
"نہیں آپ کو جو بھی کام ہے پہلے وہ کرے,مجھے جلدی سے اپنی امی کے پاس گھر جانا ہے "۔
اس کا لہجہ تیز اور درشت ہوگیا جو زین العابدین کو ناگوار گزری ,وہ واپس دروازے کی جانب پلٹ گیا ,جہاں کھڑے ہوکر ُاس نے دروازے پر آٹومیٹک لاک کا پاس وڑڈ لگایا۔
"یہ کیا کررہے ہے آپ "۔
زھرہ ہکا بکا سی اسے دیکھنے لگی۔
"لاک لگارہاہوں تاکہ میری غیر موجودگی میں تم کہی بھاگ نہ جاؤ ,اب شرافت سے جا کر فریش ہو,میں بھی فریش ہونے جارہا ہوں"۔
وہ مزے سے ُاس کی سراسیمہ آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ نرمی سے بولا۔
"کیا یہ انسان پاگل تو نہیں ہوگیا مطلب کچھ بھی ,میں کوئ بے زبان جانور ہوں جسے جہاں ہانکے گے میں وہی چلی جاؤ ں گی "۔
وہ بھپری ہوئ شیرنی کی طرح فلیٹ کی تمام کھڑکیوں اور دروازوں کو دیکھنے لگی تاکہ کسی بھی طرح وہ باہر نکل سکے مگر سواۓ ہلکان ہونے کے ُاس کے کچھ بھی ہاتھ نہ لگا تھا ۔جب ہی کچھ ہی دیر بعد زین العابدین ُسرمئ ٹی شڑٹ پر کالا ٹڑاؤزر پہنے اپنے گیلے بالوں کو تولیے سے ڑگڑتا ہوا باہر آگیا۔
"تم ابھی تک یہی کھڑی ہو ؟۔
وہ متعجب ُہوا اسے دیکھنے لگا جو ِاس وقت ُاسے غضبناک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
"کیا مجھے اپنی ان غزالی آنکھوں سےسالم نگلنے کا ارادہ تو نہیں ؟"۔
وہ استہزائیہ انداز میں ٹاول کو صوفے پر پھینکتا ہوا اس کی جانب دو قدم بڑھا ۔
"مجھے ابھی اور اسی وقت میرےگھر چھوڑ کر آۓ "۔
وہ غصے میں لال بھبھوکا چہرے لیے اسے کینہ توز نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولی جو اپنے قدم۔مسلسل ُاس کی جانب بڑھارہاتھا۔
"اپنے گھر میں ہی تو ہو !!"۔۔۔۔
وہ دوبدو بولا۔
"مجھےمیری امی کے پاس جانا "۔۔۔
وہ چڑ کے بولی ۔
"اور اگر نہ لے کر جاؤں تو "۔
وہ اسے مزید زچ کرتا ہوا بولا ۔زین العابدین کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئ تھی وہ اسے چیلینجنگ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا۔
"تو میں آپ کو جب بتاؤں گی جب آپ مجھے نہیں لے کر جاۓ گے , مجھے ابھی اور اسی وقت گھر چھوڑ کر آۓ "۔
وہ حتی الامکان کوشش کررہی تھی خود کو لڑنے سے باز رکھنے کے لیے۔جو اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہاتھا۔
"جس طرح سے تم مجھ پر ُحکم چلارہی ہونا,اگر ِ اس وقت جان بھی مانگتی تو وہ بھی دے دیتا پر مجبوری ہے خان کی جان تم یہاں سے کہی نہیں جاسکتی جب تک میں نہ چاہوں ,اس لیے  خود کو ان پراگندہ سوچوں سے باہر نکالو اور جا کے فریش ہوجاؤ,میں تمھارے لیے جب تک کوفی بناتا ہوں "۔
وہ نکھرا نکھرا سا اپنی چھا جانے والی شخصیت کے ساتھ زھرہ کے نزدیک کھڑا تھا جن کے درمیان ایک قدم جتنا فاصلہ رہ گیا تھااس کے شیمپوں اور پرفیوم۔کی مِلی ُجلی خوشبوں اسے اپنے حواسوں پہ چھاتی ہوئ محسوس ہورہی تھی جب ہی وہ اپنی صحر انگیز آنکھوں سے اسے گومگو کیفیت میں دیکھ کر اپنے قدم پیچھے کی جانب موڑ گیا
"مجھے فریش نہیں ہونا مجھے امی کے پاس جانا ہے"۔
زین العابدین نے حیرت سے اسے پلٹ کر دیکھا جو ایک ہی بات کی گردان کررہی تھی۔
"میں نے بھی شاید تم سے کچھ کہا ہے "۔
وہ گہری سانس لیتے ہوۓ چھت کی جانب دیکھنے لگا۔
"مجھے کچھ بھی نہیں پتہ مجھے بس امی کے پاس جانا یے وہ بہت پریشان ہورہی ہوگی ان کا میرا سواۓ کوئ بھی نہیں ہےاس دنیا میں, آپ یہ لاک کھولے ورنہ میں اس گھر کی سب چیزوں کو توڑدوں گی"۔
زھرہ کا چہرہ غصہ سے تمتما اٹھاتھا۔
"توڑدو, تمھارا گھر ہے جو مرضی کرو اس گھر کے ساتھ اور اپنے گھر والے کے ساتھ "۔۔۔۔۔۔
وہ سینے پہ بازوں لپیٹ کے اسے شوخ اور معنی خیز نگاہوں سے دیکھنے لگا,زھرہ کا دل تیزی سے ڈھڑکنے لگا تھا ,اس کی ریڑھ کی ہڈی میں الگ سنسنی سی دوڑگئ ۔
"اتنا گھبرا کیوں رہی ہو زھرہ ،میں تمھارا گھر والا ہی تو ہوں "۔
وہ اس پری پیکر کو قریب سے کھڑا دیکھنے لگا,جو اپنے لبوں کو بے دردی سے کترنے میں مصروف تھی وہ اس کے سامنے خود کو بلکل بے بس محسوس کررہی تھی زبان تالوں سے الگ ِچپک گئ تھی ,ہاتھوں پیروں میں پسینہ آگیا تھا۔
"میں نہیں مانتی یہ فضول باتیں مجھے بس جانے دے یہاں سے "۔
وہ ایک دم سے خود میں ہمت پیدا کرتے ہوۓ بولی ,جس پر زین العابدین نے اسے ایک ہاتھ سے کھینچھ کے خود سے قریب کیا تھا۔
"تم مانو یا نہ مانو زھرہ زین العابدین ، لیکن تم میری شرعی اور قانونی طور پر بیوی ہو اور جو تم بار بار بول رہی ہو کے مجھے کیوں نہیں جانے دے رہے"۔
اس کے تلخ روئیے نے اس کے اندر بونچھال سا پیدا کردیاتھا۔غصے سے اس کی آنکھوں میں گلابی رنگ اتر آیا تھا وہ کچھ دیر کے توقف کے بعد پھر بولا 
"میں تمھیں بتاتا ہوں میں تمہیں گھر کیوں نہیں جانے دے رہا تھا "۔
یہ کہ کر زین العابدین اپنے کمرے سے فون ُاٹھالایا تھا جس پر کال ڈائل کرکے اس نے اِسپیکر کھول دیا کچھ ہی لمحوں بعد یوشع کی آواز ایر پِیس پر ُگونجی۔
"یوشع اسپیکنگ"۔
"ہیلو یوشع کیا خبر ہے "۔
زین العابدین۔معنی خیزی سے استفار کرنے لگا۔
"کچھ خبر نہیں ہے یار! میں بھابھی کے پڑوسیوں کے گھر بھی گیا تھا وہ کیا نام۔تھا ُاس لڑکے کا جمال ،ہاں جمال کے گھر گیا تھا وہاں پر بھی تالا لگا ہوا تھاآس پڑوس میں بھی معلوم کیا تھا پر کسی کو بھی نہیں معلوم۔وہ لوگ اچانک سے کہا گۓ  ,اب یا تو آنٹی ان کے ساتھ ہیں یا پھر کہی اور ! ویسےمیں نے  پولیس اسٹیشن میں بھابھی کی امی کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوادی ہے ,اب دیکھوں صبح تک پتہ چلے گا "۔
زھرہ یوشع کی باتیں سن کر جھٹکا کھا کے رہ گئ تھی ,جو وہ سمجھ رہی تھی بات وہ نہیں تھی بلکہ اس کی امی لاپتہ تھی ۔
"ٹھیک ہے جو بھی پتہ چلے مجھے فوراًبتانا ٹیک کیر"۔
زین العابدین نے فون بند کر کے زھرہ کی غیر ہوتی حالت کو دیکھ کر گھبرا گیا۔
"میری---امی-----کہاں---چلی گئ---بتاۓ مجھے---کہاگئ ---میری امی ،یہ سب کچھ آپ ۔۔۔کی وجہ سے ہورہا ہے، اس سب۔۔ کے آپ زمہ دار ہے۔۔۔ مجھے میری امی واپس چاہیے۔ دروازہ کھولے۔۔ پلیز ۔۔مجھے۔۔ باہر ۔۔جانا ہے۔۔ میری امی کے پاس "۔
وہ ہلق کے بل چیخ رہی تھی اس نے دیوانہ وار اپنی نظریں کسی چیز کی تلا ش میں دوڑائ تھی, جب ہی اس نے نزدیک رکھا گلدان ُاٹھا کر زمین پر پٹخ دیاجس سے بکھرے ہوۓ کانچ کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ُاٹھا کر اس نے اپنے ہاتھ پر رکھ لیا ۔
"سر دروازہ کھولے ورنہ میں خود کو مارلوں گی"۔
زھرہ آنکھوں میں آنسوں سموۓ ہوۓبھیگے چہرے کے ساتھ اس سےبولی تھی جو اس کے ہاتھ میں شیشہ دیکھ کر وحشت زدہ سا ہوگیاتھا۔ 
"خبردار جو میرے قریب بھی آۓ "۔۔۔۔
زھرہ کی تنبیع کے باوجود وہ اس کی جانب بڑھا ,زین العابدین نے اس کی نازک کلائ کو پکڑ کے اسے اپنی سمت کھینچا وہ کانچ سے وجود کی مالک اس کے مضبوط سینے کا حصہ بنی تھی ۔
"یہ کیا پاگل پن ہے زھرہ !تمہیں غصہ ہے تو مجھ پر نکالو ڈیم ایڈ خود کو کیوں نقصان پہنچارہی ہو اگر ابھی تمہیں لگ جاتی تو ؟"۔
"اس کی کالی گھور آنکھوں میں اس وقت غصہ جھلک رہاتھا ۔
"چھوڑو مجھے "۔
اس نے غصے میں ِچلاتے ہوۓ اس کا گریبان پکڑا وہ بے بسی کے دہانے پہ کھڑی اونچی آواز میں رونے لگی جسے روتا دیکھ کر زین العابدین  کے اعصاب ایک دم۔سے ڈھیلے پڑے تھے۔
"دور ہوجاۓ مجھ سے مت ہاتھ لگاۓ مجھے ،میری امی پتہ نہیں کہا ہوگی مجھے جانا ہے ان کے پاس  "۔
وہ اس کی مضبوط گرفت سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی ۔جو اسے اس طرح سے بلکتا دیکھ کر خود میں بھینچ گیا جو چڑیا کی طرح اس کی قید میں پھڑ پھڑارہی تھی جو اسے کسی صورت بھی چھوڑنے پر امادہ نہیں تھا۔وہ کب تک مزاحمت کرتی ُآخر اس کے سینے پہ سر رکھے اتنا روئ کے وہ عقل و خرد  سے بے سود زین العابدین کےمضبوط بازوؤں میں جھول گئ وہ اس کا نرم ونازک سا وجود ُاٹھاۓبیڈ پر جاکر احتیاط سےاسےلِٹادیا۔
,"اس وقت اس سوئ ہوئ شیرنی کو جگانا مناسب نہیں جتنا سوۓ گی اتنا بہتر ہے"۔وہ اس پہ بلینکٹ ٹھیک کرتا ہوا باہر نکل آیا۔
صبح جب اس کی آنکھ ُکھلی تو وہ  بھاری ہوتے سر کو تھام کر ُاٹھ بیٹھی تھی ,جہاں رات کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنےلگاجب ہی زین العابدین استحقاق سے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوۓ اندر داخل ہوا۔جسے دیکھ کر اسے اپنے ڈوپٹے کا ہوش آیا تھا۔
"طبیعت کیسی ہے اب تمھاری؟"۔
وہ اپنے لہجے میں نرمی سموۓ ہوۓاس سے پوچھنے لگا جیسے رات کا کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
"کسی لڑکی کے کمرے میں آنے سے پہلے دستک دینا ضروری ہوتا ہے "۔
وہ ڈوپٹے کو اپنے اوپر ٹھیک طرح سے اوڑھتی ہوئ خونخوار لہجے میں گویا ہوئ۔
"میں کسی لڑکی کے کمرے میں کہا آیا ہوں ؟ ۔میں تو اپنی بیوی کے کمرے میں آیا ہوں  "۔
اس کی آنکھوں میں چمک سی دوڑری تھیاسے دیکھ کے وہ چہرے پہ۔معنی خیز سی مسکراہٹ لیے بولا۔
"جلدی سے فریش ہوکر آؤ میں نے تمہارے لیے ناشتہ بنایا ہے"۔
وہ اس سے نرم لہجے میں بولا
"مجھے نہیں کرنا کوئ ناشتہ ٰ"۔۔۔۔۔۔
وہ ذرا تیز لہجے میں بولی تھی ۔
"کیوں نہیں کروگی ؟۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دم ہی اس کی جانب بڑھا تھا جو اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر بیڈ کی دوسری جانب سے اتر گئ تھی۔
"بس --مجھے --بھوک-- نہیں-- ہے "۔۔۔۔۔۔۔
وہ انگلیوں کو مروڑتی ہوئ کھڑی ہوگئ  کیونکہ اسے ُاس کی دھونس بھری عادت کااچھے سے معلوم تھا ۔اگر وہ زِد پر اڑجاتی تو اس کا کچھ پتہ نہیں تھا وہ اسے زبردستی کھلاتا ۔
"کیوں تم نے ہوٹل سے نکلتے وقت ہاتھی کھایا تھایا گاۓ جو بھوک نہیں ہے ؟۔شرافت سے ٹھیک دس منٹ بعد تم۔مجھے کچن میں نظر آؤ ورنہ میرا تمہیں ُاٹھاناسخت ُبرا لگے گا مسز خان !نقصان سراسر تمھارا ہی ہوگا "۔۔۔۔۔۔
اس نے معنی خیزی سے بات واضع کی , تو وہ جھنجھلا سی گئ ۔اس کی دھمکی کے خوف میں وہ فریش ہوکر اپنے ملگجے سے کپڑوں کی ہاتھوں سےشکنیں نکالتی ہوئ کچن کی جانب آگئ جہاں وہ بڑی تیزی سے برنر پہ پکتی چاۓ کو گِریپر کی مدد سے فلاسک میں ُانڈیل رہاتھا۔وہ پلٹ کر اس کی جانب گہری نگاہوں سے دیکھنے لگا جو اسے جھینپی ہوئ لگ رہی تھی۔
"بلکل جنگلی بلی ہوذرا بھی تو میرا خیال نہیں رکھتی "اس نے اسے دیکھتے ہوۓ سوچا "۔جو انگلیوں کو مروڑتی ہوئ پشت پھیر کر کھڑی ہوگئ تھی۔
"زھرہ یہاں آکر بیٹھوں "۔۔۔۔۔
 زین العابدین نے اس کا نرم ملائم ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام۔کر اسے کرسی پہ بٹھایا جس کے نزدیک سے اسے سگریٹ اور کلون کی ملی ُجلی سی مہک آرہی تھی ۔
"پلیز دونٹ ٹچ می "۔۔۔۔۔
وہ ناگواری سے اپنا ہاتھ ُاس کی فولادی گرفت سے چھڑانے لگی۔
"مجھے بھی کوئ شوق نہیں ہےتمہیں ٹچ کرنے کا "۔۔۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کےاسے گھورنے لگا جو خفیف سی ہوگئ۔
"ظاہر سی بات ہے آپ کا ہاتھ تھامنے والیاں ارد گِرد میں لاتعداد جو موجود ہے "۔۔۔۔
وہ بھی دوبدو بولی تھی۔جانے کیوں اسے ُبرا لگا تھا ُزین العابدین کا ایسے کہنا وہ خود چاہے اسے جو مرضی کہے پر وہ۔اسے کچھ نہ کہے ایسا کیوں تھا ,اس کے کیوں کے آگے زھرہ کی۔سوچ ابھی باقی تھی ۔
"اچھا تم کیا ہر وقت مجھ پرہی نظر رکھتی تھی "۔۔۔۔۔
وہ ایک دم سے اس کی کرسی کی پشت کو تھام کر کھڑا ہوگیا تھا۔جو اس کے اپنے اتنے نزدیک کھڑے ہونے پر سٹپٹاگئ۔
"جی نہیں مجھے کوئ شوق نہیں ہے آپ پہ نظر رکھنے کا  ,آنکھوں دیکھا میں ُجھٹلا نہیں سکتی "۔
وہ ہکلا کر بولی۔
"زھرہ تم خود دیکھ لو اب تم مجھ سے جان ُبوجھ کر ُالجھ رہی ہو ,میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو صنف نازک کے آگے پیچھے ُگھومتے رہتے ہےہاں تمہاری بات اور ہے !میں بیوی سے الگ نہیں رہ سکتا"۔۔۔۔۔
وہ کالی ُگھور آنکھوں میں  شوخی ،شرارت اور رعب دھونس لیے اس کے نزدیک کچھ اس طرح سے ُجھکا تھا کے اس کی کانوں کی لوؤں پر اپنا لمس چھوڑ چکا تھا ,زھرہ نے اس لمحے اپنا سانس ُرکتا ہوا محسوس کیا جب ہی زین العابدین اس کے پیچھے سے ہٹ کر برابر میں کرسی کھینچھ کر بیٹھ گیا ۔وہ تیزی سے کھڑی ہونے لگی مگراس نے اس کے ملائم ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے کر اسے واپس بیٹھنے پر مجبور کردیا۔
"مسسزخان !شرافت سے یہ ناشتہ کرلو ورنہ مجھے اپنے ہاتھوں سے ِکھلانے میں صرف ایک منٹ لگے گا "۔۔۔۔
وہ زین العابدین کی بے باکی پر اندر ہی اندر پیچ وتاب کھاتی  ہوئ ناشتہ کرنے لگی جو زبردستی اسے چِیز آملیٹ اور ٹوسٹ بڑیڈ پلیٹ میں ڈال کر دے رہاتھا۔
______________________________________________
"اشہد مجھ سے ُجھوٹ مت بولنا ,سچ سچ بتاؤ مجھے خفیہ رپورٹ ملی ہے کے زین العابدین اور اس کی وہ سیکریٹڑی دونوں شوگراں سے غائب ہیں ,کیا اس میں تم ملوث ہو ؟"۔
ناصر عزیز نے لہجے میں چٹانوں سی سختی لیے اشہد عزیز  سے پوچھا۔
"نہیں بھائ مجھے تو معلوم بھی نہیں کے وہ کہا ہے "۔
وہ ِتنک کر بولا ۔
"اچھا اگر مجھے خبر ملی کے اس سب میں تمھارا ہاتھ ہے تو اشہد تمہیں دنیا کی کوئ طاقت نہیں بچا پاۓ گی مجھ سے "۔
ناصرعزیز کے سرد لہجے پے اشہد عزیز ٹھٹھکنے پر مجبور ہوگیا تھا ۔
"بھائ اپنے آدمیوں سے بھی معلوم کرواسکتے ہے میں نے آپ کے الیکشن کی وجہ سے ان کی جان بخش دی ہیں ,ورنہ دنیا کی کوئ طاقت مجھ سے انہیں نہیں بچاسکتی تھی "۔
وہ کروفر سے بولتا ہوا باہر کی جانب نکل گیا,ناصر سپال جانتا تھا اس کا بھائ وقتی طور پر ناراض ہے مگر وہ جلد ہی اسے الیکشن کے بعد منالے گا ۔
"مگر سوچنے کی بات یہ ہےکے اگر اشہد نے  اسے نہیں کِڈنیپ کروایا تو پھر کون ہے وہ جو ان کی لڑائ کو اپنے استعمال میں لارہاتھا "۔
 ناصر سپال کے ہاتھ جب کوئ سِرا نہیں لگا تو وہ باہر کی جانب آگیا جہاں اشہد عزیز گیا تھا۔
--------------------------·----------·-----------------
"اپنی پڑوسن کا یا کسی اور کا نمبر دو "۔
وہ صوفے پہ بیٹھی زھرہ کو دیکھ کر بولا جو اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں کھوئ ہوئ تھی اس نے قصداً جمال کا نام۔نہیں لیاتھا۔
"مجھے کسی کا بھی نمبر نہیں آتا, سب کے نمبر موبائل میں تھے"۔
وہ افسردگی سے بولی تھی۔
"مطلب تمہیں اپنی پڑوسن کا نمبر یاد نہیں "۔
وہ اس کی جانب دیکھنے لگا جس نے نفی کی تھی۔
"ہاں نہیں یاد میرے پاس کون سا بچپن سے فون تھا جو سب کے نمبر رٹے ہوگے ابھی تو لے کر دیا تھا آپ نے "۔
وہ کھسیا گئ تھی ,جب ہی تنک کر بولتے ہوۓ زین العابدین کی جانب دیکھنے لگی جو اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر ُالجھ گیا۔
"زھرہ ایک تو تم سے کوئ بھی بات کرلو تم۔فوراً رونا شروع ہوجاتی ہو "۔
وہ ماتھے پر شکنوں کا جال ڈالے اس کے برابر میں براجمان ہوا۔
"تو کیا کرو قہقے لگاؤں ؟۔میری امی کہی ُگم ہوگئ ہے اور میں یہاں  آرام سے بیٹھی ہوئ ہوں !کہی جانے بھی نہیں دے رہے آپ مجھے تاکہ میں ان کا پتہ کرسکوں "۔
وہ اس کی بات پہ پھنکارتے ہوۓ گلوگیر لہجے میں بولی جس کے چہرے پہ درد کی پرچھائیوں اور آنسوں سے وہ بے چین ہو اٹھا۔
"زھرہ پولیس ڈھونڈ رہی ہے انہیں ,میں نے یوشع کو اسی کام پر لگایا ہوا ہے ,تم پریشان مت ہو دیکھنا وہ مل جاۓ گی انشاءاللہ تمہیں اس کے علاوہ کوئ جگہ کا پتہ ہے جہاں آنٹی کے جانے کا گمان ہو؟۔ "۔
وہ ذرا نرم۔لہجے میں اس سے مخاطب ہوا تھاجو کچھ دیر سوچنے کے بعد آہستہ آواز میں بولی تھی ۔
"ہاں ویرم میرے ماموں کا گھر ہے وہاں میری امی ہر سال جاتی تھی خالا کے گھر"۔
زھرہ کو ایک امید کا دِیا جلتا ِدکھائ دیا۔
"چلو پھر اڈڑیس دو میں کسی کو بھیج کر وہاں کا پتہ کراتا ہوں "۔
زین العابدین نے فون پہ کچھ نمبر دباتے ہوۓ کہا۔
"مجھے---اڈڑیس -----نہیں-------آتا-----میں -----خودجاسکتی-----ہوں ویسے---جیسے-----امی لےکرجاتی تھی بس پر"۔
اس نے رونے کے دوران اٹک اٹک کر اپنا جملہ مکمل کیا جو شاکڈ سا اسے دیکھنے لگا۔
"یعنی اڈڑیس نہیں معلوم مگر لے کر جاسکتی ہو !انٹڑسٹنگ"۔
وہ ایک ایک لفظ چبا کے بولتا ہوا سگریٹ سلگا چکا تھا۔
"آپ مجھے جانے دے میں ماموں کے گھر کا راستہ جانتی ہوں پلیز آپ مجھے بس ایک بار جانے دے "۔
وہ اس کی گھبراہٹ اچھے سے سمجھ رہاتھا اس لیے پشت پھیر کے کھڑا ہوگیا۔
"تم فلحال کہی نہیں جاسکتی میں خود کچھ کرتا ہوں"۔۔۔۔۔۔
وہ سگریٹ کا کش لیتے ہوۓ کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
~~~~

Comments

Popular Posts