Rooh Ka Sakoon Episode 10

کمرے کے اندر داخل ہوتا ارحم دو نفوس کو چونکانے پہ مجبور کرگیا ایک تھی ارحم کی ماں جو اس کے زخموں کو دیکھ کر ٹڑپ گئ اور دوسرا تھا اوزکان صالیح جس کے لیےارحم کا وجود  یہاں ہونا باعث تشویش تھا۔ارحم یہ کیا ہوگیا ہے میرے بچے۔نگہت نے نکاہت بھری آواز میں  ارحم کی طرف ہاتھ بڑھایا جو دور سے کھڑا دیکھ رہاتھا۔

آآآپ ٹھیک ہے موم ۔ وہ اپنی ناک پہ شہادت کی انگلی مسلتا نگہت سے مخاطب ہوا۔جنہوں نے جواب میں سر ہلایا۔
م م م مجھے کچھ پیسے چاہیے مسسز اصفر پلیز آج مت نہ کرنا ورنہ سب ختم۔ہوجاۓ گا ۔اس نے ہکلا ہکلا کر اپنا جملہ مکمل کیا ۔
اوزکان نے اسے غور سے دیکھا اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی ابھی کوئ نشہ آور چیز کھا کے آیا ہو ۔وہ مضطرب سا بار بار اپنے ہاتھوں کو مسل رہاتھا ۔ جیسے ڈرگز لینے والے کرتے تھے۔
رونی مجھے ماردے گا مسسز اصفر پلیز مجھے کچھ پیسے چاہیے۔ارحم اب کی بار ان کے پیروں کی جانب آگیا اور انھیں پیروسے تھامے التجا کرنے لگا۔
رونی تمہیں کبھی نہیں مارے گا تم۔اس کے لیے ایک سونے کی چڑیاں ہو جس سے وہ ہر مہینہ پیسا کھاتا ہے۔خیر بتاؤ کتنے پیسو کی ضرورت تمہیں کھینچ لائ ہے ۔اپنی ماں کے پاس۔ نگہت نے ارحم کی طرف دیکھا ۔
م م مجھے دوسو یورو چاہیے۔۔اس نے ہکلاتے ہوۓ کہا دور بیٹھی حیا اس نوجوان کو دیکھ رہی تو جو ہو بہو سہیل بھائ کی طرح لمبا اسمارٹ تھا مگر سہیل بھائ اور اس میں زمیںن آسمان کا فرق تھا ۔
۔اور ارحم۔میرے پاس ابھی اتنے پیسے نہیں ہے۔
بیٹا یہ میرا پرس پکڑانا ذرا۔نگہت خالا نے ملائکہ کو مخاطب کیا جو صبح اوزکان نےپولیس والوں سے ریسیو کیا تھا۔ملائکہ نے شاپر میں سے ان کا بیگ نکال کر ان کی طرف بڑھادیا۔
بیٹا اس میں سے میرا کالا چھوٹا پرس نکالو۔خالہ کے بتانے پر ملائکہ نے پرس نکال کر خالہ کی طرف بڑھایاجسے بیچ میں ہی ارحم۔نے ُاچک لیا۔
ارحم پرس واپس دو۔
مسسز اصفر کبھی کبھی مجھ جیسے کو پیسے دینے سے کچھ نہیں ہوتا ۔اس نے والٹ اپنی کمیز کی جیب میں ڈالتے ہوۓ کہا۔
ویسے یہ کون ہے ۔اس نے ملائکہ کو سر سے پاؤں تک دیکھا اس بیچ وہ اوزکان کو نظر انداز کرچکا تھا جس کو ارحم کا ملائکہ کو اس طرح دیکھنا جانے کیوں بہت ُبرا لگا تھا۔
یہ دونوں اجنبی ہے مجھے اور سہیل کو یہی لاۓ تھےاسپتال ایمبولینس میں۔
۔نگہت خالا کے جواب پہ اوزکان نے چونک کر دیکھا جب کے ملائکہ بلکل نارمل رہی جیسے اسے معلوم۔تھا خالہ اس کا تعارف  نہیں کراۓ گی۔
او اچھا چلے آپ انجواۓ کرے میں چلتا ہوں ۔اس نے بات کرتے ہوۓ ایک بار پھر ملائکہ کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور جاتے جاتے اپنی ایک آنکھ دبانا نہیں بھولا جسے دیکھ کر ملائکہ کے رونگھٹے کھڑۓ ہوگۓجب کے ۔پیچھے کھڑے اوزکان نے اپنی ُمٹھیوکوزور سے بھینچا اور نظریں اپنے موبایئل پہ مرکوز کردی ورنہ اس کے ُسوجے ہوۓ منہ پر مجھ سے اور پڑجانی ہے ۔۔
آپ لوگ پلیز باہر جاۓ ہمیں چیک اپ کرنا ہے۔نرس کے اندر آنے پر اوزکان اور ملائکہ دونوں باہر نکل آۓ اسپتال کے لان کی طرف جو برف سے بلکل ڈھکا ہوا تھا۔
اب تم کیا کرو گی ۔اوزکان کے سوال پر ملائکہ نے اس کی طرف ناسمجھی سے دیکھا۔
مطلب تم اسپتال میں رہوگی یا گھر میں ۔۔
پتہ نہیں اوزکان اب یہ تو خالہ بتاۓ گی ۔۔
کچھ چاہیے تو بتادو میں تمہیں لادو گا ۔۔
نہیں اوزکان آپ کا بہت شکریہ آپ میرے محسن ہے آپ نے میرے لیے اتنا کچھ کیا میں کبھی نہیں بھولوگی۔وہ دونوں واک کرتے ہوۓ اسپتال کے باہر نکل آۓ ۔جہاں انہیں قریب ہی ارحم رونی کے ساتھ کھڑا دکھا ۔جو کسی بات پہ الجھ ریے تھے ۔پھر رونی نے اسے گریبان سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگادیا۔
اگر اس ہفتہ میں میرےپورے پیسے تو نے واپس نہیں کیے تو ارحم میں اس بار تجھے نہیں چھوڑؤ گا۔۔وہ اسے گراتا ہوا اپنی ہیوی بایئک پہ بیٹھ کر جاچکا تھا۔ارحم۔اس کے جاتے ہی کھڑا ہوگیا اور واپس پلٹا جانے کے لیے جہاں اوزکان اود ملائکہ کھڑے تھے اس نے نزدیک سے گزرتے ہوۓ ملائکہ کے پاس سے جانے لگا تو اوزکان نے ملائکہ کا ہاتھ تھام۔کر اسے اپنے باۓ جانب  کرلیا جس پہ ارحم۔نے اوزکان کی آنکھوں میں ایک سرد سا تاثر دیکھا اور سیدھا نکل گیا۔۔
آپ اندر جاۓمیں ایک ضروری کام سے جارہا ہوں پھر ملتے ہے۔
اوزکان اسے اسپتال کے دروازے کےپاس چھوڑ کر واپس اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔۔
                     ۞۞۞۞۞۞۞۞
می می سہیل کے بارے داکٹر کیا کہ رہے ہے ۔خالہ نے ملائکہ سے پوچھا۔
خالہ ٹھیک ہے ہوش آگیا ہے انہیں بھی اب جینٹس وارڈ ۔میں شفٹ کردیا ہے انہیں ۔ملائکہ کے جواب پہ نگہت خالہ کے اندر طمانيت  کی لہر دوڑ گئ۔
می می وہ لڑکا جو تھا جس نے تمہاری مدد کی ہے کیا نام۔تھا بھلا اس کا ۔۔خالی نے سوچتے ہوۓ کہا۔
اوزکان صالیح ۔
ہاں اوزکان بیٹا وہ کہا ہے چلا تو نہیں گیا ؟۔
کیوں کیا ہوا آپ کیوں پوچھ رہی تھی ۔
بیٹا بس جب  تک میں اور سہیل ُاٹھ کے چلنا نہیں شروع کردیتے تم۔نے اس سے رابطے میں رہنا ہے ۔
خالہ آپ ایسے کیوں کہ رہی ہے کیا ہوا ہے آپ مجھے بتاۓ۔ملائکہ ُان کی َان کہی باتیں سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔
کچھ نہیں بچے ویسے ہی کہ رہی تھی وہ آۓ تو مجھ سے ضرور ملوانا ۔
جی آپ ٹینشن مت لے سوجاۓ میں آپ کے پاس ہی ہوں ۔ملائکہ ان کے سونے کے بعد کمرے میں رکھی سنگل کرسی پہ جا کے بیٹھ گئ ۔اور اپنی زندگی کے گزرے یہ گھنٹے سوچنے لگی کے اگر اوزکان میرے ساتھ نہ ہوتا تو میں کیا کرتی۔
شام کے پانچ بجے کے قریب کمرے کا دروازہ نوک ہوا ۔۔کون 
میں اوزکان صالیح ۔
اندر آجاۓ پلیز۔
اوزکان صالیح ہاتھ میں ُبکے تھامے نگہت خالہ کی طرف بڑھایا۔یہ آپ کے لیے۔
جو انہوں نے شکریہ کہ کے تھام لیا ۔۔
بیٹا میں آپ کا تہے دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہو جس طرح آپ نے می می کا خیال رکھا ۔
نہیں آنٹی اس میں شکریہ کی کوئ ضرورت نہیں۔
کسی کی مصیبت میں مدد کرنا مجھے اچھا لگتا یے۔
بیٹا آپ کے گھر میں کون کون رہتا ہے آپ یہی بڑیدفوڑد میں رہتے ہے۔نگہت خالہ نے اس سے اگلا سوال کیا۔
جی آنٹی میں یہی کا نیشنیلٹی ہولڈر ہو میری امی ابو حیات نہیں, بہن بھائ کوئ نہیں میں اکلوتا ہوں۔
اوزکان نے سر ُجھکاۓ اپنی زندگی کا ایک چھوٹا سا باب کھولا جسے سن کر خالہ اور ملائکہ کو افسوس ہوا۔۔
بہت افسوس ہوا سن کے بیٹا ۔۔
بس اللہ کی مرضی ہے آنٹی۔
بے شک ہر کسی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔نگہت خالہ نے افسردہ آواز میں کہا ۔
ملائکہ تم ذرا اوزکان کے لیے کافی لے کر آؤ۔
میں لے کر آتا ہوں آنٹی, آپ ُرکے ملائکہ۔اس نی کھڑی ہوتی ملائکہ کو روکا جو باہر جانے لگی تھی۔پھر خود باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔کچھ دیر بعد اوزکان صالیح کوفی کے کپز لے کر لوٹا۔۔
بیٹا آپ میرا ایک کام کرسکتے ہے ۔۔
جی آنٹی بولیں بیٹا آپ واپسی پہ ملائکہ کو ہمارے گھر تک دڑاپ کردے گے۔نگہت خالہ نے اوزکان کی جانب سوالیہ انداز۔میں دیکھا۔
کیوں نہیں آنٹی میں ڈڑاپ کردوگا ۔
خالہ میں آپ کے پاس رہوگی مجھے گھر نہیں جانا ۔ملائکہ نے روہانسی شکل بناکے اپنی خالہ کودیکھا ۔
بیٹا یہ ریکوری روم ہے ادھر کرسی کے سواۓ کچھ بھی نہیں تم گھر جاکے فریش ہو چینج کرو کل صبح آجانا چلو جاؤ شاباش۔
خالہ کے اسرار پر ملائکہ اوزکان کے ساتھ باہر نکل آئ ۔وہ واقعی کل سے اسی لباس میں گھوم رہی تھی ۔
باہر نکل کر ایک شدید سردی کی لہر  جسم میں کپکپاہٹ دوڑا گئ۔۔وہ اوزکان کی ہمراہی میں اس کی گاڑی کی جانب بڑھنے لگی ۔
جہاں وہ اس کے لیے فرنٹ دوڑ کھول کے کھڑا تھا۔ملائکہ کے اندر بیٹھتے ہی اوزکان نے ڈرائیونگ  ِسیٹ سنبھال لی اور گاڑی اسپتال سے باہر نکال لایا ڈھلتی شام میں ہر ُسو برف کی چادر نے سب کو ڈھکا ہوا تھا ۔سب کچھ اتنا خوبصورت لگ رہا تھا کے اسے اپنا پاکستان میں گزرا وقت یاد آگیا جب اس کا نام یہاں کی یونیوڑسٹی میں آیا تھا تو وہ کتنا خوش ہوئ تھی انٹرنیٹ پہ ایسی کوئ جگہ نہیں چھوڑی تھی جو یہاں آنے سے پہلے نہ دیکھی ہو۔اور خالہ, خالہ کو بھی تو سرپرائز دیا تھا یہاں آنے کا۔۔
کیا سوچ رہی ہے آپ اینجل۔۔۔اوزکان نے اسے گہری سوچ میں دیکھا ۔
کچھ بھی نہیں ۔۔یہی سوچ رہی ہوں یہاں آنے سے پہلے میں کتنا خوش تھی ۔مگر سب کچھ اتنا اچانک ہوا کے سمجھ ہی نہیں آئ۔۔ملائکہ نےسگنل پہ کھڑی گاڑیوں کو  باہر کھڑا دیکھتی اوزکان سے اپنا دل کا حال بیاں کررہی تھی۔
ہوتا ہے ایسا کبھی کبھی جس چیز کو انسان ایکسپیکٹ نہیں کررہا ہوتا وہ ہوجاتا ہے پر اس میں اللہ کی کوئ نہ کوئ مصلحت ہوتی ہے۔اسی میں اللہ کا ُشجر ادا کرنا چاہیے ہوسجتا ہے آپ کو اس سے ُبھی ُبرا ہونے سے بچایا ہو۔اوزکان نے گھر کے باہر گاڑی روکتی ہوۓ کہا۔۔
ٹھیک کہ رہے ہے آپ۔ملائکہ دروازہ کھولتے ہوۓباہر نکل آئ۔
آپ کا شکریہ اوزکان ڈروپ کرنے کے لیے۔اوزکان نے اسے کوئ جواب نہیں دیا ۔
اندر آنے کے لیے تو آپ کہے گی نہیں مگر میں پھر بھی اندر آکے دیکھنا چاہوگا۔یہ کہ کے اوزکان گاڑی کا دروازہ کھولتا باہر نکل آیا اور اندر کی جانب بڑھنے لگا ملائکہ ہونقوں کی طرح اسے باہر کھڑا دیکھنے لگی۔ جو اندر لان کو عبور کرتا ہوا دروازے کے پاس پہنچ گیا تھا۔
چابیاکہا ہے۔اوزکان نے گاڑی کے پاس کھڑی ملائکہ کو آواز لگائ جو اب اندر کی جانب بڑھ رہی تھی پھر اپنے پرس سے چابیاں کھنگال کر نکالی اور اوزکان کی طرف بڑھائ۔
اوزکان دروازہ کھولتا ہوا اندر داخل ہوگیا اور گھر میں اپنی نظریں  دوڑانیں لگا۔تین بیڈرومز پہ مشتمل یہ گھر صاف ستھرا اور کشادہ ملائکہ کو بہت اچھا لگا۔۔
ملائکہ آپ کا موبائل کہا ہے۔اوزکان کے سوال پہ گھر کو دیکھتی ملائکہ اوزکان کی طرف پلٹی ۔
میرے پاس ہے کیوں کیا ہوا۔
نمبر آن کیا۔
نہیں ابھی تو ِسم لینی ہے میں نے۔ملائکہ نے سامنے والے صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ کہا۔
موبائل لے کر آۓ ۔ملائکہ نا۔سمجھی سے اپنا۔موبائیل پرس سے نکالنے لگی۔
ڈینیل میڈم کاسامان اس ادڑیس پہ لے آؤ۔اوزکان صالیح فون پہ اپنے ملازم سے بات کرتا فون بند کرکے ملائکہ سے اس کا موبائل لے لیا پھر اپنے اوور کوٹ کی جیب سے سم کاڑد نکال کے ملائکہ کے فون میں لگائ اور اسے آن کردیا پھر ملائکہ کے فون سے اپنے فون پہ مس کال دی اور اپنا نمبر فیڈ کیا۔
یہ لو میں نے اس میں اپنا نمبر فیڈ کردیا ہےکوئ بھی پرابلم۔ہو۔مجھے اسی وقت کال کرنا چایے جتنی رات بھی ہو میں یہاں اسی بلاک کے قریب رہتا ہوں ۔
اوزکان میں آپ کا کس طرح شکریہ ادا کرو مجھے سمجھ نہیں آرہا۔آپ یہ پلیز پیسے لے لیجیے۔ملائکہ کی بات پہ اوزکان نے ایک سرد سی نظر اس پہ ڈالی اور باہر کی جانب بڑھ گیا ۔
دروازہ لاک کرلو ابھی میرا ڈڑائیور سامان دے جاۓ گا ۔یہ کہتے ہوۓ اوزکان دروازہ بند کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ملائکہ شرمندگی سے وہی صوفے پہ بیٹھ گئ۔
مجھے پیسوں کا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ملائکہ وہی صوفے پہ دھنسی اپنا سر تھامے بیٹھی رہی جب ہی بیل بجی۔
ملائکہ نے آئ ہول سے جھانکا جہاں ڈینیل کھڑا تھا ۔
ملائکہ نے دروازہ کھول دیا ۔وہ اندر سامان رکھنے لگا پھر جاتے جاتے ملائکہ کو دروازہ نہ بند کرنے کے لیے کہا پھر گاڑی سے ایک شاپر لے آیا یہ سر نے بھجوایا ہے آپ کے لیے۔
ملائکہ نے شکریہ کہ کے تھام لیا۔
اندر آکے اس نے شاپر ٹیبل پر رکھ دیا اور سب سے پہلے اپنے کپڑے نکالنے لگی تاکہ چینج کرسکے ۔
ملائکہ شاور لے کر خود کو فریش محسوس کررہی تھی ۔اس نے کالے رنگ کا لانگ سویٹڑ اور سفید پاجامازیب تن کیے باہر نکلی اب اسے بھوک ستا نے لگی تھی ۔اس نے خالہ کا کچن چیک کیا جہاں اسے فروٹ کے علاوہ کچھ کھانے لائق نظر نہ آیا۔سودا سلف سب پڑا ہوا تھا پر اس وقت بنانے کی ہمت نہ ہوئ وہ خاموشی سے باہر کی جانب آگئ جب اسے اپنے فون کاخیال آیا ۔اس نے نظریں ادھر ُادھر دوڑائ تو اسے وہی ٹیبل پر اہنا فون نظر آگیا ۔جیسے ہی اس نے فون ُاٹھایا نزدیک ہی اوزکان کا بھیجا ہوا شاپر پڑا تھا ملائکہ اسے کھول کے چیک کرنے لگی جس میں پیزا اور کولڈرنک تھی۔ملائکہ کی آنکھوں میں آنسوں آگۓ۔
کیوں تم۔اتنے اچھے بن رہے ہو اوزکان صالیح کیا رشتہ ہے میرا تمہارا جو تم۔میری اتنی پرواہ کررہے ہو ۔ایک قیمتی موتی ملائکہ کی آنکھ سے چھلک پڑا۔پھر پیزا کو دیکھ کے ملائکہ کی بھوک چمک اٹھی۔۔اپنی بھوک مٹانے کے بعد موبائل ُاٹھاۓ اس  ے اوزکان صالیح کو۔ شکریہ کا اور سوری کا میسج کیا جو ِسین ہوگیا پر اس نے جواب نہیں دیا ملائکہ بوجھل دل کے ساتھ خالہ کے بیڈ پر دراز ہوگئ موبائیل یاتھ میں تھامے کے شاید اوزکان اس کا جواب دے گا مگر نییں دیا ۔اور وہ آنکھیں موند گئ۔
                       ۞۞۞۞۞۞۞
صبح اسپتال جانے کے لیے ملائکہ نیلی جینز پہ سفید ٹی شرٹ اورخاکی رنگ کا اوور کوٹ پہنے  باہر کی جانب نکلی ۔تاکہ ٹیکسی کےذریعہ اسپتال پہنچے کیوں کے بس سروس کا اسے ابھی کچھ علم۔نہیں تھا۔مگر جیسے ہی وہ باہر نکلی گھر کے دروازے کے پاس ڈینیلاپنی مخصوص یونیفارم پہنے کھڑا تھا۔
میڈم سر نے گاڑی آپ کے لیے بھیجی ہے۔ملائکہ نے ڈینیل کو دیکھا۔
نہیں شکریہ ڈینیل اس کی ضرورت نہیں میں ٹیکسی سے جاؤ گی۔
یہ کہ کے ملائکہ ٹیکسی اسٹینڈ کی جانب جانے لگی جو گھر سے نکلتے ہوۓ اس نے گوگل میپ میں دیکھا تھا اب نیویگیشن آن کیے وہ اسی راستے پہ گامزن تھی۔
بڑا آیا گاڑی بھیجنےوالا ایک شکریہ تک کا جواب نہیں دیا کتنی دیر تک میں موبایئل لے کے بیٹھی رہی تھی کے شاید ریپلائ کردے گا پر نہیں مانا کے مجھے پیسوں کا نہیں کہنے چاہیے تھا ۔خیر چھوڑ ملائکہ۔
ؔوہ ٹیکسی اسٹینڈ کی جانب بڑھ گئ پھر ٹیکسی کراکے اسپتال پہنچ گئ۔ُاس بیچ ڈینیل اوزکان کو ملائکا کا پیغام دے چکا تھا۔جس پہ اپنے آفس میں بیٹھا سیگریٹ پیتے اوزکان نے اپنے جبڑے کو سختی سے بھینچا۔
               ۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞
نیند ٹھیک سے آگئ تھی ۔
جی خالہ ۔
یونیورسٹی کب سے جوائین کروگی۔
اسی ہفتہ میں کرلوگی۔۔
انشاللہ
۔مجھے تو داکٹر ایک ہفتہ سے پہلے یہاں سے ہلنے نہیں دے گی ۔یہی حال سہیل کا بتارہی تھی ۔۔آپ 
پریشان مت ہو خالہ سب ٹھیک ہوجاۓ گا ۔۔انشاللہ ۔
پھر اسی طرح پورا دن گزار کر ملائکہ شام کے وقت واپسی کے لیے نکلی ہی تھی کے ایک بار پھر ڈینیل اس کے آگے گاڑی لے کر آگیا ۔
میم سر نے آپ کے لیے گاڑی بھیجی ہے آپ کو ڈراپ کرنے کے لیے۔
شکریہ ڈینیل میں ٹیکسی سے چلی جاؤ گی۔
ملائکہ باہر کی جانب جانے لگی۔
ڈینیل نے اوزکان کو فون پہ بتادیا جو اپنے آفس سے باہر نکل رہاتھا۔ڈینیل کی بات سن کر اوزکان کے ماتھے پر بل پڑے۔اس نے گاڑی ملائکہ کے گھر کی جانب موڑ دی جو اوزکان کے آفس سے آدھے گھنٹے کی مسافت پہ تھا۔
یہ لڑکی کیوں میرے زہن پہ سوار رہتی ہو, لگتا ہے اینجل تمہارا دماغ ٹھکانے لگاناپڑے گا۔تم واحد لڑکی ہو جس نے پہلی نظر میں اوزکان صالیح کے دل تک رسائ حاصل کی ہے  اب یہ کیا ہے مجھے خود نہیں معلوم شاید یہ وقتی لگاؤ ہے یا شاید یہ "۔آگے اوزکان نے جملہ ادھورا چھوڑدیااور  گاڑی کی اسپیڈ بڑھائ۔
                ۞۞۞۞۞۞۞۞۞


ملائکہ گھر کے اندر داخل ہوئ تو اسے کچھ عجیب سا لگا جیسے صبح چھوڑ کر گئ تھی ویسا کچھ نہیں لگ رہاتھا ۔ملائکہ پرس سائیڈ پہ رکھتی کیچن میں پانی پینے گئ, پانی پی کے جیسے ہی وہ واپس پلٹی تو اس کے ہاتھ سے گلاس ُچھوٹ کے ٹوٹ گیا۔ارحم خالہ کے بیڈروم کےدروازے کے پاس کھڑا تھا ۔
تمہیں کیا لگا تم۔خالہ بھانجی مجھے نہیں بتاؤگی تو نہیں پتہ چلے گا تم۔کون ہو۔ارحم نے ملائکہ کا پاسپوڑٹ ہاتھ میں لہراتے ہوۓ اسے دیکھایا۔
دیکھے مجھے نہیں پتہ خالہ نے آپ کو کیوں نہین بتایا آپ خالہ سے پوچھ لے جاکے آپ پلیز میرا پاس پوڑٹ مجھے واپس کرے۔ 
ہاہا ہا ہا 
۔دے دوگا میری جان جلدی بھی کیا ہے پہلے مجھے پیسے چاہیے میں اسپتال گیاتھا تمہاری خالہ نے مجھے ایک پیسا نہیں دیا سارا پیسہ اس سہیل کو دیتی ہے ۔اب تم۔مجھے دو گی پیسے جلدی سے مجھے سو یورو دو ۔
ک ک کیا میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہے پلیز آپ مجھے میراپاسپوڑٹ واپس کرے ۔ملائکہ رونے لگی ۔
او نو پلیز روؤ مت مجھے خوبصورت لڑکیاں روتے ہوۓ بلکل اچھی نہیں لگتی ۔۔اب تم۔جلدی سے پیسے دو مجھے۔
میرے پاس سچ میں پیسے نہیں ہے میں جھوٹ نہیں کہ رہی ۔
ٹھیک ہے پھر ۔یہ کہتے ہوۓ ارحم۔نے پاسپوڑٹ کو آگ لگادی۔ملائکہ جو ڈڑ کے اس کے نزدیک نہیں جارہی تھی ۔ایک دم۔سے اس کے قریب بھا گی ۔
پلیز ایسا مت کرے مجھے میرا پاسپوڑٹ واپس کرے ۔ملائکہ رونے لگی اور ارحم۔سے اپنا پاسپوڑٹ پکڑنے لگی جو اس نے ہاتھ اوپر کرکے اس کی پہنچ سے دور کردیا ۔جب سارا پاسپوڑٹ جل گیاتو ارحم۔نے اسے نیچے پھینک دیا۔ملائکہ زمین پہ بیٹھی راک ہوۓ اپنے پاسپوڑٹ کو دیکھنے لگی اس کی آنکھوں سے آنسو زاروقطار بہ رہے تھے۔
ملائکہ ایک دم۔سے غصے میں کھڑی ہوئ اور ارغم کو ایک ٹھپڑ ماردیا۔
آج سمجھ آئ خالہ آپ سے ہمیں کیوں نہین ملاتی تھی ۔
آپ انتہائ گھٹیا اور نی  انسان ہے۔
ہاہاہاہاہا ۔
نیچ اور گھٹیا کسے کہتے ہے یہ تو تمہیں ابھی معلوم۔ہی نہیں ہوا ۔اب میں تمہیں اپنا گھٹیا پن بھی دکھاؤ گا ۔یہ کہتے ہوۓ ارحم۔نے ملائکہ کو ہاتھ سے پکڑ کے کمرے میں کھینچ کے لے گیا۔ملائکہ اپنے آپ کو ُچھڑانے لگی مگر وہ اس کے آگے مزاحمت نہ  کرپارہی تھی۔ارحم۔نے کمرے کا دروازہ لاک کردیا ۔
بڑا غصہ آرہاہے مسسز اصفر پر جو تمہارے جیساہیرا ُچھپا کے رکھا ہوا تھا۔خیر کوئ نہیں۔آج کی نائیٹ میں تمہارے ساتھ اسپینڈ کرو گا اور کل اس رونی کو تمہیں دے کر اپنی جان ُچھڑالوگا چلو اب اچھے بچو کی طرح اپنے کزن کے ساتھ انجواۓ کرو ۔ارحم۔کی بات سن کر ملائکہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئ اس نے پوری قوت سے ارحم۔کو اپنے دوسرے ہاتھ سے تھپڑ مارا جسے اس نے ملائکہ کا ہاتھ تھام۔کے روک لیا۔
نو نو یہ غلطی دوبارہ مت دھرانہ ڈیڑ ۔
میرے ہاتھ چھوڑو زلیل انسان ۔
ہاہاہاہاہا  تم۔مجھے کچھ بھی کہو ُبرا نہیں لگے گا۔ارحم۔نے یہ کہتے ہوۓ اس کا کوٹ کھینچ کے اتاردیا۔
ملائکہ اسے دھکا۔مارتے ہوۓ دروازے کا لاک کھولنے لگی جب ہی ارحم۔نے اسے پھر تھام۔لیا۔
چھوڑو مجھے گھٹیا انسان ۔وہ ملائکہ کو بیڈ پہ گراتا ہوا اس کو قابو کرنے کی کوشش کررہاتھا۔
پلیز ہیلپ !!!!!!کوئ ہے چھوڑو مجھے ۔
اوزکان ہیلپ پلیز۔
                         ۞۞۞۞۞۞۞۞۞
اوزکان صالیح ملائکہ کے گھر کے دروازے کے ہاس آکر کھڑا ہوگیا بیل دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دروازہ کھلا ہواتھا ۔اس کی چھٹی حس نے ااے کچھ غلط ہونے کا اشارہ دیا وہ اندر کی جانب بڑھا جہاں ملائکہ کی آواز ایک کمرے سے سنی ۔
اوزکان مجھے بچاؤ۔۔اوزکان صالیح نے اپنی ُمٹھیوں کو بھینچا اور اس کمرے کی جانب دوڑا۔۔

Post a Comment

6 Comments