تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 17


  

ARAZ RESHAB NOVELS

Dont copy paste without my permission kindly.


عظیم میرے بچے میری بہو کیسی ہے اب کچھ طبیعت میں سدھار آیا ؟"۔

سلیما بیگم نے اپنے لخت جگر سے پوچھا جو کئ سالوں سے اپنی رفیق حیات  کی تلاش میں سرگرداں تھے۔

"اماں جی-- آپ دعا کرے --میری ِفیا کو ہوش --آجاۓ --,وہ اپنی آنکھیں نہیں کھولتی-- اماں-- جی ---آپ اسے کہے "۔

عظیم نے روندھائ آواز میں اماں جی سے کہا ۔

"نا رو میرے بچے سب ٹھیک ہوجاۓگا تو کہے گا اماں رب سوہنے نے اپنا معجزہ کردکھایا ہے "۔

سلیماں بیگم نے روتے ہوۓ اپنے لختِ جگر کو دلاسا دیا ۔

اماں آپ بس دعا کرے میری فِیا کے لیے اسے دعاؤں کی ضرورت ہے "۔

عظیم نے اپنی آنکھوں سے آنسوں پونچتے ہوۓ کہا۔

ضرور میری جان میری ساری دعائیں میری بہوکو لگے اللہ اسے خیر سے گھر واپس لاۓ "۔

"آمین"۔

______________________________________________

زین العابدین ناشتے کے بعد سے گیا لنچ ٹائم میں واپس آیا۔

آخر کب تک مجھے یہاں قید رکھنا ہے"۔

اس نے رکھائ اور سرد مہری دکھاتے ہوۓ اسے کہا

 جو ,مسٹڑڈ پینٹ پر کالی ٹی شرٹ پہنےہلکی داڑھی اور مونچھوں کے ساتھ بہت چارمنگ لگ رہاتھا۔

"تاحیات "۔۔۔۔۔۔

وہ مزے سے کہتا ہوا ٹیبل پر گاڑی کی چابیاں اور موبائل رکھتے ہوۓ اس حسن کے شاہکار کو نگاہ میں سموتے ہوۓ بولا۔

"یہ تمھارے لیے کپڑیں ہیں اور کچھ ضرورت کی چیزیں اگر کچھ کمی لگ رہی ہے تو بتادینا میں لادوں گا "۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کے نزدیک شاپنگ بیگز رکھتے ہوۓ بولا ۔

"مجھے نہیں چاہیۓ آپ کی لائ ہوئ کوئ بھی چیزیں "۔۔۔۔۔۔۔

زین العابدین زیرِلب مسکرایا تھا۔

"وجہ پوچھ سکتا ہوں کیوں نہیں چاہیۓ "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کے سامنے صوفے پہ نیم دراز ہوتے ہوۓ بولا ۔

"کیوں کے میرے پاس بہت سارے کپڑے موجود ہے آپ کے یہ برینڈڈ کپڑیں اپنی منگیتر کو پہناۓ ,"۔۔۔۔۔۔۔

توقع کے برعکس زھرہ نےبیگز کے اوپر لکھیں بڑینڈز کے نام۔دیکھ کر خالص بیویوں والے انداز میں زین العابدین کو تجویز پیش کی تھی جو صوفے پر سے ُکشن ُاٹھا کر اپنے فولادی بازؤوں میں بھینچ گیاتھا ۔

"واٹ اےربش!میں اسےکیوں دوں گا ؟اس کا نان نفقہ مجھ پہ ابھی عائدنہیں ہوتا,ہاں جب ہوگا تب پہنابھی دوں گا فلحال جس پہ عائد ہے اسے تو پہنالوں ,ویسے بھی میری نفیس طبیعت کو الجھن سی ہورہی تھی تمہیں ایک ہی سُوٹ میں اتنے دنوں سے دیکھ کر "۔۔۔۔۔۔۔

وہ مضنوعی سنجیدگی سے کہتے ہوۓ اسے صحر انگیز آنکھوں کے ِحصار میں لیے نیم دراز تھا جو اس کی بات سن کر لال بھبھوکا ہوگئ ۔

"جاؤ کپڑے بدل کر آؤ پھر میں تمہیں ہوسکتا ہے باہر لے جاؤ آنٹی کو تلاش کرنے کے لیے "۔۔۔۔۔۔۔

اس نے جان بوجھ کر اسے ایسی بات کہی تھی جس پر وہ کچھ پلوں کے لیے سوچنے پر مجبور ہوگئ۔

"صرف آدھا گھنٹہ ہے تمھارے پاس ,شاور لے کر تیار ہوجاؤ ورنہ پھر میں اکیلا چلاجاؤں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ صوفے پہ نیم دراز آنکھیں موندے ہوۓ لیمپ کی روشنی میں اسے دیکھتے ہوۓ بولا,جومضطرب سی کبھی اپنے لبوں کو بے دردی سے کترتی تو کبھی اپنی مخروطی نازک انگلیوں کو چٹختی اس نےکچھ لمحوں کے لیے اپنی انا کو پسِ پشت ڈال کر بیگز کی جانب دیکھا ۔

"میں ان چیزوں کو ہاتھ صرف اپنی امی کی وجہ سے لگارہی ہوں ورنہ مجھے کوئ شوق نہیں آپ کی اس فضول سی شاپنگ کو ہاتھ لگانے کی"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ شاپنگ بیگز کو ہاتھوں میں تھامے ہوۓ کمرے کی جانب بڑھ گئ اس کے جاتے ہی زین العابدین کے عنابی لبوں پہ ایک گھمبیر سی مسکراہٹ چھاگئ وہ ایک گہری سانس لیتے ہوۓ اپنے فون سے کال ملانے لگا۔

"ہیلو ہمنا تنویر اِسپیکنگ"۔۔۔۔۔۔

"میں زین العابدین بات کررہاہوں ہمنا "۔۔۔۔

وہ پرسکون ٹھہرے ہوۓ لہجے میں بولا 

"سر آپ کہا ہے ؟۔آپ ٹھیک تو ہے نہ؟"۔

ہمنا تنویر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔

"ہاں ہمنا میں بلکل ٹھیک ہوں بس گاڑی شدید برف باری کی وجہ سے کسی کچے علاقے میں اتر گئ تھی جہاں رابطہ کرنا ممکن نہیں تھا اب موسم صاف ہوا ہے تو ہم کراچی آگۓ ہیں "۔

وہ اسے یقین دلانے کی سعی کرنے لگا۔

"سر مِس خان ٹھیک ہے ؟۔ان کی امی کافی پریشان ہے ان کے لیے ! "۔

وہ پریشان کن لہجے میں بولی تھی ۔

"ہممم !!ٹھیک ہے وہ بھی ,"۔

زھرہ کی امی کے زکر پر وہ گہری سوچ میں غرق ہوگیاتھا۔

"ہمنا میں کل آفس آؤ ں گا ,ویسے تو یوشع ہے وہاں پر مگر سب ٹھیک چل رہاہے نہ ؟"۔

زین العابدین نے ٹیبل سے سگریٹ اور لائیٹڑ ُاٹھاتے ہوۓ پوچھا۔

"سر ویسے تو سب ٹھیک ہے پر ایک بات کرنی تھی آپ سے "۔

ہمنا تنویر یاسیت سے بولی۔

"ہاں بولو ہمنا "۔

زین العابدین سگریٹ کو سلگاتے ہوۓ واپس صوفے پہ نیم۔دراز ہوگیا.

"سررر--وہ --آپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے آپ کے بھائ قاسم حیات خان تین روز سے آفس آرہے ہے ,اس کے علاوہ انھوں نے کافی سارے آفس کےکام کیے ہیں  "۔

وہ پریشان کن لہجے میں بولی تھی۔

"تو آپ لوگوں نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟"۔

وہ ہمنا تنویر پربرہم۔ہوا تھا۔

""سر وہ یوشع سر نے منع کیا تھا "۔.۔۔۔

وہ منمنائ تھی۔

یوشع نے کیوں منع کیا تھا"۔۔۔۔۔

طیش میں آۓاس کا بس نہیں چل رہاتھا کے وہ یوشع کو بے نقط سنا آئیں۔

"سر ہوسکتا ہے انھوں نے کسی مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کی ہو "۔۔۔۔۔۔

ہمنا تنایر کے کہنے پر وہ کسی گہری سوچ میں غرق ہوگیا۔

"ٹھیک ہے ہمنا میں کل آفس آرہاہوں پورے اسٹاف میں بتادو  کے ہمارا ایکسیڈینٹ ہوا تھا"۔۔۔۔۔۔

وہ سگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑاتا ہوا بولا ۔

______________________________________________

"سر آپ کی وائف کو ہوش آگیا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔

نرس نے باہر آکر عظیم خان کو زندگی کی نوید سنائ تھی۔وہ تیزی سے انتہائ نگہدشت کمرے کے باہر گیاتھا جہاں داکٹڑز تیزی سے فوزیہ کو ٹڑیٹمنٹ دینے میں مصروف تھیں ,وہ سجدہ شکر ادا کرنے کے لیے مسجد کے احاطے کی طرف بڑھ گۓکچھ دیر بعد ان کے فون پر حیات صاحب کی کال آئ تھی۔

"جی بھائ جان آپ کے لیے خوشی کی خبر ہے میری فِیا کو ہوش آگیا ہے "۔

خوشی ان کے چہرے سے ُپھوٹ رہی تھی ۔

"اللہ کا شکر ہے عظیم میں اماں کو لے کر آتا ہوں ,تم۔اپنا اور بھابھی کا دیھان رکھنا ہم بس آرہے ہیں "۔

حیات صاحب نے فون بند کرکے سلیماں بیگم کو آوازیں لگانا شروع کردی۔

"اماں جی اماں جی "۔۔۔۔

"کیا ہوگیا حیات ؟"۔۔۔۔۔۔

سلیمابیگم نے چشمہ درست کرتے ہوۓ کہا۔

"اماں جی عظیم کا فون آیا تھا ,بھابھی کو ہوش آگیا ہے "۔۔۔۔۔

حیات صاحب چلتے ہوۓ اماں جی کے نزدیک ان کے تخت پہ بیٹھ گۓ جہاں وہ ہاتھ میں تسبیح تھامے اللہ کا ورد کررہی تھی۔

"اللہ تیرا شکر ہے ,تو نے میرے عظیم کی مشکلیں حل کردی "۔

وہ تخت پہ بیٹھے ہوۓ ہاتھ دعا کے انداز میں ُاٹھاۓ اللہ کا شکر ادا کررہی تھی ۔

"شکر تو ایسے ادا کررہے ہیں آپ لوگ جیسے امتحان کا نتیجہ آگیا ہو ,ویسے یہ کون سی بھابھی ہے جو اچانک سے دنیا میں آگئ ہے ؟"۔۔۔

رخشندہ نے اپنےسنہری کھلے بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتے ہوۓ حیات صاحب سے پوچھا جو ان کے لباس کو تنقید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔

"آپ میرے لباس کو ایسے کیوں دیکھ رہے ہے"۔

رخشندہ اپنی باریک آئ برو کو ُاچکا کے بولی ۔

"دیکھ رہا ہوں تم پہ وہ مثال بلکل ٹھیک بیٹھتی ہے"۔

حیات صاحب اپنے چہرے کے سامنےاخبار کھولتے ہوۓ بولے ۔

"کون سی مثال "۔

رخشندہ نے سوالیہ انداز میں اپنے شوہر کی جانب دیکھا۔

""بوڑھی گھوڑی لال لگام "۔

وہ رخشندہ کے جینز کے اوپر لال ٹی شرٹ پہننے پر چوٹ کر گۓ ۔

"ہا ہاہا !بہت ہی زیاد مجھے ہنسی آرہی ہے حیات صاحب آپ کی باتوں پر ،اصل میں پتہ ہے مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ آپ لوگ مجھ سے جلتے ہے کے میں اتنی ینگ کیسے لگتی ہوں "۔

وہ پیر پٹختی ہوئ اندر کی جانب بڑھ گئ ان کے جاتے ہی اماں جی نے چہرے سے ہاتھ ہٹایا پھر دونوں ماں بیٹے کے فلک شگاف قہقہوں نے پوری حویلی میں رونک بخش دی تھی۔

______________________________________________

ُاس نے پورے ٹی وی لاؤنج کو مضطرب سی حالت میں سگریٹ کے دھوےسے بھر دیاتھا ۔جب ہی کمرے کا دروازہ کھول کر وہ باہر آئ جو نارنجی اور کالے رنگ کے شلوار کمیز میں سلیقے سے سر پہ ڈوپٹہ اوڑھے کمرے کی چوکھٹ پہ کھڑی ہوئ دھوۓ کودیکھنے لگی, پورے کمرے میں سگریٹ کا دھواں بھرے ہونے سے زھرہ بُری طرح سے کھانسنے لگی ۔

"Shit man!!".

زین العابدین تیزی سے کھڑا ہوتے ہوۓ کمرے کی کھڑکیاں کھولنے لگا ,پنکھا ُفل رفتار پہ چلاکے وہ زھرہ کی جانب بڑھا ۔

"you feeling better? ".

کھانسنے کی وجہ سے اس کی بادامی آنکھوں میںں پانی بھر آیاتھا۔جو واپس اپنے کمرے میں چلی گئ ۔

وہ سر کو جننش دیے سامنے والے صوفے پہ جاکر بیٹھ گئ ۔کچھ دیر بعد وہ اپنا سانس بحال کرتی ہوئ اسے دیکھنے لگی جو اس کے لال ہوۓ چہرے کو دیکھ کر فکرمند ہوگیا تھا۔

"چلے سر "۔

وہ آہستہ سے بولی۔

"ہمم چلو "۔

وہ۔نزدیک رکھے ٹیبل سے گاڑی کی چابیاں اور موبائل ُاٹھاتا ہوا باہر کی جانب نکل گیا ,زھرہ نے بھی اس کی تقلید کی  ۔کچھ ہی دیر میں وہ گاڑی کو ہوا کے دوش پر اڑاتا ہوا اپنے علاقے سے باہر نکال لایا

"ہمم !کہا چلے زھرہ "۔

وہ اپنے چہرے پہ دلفریب مسکراہٹ سجاۓ اس کی جانب دیکھتے ہوۓ بولا ۔

"مس خان!!!"۔

وہ اپنے پرانے لب ولہجے میں اسے ٹوکتے ہوۓ بولی جو اس کی بات پہ زیر لب مسکرایا,پھر اپنے سر کو داۓ باۓ ہلاتے ہوۓ ِونڈ اسکرین کی جانب دیکھنے لگا۔

"کچھ نہیں ہوسکتا آپ کا محترمہ"۔۔۔۔۔۔۔

وہ زیرِلب بڑبڑایا۔

گاڑی سگنل پر ُرکی تھی ۔

"صاب باجی کے لیے پھول لے لو صاب ,اللہ تمہاری جوڑی کو سلامت رکھے گا"۔۔۔۔۔

"بچے کے بولنے پر اس نے چند لمحوں کے لیے زھرہ کی جانب دیکھا پھر کچھ سوچتے ہوۓ اسے دینے کے لیے اشارہ کیا۔وہ تیزی سے اپنی بانس کی دنڈی سے گلاب اور گیندے کے بنے ہوۓ گجرے اس کی جانب بڑھانے لگا۔

"مجھے نہیں چاہیے "۔

وہ تنفر سے بولی جس پر زین العابدین رگ ظرافت پھڑکی تھی۔

"میں نے کب کہا کے میں آپ کو لے کر دے رہاہوں"۔۔۔۔۔

وہ پراسرار سی مسکراہٹ چہرے پہ لاۓ اسے پلٹ کر دیکھتے ہوۓ استہزایہ انداز میں بولاجس پر زھرہ کو شدید خجالت سی محسوس ہوئ وہ اپنی خفت کو چھپانے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی جب ہی زین العابدین گاڑی کو سائیڈ پے بریک لگاتے ہوۓاس کے نرم ملائم۔ہاتھ کواپنی فولادی گرفت میں لیےاسے پھولوں کا گجرا پہنانے لگا ۔جو اسے کاٹ کھانے کو دوڑنے لگی۔

"اب آپ کا پہننے کو اتنا دل چاہ رہاتھا تو میں خود کو روک نہیں پایا ورنہ میں نے تو یہ گاڑی میں لٹکانے کے لیے خریدے تھے"۔وہ زبردستی اس کے ایک ہاتھ میں پھولوں کا گجرا پہناتے ہوۓ بولا ۔

"چھوڑے میرے ہاتھ سرر پلیز "۔

وہ اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرانے کی تگ ودو میں مصروف تھی جو اس کا ہاتھ تھامے گیر بدلتے ہوۓ گاڑی کو ایک بار پھر چلانے لگا ۔

"آخر محترمہ آپ کے مزاج اتنے گرم ہونے کی وجہ کیا ہے وہ کون سی خوراک تھی جو تمہیں ایسا بنا گئ "۔۔۔۔۔۔

وہ گاڑی چلاتے ہوۓ ہلکے ُپھلکے انداز میں اس سے بولا جو اس کی بات سن کر ہتھے سے اکھڑ گئ۔

"آپ کی یہ جو حرکتیں ہے نہ مجھے یہ بلکل پسند نہیں ہم کوئ عام شادی شدہ جوڑا نہیں ہے جو آپ ایسے کرتے ہے "۔۔۔۔۔

زھرہ کے ناگوار لہجے پر وہ حیران نہیں ہوا تھا۔

"مجھے بھی کوئ شوق نہیں ہے تمہیں ٹچ کرنے کا "۔

وہ اس کا نازک ہاتھ اپنی فولادی گرفت سے آزاد کرتا ہوا اسے گھورنے لگا جو خفیف سی ہوگئ۔زین العابدین کی نگاہ کھڑکی سے باہر ُاٹھی تھی جہاں سگنل پہ کھڑی گاڑیاں اچانک سے تیز ہوتی بارش میں بھیگ رہی تھی ,ملگجا سا اندھیرا ہونے لگا  ۔جب ہی گاڑی کی معنی خیز خاموشی کو زینالعابدین کی آواز نے توڑا تھا۔

"ایک بات کہو !!!بے شک ہماری شادی جن حالاتوں میں بھی ہوئ تھی ,لیکن ایک دن آۓ گا جب میں تمہیں تمہاری محبت سمیت فتح کرلوں گا"۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس مغرور انسان کے منہ سے ایسی باتیں سن کر ماننے سے انکاری ہوگئ تھی۔جب ہی وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی تھی۔

"ایسا دن کبھی نہیں آۓ گا "۔ ۔۔۔۔۔hassle 

وہ آہستگی سے بڑبڑائ تھی ۔۔۔۔۔۔

"آۓگا خان کی جان "۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کی جانب مسکراہٹ اچھالتے ہوۓ  مستعدی سے برستی بارش میں  گاڑی ڈڑائیو کرنے لگاوہ خود کو لاتعلق رکھتے ہوۓ کھڑکی کے باہر برستی ہوئ بارش کو دیکھ رہی تھی,یکدم ہی گاڑی رکنے پر وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئ۔

"سگریٹ ختم ہوگئ ہے وہ لینے جارہاہوں آپ کو کچھ چاہیے ؟"۔

وہ اس کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھتے ہوۓ بولا جو گردن کو نہ میں ہلا گئ۔

"ٹھیک ہے"۔

وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کےاب سامنے شاپ کی طرف جارہاتھا۔زھرہ اپنی جانب کا شیشہ کھول کر باہر کی جانب دیکھنے لگی جہاں سڑک پر پھیلی زرد روشنیوں میں وہ ہلکی ہلکی برستی بوندوں کو دیکھنے لگی جس کو دیکھ کر اس کا دل اس پھوار میں بھیگنے کو مچلنے لگا وہ دل کی آواز پہ لبیک کہتے ہوۓ گاڑی سے باہر نکل آئ جہاں گیلی مٹی کی سوندھی خوشبوں اس کے نتھوں سے ٹکرائ تو اس کے حواسوں پہ چھائ کسافت جیسے دھل گئ ہو ,وہ آنکھوں کو موندے اپنے چہرے پہ پڑتی ان ٹھنڈی بوندوں سے خود کو معطر کررہی تھی اٹکھیلیاں کرتی ہواؤں کا رقص کچھ لمحوں کےلیے اس کے بوجھل زہن کو سکون بخش رہی تھی۔ وہ آنکھیں موندے خود پہ نظروں کی تپش محسوس کررہی تھی اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولی جو بےخودی میں گاڑی سے کافی آگے تک پیدل چل کے آگئ تھی۔ اس نے اپنی طرف متوجہ اس شخص کو دیکھا جو یقیناًاس کی جانب آرہاتھا۔تھوڑا دور کھڑے ہونے کی وجہ سے زھرہ کو اس کا چہرہ واضع نظر نہیں آیاتھا جسے وہ زین العابدین سمجھ کر مطمعن سی کھڑی تھی پر جیسے ہی وہ اس کے نزدیک آیا زھرہ کو پہچاننے میں ایک لمحا نہیں لگاتھا ۔وہ اسے دیکھ کر نروس ہوتی ہوئ تھی اس نے دور سے پان کی دکان کی طرف باۓ جانب دیکھا جہاں بارش کی وجہ سے کافی زیادہ لوگ کھڑیں تھے جو خوش گپیوں میں مصروف تھے

"ساری دنیا تلاش رہی ہے ِاس چاند کو ,اور یہ چاند یہاں بدلیوں میں ُچھپا بیٹھا ہے "۔۔۔۔۔ 












Comments

Popular Posts