تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 15


ARAZ RESHAB NOVELS


Dont copy paste without my permission kindly.

 

اس کے اعصاب نے جیسے ہی کام۔کرنا شروع کیا ُاس کی بند آنکھوں کے سامنے سے ساراگزرا منظر کسی فلم کی طرح سے چلنے لگا جب ہی ُاس نے اپنی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش۔جہاں کمرے میں چھایا ہوا نیم اندھیرا شام ہونے کا پتہ دے رہاتھا ۔وہ ُاپنے بازوں میں  ُاٹھتے درد کو نظر انداز کرتے ہوۓ پوری قوت لگا کے ُاٹھ بیٹھا تھا۔

"زھرہ --زھرہ "۔

وہ زھرہ کو دیوانہ وار نیم اندھیرے میں آوازیں دیتے ہوۓ چلنے لگا تھا جب ہی کسی چیز سے ٹکرا کر وہ منہ کے بل کسی نازک وجود پہ ِگرا تھا جو کسی اور کا نہیں بلکہ زھرہ خان کا تھا۔اس نے نیم۔اندھیرے میں اسے اپنی مضبوط پناہوں میں لیے کسی چھوٹے بچے کی طرح ٹٹولنے لگا کے کہی وہ لوگ اسے کوئ نقصان تو نہیں پہنچاُچکے ۔جب ہی اس کے وجود میں جنبش ہوئ تھی ۔

"زھرہ آنکھیں کھولو "۔۔۔۔۔

ْوہ ُاس کا سر اپنی گود میں رکھے ُاس کے چہرے کو تھپکنے لگا۔جو بے ہوشی کے عالم میں بڑبڑارہی تھی, زین العابدین نے اسے جھنجھوڑتے ہوۓ ُاٹھایا, جو ہوش میں آنے کے بعد متوحش سی اسے دیکھ رہی تھی ۔

"زھرہ تم۔ٹھیک ہو ؟"۔۔۔۔۔۔

وہ نیم اندھیرے میں ُاس کے چہرے کے تاثرات دیکھ نہیں پارہاتھا مگر ُاس کا کپکپاتاہوا وجود زین العابدین کی جان لینے کے در پہ تھا ۔

"زھرہ میں کیا ُپوچھ رہا ہوں تم ٹھیک ہو انھوں نے تمہیں کوئ نقصان تو نہیں پہنچایا "۔۔۔۔۔۔۔

وہ روتی بلکتی ہوئ زھرہ کو اپنے مضبوط ِحصار میں لیے پوچھ رہاتھا۔۔۔

"نہیں م-م-میں بلکل ٹھیک ہوں سر مجھے ---گھر --جانا ---ہے بس مجھے ---امی کے پاس ---جانا ---ہے"۔۔۔۔۔۔

وہ ہچکیوں  کے درمیان اس کے سینے سے لگی  انہی لفظوں کی تکرار کررہی تھی ۔

جب ہی کسی  کےقدموں کی آواز نے انھیں چوکنا ہونے پر مجبور کردیاوہ جو کوئ بھی تھےدروازہ کھول کر ٹارچ لائٹ کی مدد سے نیچے کی جانب بنی سیڑھیوں سے  آرہے تھیں اس نے پھرتی دکھاتے ہوۓ زھرہ کو اپنے پیچھے کیا ۔جو اس کے اپپر کو پیچھے کی جانب سے مضبوطی سے تھامے کھڑی تھی۔

"بڑا دم۔ہے باؤ جی آپ میں ,جو اتنی جلدی ہوش میں آگۓ ویسے گولی ُچھو کر گزری تھی ہم نے پٹی کردی ہے آپ کی "۔

ان تینوں آدمیوں میں سے ایک نے ٹارچ لائیٹ زین العابدین کے چہرے پہ مارتے ہوۓ بولا ۔

"کون ہو تم۔لوگ اور تمہارا مقصد کیا ہے ؟۔

وہ درشتگی سے ان تینوں مسلح افراد سے پوچھنے لگا ۔

"ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم ہمارے بوس کا کیا مقصد ہے ما سواۓ اس کے "۔

وہ زین العابدین پہ گن تانے ہوۓ بولا ۔

"تم دونوں اسے لڑکی سے الگ کرو اگر زیادہ چالاکی ِدکھاۓ گا تو گولی ماردینا پھر تو لڑکی آسان شکار ہوگی ہمارے لیے"۔

ان میں سے ایک درمیانے قد کے آدمی نے بگڑے ہوۓ تیوروں سے کہا جسے سن کر زھرہ کے پیروں تلے سے زمین ِکھینچ گئ تھی وہ حد درجہ خوف وہراس میں زین العابدین کو پیچھے سے مضبوطی سے تھام گئ جو ان کی بات سن کر اپنے چہرے پہ چٹانوں سی سختی لیے انہیں غصیلی نظروں سے دیکھنے لگا ۔

"تم لوگوں کو جتنے پیسے تمہارا بوس دے گا میں تمہیں اس سے تین گنا زیادہ دوں گا ہمیں یہاں سے جانے دو "۔

وہ کسی بھی حالت میں ان سے الجھ کر زھرہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا ۔جب ہی خود کے غصے پر قابوں کرتے ہوۓ ان سے سرد لہجے میں بولا ۔

"ہمیں پیسے نہیں چاہیے ہم اپنے مالک کے وفادار ہیں,چل رانےالگ کر انہیں "۔

وہ دونوں آدمی زین العابدین کی جانب بڑھےجب ہی زھرہ نے اسے اور مضبوطی سے تھام لیا ۔

"نہیں سر مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے پلییز مجھ--مجھے--ڈڑ لگ رہا ہے سر"۔

وہ کسی معصوم بچے کی طرح اس کا ہاتھ اپنے کپکپاتے ہاتھ میں تھام کے بولی تھی۔جس کی آنکھوں میں حد درجہ خوف وہراس نے پل بھر کے لیے زین العابدین کے قدموں کو ڈگمگایا ضرور تھا۔مگر ابھی اسے اپنے قدموں پہ مضبوطی سے کھڑے رہنا بہت ضروری تھا۔

"زھرہ اپنے آپ کو سنبھالوں اگر ہمیں یہاں سے نکلنا ہے تو فلحال ان کی بات ماننا ہوگی میں تمہیں کہی چھوڑ کر نہیں جاؤں گا مجھ پہ بھروسا رکھو"۔

وہ اس کے کان میں بے حد ہلکی سرگوشی کرتے ہوۓ اسے خود سے الگ کرگیا تھا کیوں کے وہ نہیں چاہتا تھا وہ لوگ اس کے ساتھ کوئ زور زبردستی کرے ۔جب ہی ان دونوں آدمیوں نے زین العابدین کو بازوؤں سے تھام۔کر اپنے تیسرے ساتھی کی جانب دیکھا جو زھرہ کے سر پہ گن تانے کھڑا تھا۔

"رانے انجیکشن لگا اسے "۔

"کون سا انجیکشن "۔

وہ ہلک کے بل ڈھاڑتے ہوۓ ان میں سے ایک کا گریبان اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑ چکا تھا ۔

"اگر تمہیں اس کی زندگی عزیز ہے تو وقت ضائع کیے بغیرانھیں اپنا کام کرنے دو "۔

تیسرا آدمی فق چہرہ لیے زھرہ کے سر پر گن تانے کھڑا زہر اُگل رہاتھا جب ہی زین العابدین شدید ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اس آدمی کو پیچھے دھکیل گیاجو لڑکھڑا کر سنبھلتے ہوۓ زین العابدین پر غصیلی نظر ڈالتے ہوۓ اسے انجیکشن لگا گیا

 وہ ُسن ہوتے دماغ کے ساتھ ان میں سے ایک کا گریبان پھر تھام۔گیا تھا۔

"کس چیز کا انجیکشن لگایا ہے تم نے مجھے "۔

وہ مدھم۔مگر شعلہ بار لہجے میں اس سے پوچھنے لگا جو ُاس کا ہاتھ جھٹک کر سیڑھیوں کی جانب جارہے تھیں۔

"میں نے کیا پوچھا ہے تم سے کس چیز کا انجیکشن لگایا ہے تم۔نے مجھے "۔۔۔۔۔

 اب کی بار ہلک کے بل ڈھاڑا تھا جب ہی ان میں سے ایک آدمی نے پلٹ کر اس کی خون آلود آنکھوں میں دیکھا۔

"زومبی انجیکشن !بہت مزہ آۓ گا جب تو اسے  چیڑ پھاڑ دے گا  "۔۔

وہ قہقہ لگاتے ہوۓ اوپر کی جانب چلاگیا جہاں دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ زھرہ کی جانب پلٹا تھا جو سفید پڑتے چہرے کے ساتھ ٹارچ کی روشنی میں ُاس کے لرزتے وجود کو دیکھ رہاتھا۔

"زومبی--- انجیکشن ---کیا ---ہے "۔۔۔۔۔۔

زھرہ نے کانپتے ہوۓ زین العابدین سے پوچھا جو اس کی خون آلود آنکھوں کو دیکھ سکتی تھی ۔

"زھرہ یہ ٹارچ بند کرکے مجھ سے دور چلی جاؤ میں تمہیں جتنی بھی آوازیں لگاؤں میرے قریب بھی مت آنا "۔۔۔۔۔۔

وہ اس افتاد پر جو اس کے سر پہ آن پڑی تھی ُاس کے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں مفلوج کرچکا تھا وہ خود نہیں جانتا تھا وہ کیا کررہاتھا ۔

سر۔پلیز۔میں۔۔ٹارچ۔بند۔۔۔نہیں۔کرسکتی۔۔مجھے۔۔دڑ۔۔لگ۔۔ریا۔۔ہے"۔۔

وہ ہچکیوں کے درمیان روتے ہوۓ بولی ,جو یہ نہیں جانتی تھی کے اس وقت وہ زین العابدین نہیں بلکہ ایک ایسا درندہ بن ُچکا تھا جسے اپنا بھی کچھ ہوش نہ تھا ۔وہ اسے دونوں بازوؤں سے تھامے اپنے سے اتنا قریب تر کرگیا تھا کہ اس کی گرم سانسیں زھرہ کو جھلسارہی تھی ۔

"سررر چھوڑے مجھےپلیز"۔۔۔۔۔

وہ اس کے مضبوط قلعے میں ُبری طرح مچلنے لگی تھی جس کی جھیل سی آنکھوں میں طغیانی نے تہلکہ مچادیاتھا,زین العابدین کے پکڑنے کے انداز نے اسے ہراساں کرڈالا تھا ۔اس کی دل کی ڈھرکنیں ِاس وقت ایک سو بیس کی رفتار سےزیادہ چل رہی تھی۔مگر اسے زھرہ کی غیر ہوتی حالت کی پرواہ ہی کب تھی ۔اس وقت ُاس پر اس نشہ آور دوائ کا اثر سر چڑھ کر بول رہاتھا ۔اس کی ہر کوشش ہر آہ دزاری ناکام ہورہی تھی ۔وہ جو اسے دیکھ کر جینے لگا تھا ۔اس وقت خود اس کے مرنے کی سبیل کرچکا تھا ۔وہ اس کے رونے بلکنے کی پرواہ کیے بغیر  اس پر ظلم و تشدد کرتا رہا ۔صبح فجر کی آذانوں کے وقت زین العابدین کو جیسے ہی ہوش آیا تو اس نے اپنی آغوش میں بکھری ہوئ زھرہ کو دیکھا تووہ ٹڑپ کر اس سے پیچھے ہوا تھا۔جو نیم بے ہوشی کی حالت میں پانی مانگ رہی تھی۔

"پپ---پپ--پانی"۔۔۔۔۔

وہ ہلق میں چبھتے کانٹوں کے درمیان بمشکل کہ پائ تھی ,جب ہی زین العابدین اس کے اوپر نزدیک پڑی شال پھیلاگیا,اس نے کمرے میں نظر دوڑائ جہاں ان دونوں کے علاوہ کوئ بھی چیز نہ تھی۔وہ بوجھل قدموں کے ساتھ چلتا ہوا  اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر ُاس کا چہرہ تھپتھپانے لگا۔جو ایک ویران بنجر سی کیفیت میں آنکھیں موندے پڑی ہوئ تھی۔وہ چیخنا روناچاہتی تھی مگر اس کی سانسیں جیسے سینے میں کہی اٹک گئ تھی ۔اس کی بکھری حالت دیکھ کرزین العابدین خود پہ قابوں نہ رکھ سکا اور اسے اپنے سینے میں بھینچھے ہوۓ خود کو اس کا گنہگار سمجھنے لگاجو ُاس  کے سینے سے لگی گھٹا گھٹا سا رورہی تھی۔

"سس---سب----ختم--ہوگیا "---

  وہ ہانپتی ہوئ ہچکیوں کے درمیان زین العابدین سے بول رہی تھی ۔جو رات کے منظر کو یاد کرکے وحشت زدہ سا ہوگیا تھا۔

"کچھ بھی ختم۔نہیں ہوا زھرہ میں سب ٹھیک کردوں گا تم۔رو۔مت "۔۔۔۔۔

ُاس نے بے اختیار اس کے بہتے اشکوں کو اپنی مضبوط انگلیوں کی پوروں میں جزب کیا تھا ۔جہاں اس کے چہرے پہ پڑے نیل کے نشان اور پٹھے ہوۓ ہونٹ دیکھ کر اس نے اپنے لبوں کو سختی سے بھینچھا تھا, ایک بار پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئ جسے سن کر زھرہ نے خود کو زین العابدین کے سینے میں ُچھپانے کی کوشش کی تھی جس کے دِماغ نے تیزی سے کام کرنا شروع کردیا۔

"زھرہ ہوش میں رہو ہمیں یہاں سے ہوشیاری سے نکلنا ہے تم۔بس یہاں بے ہوش ہونے کی اداکاری کرو ٹھیک ہے جب تک میں آواز نہیں دوں گا تم بولو گی نہیں چاہے کچھ  بھی ہوجاۓ "۔۔۔۔۔

وہ زھرہ کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامے اسے تنبیع کرتے ہوۓ سمجھانے لگا,پھر شال ُاس کے چہرے پہ ِاس انداز میں ڈال گیا کے دیکھنے والے کو وہ سوئ ہوئ لگتی,جب کے خود بھی وہ  نیم دراز ہوتا ہوا آنکھوں کے اوپر ِاس انداز میں ہاتھ رکھ گیا کے وہ انہیں آتے ہوۓ آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔جب ہی ان تینوں میں سے ایک  آدمی ہاتھ میں ٹڑے تھامے نیچے آیا جس کے ہاتھ میں تھامی ٹڑے کو دیکھ کر زین العابدین کا دماغ تیزی سے چلنے لگا ۔وہ جیسے ہی ٹڑے اس کے نزدیک لایا ُاس نے اسے دور سے آواز دی کے یہ جوس پی لو۔

" مجھے--- نہیں --- پینا--یہ ---جوس --اس لڑکی کو دو مجھ سے زیادہ اسے اس کی ضرورت ہے ۔"۔

وہ بھرپور اداکاری کرتے ہوۓ نیم۔بے ہوشی میں ُہکلاتے ہوۓاس سے زھرہ کو جوس پلانے کا کہنے لگا۔

نہیں ہمیں اجازت نہیں ہے یہ جوس صرف تمہارے لیے ہے"۔

وہ آدمی زین العابدین کو ٹکا سا جواب دے گیا ۔

"ٹھیک-- ہے --لیکن --پہلے-- مجھے --زمین -- سے-- ُاٹھاؤ"۔

وہ بھرپور اداکاری کرتے ہوۓ ہکلانے لگا جس پر ٹڑے ہاتھ میں تھامے کھڑا آدمی کچھ لمحوں کے لیے اسے دیکھنے لگا پھر کچھ سوچتے ہوۓ اپنے قدم زین العابدین کی جانب بڑھاۓ۔

"بوس نے اگر تیرا خیال رکھنے کو نہ کہا ہوتا ,تو میں تجھے کبھی نا ُاٹھاتا جتنا تو نے مجھے کل مارا تھا "۔

وہ درمیانے قد کا آدمی کچے فرش پر ٹڑے رکھتے ہوۓ زین العابدین کی جانب ہاتھ بڑھاگیا جو سر کو دیوار کے ساتھ ِٹکاۓ نیم دراز انداز میں بیٹھا تھا۔جب ہی زین العابدین نے ُاس کا ہاتھ تھام۔کر ایک جھٹکے سے اسے نیچے گرایا پھر ُپھرتی سے اس کی مخصوص نبز دباتے ہوۓ اسے بے ہوش کرگیا ۔

"Zahra get up ".۔۔۔۔۔

وہ اس کی جانب پنجوں کے بل بیٹھ کر ُاس کے چہرے سے شال ہٹاگیا جو ایک بار پھر سے نیم  بے ہوشی کی حالت میں چلی گئ تھی وہ کچھ سوچتے ہوۓ دبے قدموں اوپر کی جانب سیڑھیاں چڑھنے لگا جہاں دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی  میز پر گن اورایک بیگ رکھا ہوا تھا ُاس نے تیزی سے گن کو اپنے قابوں میں کیا پھر نظر پورے کمرے میں دوڑائ مگراسے  وہاں کوئ نظر نہیں آیا,وہ اس کمرے سے باہر کسی کی آوازوں کو ُسنتا ُہوا ُاس جانب چلنے دبے پاؤں۔چلنے لگا, جہاں اسے ایک آدمی فون پر بات کرتے ہوۓ نظر آیا۔

"جی بوس آپ فکر نہ کرے ہم دیھان رکھے گے "۔

وہ فون بند کرکے جیسے ہی پلٹا زین العابدین نے ُاس کے چہرے پہ زور دار طمانچہ ماراجس پر وہ منہ کے بل پیچھے کی جانب ِگرااس نے فوراً ُاٹھ کر اپنی گن کے لیے جیکٹ میں جیسے ہی ہاتھ ڈالے تو اس کی جیب خالی تھی وہی زین العابدین دروازے کے ساتھ کمر ِٹکاۓ  اسے دیکھ رہاتھا جو تھوک نِگلتے ہوۓ اس کے اگلے اقدام۔کو دیکھنے لگا جوہ بڑے اطمیعنان سے دروازے کو ُکنڈی لگاتے ہوۓ اسے بھپرے ہوۓ شیر کی طرح دیکھنے لگا ۔

"کہی تم یہ تو نہیں ڈھونڈ رہے تھے"۔

اس نے گن کا رخ اس کی جانب کیا ۔جس کی آنکھیں اسے دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئ تھی۔

"میرے پاس وقت کم ہے بتا ہمیں اغواءکرنے کے لیے تجھے کس نے کہا تھا "۔

وہ شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا ۔

"صاحب جی ہمیں نہیں پتہ کچھ بھی  ,سب کچھ اس رانے کو پتہ ہے وہ شہر تک "۔

آگے کی بات زین العابدین نے اس کی مکمل ہوۓ بغیر  گولی ُاس کے نزدیک دیوار پہ چلائ جو موت کو اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر زمین پر گھٹنوں کے بل ِگرا تھا۔

"اگلی بار میرا نشانہ سیدھا لگے گا میں نے تمہیں خود سنا تھا تم اپنے بوس سے بات کررہے تھے,کیا نام ہے اس کا جلدی سے بولو "۔

وہ چہرے پہ چٹانوں سی سختی لیے شیر کی طرح ڈھاڑا تھا ۔

"صاحب جی مجھے نام۔نہیں پتہ بس رانے کا اس سے رابطہ ہے ۔میں نے تو اس کی غیر موجودگی میں کال ُاٹھائ تھی "۔

وہ زمین پہ بیٹھا ہاتھ جوڑے زین العابدین کو دیکھنے لگا ۔

"نمبر نکالو اس کا "۔

وہ سرد انداز میں بولا جو ُپھرتی سے ُاس کی بات سن کر موبائل سے نمبر نکال کر فون زین العابدین کی جانب بڑھایا جو ُاس کی جانب گن تانے کھڑا تھااس نے نمبر پہ نظر دوڑائ جس پر صرف "Q" لکھا تھااس کے ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہوا تھا ۔

"یہ کون سی جگہ ہے "۔

وہ تنے ہوۓ چہرے کے ساتھ ُاس سے پوچھنے لگا ۔

"صاحب یہ شوگراں ہے

زین العابدین اس کے موبائل سے شیر علی کو کال ملاتے ہوۓ پوچھنے لگا جس نے پہلی بیل پر ہی کال ُاٹھالی ۔

تمہارے پاس صرف دس منٹ ہے یہ آدمی تمہیں پتہ بتارہا ہے ہمیں لینے آؤفوراً۔

"یس سر"۔

"نیچے چلو "۔

وہ گن سے  آدمی کواشارہ کرتے ہوۓ بولا جو پتہ بتانے کے بعد فون کو واپس اس کے ہاتھ سے لے کر نیچے چلنے کے لیے کہنے لگا ۔وہ دونوں  تیزی کے ساتھ نیچے کی جانب جانے لگا جہاں ایک جانب زھرہ تھی تو دوسری جانب وہ آدمی جسے زین العابدین بے ہوش کر کےچلاگیاتھا۔ زین العابدین نے ِبنا اسے کوئ دوسرا موقع دیۓ اس کی بھی مخصوص نبض کو دبا کر اسے  بے ہوش کردیا پھر وہ تیزی سے زھرہ کی جانب پلٹا جو ہنوز غنودگی میں تھی ۔وہ پنجوں کے بل ُاس کے نزدیک بیٹھ کر اس کے چہرے کو تھپتھپانے لگا جو اپنی مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی ۔

"۔تم ٹھیک ہو زھرہ "۔

وہ اس کی غنودگی سے بھری آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا جو اسے دیکھ کر ایک بار پھر سے گہری نیند میں چلی گئ۔پھر کچھ ہی دیر میں زین العابدین ان دونوں کو شیر علی کی کسٹڈی میں دے کر زھرہ کو نجی  اسپتال لے گیا جہاں زھرہ کو داکٹڑ نے چوبیس گھنٹوں کےلیے انڈڑ آبزرویشن میں رکھا۔

_____________________________________________

"معاز مجھے ابھی اور اسی وقت مِس زھرہ کے گھر کا پتہ چاہیۓ "۔

ہالے زین العابدین کے آفس میں بیٹھی سگریٹ ُپھونکتی ہوئ معیز کو شعلہ بار نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولی جو مودب بنا باہر کی جانب نکل گیا تھا,کچھ ہی دیر میں ہالے کروفر کے ساتھ زھرہ کے گھر کے باہر کھڑی دروازہ بجارہی تھی ۔جہاں آتے جاتے لوگ ُاسے ُچست پینٹ اور ٹی شڑٹ میں دیکھ کر

کوئ  خلائ مخلوق سمجھ رہے تھے ۔جب ہی فوزیہ نے دروازہ کھولا ۔جہاں ایک اجنبی لڑکی کھڑی تھی

"جی بیٹا آپ کو کس سے ِملنا ہے "۔

فوزیہ نے اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو ِدکھنے میں کسی امیر گھر کی لگ رہی تھی۔

"تم۔جیسوں کی کیا اوقات کے ہالے تم سے ملے گی !کہا ہے وہ تمہاری بھگوڑی بیٹی جو میرے منگیتر کو لے کر بھاگ گئ ہے "۔

ہالے نے اونچی آواز میں گرجتے ہوۓ کہا۔

"کیا بکواس کررہی ہو لڑکی زبان کو لگام۔دو اپنی"۔

اس نے ماتھے پر شکن ڈالے ہالے کو دیکھا۔

"ظاہر ہے میری تو باتیں تمہیں بکواس ہی لگے گی ,جب بیٹی کو امیر لڑکوں کو پھسانے کے کاموں پر لگایا ہوگا"۔

ہالے اشتعال میں آکر بولی ۔

"لڑکی کیا ثبوت ہے تمھارے پاس جو میری پاک بیٹی پر تہمت لگارہی ہو "۔

فوزیہ اسے دیکھ کر برہمی سے بولی جو انھیں دھکا دیتی ہوئ گھر کے اندر داخل ہوگئ تھی۔

"ثبوتوں کی باتیں مت کیاکرو تم جیسے مکار لوگ , کیا تم نے معلوم کیا کے تمہاری بیٹی نے کل واپس آنا تھا اب تک سارا اسٹاف واپس آگیا ہے وہ کیوں نہیں آئ ؟۔

ہالے تند مزاجی سے بولی۔جس پر فوزیہ متحیرسی  ہوئ اسے دیکھنے لگی جہاں ہالے کے اونچا بولنے کی وجہ سے زینیہ ,جمال اور مسسز ڈیسوزا بھی باہر نکل آئ تھی۔

"اے لڑکی کب سے دیکھ رہی ہوں تم خالا کے ساتھ بد تہزیبی سے بات کررہی ہو ,اب اگر ایک اور دفعہ بھی خالا سے ایسے بات کی تو میں تمھارا منہ توڑ دوں گی امیر ہوگی تو اپنے گھر میں ہوگی "۔

زینیہ ہالے اور خالا کے درمیان میں آتے ہوۓ غیض و غضب سے بولی ۔

"اچھا بڑا تڑکا لگ رہا ہےتمھیں ,ذرااپنی بہن کو تو کال ملاؤ اور چیک کرو آخری بار کال کب ریسیو کی تھی "۔

ہالے آگ بگولا ہوئ زینیہ پر بھڑکی تھی ۔

"اچھا تیرےتو میں ابھی سارے تڑکے نکالتی ہو پرکٹی ُرک ذرا "۔

زینیہ اپنے فون سے زھرہ کو کال ملانے لگی جس کا نمبر ُمسلسل آف جارہاتھا ۔

"ہوگئ تسلی یا لے کر چلو اب تمام اسٹاف کے سامنے "۔

ہالے کے اتنے وثوک سے کہنے پر فوزیہ کا ماتھا ٹھنکا تھا۔

"ہمیں تم سے کوئ بات نہیں کرنی تم اپنی شکل ُگم کرو یہاں سے "۔

زینیہ ماتھے پر شکنوں کا جال لیے ہالے پر ڈھاڑی ۔

"خالا آپ زھرہ کی ایم ڈی سے پتہ کرے میرے پاس ان کا نمبر  ہے۔ایک بار پہلے بھی کال آئ تھی میں وہاں کرتی ہوں "۔

زینیہ اپنے فون میں سے ہمنا تنویر کو کال ملانے لگی جو کچھ ہی لمحوں میں ُاٹھالی گئ ۔

"ہیلو ہمنا تنویر اسپیکنگ "۔

"جی ہیلو میں ِمس زھرہ خان کی بہن بات کررہی ہوں ,جو غالبہً آپ کے آفس میں کام کرتی ہے".

زینیہ نے شائستگی سے بولا ۔

"جی جی میں تو خود آپ سے رابطہ کرنے والی تھی میں بس کچھ دیر پہلےہی سفر کی تھکاوٹ اتار کے ُاٹھی ہوں ۔خیر بیٹا کیا آپ کاِمس خان سے کوئ رابطہ ہوا ہے ؟۔

ہمنا تنویر کی بات سن کر زینیہ نے درپردہ ہالے کو دیکھا جو اسے کینہ توز نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔

"اصل میں بوس اور زھرہ سے ہمارا رابطہ کل سے منقطع ہوگیا ہے,جس کی وجہ سے ہمیں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہاہے ابھی تک تو ہم۔نے کوئ رپورٹ نہیں کروائ مگر اب چوبیس گھنٹے سے اوپر ہوگۓ ہے تو لگتا ہےپولیس کمپلین کرنی پڑے گی "۔

ہمنا تنویر نے اندیشے میں پھنستے ہوۓ زینیہ سے اپنی بات جاری رکھی۔

"تو ہوسکتا پولیس آپ لوگوں سے بھی رابطہ کرے تو پریشان مت ہوجائیے گا باقی اللہ انھیں اپنے حفظ و امان میں رکھے "۔

"ٹھیک ہے میں خالا سے بات کرتی ہوں اگر آپ کا کوئ بھی رابطہ ہو تو پلیز مجھے ضرور انفارم کردیجیے گا ,شکریہ"۔

زینیہ نے فون کو بند کرتے ہوۓ واپس اپنی کوٹی کی جیب میں ڈالا ۔

"کیا کہا ُاس نے بیٹا جلدی سے بتاؤ میرا تو دل بیٹھا جارہا ہے"۔

فوزیہ نے آنگن میں رکھی واحد ُکرسی پہ بیٹھتے ہوۓ پوچھا,جس پر زینیہ نے چیدہ چیدہ ساری باتیں فوزیہ کے گوش گزار کردی ۔جسے سن کر وہ مغموم سی ہوئ مسسز ڈیسوزا سے نظریں پھیرتی ہوئ جمال کی جانب دیکھنے لگی ۔انہیں اپنی جان جسم۔سے نکلتی ہوئ محسوس ہورہی تھی

"بیٹا تم کچھ بھی کرو میری بچی کو کہی سے ڈھونڈ لاؤ میری  "۔

فوزیہ نے نزدیک کھڑے جمال کا ہاتھ تھام کر روندھائ آواز میں بولی ۔

"خالا فلحال تو ہم سواۓ انتظار کے کچھ بھی نہیں کرسکتے کیوں  کے ہم۔سے زیادہ تو زھرہ کی ایم۔ڈی کے لمبے ہاتھ ہے اب جو بھی کرے گی وہی کرے گی ہم۔تو صرف انتظار کرسکتے ہیں باقی اللہ مالک ہے "۔

جمال نے فوزیہ کو دانائ سے سمجھاتے ہوۓ کہا۔

"ابھی تو میں جارہی ہوں مگر میں پھر آؤں  گی اپنی بیٹی کو سمجھا دینا دور رہے میرے منگیتر سے ورنہ میں اسے کہا غائب کراؤگی تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا "۔

ہالے فوزیہ کو ُپر جلال انداز میں بولتی ہوئ باہر کی جانب نکل گئ ۔اب کی بار زینیہ نے بھی اسے پلٹ کر کوئ جواب نہ دیا ۔

"میں نہ کہتی تھی اس کی بیٹی کے حرکات وسکنات اچھی نہیں ہے ,پر اس دن تو مجھے ایسے آنکھیں ِدکھا رہی تھی۔ جب وہ لڑکا اس کے آفس سے آیا تھا,اب کوئ جواب نہیں ہوگا تمھارے پاس ,مگر میرے پاس ہے صبح کا دن دے رہی ہوں تجھے اپنا بوریاں بستر سمیت یہاں سے اپنی شکل ُگم کروورنہ اس بار مجھے دھکے مار کے نکالنے سے کوئ نہیں روک سکے گا"۔

  "۔

مسسز ڈیسوزا روتی بلکتی فوزیہ پہ بھڑکتی ہوئ بولی ۔

______________________________________________

رات کے آخری پہر زھرہ نیند میں بڑبڑاتی ہوئ رورہی تھی جسے برابر میں لگے سنگل بیڈ پہ نیم دراز زین العابدین بڑے غور سے دیکھ رہا تھا وہ گہری سانس لیتا ہوا بیڈ سے نیچے ُاتر آیا۔

زھرہ کیا ہوا؟۔کیوں رورہی ہو آنکھیں کھولو "۔۔۔۔

زین العابدین اس کے نزدیک کھڑا اسے نیند میں روتے ہوۓ دیکھ کر بے چینی کا شکار ہورہاتھا ۔وہ اس کے داۓ ہاتھ کو تھام۔کر اس کا ہاتھ سہلانے لگا ۔جو۔نیند میں مسلسل اپنا سر داۓ باۓ کررہی تھی۔

"زھرہ میں تمھارے پاس ہوں آنکھیں کھولو پلیز "۔

وہ اس کے نزدیک بیڈ پہ بیٹھتے ہوۓ سرگوشی کرنے لگا ,جو نیند میں آہستہ آہستہ ُپرسکون ہورہی تھی ۔جب ہی ُاس نے اپنی ِجھیل سی آنکھیں کھولی جو آنسوؤں سے لبریز تھی۔ُاس نے اپنی آنکھوں کو جھپکتے ہوۓ جو چہرہ سامنے دیکھا تھا,وہ زین العابدین کا تھا ۔اس نے گزرے کڑے لمحات یادکرنے کی کوشش کی تھی۔جنہیں سوچ کر ایک بار پھر سے ُاس کے پورے جسم میں برقی سی دوڑ گئ تھی۔جب زین العابدین  نے  اس کے نازک رخصار پہ تھپڑ مارا تھا جس  سے وہ اپنے اعصاب پر قابوں نہیں رکھ سکی اور جھول کر اس کی مضبوط بازوؤں میں بے ہوش ہوگئ تھی۔

 زھرہ کی آواز نے کمرے کی خاموشی کو توڑا۔

"میں کہا ہوں "۔

اس نے دھیمی آواز میں پوچھا ۔

"اسپتال میں "۔

زین العابدین نے ُاس سے نظریں ُچراتی ہوئ زھرہ کو دیکھ کر کہا۔

"کب سے "۔

اب کی بار ُاس نے اپنے باۓ ہاتھ پہ لگی ڈڑپ کو دیکھ کر بے تابی سے پوچھا ۔

"چوبیس گھنٹوں سے "۔

زین العابدین نے اسے نظروں کی قید لیے اپنی گمبھیر آواز میں بولا ۔

"کس شہر میں "۔

وہ ہنوز ُاس سے نظر چراۓہوۓ بوجھل آواز میں بولی۔

"ہم پشاور کے ایک نجی اسپتال میں ہیں "۔

اب کی بار زین العابدین نے اس کا ملائم۔ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھاما ۔

"تم مجھ سے کترا کیوں رہی ہو زھرہ"۔

زین العابدین نے اس کے ہاتھ پہ اپنی گرفت کواور مضبوط کرتے ہوۓ کہا جو ُمسلسل  ُاس کی مضبوط گرفت سے اپنا نرم ملائم۔ہاتھ آزاد کرانے کی تگ ودو میں ہلکان ہورہی تھی۔

"جب تمھیں اچھے سےمعلوم ہے کے میں  تم سے کسی بھی صورت میں دستبردار نہیں ہوسکتا,تو کیوں خود کو ہلکان کرتی ہو۔"۔

وہ اپنے نزدیک لیٹی زھرہ کی قوت برداشت کا امتحان لینے پر ُتلا ُہوا تھا ۔جو اپنی آنکھوں کو میچے ہوۓ گرم سیال کو بہنے سے روک نہیں پارہی تھی۔

"پلیز سر میں تہی دست رہ گئ ہوں کچھ نہیں بچا میرے پاس آپ پلیز یہاں سے چلے جاۓ آپ کو دیکھ کر مجھے وہ گزرا وقت یاد آجاتا ہے "۔

ہچکیوں کے درمیان وہ بمشکل بول پائ تھی ۔لہجے کی کپکپاہٹ اس کی بےتحاشہ ازیت کی غمازی کررہی تھی وہ زارو قطار روتی ہوئ اپنا ُرخ دوسری جانب کرگئ تھی ,جس پر زین العابدین کا دماغ گھڑی بھر میں بھڑک ُاٹھاتھا۔ وہ ُاس کی کمر کے گِرد بازوں حمائیل کرتے ہوۓ اسے اپنی جانب کھینچھتے ہوۓ بولا جو ُاس کی مضبوط بانہوں میں پھڑپھڑا کے رہ گئ تھی۔

"کیوں خالی ہاتھ رہ گئ ہو کیا ُہوا ہے تمھارے ساتھ جو تم مجھ سے نظریں نہیں ِملارہی؟۔"

وہ اپنے ماتھے ہر بلوں کا اضافہ کرتے ہوۓ ُاس پر گرجا تھا, جو ناسازطبع کی وجہ سے سہم کر رہ گئ تھی۔

" تم جیسی تھی !!تم اب بھی ویسے ہی ہو!! 

وہ دانت پیستیں ہوۓ بولا ۔

"میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اور میں نے تمہیں نشے کی حالت میں  بھی بے لباس نہیں کیا"۔۔۔۔۔

وہ ُاس کی بڑی بڑی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا جن میں ُاس کے لیے حیرانگی کا ایک جہان آباد تھا وہ جانتا تھا کے وہ غلط سمجھ رہی سب کچھ جب ہی ُاس نے اسے ُکھل کر بتانے کا سوچ لیا تھا۔

",میں تمھارا نگہبان ہوں زھرہ کوئ لٹیرا نہیں جو تمہیں پامال کروگا ,انھوں نے تمھارے سامنے مجھے انجیکشن لگایا تھا جس کی وجہ سے مجھ سے یہ خطاضرور ہوئ تھی کے میں نے تم۔پر تشدد کیا تھا,جو میرے نزدیک ایک گناہ عظیم ہے اس کے لیے میں تمھارا مجرم ہوں تم مجھے جو چاہے سزا دے سکتی ہو".

وہ ٹھنڈے سرد لہجے میں اسے  بولا۔

"آپ-- سچ-- کہ-- رہے-- ہے --نا ؟"۔

وہ ہنوز بیچ منجھدار میں تھی۔جو روندھائ ہوئ آواز میں بولی تھی۔

مجھے تمہیں صفائ دینے کی کوئ ضرورت نہیں ہے زھرہ زین العابدین مگر میں پھر بھی تمہارے ضمیر کے لیے تمہیں جواب دے رہاہوں تم جیسے اپنی امی کے گھر سے آئ تھی تم۔ویسے ہی جارہی ہو "۔

وہ اپنی آنکھیں موندےاپنے رب کا شکر  ادا کرتے ہوۓ نہ تھک رہی تھی۔جن سے آنسوں موتیوں کی طرح بہ رہے تھے۔ اسے نظروں کی تپش کا ارتکاز ہوا,وہ دھیرے سے اپنی گھنی مڑی پلکوں کے چلمن کو اوپرکی جانب ُاٹھاتی ہوئ اسے دیکھنے لگی جو بڑی منہمک سے ان جھیل سی شفاف آنکھوں میں اپنا عکس ہلکورے لیتا دیکھ رہاتھا۔زھرہ کا اسے خود کو ایسے محویت سے دیکھنے پر اوسان خطا ہورہے تھے۔وہ جلد ہی اپنی گھنیری پلکوں کا پردہ گراۓ اپنی نظروں کا محور اس کے گریبان سے جھانکتی چین پر کر گئ تھی۔

"مجھے--پانی-- پینا --ہے --سر "۔

اس نے کپکپاتے لہجے میں اسے بولا تھا جو ُاس کے مضبوط قلعے میں کسمسارہی تھی زین العابدین نے ایک گہری سانس لیتے ہوۓ اسےاحتیاط سے اپنی مضبوط چار دیواری کے حصار سے آزادکیا تھا۔

"میں لے کر آتا ہوں "۔

یہ کہ کروہ باہر کی جانب داکٹڑ کے پاس بڑھ گیا تاکہ ُاس کے ہوش میں آنے کا انھیں بتاسکے اور پانی کا بھی پوچھ سکے۔

---------------------

Comments

Popular Posts