تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 14

 


     

 ARAZ RESHAB NOVEL'S 

Don't copy paste without my permission kindly.




__
ماضی:-
اسے مچھلیوں کے ساتھ اندر پڑے ہوۓ کافی دیر گزرگئ تھی اس وقت اسے شدید قسم۔کی ابکائ آرہی تھی ۔جب ہی اسے محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ نزدیک کھڑے باتیں کررہے ہیں وہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھے اس ڈبے میں دبکی بیٹھی تھی  اسے محسوس ہوا جیسے ڈبے کو کسی ٹڑالی پر رکھاگیا وہ خاموشی سے اپنی چیخوں کا گلا گھونٹتے ہوۓ خود کو اللہ کے حوالے کر چکی اس کے اعصاب نے کام۔کرنا چھوڑدیا تھا وہ مندی مندی آنکھوں سے خود کو ہوش میں رکھنے کی کوشش کررہی تھی بلآخر وہ اپنے اعصاب سے جنگ لڑتی ہوئ آخر کار ہار گئ کافی گھنٹوں کے بعد جب اسے ہوش آیا تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی برفیلی جگہ پر تھی جہاں پہ یہ بدبوں اس کی برداشت سے باہر ہوچکی تھی وہ لمبا سانس کھینچھتی ہوئ ڈبے سے باہر نکل آئ اور قے کرنے لگی اسے قے کرتے دیکھ کر ایک پچاس پچپن سال کا آدمی سر پہ نماز والی ٹوپی پہنے  جاۓ نماز تہ کرتا ہقا بقا سا اس کی جانب پلٹافیا نے نڈھال ہوکر  ارد گرد میں نظر دوڑائ تو وہ اسے کوئ کنٹینر لگ رہاتھا جس کے اندر ہوۓ سوراخوں سے سورج کی کرنیں داخل ہورہی تھی ۔
کون ہے آپ انڈین یا پاکستانی ؟"۔
وہ اس کے شلوار کمیز کو دیکھ کر اس سے اردو میں بولا جس پر فیا کی آنکھوں سے آنسوں زاروں قطار بہنے لگے ۔
"بہن مجھ پر بھروسہ کرو میں آپ کے بڑے بھائ جیسا ہوں اللہ نے چاہا تو میں آپ کی پوری مدد کروگا آپ بتاۓ کون ہیں آپ "۔
پھر فِیا نے اسے خود پر ہوۓ سارے ظلم کے بارے میں سب کچھ بتادیا ۔جسے سن کر حسین بھٹی کے آنکھوں سے آنسوں جھلک پڑے۔
"تم فکر مت کرو بہن اللہ نے تمہیں صحیح جہاز میں بٹھایا ہے۔"
حسین بھٹی کی بات سن کر فیا نے اس کی جانب حیرانگی سے دیکھا۔
"بیٹا یہ بحری جہاز ہیں جو بنگلہ دیش سے ہوتا ہوا پاکستان بھی جاۓ گا آپ اس وقت ایک مچھلیوں کے کنٹینر میں ہو جس کی ایک جگہ پر چیکنگ سختی سے ہوگی اگر آپ اس میں نکل گئ تو پھر آپ کو پاکستان جانے سے کوئ نہیں روک سکتا "۔
"آپ کو یہ سب کچھ کیسے معلوم ہے۔"۔
وہ آنکھوں میں حیرانگی سموۓ ہوۓ اس آدمی کو دیکھنے لگی جو اسے اس وقت اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ لگ رہاتھا۔
"بیٹے میں لوگوں سے پیسے لے کر انہیں غیر قانونی طریقے سے ایسے ملکوں میں بھجواتا ہوں جہاں وہ دو پیسے کما سکے ,بس جیسے جیسے میں کہتا رہوں آپ نے ویسے ہی کرنا ہے  پھر آپ کچھ ہی دنوں میں اپنے گھر ہوگی "۔
"پر میرے پاس تو پیسے ہی نہیں ہیے "۔
ِفیا پژمزدہ ہوئ اپنا سر جھکا گئ ۔
"ایسے وقتوں میں ہمیشہ جب کسی پر مشکل آتی ہےتو یہ حسین بھٹی کبھی پیچھے نہیں ہٹا ۔کچھ دیر میں ہی پوڑٹ پر تلاشی ہوگی وہ کرواکے پھر آپ بے شک باہر نکل آنا ۔
ُ"تلاشی کیسے کرنا ہوگی حسین بھائ "۔
وہ کنٹینر دیکھنے آئے گے جیسے ہی وہ اندر آۓ تب  آپ نے وہ اندر جو  کافی ساری  مچھلیوں سے بھری فریجیں  رکھی ہیں ان میں سے کسی ایک میں بیٹھ جانا اب چیکنگ کے دوران یہ آپ پر ہیں کے آپ کتنی دیر اس کے سخت ٹمپریچر میں رہ پاتی ہیں کے نہیں "۔۔
ِفیا نے حسین بھٹی کی بات سن  کر خود کو بے بسی کی آخری حد پر پایا تھا ۔
         _____________________________________
حال:-
وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا اس کے پیچھے ایک لڑکا بھی آیا جو ہاتھ میں ٹڑے تھامے باہر کی جانب نکل رہاتھا۔ زین العابدین نے اسے پکارا ۔
"یار چھوٹے ایک کام۔تو کرو یہ کھڑکی بند نہیں ہورہی بار بار ہوا سے کھل جاتی ہیں اس کا کوئ انتظام۔کرو "۔
اس نےکھڑکی کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ بولا ۔
"صاحب یہ کھڑکی بہت زمانے سے خراب ہیں پانی پڑنے کی وجہ سے پھول گیا ہیے۔جب تم۔دوبارہ آۓ گا نا تو ہم۔اسے ٹھیک کرالے گا"۔
وہ لڑکا زین العابدین کی جانب مسکراہٹ اچھالتا ہوا دروازے کی جانب جانے لگا جب ہی وہ ایک بار پھر پلٹا ۔
"یاد آیا صاحب یہاں اس موسم۔میں اکثر لومڑیاں اور تیندوے آجاتے ہیں تو آپ ذرا دیھان رکھنا "۔۔۔۔
وہ چہرے پہ شرارتی مسکراہٹ لیۓ زھرہ کی جانب دیکھتے ہوۓ باہر کی جانب بھاگ گیا ۔وہ اس کے لہجے میں چھپی شرارت کو اچھے سے سمجھ رہاتھا پر زھرہ حواس باختہ سی ہوئ اس کی جانب بڑھی ۔
"جب اتنا خطرہ ہیں یہاں پر تو ہم گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں اس سے اچھا "۔
وہ زین العابدین کو چہرے سے ہی ڈڑی سہمی سی لگ رہی تھی ۔
تم۔اس بچے کی باتوں میں آرہی ہوسیریسلی !!وہ مزاق کررہاتھا اور ویسے بھی ڈیڑ تمہاری جیسی شیرنی کو چھیڑ کر انہوں نے اپنی موت کو دعوت تھوڑی نہ دینی ہےاورمیں ایسا ِرسک اس موسم میں بلکل نہیں لے سکتا کے گاڑی میں جا کر بیٹھ جاؤں اب خاموشی سے جاکر سوجاؤ اور مجھے بھی سونے دو  "۔
وہ اپنا کوٹ اتار کے اس کی جانب اچھالتا ہوا زور لگا کر کھڑکی کو بند کرنے لگا جو اپنے سر سے اس کا کوٹ اتار کر پلنگ پر اچھال گئ تھی۔جب ہی ۔وہ زھرہ کے نزدیک  سے گزر کر پلنگ سے ایک تکیہ  اور کھیس اٹھا کر زمین پر بنائ اپنی جگہ پر  رکھ کر لال ٹین کی روشنی کو کم کرنے لگا۔جس سے کمرے کا ماحول مزید خوابناک سا ہوگیا تھا زھرہ نے اپنی تسلی کے لیے نیچے لیٹے انسان کو دیکھا جو منہ تک کھیس اوڑھے سوُچکا تھاوہ کمرے کے دونوں جانب پڑی چیزوں کو دیکھنے لگی جو اندھیرے کی وجہ سے اسے اور بھی زیادہ خوفناک لگ رہی تھی جب ہی تیز ہوا کے جھونکے سے کھڑکی ایک بار پھر کھل گئ وہ کچھ دیر  تک تو اس خوف سے جنگ عظیم کرتی رہی پھر تھک ہار کر اسے آواز دے بیٹھی۔
"سسسر !!
پہلے وہ آہستہ سے بولی پر کوئ جواب نہ ملنے پر وہ کھڑکی کی جانب دیکھنے لگی جہاں پہ چھایا ُگھپ اندھیرا اسے مزید خوف میں مبتلا کررہاتھا۔
"سر آپ جواب کیوں نہیں دے رہے"۔۔۔۔۔۔
اب کی بار زھرہ نے اونچی آواز میں بولتے ہوۓ اس کی جانب اوور کوٹ اچھالا جسے وہ منہ سے ہٹاتا ہوااس کی سمت دیکھنے لگا۔
"کیا مسئلہ ہے کیوں نہیں سورہی آپ "۔
وہ آنکھوں کو مسلتا ہوا اٹھ بیٹھا ۔
"سر وہ کھڑکی کھل گئ ہیے اگر کوئ جانور اندر آگیا تو"۔
زھرہ نے اسے دیکھتے ہوۓ دھیمے انداز میں کہا ۔
"dont tell me zahra".
 دوسروں کو ڈڑانے والی خود بھی ڈڑتی ہے ۔
"intresting"۔.
"ہوا کی وجہ سے وہ کھڑکی بند نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی میں  ڈڑائیو کر کے بہت زیادہ تھک۔ُچکا ہوں سو پلیز میں  ساری رات جاگ کر اس کی چوکیداری نہیں کرسکتا ۔اگر آپ کو زیادہ ڈڑ لگ رہاہے تو نیچے آجاؤ سونے میرے پاس "۔
زین العابدین نے اس کی جانب دیکھتے ہوۓ اپنے برابر میں اشارہ کیا جس کی بات ُسن کر اس کے اندر ایک برقی سی دوڑ گئ چہرہ خفت سے لال ہوگیاتھا جسے کچھ لمحوں تک تو زین العابدین گہری نگاہوں سے دیکھتا رہا پھر کچھ ہی دیر میں اپنی آنکھیں موند گیا ۔وہ اپنی شال اتار کر سائیڈ پہ رکھتے ہوۓ چہرے تک لحاف اوڑھے زین العابدین کو برے لفظوں سے نوازتی ہوئ  سونے کی کوشش کرنے لگی ابھی اسے آنکھیں بند کیۓ ہوۓ کچھ ہی دیر گزری تھی۔جب ہی اسے رات کے سناٹے میں یخ بستہ ہواؤں کے شور میں کسی بھیڑیے کی آواز سنائ دی جو ان پہاڑی علاقوں میں پایاجانا ایک عام۔سی بات تھی ۔ زھرہ ایک دم سے اٹھ کر پھر بیٹھ گئ ۔
"سرررر"۔
وہ ہکلاتے ہوۓ ایک بار پھر اسے ُپکارنے لگی جو گہری نیند میں جا چکا تھا ۔جب کافی دیر تک اس نے کوئ جواب نہیں دیا تو وہ۔دبے پاؤں  اپنا تکیہ اور لحاف ُاٹھاۓ اس کی پیچھے رکھ کر بیٹھ گئ جو کروٹ کے بل۔سورہا تھا ۔ وہ آیت الکرسی کا حصار کرتے ہوۓ اس سے تھوڑا پیچھے ہوکر لیٹ گئ مگر خوف تھا کے جانے کا نام نہیں لے رہاتھا جب ہی زھرہ نے ساری شرم۔کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ اپنا نازک ہاتھ زین العابدین کے فولادی بازوں کے گرد لپیٹا اور اطمینان سے  سوگئ کے زین العابدین کے ہوتے ہوۓ اسے کچھ نہیں ہوسکتا  ۔
_____________________________________________
صبح جب زین العابدین کی آنکھ کھلی تو اپنے نزدیک زھرہ کو سوتے دیکھ کر اسے کوئ حسین خواب سمجھا تھا ۔جو چہرے پہ بال پیھلاۓ جیسے چاند کے گرد بدلیہ پہرہ دے رہی ہو ,وہ آنکھیں موندے اس وقت کسی پری پیکر سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔جب ہی اس نے پورے استحقاق سے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے قلعے میں قید کیا تھاجس پر گہری نیند میں سوئ ہوئ زھرہ ہڑبڑا  گئ ۔اس افتاد پر جو اس کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپانے لگا۔
"چھوڑے مجھے سررر کیا کررہے ہے آپ "۔۔۔۔۔۔۔۔
زھرہ متوحش آنکھوں سے زین العابدین کی جانب دیکھنے لگی ,جوخمار آلود نگاہوں سے  زھرہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہاتھا جو نظروں کی تپش سے جھلس رہی تھی۔وہی زین العابدین جیسے ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔وہ زھرہ کو اپنے اتنے قریب نیم دراز دیکھ کر حیران رہ گیاتھا۔۔۔۔۔۔
"dont tell me."
کے تم۔رات میں ڈڑ کر میرے پاس سچ میں سونے آگئ تھی یا میں خواب دیکھ رہاہوں"۔۔۔۔۔۔
زین العابدین نے ہاتھ بڑھا کر آس کی مُڑی پلکوں کو چھواں جو اس سے بدک کر پیچھے ہونے کی  کررہی تھی۔
وہ اس کے اوپر سے اپنا حصار ہٹاتا ہوا سیدھا ہوکر لیٹ گیا۔
"تو کیا کرتی پھر اتنی بار تو آپ کو آوازیں لگائ تھی پر آپ تو جیسے گدھے گھوڑے بیچ کر سوۓ ہوۓتھے "۔۔۔۔
وہ تیکھے چتون اٹھا کے اس کی جانب دیکھنے لگی ۔
"ہاں تو اتنے اچھے خواب دیکھ رہا تھا تمہارے ساتھ اپنے گھر کے بس بچوں کا چہرہ دیکھنے ہی والا تھا کے تم۔نے مجھے اٹھا دیا"۔
وہ زھرہ کے پیچھے سے تکیہ اٹھا کر اپنے سینے سے لگاتا ہوا اس کی جانب کروٹ بدل گیا۔ جو اب بستر پر بیٹھی اپنے لمبے بالوں کو جوڑے کی شکل دے رہی تھی ۔
"انتہائ بے ہودہ انسان ہے آپ "۔
وہ اسے خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولی پھر شال کو اپنے گِرد لپیٹتی ہوئ کرسی کی جانب بڑھ گئ۔
"بہت شکریہ میری جان بندہ آپ کے القاب کو کبھی بھولیں گا نہیں "۔
زین العابدین مخمور سے لہجے میں بولتا ہوا ُاٹھ کر بیٹھ گیا پھر کچھ ہی دیر کے بعد زھرہ اور وہ ناشتہ مکمل کر کے باہر کی جانب نکل آۓ جہاں شیر علی کی کال پر وہ اوپر کی جانب بنی پکی سڑک کی طرف جارہے تھیں  کیوں کے راستہ بند ہونے کی۔وجہ سے انہیں تھوڑا دور چل کر۔جانا تھا ۔جہاں قدم قدم پر ہوش ربا فطری نظارے دیکھنے کو مل رہے تھیں رات کے اندھیرے کے وقت  اس جگہ پر سواۓ پانی کے گرنے کے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھاپر ابھی انھیں چلتے ہوۓ پانچ منٹ  ہی ہوۓ تھے کہ پہاڑ کی بلندی سے پانی تیزی سے نیچے گرتی ہوۓ نظر آرہا تھا۔وہ آبشار بہت بلند اور وسیع تھا ۔
تقریباً دس منٹ کی مسافت کے بعد سامنے آبشار کا پورا وجود نظر آنے لگا تھا ۔ جہاں پہ بلند سفید آبشار تھی۔ وہ برفیلے پہاڑوں سے رواں دواں ندیوں کی کھنکھناہٹ ،بہتے دریاؤں کی سریلی آوازوں، پرندوں کے زمزموں اور مویشیوں کے رقص کے ادغام سے یہاں کے ماحول کی دلکشی کو آنکھوں میں سموتی جارہی تھی ۔جب ہی اس کا پاؤں شاید زیادہ برف گری ہونے کی۔وجہ سے دھنسا تھا۔اس سے پہلے کے وہ لڑکھڑاتی زین العابدین نے اس کا مضبوطی سے ہاتھ تھام کر اسے اس کے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دی تھی ۔زھرہ کا اس وقت دل چاہ رہاتھا کے وہ  اس کی نگاہوں سے کہی دور چلی جاۓ جو سینے پہ بازوں لپیٹے اسے شوخ اور معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہاتھا جہاں قدم۔قدم پہ قسمت اسے زین العابدین کے نزدیک کررہی تھی  وہ انگلیوں کو چٹخاتے ہوۓ سامنے کی جانب دیکھتے ہوۓ چلنے لگی جہاں برف کی بچھی ہوئی سفید چادر کا پرکشش منظر پیش کررہاتھا ۔
انسان کے اندر کا موسم جیسا بھی ہو پر باہر کا موسم  دیکھنے والے کے دل و دماغ کے لئے فرحت و انبساط کا سامان کرتا ہے۔شاید زھرہ کے ساتھ بھی اس وقت یہی ہورہاتھا جب ہی پکی سڑک کے پاس آکر زین العابدین نے اس کا ہاتھ تھاما۔
"خاصی بیوی بیوی  سی لگ رہی ہو آج"۔۔۔۔
"My F16 "۔
وہ اس کے نزدیک ہوا کہنے لگا جس پر زھرہ منہ پھیر کر دوسری جانب دیکھنے لگی جانے کیوں رات سے اس کے اظہار کے بعد سے وہ خود کو بے بس سا محسوس کررہی تھی ,زبان الگ تالو سے چپک  گئ تھی اس کے ہاتھوں پیروں میں پسینہ آرہا تھا جب ہی زین العابدین چونکتے ہوۓ اسے اپنے حصار میں لیے پورا کا پوراپلٹ گیازھرہ جو اس افتاد کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی گو*لی کی آواز پر چونک اٹھی ۔
34
 ۔وہ حواس باختہ سی ہوئ زین العابدین کی جان دیکھنے لگی جو اسے اپنی مضبوط پناہوں میں لیے درخت کی اوٹ میں ہورہا تھا ۔
"سررررر"۔
وہ اپنے ہاتھ پر لگے خو*ن کو دیکھ کر خوفزدہ سی ہوئ زین العابدین کو کپکپاتی ہوئ آواز میں ُپکار اٹھی جو اس کے ہاتھ پہ لگے خو*ن کو دیکھ کر نظر انداز کرتا ہوا اپنی جیب سے فون نکالنے لگا۔
"سرر---یہ--- خو*ن --ہے۔آپ---- کو گو*لی لگی ہے "۔
زھرہ متوحش زدہ سی ہوئ اس کی جانب دیکھنے لگی جو شاید بہت مضبوط اعصاب کا مالک تھا گولی لگنے کے باوجود  بھی ایسے نڈڑ انداز میں کھڑا تھا۔
Relax!!!.
"میں ٹھیک ہوں زھرہ"۔
وہ بظاہر تو اس کو تسلی دے رہاتھا پر اندرونی طور پر وہ سخت پریشانی کا شکار تھا کیوں کے ِاس وقت اس کے ساتھ زھرہ کی موجودگی کسی خطرے سے کم نہ تھی ۔جہاں دشمن شاید جدیداسلحہ سے لیس تھا,وہی وہ بلکل خالی ہاتھ تھا ۔ُاس کی اپنی ذاتی گن بھی ِاس وقت گاڑی میں موجود تھی ۔۔
وہ اضطرابی حالت میں شیر علی کو کال ملارہاتھا تاکہ زھرہ کو کسی بھی طرح یہاں سے باحفاظت نکال سکے پھر ان کے لیے تو وہ اکیلا بھی کافی تھا۔جب ہی کسی نے پیچھے کی جانب سے زین العابدین کے سر پر گن تان دی ۔
"باہر نکلو دونوں "۔
پیچھے کھڑے آدمی نے سرد لہجے میں انھیں مخاطب کیا جس پر زین العابدین نےطیش میں آتے ہوۓ اپنی کہنی کو پیچھے کی جانب سے اس کے پیٹ پہ ضرب لگائ جس پہ وہ ِبلبلاُاٹھا,اسے بناکوئ دوسرا موقع دیۓ زین العابدین نے اس کے گ*ن والے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیۓ سختی سے مڑوڑا جس سے اس کے ہاتھ سے گ*ن ُچھوٹ کر زمین بوس ہوگئ وہ اندھا دھند ُاس پہ وار کرتے ہوۓ اسے غنودہ کرچکاتھا۔جب ہی وہ زھرہ کی آواز پہ پیچھے کی جانب پلٹا جہاں دو اور نقاب پوش زھرہ پہ گ*ن تانے کھڑے تھیں۔صبح کے وقت اس جگہ پر سواۓ چرند پرند کے اور پہاڑوں سے گِرتے آبشار کے علاوہ ہر سو ہوں کا عالم تھا ۔
"drop the g*n"۔
وہ زھرہ کے سر پہ گ*ن تانے ہوۓ زین العابدین کو اپنی گ*ن پھینکنے کے لیے کہنے لگا جو الجھن کا شکار ہوۓ زھرہ کی جانب دیکھنے لگا جب ہی اس نے بے بسی سے اپنی گ*ن زمین پہ پھینکتے ہوۓ ہاتھ کھڑے کرلیے۔
"میں نے گ*ن پھینک دی ہے اب اسے چھوڑدو"۔
وہ پھنکارتے ہوۓ ان سے بولا جو زھرہ کے سر پہ گ*ن تانے ہوۓ کھڑے تھیں جو اپنی موت کو اتنے نزدیک سے دیکھ کر ہولے ہولے کانپ رہی تھی ۔
"چھوڑ دیتے ہے صاحب جی اتنی بھی کیاجلدی ہے "۔
ایک مسلح نقاب پوش زین العابدین کی جانب دیکھتے ہوۓ بولا جو اپنے بازوں کو ُبھلاۓ صرف زھرہ کو دیکھ رہاتھا جو  خوف زدہ سی ہوئ ان کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کررہی تھی۔
"اوۓ رانے یہ گ*ن اٹھا زمین سے اور اس باؤں کے ہاتھ باندھ جلدی !!وقت نہیں ہے ہمارے پاس ,اور زیادہ ہوشیاری کرے گا تو گو*لی ماردی کڑی نوں (لڑکی کو گو*لی ماردینا ) چل کڑیئیے (چلو لڑکی) "۔
وہ زھرہ کے سر پہ گ*ن تانے ہوۓ اسے آگے کی جانب چلنے کے لیے کہنے لگا,جو ُمسلسل ان سے اپنے ہاتھ آزاد کروانے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔جب ہی دور کھڑا  زین العابدین  یہ دیکھ کر  اپنے اندر پنپتے غصے پہ قابوں نا رکھ سکا جو وہ مصلحتاً زھرہ کی وجہ سے برداشت کررہاتھا تاکہ وہ اسے کوئ نقصان نا پہنچاسکے ,وہ پہ در پہ اپنے برابر کھڑے آدمی کو مکوں لاتوں سے نوازتا رہا جو ُاس جیسے باڈی بلڈڑ کے لیےباۓ ہاتھ کا کام تھا۔جب ہی زھرہ پہ گن تانے آدمی نے ہوائ فائر کیا جس پر زین العابدین نے چونک کر سامنے کی جانب دیکھا جہاں وہ آدمی ایک بار ہھر زھرہ پہ نشانہ باندھے کھڑا تھا۔
"اب اگر تو نے میرے کسی آدمی کو ہاتھ بھی لگایاتو اگلی بار یہ گو*لی اس کے بھیجے میں ہوگی سمجھا ۔"۔
اس نے گ*ن زھرہ کے سر پہ تانی ہوئ تھی۔جو ناتواں سی تھی جس کے آنسوں عارض  پہ بہ رہے تھیں جنہیں زین العابدین دیکھ کر بے چین سا ہوگیا ۔
دوسرا آدمی زمین سے اٹھ کر اپنی گ*ن کو ُاٹھاتے ہوۓ زین العابدین کے سر پہ ضرب لگاگیا۔جس سے وہ تکلیف سے اپنی آنکھیں میچتا ہوا سامنے کی سمت دیکھنے لگا مگر ُاس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا وہ سر کو جھٹکتے ہوۓ اپنے حواسوں کوقابوں کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔مگر اس کے اعصاب اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے وہ زھرہ کی وجہ سے خود کو بے بس محسوس کرہاتھا ۔جب ہی اس کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی ۔
سرر پلیز آنکھیں کھولے سر مجھے بچالے سر "۔
وہ ہدیانی انداز میں چیخ رہی تھی جو اسے زبردستی جِیپ کی۔جانب دھکیل رہیں تھیں۔وہ کوشش کے باوجود بھی خود کو ان کی قید سے نہیں آزاد کرپارہاتھا جب ہی اس کی آنکھوں کے آگے مکمل اندھیرا چھاگیاتھا ۔جو آخری آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی وہ زھرہ کی تھی ۔
"سر"۔
----------------------------------------------------
ماضی:-
"وہ اپنی سرزمین پہ قدم رکھتے ہی سر سجدے میں گراگئ جو اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھی کے اس نے اس کی عزت کی حفاظت کے لیے اس نیک انسان کو بھیجا تھا جو اب باضد تھا کے وہ اسے اس کے گھر والوں کے حوالے کر کے ہی اپنی زمہ داری سے سبک دوش ہوگا کوچوان نے جیسے ہی ٹانگے کو روکا,فیا دیوانہ وار اپنے گاؤں ویرم کی تنگ گلی میں داخل ہوگئ جہاں سب سے پہلا کچا مکان ُاسی کا تھا ۔وہ لکڑی کے دروازے پہ اپنے نازک ہاتھوں سے دستک دے رہی تھی جب ہی  نۓ چہرے کو سامنے دیکھ کر فیا اسے پیچھے کی جانب دھکیلتے ہوۓاپنے گھر کے اندر داخل ہوگئ۔جہاں گھر کا پورا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔
"یہاں میرے بھائ بھابھی رہتے تھیں وہ کہا گۓ ؟۔"۔
وہ متحیر ہوئ انھیں دیکھ رہی تھی ۔
"کون سا بھائ بیٹا ہم نے یہ زمین چودھری صاحب سے خریدی ہے آپ کہی اور پتہ کرے "۔
وہ بابا جی الجھن کا شکار ہوۓ فِیا کے لباس کو دیکھتے ہوۓ بولے جو تیزی سے باہر کی جانب بھاگی تھی ,اس دوران بھٹی حسین بھی اس کے پیچھے آ چکا تھا وہ اپنے برابر والوں کے گھر میں داخل ہوئ۔
"خالا چھمی میرا بھائ کہا ہے "۔
فِیا آنکھوں میں آنسوں سموۓ ہوۓ رندھائ آواز میں بولی ۔
"فِیآ پتر !!کیا تیری بھابھی نے تجھے ولایت میں کوئ تار(خط) نہیں بھیجا تھا"۔
چھمی خالا نے آدھی اردو آدھی پنجابی میں حیران سی فِیا کی جانب دیکھتے ہوۓ پوچھا  ۔
"نہیں خالا مجھے نہیں پتہ آپ بتاۓ وہ کہا ہے "۔
اس کی سانسیں تھمنے لگی تھی۔
"پتر اک بری خبر اے تیرے لئ"۔
بیٹا آپ کے لیے ایک بری خبر ہے ۔
"پتر پچھلے مینے دی گل ہے تیرے پرا نوں تے بچیاں نوں کوئ بڑی بے رحمی نال قتل کرگیا سی ,سانوں ساریاں نوں اگلے دن پتہ چلیا سی جدو نال دی تواڈے کار گئ سی ,فیر کوتوالیوں دروغہ آیا سی اونے ہی رپٹ لکھی سی تے ہنے تِکت ایہو ئ گل سامنے آئ آ ,کے شاید تیری پابھی نے کسے دےنال رل کے تیرے پرا نوں تے اپنےبچیاں نوں مار کے نس گئ اے"۔
"پتر پچھلے مہینے تیرے بھائ اور بچوں کا کوئ سفاکیت سے قتل کرگیاتھا ,ہم سب کو تو اگلے دن پتہ چلا تھا جب ساتھ والی تمہارے گھر گئ تھی ,پھر کوتوالی سے دروغہ آیا تھا ِاس نے رپٹ لکھی تھی جس میں بات ابھی تک تو یہی سامنے آئ ہے کے تیری بھابھی نے کسی کے ساتھ مل کر سب کو مارا تھا اور اسی کے ساتھ وہ شاید بھاگ "۔
وہ  خالا چھمی کی بات سن کر نیچے کی جانب بیٹھتی چلی گئ۔جو ہچکیوں سے روتی ہوئ وہی بے ہوش ہوکر پیچھے کی جانب اپنا سر گرا گئ تھی ۔
"نی کڑیوں پج کے آؤ ایتھے اے ویکھوں ِفیا نوں کی ہویا اے جاؤ حکیم صاب نوں لے کے آؤ"۔
(لڑکیوں ادھر آؤ جلدی سے آکر دیکھوں ِفیا کو کیا ہوگیا ہے ,جاؤ حکیم صاحب کو بُلا کے لاؤ )۔
کچھ ہی دیر میں گاؤں کی ساری بڑی بوڑھی عورتیں فیا کو دیکھنے خالا چھمی کے گھر آنا شروع ہوگئ تھی۔جہاں حکیم صاحب کے انکشاف پر ساری عورتوں نے اپنے چہروں کو شرم کے مارے ڈھک لیا ۔
"کڑی نوں کمزوری ہوگئ ہے چنگا ہوۓ گا جے تُسی اینوں کسی دائ نوں وکھاؤ"۔
لڑکی کمزوری سے بے ہوش ہوئ ہے بہتر ہوگا آپ اسے کسی دائ کو دکھاۓ۔
جب ہی فیا کو ہوش آنے لگا ,جو اپنے دکھتے سر کو تھامتے ہوۓ اُٹھ کر بیٹھ گئ ۔
"نی کڑئیے اے کیرا گناہ لے کے ساڈے کار آگئ ہے؟۔ "۔
اے لڑکی یہ کس کا گناہ لے کر ہمارے گھر آگئ ہے
چھمی خالا آنکھوں میں غصہ سموۓ ہوۓ فِیا کی جانب دیکھنے لگی ۔
"خالا میں سمجھی نہیں "۔
اس کی نیلی آنکھوں میں سمندر امڈ آیا تھا پر وہ خالا اور دوسری عورتوں کی آنکھوں میں اپنے لیے غم وغصہ دیکھ کر ہراساں ہوگئ تھی۔
"ہن تو مِسکین بن کے منوں نا ویکھ اینجھ ,تیرے کار بچا ہون والا اے "۔

"اب تم مسکین بن کر مجھے نا ایسے دیکھوں تمہارے گھر بچہ ہونے والا ہے "
اس کی دل کی ڈھڑکنیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح ٹڑپنے لگی تھی کے اللہ نے یہ خوشی کی خبراسے ایسے وقت میں دی تھی جب اس کی خوشی منانے والا ہی اس دنیا میں موجود نہیں تھا۔
"خالا آپ یہ کیا کہ رہی ہے میں نے کوئ گناہ نہیں کیا میرا نکاح ہوا تھا "۔
وہ غیر ہوتی حالت کی پرواہ کیے بغیر چلا ُاٹھی تھی۔
"اچھا تو دِکھاؤ کہا ہے نکاح نامہ "۔
ایک اور عورت نے فیا کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوۓ کہا ۔
"میرے پاس نکاح نامہ نہیں ہے "۔
اس وقت اس پر جو افتاد آن پڑی تھی اس سے اس کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلا حیتیں جیسے مفلوج ہوچکی تھی ۔
"ویکھیا باجی میں نئ کیندی سا کے بار دی ہوا کُڑیاں نوں خراب کردی اے ,ویکھ لاؤ "۔
"دیکھا میں نے کہتی تھی کے باہر کی ہوا سے لڑکیاں خراب ہوجاتی ہے دیکھ لو"۔
                                  ۞۞۞۞۞۞۞۞


Comments

Popular Posts