تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 11
ARAZ RESHAB NOVELS
Dont copy paste without my permission kindly.
زھرہ کو حمنا تنویر اپنے ساتھ تقریباًزبردستی بازار خریداری کے لیے لے گئ تھی جہاں سے انہوں نے اسے لونگ کوٹز ,جوتے مفلر ,اور سردی کے حوالے سے جو ضروریات زندگی تھی ان سب چیزوں کی خریداری کی ۔۔جب ہی ہمنا تنویر ایک دکان کی جانب جا کر کھڑی ہوگئ۔
"میم۔چلے اب کافی دیر ہوگئ ہے امی انتظار کررہی ہوگی۔"
وہ ہمنا تنویر کی تقلید میں دکان کے اندر داخل ہوگئ ۔
"بس یہ جینز لے لو پھر چلتے ہیں "۔
ہمنا تنویر نے اس کے ساتھ پینٹ لگاتے ہوۓ بولا ۔
"میم میں نہیں پہنتی یہ "۔
زھرہ ہلکا سا منمناتے ہوۓ پیچھے کی جانب ہوئی ۔
"لڑکی ُگھٹنوں تک کی برف ہوتی ہے وہاں کی جہاں ہم نے جانا ہے شرافت سے یہ لو اسے , "۔
وہ ہمنا تنویر کی بارعب شخصیت کے ڈڑ سے ایک جینز کی پینٹ لینے میں شش و پنج کا شکار ہورہی تھی جس میں بالآخر جیت ہمنا تنویر کی ہوئی، پھر شاپنگ میں دوگھنٹےلگا کر ہمنا تنویر نے اسے آفس کے لیے شلوار کمیز ,شوز اور ہینڈ بیگز بھی دِلوائیں اور کچھ یوں زھرہ خان گھر شاپروں سے لدی ہوئی واپس لوٹی۔
________
"امی مجھے سات بجے نکلنا ہے اب بتاۓ نہ میں کیا کروں "۔
زھرہ نے ُجنجھلاتے ہوۓ اپنی ماں کی جانب دیکھا جو زھرہ کے جانے سے پریشان ہوکر بیٹھی اس کی ہتھیلیوں پر مہندی لگارہی تھی۔
"کرنا کیا ہے بیٹے اپنے کام کو لگن سے کرو تاکہ اللّہ تمیں کامیابیوں سے ہمکنار کرے "۔
فوزیہ نے بیٹی کو ایک ہاتھ سے گلے لگاتے ہوۓ اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔
"اچھا امی آپ میری پیاری امی ہے نہ!! تو پلیز پتہ نہیں کیسے میرے زہن سے نکل گیا, میری چین غائب ہے کافی دنوں سے آفس کے چکروں میں میرے زہن سے بلکل نکل گیا تھا ۔آپ میرے جانے کے بعد بھی اچھے سے گھر میں ڈھونڈنا آپ کو پتہ ہے نہ وہ بابا کی آخری نشانی ہے جو مجھ سے ُگم ہوگئ ہے"۔
وہ آبدیدہ ہوکر اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی کودیکھنے لگی ۔
"مل جاۓ گی لڑکی کیا ہوگیا ہے میں خود ڈھونڈ کر دوں گی اپنی بچی کو اب یہ آنسوں نہ بہانا چل سوجا شاباش صبح پھر جلدی بھی ُاٹھنا ہے اور یہ مہندی بھی سوکھالے جلدی "۔
"لگتا ہے آج میری ماں کو پھر کسی باباجی نے بے وقوف بنایا ہے کے بیٹی کو یہ کراماتی مہندی لگاؤ گی تو شادی جلدی ہوجاۓ گی "۔
زھرہ کے چہرے میں چھپی شرارت دیکھ کر فوزیہ نے اسے ایک دھموکاجڑا ۔
چل ہٹ پگلی یہ تو اللہ کے کام ہے وہ ہی جانے تو دیھان سے سونا کہی سوتے میں گیلی مہندی کی چھاپ منہ پہ لگ جاۓ "۔
"جی امی "۔
زھرہ کسلمندی سے ُاٹھتی ہوئی نیچے فرش پر ِبچھے اپنے بستر پر نیم دراز ہوگئ تھی ۔اس نے جیسے ہی آنکھیں موندی چھم سے ایک مغرور چہرہ اس کی آنکھوں میں آسمایا زھرہ نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھول دی۔
۔"سونے بھی چین سے نہیں دیتے سڑیل "۔وہ ُکھلی آنکھوں سے چھت کو دیکھتے ہوۓ بڑبڑانے لگی ,یونہی سوچتے سوچتے جانے کب نیند کی وادی میں ُگم۔ہوئ اسے خود بھی معلوم۔نہ ہوا ۔
۞۞۞۞۞۞
ایک گھنٹہ پچپن منٹ کی فلائیٹ لے کر وہ سب باچا خان ایرپوڑٹ سے باہر نکلےجہاں سے انہوں نے پرائیوٹ بس کرواکے تین گھنٹے کی مسافت پر شوگران کے لیے نکلنا تھا ۔
"بس میں کون کون بیٹھ رہا ہیں "۔
زین العابدین نے سوالیہ انداز میں اپنے مینیجر معاز سے پوچھا ۔
"سر بس میں کراچی سے آۓ ہوۓ اسٹاف کے چند میمبرز اور باقی ساری آڑٹ ڈاریکٹڑ نے جو اپنی ٹیم لے کر جانی ہے وہ لوگ بیٹھیں گے "۔
معاز نے اپنے خوبرو بوس کو دیکھا جوکالے ٹڑاؤزر ٹی شرٹ پر کالااپر پہنے عام سے ہلیے میں بھی ہینڈسم لگ رہاتھا ۔
"ٹھیک ہے سب کو بٹھاوں اس میں اور جلدی نکلو ہمیں شام سے پہلے پہنچنا ہیں "۔
وہ شاہانہ چال چلتا ہوا سگریٹ کو انگلیوں کو میں دباۓ واپس گاڑی کی جانب قدم بڑھانے لگاجہاں اس کے لیے معاز نے رینج روور ارینج کی ہوئ تھی جس میں فرنٹ سیٹ پر ہالے جب کے پچھلی ِسیٹ پر ونیزہ بڑے ٹھاٹ سے بیٹھی ہوئ تھی سگریٹ پیتے زین العابدین نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ جہاں زھرہ ہمنا تنویر کے ساتھ ریسٹ روم سےباہر آرہی تھی وہ لال اوور کوٹ ہاتھ میں تھامے خاکی رنگ کے شلوار کمیز پر پشمینا کی ہمرنگ شال اوڑھے اپنی لمبوں بالوں کی چوٹی باندھےجس میں جابجا بکھریے بالوں کی لٹِیں اس کےعارض کو چُھورہی تھی اس وقت قدرت کی خوبصورت کاری گری کا منہ بولتا ثبوت لگ رہی تھی۔وہ ہمنا تنویر کو دیکھنیں لگی جو فون کی بجتی بیل کو دیکھ کر وہی ُرک گئ تھی,زھرہ بوجھل قدموں کے ساتھ ہارن کرتی بس کی جانب بڑھنے لگی تھی جس میں اس کے آفس کا اسٹاف بیٹھا ُہوا تھا وہ جیسے ہی سگریٹ پیتے زین العابدین کے نزدیک سے گزر کر جانے لگی تو وہ ایک دم سے اسے آواز دے بیٹھا ۔
"کِدھر جار ہی ہو "۔
زین العابدین نے ماتھے پر بل ڈالے سوالیہ انداز میں زھرہ کی جانب دیکھا جو بس میں بیٹھنے کے لیے جارہی تھی ۔
"سر بس میں بیٹھنے جارہی تھی اسٹاف کے ساتھ "۔
وہ نرم لہجے میں کہ کر اپنے قدم آگے کی جانب بڑھانے لگی کے اس کی آواز نے اس کے بڑھتے قدم روک لیے۔
"چل کر گاڑی میں بیٹھوں میرے ساتھ ِبنا کوئ scene create کیۓ ,ورنہ نہ جانے کی صورت میں میری کسی بھی طرح کی پیش رفت آپ کو پسند نہیں آۓ گی مِس خان اس لیے جلدی سےآؤ "۔
وہ سڑک پر سگریٹ پھینک کر اسے اپنے جاگرز کی مدد سے ُبجھاتا ہوا زھرہ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا ہواچلاگیا ۔جب کے دور بیٹھی گاڑی میں ہالے سے یہ منظر ُچھپا نہ تھا وہ زھرہ کے گاڑی میں بیٹھنے پر پہلوں بدل کر رہ گئ تھی ۔
""ہمنا گاڑی میں بیٹھو جلدی "۔۔۔۔۔۔
زین العابدین کی آواز پر ہمنا تنویر فون کو بند کرتے ہوۓ گاڑی کی جانب بڑھ گئ۔ نامساعد حالات میں برف سے ڈھکے انتہائی دشوار گزار راستوں سے
گزرتے ہوۓ زھرہ بڑی وہ بڑی محویت سے سے کھڑکی سے باہر گزرتی ان حسین وادیوں کو دیکھ رہی تھی وہی ہالے اور ونیزہ اپنے اپنے موبائلوں میں ُگم سنجیدہ سی بیٹھی تھی جب ہی ہالے کی آواز نے گاڑی میں چھائ خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا۔
"ویسے زھرہ تم نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا اتنی بڑی گاڑی میں سفر کرنے کا یا جہاذ میں بیٹھنے کا ٹھیک کہ رہی ہوں نہ "۔
ہالے استہزائیہ انداز میں پیچھے کی جانب ُمڑتے ہوۓ اسے سپاٹ چہرے سے بولنے لگی جو سب کے سامنے ہالے کا ایسا انداز ہضم نہیں کرپارہی تھی ۔
"ٹھیک کہا میم آپ نے!! میں ایسی دنیا وی چیزوں میں رہنے کے لیے بلکل نہیں سوچتی ,رہنے کے لیے صحیح جگہ انسان کی اوقات ہوتی ہے اور میں میری اوقات سے کبھی باہر کا نہیں سوچتی"
وہ ہالے کو اپنی قٹیلی نظروں سے گھورتے ہوۓ واپس باہر کے منظر میں کھوگئ, زین العابدین زھرہ کی جانب سے ہالے کو اس قدر برجستہ جواب دینے پہ اپنے لبوں پر امڈ آاانے والی مسکراہٹ کو گھنی منچھوں تلے چھپا گیا ,ساڑھے تین گھنٹے کی دشوارگزار ڈڑایئونگ کرکے وہ لوگ ریسٹ ہاؤس پہنچیں جہاں سب پہنچتیں ہی اپنے اپنے ملنے والے کمروں کی جانب بڑھ گۓ ۔انتظامیاں نے ریسٹ ہاؤس کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے اس کے آگے چھوٹے چھوٹے سے کیمپس لگاۓ ہوۓ تھیں جو آنے والے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے تھیں ۔
۞۞۞۞۞۞
وہ سینے میں ُچھپے سربستہ دل ُخوش کن رازلیےاسےمدھر ، لمس سے لبریز مزاحمت کرتی یخ بستہ ہواﺅں میں جلتی لکڑیوں کی روشنی میں کرسی پہ بیٹھے دیکھ رہا تھا جو اپنے آپ میں ُگم کوفی کا گرم مگ ہاتھ میں تھامے کسی گہری سوچ میں ُگم تھی ۔جب ہی زھرہ نےکسی کی گہری نظروں کی تپش سے چونک کر اپنے سامنے دیکھا جہاں ہر کوئ اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھا اور وہ !!!
وہ بھی تو اپنے موبائل پر ُجھکا ہوا تھا ,جسے معلوم تھا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔
"تو پھر شاید مجھے وہم ہوا ہو"۔
,وہ اپنے آپ سے بڑبڑاتے ہوۓ کہنے لگی اور اپنا سارا دیھان اپنے موبائل پر مرکوز کردیا ۔
سامنے بیٹھے زین العابدین کے چہرے پہ ایک مخصوص سی مسکراہٹ چھاگئ تھی جس پہ ہالے کی آواز نے خلل ڈالا ۔
"زین کوفی پیوگے "۔
ہالے نے کوفی کا گھونٹ بھرتے ہوۓ اس کی جانب بڑھایا۔
"نہیں میرا موڈ نہیں ہے تم پیو "۔
وہ سگریٹ کا ُدھواں ہوا میں چھوڑتا ہوا سر نہ میں ہلا کر اسے منع کرگیا اور ایک بار پھر سے اپنی نظریں موبائل پر مرکوز کردی۔
"جوٹھا پینے سے پیار بڑھتا ہے زین ایک سپ لگا لو "۔۔۔۔۔۔۔
وہ تا ہنوز اس کی جانب مگ بڑھاتے ہوۓ بولی جسے اس کے کھڑے ہونے سے اب الجھن ہورہی تھی۔
"سوری ڈیر پر میں جوٹھن نہیں پیتا"۔۔۔۔۔۔
وہ مصروف سے انداز میں بولا جس کے جواب نے ہالے کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید کردیا ۔
ْزین تم مجھے اگنور کیوں کررہے ہو"۔
ہالے نے لکڑیوں کی جلتی روشنیوں میں زین العابدین کو غور سے دیکھا جس کی تو جہ کا مرکز سامنے بیٹھی زھرہ خان تھی ۔جسے دیکھ کے وہ ایک بار پھر حسد کی آگ میں
"میں تمہیں اگنور نہیں کررہا ,میں تمہیں بہت زیادہ اگنور کررہاہوں ,"
ْوہ اس پہ سرد سی نظرڈال کر ایک بار پھر اپنے موبائل پہ مصروف ہوگیا ۔
"اور ہاں ہالے تم یہ مت سمجھنا مجھے کسی بھی بات کا علم۔نہیں ,تم نے جوکل ہمنا کے آفس میں زھرہ کو جان بوجھ کر گرایا تھا میں نےاسے تمہاری پہلی غلطی سمجھ کر معاف کردیا اگلی بار سوال نہیں کروں گا اس کی سزا دوں گا "۔۔۔۔۔۔
وہ سنجیدہ انداز میں بولا ۔
جب ہی ہالے کو ہمنا نے آواز لگائ تو وہ زین العابدین پہ ایک شکایتی نظر ڈالتی ہوئ کوفی کا مگ ہاتھ میں تھامے اس کی جانب بڑھ گئ جو کیمپ کے نزدیک باربی کیو بنانے میں مصروف تھی ۔ہالے کے جانے کے بعد زین العابدین نے اپنا ُجھکا سر ایک بار پھر ُاٹھایا اس بار سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی رگوں میں خون کی فشار بلند ہوگئ وہ سگریٹ زمین پہ مسلتا ُہوا تیزی سے ُاٹھ کر اس جانب بڑھا جہاں زھرہ کے سامنے والی کرسی پر فریدون بیٹھا تھا
"If u dont mind ,Can i join you?. ".
وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجاۓزھرہ کے برابر والی کرسی پہ بیٹھتے ہوۓ فریدون کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھنے لگا جو اس کی چھا جانے والی شخصیت سے گھبرا کر فوراً بولا
"ya sure sir"...
فریدون ہڑبڑی میں اپنی کرسی سے کھڑا ہوکر اسے بیٹھنے کے لیے کہنے لگا جو زھرہ کے ہاتھ سے استحقاق سے کوفی کا مگ تھامے پینے لگا و ہ ہونقوں کی طرح اسے مزے سے اپنی کوفی پیتےہوۓ دیکھ رہی تھی کچھ ایسا ہی حال فریدون اور ہالے کا تھا جو سامنے بیٹھے زین العابدین کو دھونس سے کوفی پیتے دیکھ رہے تھے۔
"what happen Miss khan,why are you stairing at me? ".
اس نے آئ برو اچکا کے زھرہ کی جانب سوالیہ انداز میں پوچھا جو اسے سرد نگاہوں سے گُھورہی تھی
"سر آپ نے میری کوفی لے لی ہے "۔
اس نےدانت پیستیں ہوۓ سپاٹ چہرے کے ساتھ کہا جسےفریدون کے سامنے شدید سبکی محسوس ہورہی تھی ۔
"تو آپ اور لے آۓ مس خان "۔
زین العابدین نے استہزائیہ انداز میں کہ کراس کی حالت سے لطف ُاٹھاتے ہوۓ اسے کوفی مشین کی جانب اشارہ کیا ۔
"سر یہ میری جوٹھی کوفی ہے "۔
اب کی بار زھرہ نے غرا کر دھیمی آواز میں کہا ۔
"اچھا تو اور بھی اچھی بات ہے ابھی ابھی مجھے پہ یہ انکشاف ہوا ہے کےجوٹھا پینے سے پیار بڑھتا ہے چلے اسی بہانے آپ انگارے چبانہ تو کم کردے گی "۔
وہ بھی اسی کے انداز میں دھیمے آواز میں بولا کے نزدیک بیٹھے فریدون کو اس سرد جنگ کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی تو وہ ایکسکیوز کرتا ہوا ُاٹھ بیٹھا ۔
"آپ اپنی یہ ِچیپ باتیں اپنے تک محدود رکھا کرے یا اپنی اس منگیتر سے کیا کرے آج کے بعد مجھ سے اس انداز میں بات کرکے مجھے اسٹاف کے سامنے مشکوک مت کیجیے گا "۔
زھرہ چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوۓ خفگی بھرے انداز میں اسے باور کرواگئ جو اس کی بات کو سنے ِبنا اس کی مخروطی انگلیوں کی جانب نظریں گاڑھے ہوا تھا, بے اختیار اس نے ان دودھیاں ہتھیلیوں کو دیکھاجس کے اندر لگی سادی ٹیکیے والی مہندی کو وہ بے خودی میں دیکھے گیا ۔جس کا رنگ بہت گہرا تھا۔
"میں نے آج سے پہلے اتنے خوبصورت ہاتھ نہیں دیکھے"۔
وہ چہرے پہ مخصوص سی مسکراہٹ لیے اسے بے خود سا دیکھے گیا جس پر زھرہ سٹپٹا کر رہ گئ اس نے گھبرا کر اپنے ارد گرد میں دیکھا مگر کوئ بھی ان کی جانب متوجہ نہیں تھا وہ خاموشی سے زین العابدین کو بنا کوئ جواب دیۓ کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوے چلی گئ , زین العابدین اس کے اس طرح اطراف میں نظر دوڑا کر دیکھنے پر اپنے چہرے پر امڈ آنے والی مسکراہٹ کو بلکل نہ روک سکا
۞۞۞۞۞۞
ماضی:-
عظیم جیسے ہی ڈوک پہ پہنچا تو ُاسے ایک آدمی اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرنے لگا ,وہ ایک لمبی سانس لے کر اس کے پیچھے اپنے قدم بڑھانے لگا ,ان دونوں نے ابھی کچھ دیر کی ہی مسافت طے کی تھی کے فرش پر پڑے مچھلیوں کے ڈھیڑ کے نزدیک اسے فِیا زمین پر بے ہوش پڑی نظر آرہی تھی اُس سے کچھ فاصلے پہ رسیوں میں لِپٹا ڈی کے دِکھائ دیا جو کافی ُبری حالت میں تھا ۔ان دونوں کو ایسی حالت میں دیکھ کر عظیم کے اندر دہکتا ُہوالاوا ابلنے لگامگر اسے ِاس وقت ہوش سے کام لیتے ہوۓ ان دونوں کی پہلے جان بچانا ضروری تھا
"آؤ عظیم صاحب کیسے آنا ہُوا!! آج یہاں کا راستہ کیسے بھول گۓ ؟۔کہی کوئ لڑکی لینے تو نہیں آۓ تھے ؟۔
شائین ہیے نے عظیم کو دیکھتے ہوۓ اپنی جیب سے گن نکال کر ڈی کے سر پر فائر کیا جس پہ دور کھڑےعظیم خان کی غصے سے رگیں تن گئ۔
"تمہیں کیا لگا اس جیسے لوگوں کو میرے درمیان میں رکھنے سے تم مجھ تک پہنچ جاؤ گے تو یہ تمہاری ُبھول تھی جس کا خمیازہ ان سب کو بھوگتنا پڑیں گا خاص کرجو تمہارے منظورِ نظر ہیں "۔
وہ دو قدم چل کر بے ہوش پڑی فِیا کے نزدیک گیا ۔
"اپنی گن پانی میں پھینکوں ورنہ میں اسے بھی گولی ماردوں گا "۔
شائین ہیے نے سرد انداز میں عظیم خان کو کہا جس نے فوراً اس کی بات پر عمل کرتے ہوۓ اپنی گن نکال کر پانی میں پھینک دی ۔
"تمہاری دشمنی مجھ سے ہے شائین ہیے اسے کیوں درمیان میں لارہے ہو ُاسے جانے دو"۔
اس کی آنکھوں سے نکلتی چنگاریاں آج شائین ہے کو جلا کر راکھ کردینے والی ہے جواس کی بات ُسن کر فلک شگاف قہقہے لگانے لگا ۔
"جب ہم۔کسی لڑکی کو کوئ کمرہ دیتے ہے رہنے کے لیے توتمہیں کیا لگتا ہے ہم۔نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہیں جو ہمیں نہیں معلوم۔ہوگا کون آرہا ہے کون جارہا ہے ۔اور دیکھوں نا تم میرے ایک فون پر ایسے بھاگے آۓ ہو ,جیسے طوطے کی جان مینا میں ہوتی ہے ویسے ہی اے_کے کی جان ہماری ِفیا میں ہے ,ٹھیک کہا نا "۔
شائین ہیے نے زمین پر بیٹھتے ہوۓ فِیا کے چہرے پہ بکھریں بالوں کو اپنی گن کی مدد سے پیچھے کرتے ہوۓ کہا۔
"ہاتھ بھی مت لگانا اِس معصوم کو ورنہ میں تیرے یہ ہاتھ جڑ سے ُاکھاڑ دوں گا "۔
عظیم ِشائین ہیے پر زوردار انداز میں گرجا مگر شائین ہیے نے اس کی بات کو رد کرتے ہوۓ اپنی گن کی نال سے ِفیا کے بکھریں بالوں کو پیچھے کیا جس پہ قریب کھڑے عظیم خان کے صبر کا پیمانا لبریز ہوا وہ تیر کی طرح تیزی سے شائین ہیے کی جانب جھپٹا جو اس کے بازوں پر گولی کا نشانہ لگا ُچکا تھا مگر عظیم خان کو اپنی جان سے زیادہ اپنی عزت پیاری تھی وہ خود کو شائین ہیے کی طرف بڑھنے سے روک نہیں سکا اس نے تیزی سے اس کی گن والا ہاتھ تھام۔کر اسے پیچھے کی جانب موڑا ۔پھر اس کے پیٹ پر ایک زور دار لات ماری جس سے وہ تکلیف سے ِبلبلَا ُاٹھا ,مگر عظیم خان کے اوپر اس وقت جنون سوار تھا وہ اس کے ہاتھ سے گن چھین کر دور پھینک ُچکا تھا ۔اس دوران ِفیا کو ہوش آنے لگاوہ اپنے چکراتے سر کو سنبھالتی ہوئ ُاٹھ بیٹھی تو سامنے کا منظر واضع ہوا عظیم خان کو شائین ہیے کے ساتھ دست درازی کرتے دیکھ کر متوحش ہوگئ اس سے پہلے کے فِیا کھڑی ہوکر عظیم کو کچھ کہتی ایک کشتی سے تین چار سیاہ فام ڈنڈا بردارعظیم کی جانب بڑھنیں لگیں ۔جنہیں دیکھ کے فِیا کی دلخراش چیخ پہ عظیم خان پیچھے کی جانب پلٹا جہاں چار سیاہ فام اس کی جانب بڑھ رہیں تھے وہ بیک وقت ان چاروں کے ساتھ بِھیڑ ُچکا جواس پہ تابڑ توڑ ڈنڈیں برسارہے تھیں ,مگر وہ ان کا بہادری سے مقابلہ کررہاتھا جب ہی لڑتے لڑتے عظیم نے شائین ہیے کو فِیا کی جانب بڑھتا دیکھا ۔
"ِفیا بھاگو "۔
عظیم خان کی گرجدار آواز سُن کر ُاس نے نہ میں سر ہلایا۔
"میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی "۔
فیا نے روندھائی آواز میں بولا جب ہی پیچھے کھڑے سیاہ فام۔نے عظیم کی گولی لگی بازوں میں ضرب لگائ جس سے وہ بِلبلا ُاٹھا وہ پورے قد سے گھٹنوں کے بل زمین بوس ُہوا تھا۔
"ِفیا میری عزت کی حفاظت کرو جاؤ یہاں سے "۔
اس کے ڈھاڑ کے کہنے پہ فیا عظیم خان کے چہرے پر ایک آخری نگاہ ڈالتے ہوۓ بھاگنے لگی وہ شائین ہے کے پہنچنے سے پہلے ہی بھاگنےلگی ,جب ہی فائرنگِ کی آواز وں نے ُاس کے بڑھتے قدم روک لیے وہ منجمند ہوئ کپکپانے لگی ُاس میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کے وہ پیچھے مُڑ کر دیکھ سکے ُاس کے کانوں میں بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی ِفیا میری عزت کی ِحفاظت کرنا ,وہ بھاگتی ہوئ اپنی داۓ جانب دیکھنے لگی جہاں اسے ایک لکڑی کا بڑا سا ڈبہ نظر آیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں نمک لگی مچھلیاں پڑی ہوئ تھی ۔ ِفیا اللّہ لا نام لے کر ان مچھلیوں کے ڈبے میں ُچھپ کے بیٹھ گئ ۔
۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞
حال :-
"سر ِجیپز میں تقریباً سب ہی لوگ بیٹھ گۓ ہیں بس کچھ ہی دیر میں ہم سری جھیل کے لیے نکلنے والے ہیں "۔
معاز نے دھیمے انداز میں زین العابدین کو مخاطب کیا جو سامنے سے آتی زھرہ کو دیکھ رہاتھا وہ کالے شلوار کمیز پر ہلکےخاکی رنگ کا اوونی کوٹ پہنے, گلے میں کالا ہم رنگ مفلر اوڑھے اپنے لمبے بالوں کو لپیٹ کے ڈھیلا سا ُجوڑا بناۓ ,چہرے پہ قدرتی ُحسن کا نکھار لیے وہ زین العابدین کو سٹل کرگئ تھی جو سبک خرامی سے چلتی ہوئ آرہی ہے جس نے اسے دیکھ کر سلام۔کیا جس کا جواب ُاس نے سر کو جنبش دے کر دیا ۔
"سر مِس ُگل کی کال آئ تھی ٹڑیزون والوں کے بڑینڈ مینیجر ہمیں ُشوٹ میں جوائن کرے گے"۔
زھرہ ہاتھ میں نوٹ ُبک تھامے کندھے پہ اپنا شولڈڑ بیگ لٹکاۓ کھڑی تھی۔
"سر اب کیا کرنا ہے مسٹڑ سلمان کا ؟"۔
وہ قدرے توقف کے بعد زین العابدین سے پوچھنے لگی
"کرنا کیا ہے آنے دو انہیں!!ان کے رہنے کے لیے ایک کمرا ُبک کرواۓ اور باقی سب تم خود دیکھ لو معاز "۔
زین العابدین سنجیدہ سے لہجے میں معاز سے کہتا ِہوا گاڑی کی جانب بڑھ گیا ۔اب کی بار زھرہ زین العابدین کے کہنے سے پہلے ہی ُاس کی جِیپ میں بیٹھنے کے
28
بجاۓ ُشوٹ پہ آئ اورلڑکیوں کے ساتھ بیٹھ گئ اس میں ِبلکل اتنی سکت نہ تھی کے وہ لوگوں کے سامنے ہالے کے ساتھ کسی بھی بات پر ُالجھتی کیوں کے رات سے ُاس کی ُچبھتی ہوئ نظروں کا مفہوم وہ اچھے سے جان گئ تھی اِس لیے ُاس سے جتنا دور رہا جاۓ اتنا ہی اچھا تھا ابھی اسے جِیپ میں بیٹھے ہوۓ کچھ ہی دیر گزری تھی جب ہی زین العابدین اس کے سامنے سینے پہ ہاتھ باندھے کالے اوور کوٹ میں بھینچھے ہوۓ لبوں سے اسے دیکھ رہاتھا زھرہ اس کی ُالجھتی ہوئ نگاہوں کا مفہوم اچھے سےجان گئ تھی جب ہی بولے بِنا نہ رہ سکی۔
"سر آپ کو کچھ چاہئے"۔۔۔۔۔۔
وہ آئبرو اچکا کے بولی
"تم "۔۔۔۔۔۔
وہ بوجھل آواز میں بولا۔
زھرہ نے سٹپٹا کر اپنے اِرد ِگرد میں بیٹھی لڑکیوں کو دیکھا جو ان کے لیے ِبلکل انجان تھی وہ اپنی باتوں میں مصروف بیٹھی تھی۔
"میں نے کل کچھ کہا تھا شاید "۔۔۔۔۔۔۔
وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
"سر میں وہاں نہیں بیٹھ سکتی, ہالے میم کو مجھ سے شاید کوئ مسئلہ ہے "۔۔۔۔۔۔
وہ بولتے بولتے جھجکتی ہوئ ُ کن انکھیوں سے زین العابدین کو دیکھنےلگی ,جس کی بات سن کر اس کے اعصاب تن گۓ وی کچھ دیر بغور اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر خاموشی سے اپنے قدم واپسی کے لیےموڑ لیے,اس کے جاتے ہی زھرہ کے چہرے پہ ایک پھیکی سی مُسکراہٹ نے احاطہ کرلیا تھا۔
"میں تمہارے لیے صرف ایک وقت گزاری ہی ہوں زین العابدین ,کیسے ہالے کا نام آتے ہی تم واپس چلے گۓ "۔
وہ دھیمے انداز میں خود سے بڑبڑاتے ہوۓ روہانسی ہوئ باہر کھڑکھی سے جھانکنے لگی۔جہاں سب کو جانے کی جلدی تھی وہ تھک کے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کے اپنی آنکھیں موند گئ جب اسے کسی کی پرتپش نگاہیں خود پہ محسوس ہونے لگی اس نے پٹ سے آنکھیں کھولی جہاں بیک ویو مرر سے دو جلتی ہوئ نگاہیں اس پہ جمی تھی ,جو پورے طمطراق سے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا جو اس کی آواز پہ ُبری طرح چونکی ۔
"میرے خیال سے ہمیں چلنا چاہیۓ "۔
وہ اپنا بایاں ہاتھ آگے کرتے ہوۓ رسٹ واچ میں وقت دیکھتے ہوۓ بولا ۔زھرہ نے گڑبڑا کر اپنی نظریں باہر کی جانب مرکوز کردی تھی ۔اس وقت وہ شدید الجھن کا شکار تھی اس کے اس اقدام سے ,جانے اب ہالے کیا کرے گی جب ہی زھرہ کے موبائل پر میسیج کی بِپ ہوئ ۔جس میں زین العابدین کا نمبر پوری آب وتاب سے جگ مگارہاتھا ۔
"I know i am a little pOssessive,but trust me it happens just for you,
i dont no why "..
زھرہ نے سر ُاٹھا کر شیشے میں حیرانگی سے ان صحرانگیز آنکھوں میں خالی خالی نگاہوں سے دیکھا جہاں ُاس کے لیے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا ۔وہ زیادہ دیر ِان آنکھوں میں دیکھنے کی تاب نہ لاسکی اور اپنی نظروں کا ُرخ دوسری جانب موڑلیا,جو بیک ویو مرر میں یہ منظر دیکھ کے مبہم سا مسکرایا ْپھر اس نے بڑی مستعدی سے گاڑی ڈرائیو کرناشروع کردی جو اونچی نیچی ڈھلانوں سے چکراتے ہوۓ دوڑتی رہی ِجہاں دُھند اور بادلوں سے گِھرا یہ مقام ساری دنیا سے کٹا ہوا الگ تھلگ لگ رہا تھا۔زھرہ قدرت کی اس آنکھ مچولی کا نظارہ مسمرائز ہوئ دیکھ رہی تھی جہاں جگہ جگہ بنے پانی کے چھوٹے بڑے گڑھے,جابجا پھرتے گھوڑ سوار برف کی چادر سے ڈھکے جنگلات ُحسن کو دوام بخش رہے تھیں۔
سری جھیل میں ِاس موسم۔میں پہنچنا دنیا کا سب سےمشکل ترین کام تھا جہاں انسان بڑی محنت اور دعاؤں کے ساتھ ہی پہنچ سکتا تھا اتنی کٹھنائیوں سے گزرنے کے بعد مزید۔
زین العابدین نے آگے والےڈڑائیور کے ِجیپ روکنے پر اپنی جِیپ کو بھی بریک لگائ ۔جب ہی معاز گاڑی سے نکل کر زین العابدین کی جِیپ کی کھڑکی کی جانب آیا ۔
"سر آگے راستہ مزید تنگ ہے اور جِیپ روڈ برف کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے ۔تو یہاں سے ہمیں اب پیدل چل کر جِھیل تک جانا پڑے گا"۔۔۔۔۔۔۔
معاز نے اپنے داۓ جانب بنے ٹڑیک کی سمت اشارہ کیا جہاں اکا دکا لوگ ہی نظر آرہیں تھیں ۔
"کیا تمہیں یقین ہے کے یہی راستہ جاۓ گا جھیل تک "۔۔۔۔۔
زین العابدین نے گاڑی سے ُاتر کر اوپر بنے راستے کی جانب دیکھا جو دور دور تک برف کی چادر سے ڈھکا ُہوا تھا۔
"سر ہمارے ساتھ گائیڈ ہے سب لوگ یہاں سے آگے اسی طرح جاتیں ہیں مشکل سے ہمیں دس سے پندرہ منٹ لگیں گے"۔
معاز نے پیچھے کی جانب سے نکلتی ِٹیم کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
"ٹھیک ہے سب کو بولوں احتیاط کے ساتھ نکلے ویسے یہ جگہ کس نے decide کی تھی ؟۔"۔۔۔۔۔
زین العابدین نے ناگواری ظاہر کرتے ہوۓ معاز سے پوچھا۔
"سررر!! یہ تو پروڈکشن والوں کا کام ہیں ہمارا اس میں کوئ involmentنہیں ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔
معاز نے تھوک نگلتے ہوۓ اپنے بوس کی سرد آنکھوں میں دیکھا جو شدید ٹھنڈ میں بیزار سا اپنی ِجیپ کی جانب بڑھ رہاتھا ۔
"آگے سے ٹڑیک پر پیدل جانا ہے اپنا اپنا سامان لے کر سب باہر آجاۓ "۔۔۔۔۔۔
زین العابدین نے ِسنجیدہ سے لہجے میں سب کو باہر آنے کو کہا ,زھرہ اس کا بارعب چہرہ دیکھنے لگی جو کچھ الجھا الجھا سا لگ رہاتھا۔وہ نیچے اتر کر اپنے سامان کے لیے بڑھ گئ جہاں سب ہی لوگ اپنا اپنا سامان نکال رہیں تھے۔
"بیگ کہا ہیں آپ کا ؟"۔۔۔۔۔۔
اسے اپنے عقب سے مردانہ آواز آئ ۔جہاں زین العابدین اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوۓ بولا جو نچلا ہونٹ دانتوں تلے دباۓ غیر مرئ نقطے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔جس کے ارد گرد میں چار پانچ لڑکیاں لڑکے کھڑیں تھے اسے ان کے سامنے ایک بوس کا اپنی ایک عام سی سیکریٹری سے سامان کی بابت پوچھنا کچھ معیوب بات لگی وہ اپنی پوزیشن کسی بھی طرح اسٹاف کے سامنےمشکوک نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"سر ر!!یہی پیچھے رکھا ہے سامان کے ساتھ یہ سب نکال لے پھر میں بھی نکالتی ہوں "۔۔۔۔۔۔
وہ دانتوں کو پیستیں ہوۓ الفظ چبا کے بولی جس کے منہ سے سردی کی شدت سے دھواں نکل رہاتھا جو اس کے اس انداز پہ مبہم سا مسکرایا۔
"مس خان آپ کے آفس بیگ میں میری ایک بہت ضروری چیز ہے جس کی مجھے ابھی ضرورت ہے "۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ جتاتی نظروں سے بولا جو اس کے صریح جھوٹ پہ تلملا ہی گئ۔
"اسپوٹ بواۓ ادھر آؤ!!یہاں سے یہ والا بیگ نکال کے مس خان کا لاؤ "۔۔۔۔
اس کی ایک آواز پہ اسوٹ بواۓ نے اس کا بیگ فوراً نکالا ۔
"سر یہ بیگ "۔۔۔۔۔
اسپوٹ بواۓ نے اس کی جانب بڑھاتے ہوۓ کہا۔
"اسے نیچے لےجاکے میرے سامان کے ساتھ رکھ دو حفاظت سے "۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہونقوں کی طرح زین العابدین کو دیکھنے لگی جو کتنے استحقاق سے اس کے ہر کام کرتا تھا ۔
سورج کی ہلکی ہلکی روشنی برف پر پڑتی تو چمک آنکھوں کو اندھا کرنے لگتی۔ رکتے، سانس بحال کرتے، چلتے، گِرتے، اٹھتے ٹریک ہوتا رہا۔زھرہ اب کی بار ہمنا تنویر کے ساتھ تھی جو اس کا ہاتھ تھامے اپنے شانے پر بیگ لٹکاۓ ٹڑیک پر چلتی جارہی تھی۔
جھیل تک کا یہ ٹریک اتنا عمودی اور مشکل ہو گا، کسی نے بھی سوچا نہ تھا۔ چڑھائی تھی کہ ختم ہونے میں نہ آرہی تھی۔
" ویسے زھرہ اس برف کے جہان اور تنہائی میں، صرف دو ہی چیزوں کے رنگ نظر آرہے ہیں"۔
زھرہ نے سوالیہ انداز میں ہمنا تنویر کی جانب دیکھا جو بڑے سنجیدہ انداز میں ِارد ِگرد کے نظاروں میں مصروف تھی۔
"بھئ ایک ہماری جِلد کا اور دوسری ہمارے کپڑوں کا "۔
ہمنا تنویر کے اس بونگے سے مزاق پر زھرہ اپنی ُامڈ آنے والی ہنسی کو روک نہ سکی اور ِکھلکھلا کے ہنسنے لگی جسے ہالے کے ساتھ چلتے زین العابدین نے دیکھ کربے ساختہ ماشاءاللّٰہ کہا تھا۔
"زین میرا ہاتھ تھام لو پلیز ورنہ میں ِگرجاؤں گی "۔
ہالے نے بھرپور اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اس کا دیھان بٹانے کے لیے اپنا ہاتھ تھمایا جسے دیکھ کر اس نے ناگواری کاا اظہار کیا ۔اس نے ہالے کا ہاتھ نرمی سے چھوڑا ۔
"نہیں اب سیدھا راستہ ہے تم۔نہیں گِر سکتی کیوں کے تم۔بہت سمجھدار ہو "۔
زین العابدین کی بات پر ہالے نے چونک کر سر ُاٹھایا ۔
"یہ کمپیلمینٹ تھا یا کوئ تنز ؟"۔
ہالے نے اس کی جانب دیکھا جو بیزاری سے برف پہ مضبوطی سے قدم جماتا ہوا چل رہاتھا ۔
"تمہیں بہتر معلوم ہوگا "۔۔۔۔۔۔
وہ بھنویں سکیڑ کر بولتا ہوا اس سے دو قدم۔تیز چلنے لگا ۔
ہالےابھی رات کاانکشاف ہی ہضم نہیں کرپارہی تھی جب زین العابدین نے اسے زھرہ کو کچھ کہنے پر سزا دینے کا کہا تھا اب دوسری بات اس نے یہ کہ دی تھی ,اگر زین نے سچ کہا تھا تو یہ اس کے لیے بہت بڑی ہار تھی اس کی تمام تر جدوجہد کی اس کے ارمانو کی ناکا می تھی۔
وہ اپنے ہی کھیل میں بازی خود پر الٹتے دیکھ کر کیسے برداشت کرلیتی!!وہ تِلملا کے آگے جاتی ونیزہ بلال اور اس کہ سیکریٹڑی کے نزدیک چلنے لگی ۔پندرہ منٹ کا سفر انہوں نے سامان کے ساتھ ایک گھنٹے میں طےکیا ۔کچھ دیر کی مشقت کے بعد جھیل نے اپنی جھلک دکھائی اور یوں دکھائی کہ سب ساکت ہو کر رہ گئےتھیں۔ ہر سو سفیدی تھی۔ جھیل نہ تھی بلکہ برف کا میدان تھا۔ جھیل تو کہیں برفوں کی تہہ کے نیچے پردہ کیے ہوئے تھی۔عقب میں اور اردگرد جو پہاڑ تھے وہ بھی سفید چادر اوڑھے کھڑے تھیں ۔سب کا تھکاوٹ سے ُبرا حال تھا ۔زھرہ نے ِارد ِگرد میں دیکھا جہاں بہت سارے لوگوں کی چہل پہل تھی کچھ لوگ جھیل کے کنارے پر کیمپس لگارہیں تھیں تو کچھ لوگ جھیل کے کنارے کیمروں کی سیٹنگ کررہیں تھیں جن کے نزدیک کھڑازین العابدین معاز اور ونیزہ کے ساتھ کسی بات پر مسکراتا نظر آرہا تھا ۔وہ بھی سب کو خیر آباد کہ کر ہمنا تنویر کے ساتھ مل۔کر سب کچھ لائن اپ کرنے لگی ۔
"ہیلو مس ہمنا تنویر "۔
سلمان حیدر نےہمنا تنویر کی جانب ہاتھ ہاتھ بڑھایا جسے ُاس نے گرم۔جوشی سے تھام۔لیا ۔
"ہیۓ سلمان بہت خوشی ہوئ آپ کو یہاں دیکھ کر "۔۔۔۔۔۔
وہ چہرے پہ مضنوعی مسکان سجاۓ اسے دیکھنے لگی جب ہی ُاس نے زھرہ کی جانب دیکھا ۔
"مجھے بھی بہت خوشی ہوئ آپ سے مل کر ان کی تعریف "۔
سلمان نے زھرہ کی جانب اشارہ کیا۔
" ان سے مِلیے یہ ہےزین العابدین کی جنرل سیکریٹڑی "۔
سلمان حیدر نے اپنی چمکتی آنکھوں ںسے زھرہ کو دیکھ کر ُاس کی جانب مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا جسے نزدیک کھڑے زین العابدین نےناگواری سے دیکھا ۔
"سوری سر پر میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی "۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دھیمے انداز میں بولی وہی زین العابدین کی ناگواری سرشاری میں بدل گئ مگر سلمان حیدر کا اتنی لگاوٹ سے اسے دیکھنا کچھ پسند نہیں آیااسے ابھی خود کو ٹٹولنے کے لیے تھوڑا وقت چاہیے تھا وہ خود نہیں جانتا تھا کے وہ چاہتا کیا تھا ۔آخر وہ کون سی طاقت تھی جو اسے زھرہ کی جانب دھکیلتی تھی وہ آج تک نہیں جان سکا تھاان ہی لامتناہی سوچوں کو سوچتا ہوا وہ اپنی کرسی سے ُاٹھ کےسلمان حیدر کی جانب بڑھا کیوں کے اس کا دماغ سوچوں پر مضبوط قفل ڈالنے میں ناکام ہورہاتھا۔
"آپ ۔کی تعریف ؟"۔
زین العابدین نے تنقیدی نگاہوں سے سلمان حیدر کو دیکھا ۔
"سر یہ بڑینڈ مینیجر مسٹڑ سلمان حیدر ہے ٹڑیزون سے"۔۔۔۔۔
ہمنا تنویر نے اس کا تعارف زین العابدین سے کروایا جو اس سے مصافحہ کرتے ہوۓ اپنے ساتھ لیے جھیل کنارےچلا گیا۔
"ہیے مس خان ِادھر آؤ مجھے کچھ بات کرنی ہے "۔۔۔۔۔۔
ونیزہ بلال کرسی پہ بیٹھی میک اپ آڑٹسٹ سے میک اپ کروانے کے دوران زھرہ کو آوازیں دینے لگی جس پر زھرہ بوتل کے جن کی طرح ُاس کے نزدیک کھڑی ہوگئ۔
"مجھے بات کرنی ہے ان سے تم۔دو منٹ دور ہو کر کھڑے ہو ۔"۔
ونیزہ بلال نے میک اپ آڑٹسٹ کو پیچھے ہونے کو کہا ۔
"مس خان تم نے تو کہا تھا کے میم آپ یہ ُشوٹ کرے گی تو آپ کو زین العابدین کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملے گا مگر یہاں تو یہ ِچھپکلی اس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی "۔
ونیزہ کے نکتہ اعتراض ُاٹھانے پر زھرہ نے دور کھڑے زین العابدین اور ہالے کو دیکھا جو ہاتھ میں پکڑی لیڈر کی جیکٹس کو ُاسے دِکھا رہی تھی ۔
"میم آج تو پہلادن ہے, آپ ابھی سے ہمت مت ہارے قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہوگی آپ بس کوشش جاری رکھے"۔
"زھرہ نے اس کے قریب جا کے اسے دلاسہ دیا ۔
"ٹھیک کہ رہی ہو تم ُشوٹ ہوجالینے دو پھر دیکھنا کیسے میں زین کے ساتھ کھڑی ِاس ِچھپکلی کا پتہ صاف کرتی ہوں "۔
ونیزہ کو رہ رہ کر ہالے کے اوپر غصہ آرہا تھا جو اس کے رنگ میں بھنگ ڈال رہی تھی ۔
______________
28x
شوٹنگ کے دوران زین العابدین سخت کوفت کا شکار رہا۔کیوں کے اس کا ِاس کام میں ِبلکل انٹرسٹ نہیں تھا وہ زھرہ کی وجہ سے یہاں پھنس ِچکا تھا جو ونیزہ بلال سے معائدہ کرچکی تھی ۔ شوٹ کے دوران اگر ُاس کا کوئ خاص کام پہ دیھان تھا تو صرف سلما حیدر اور فریدون کا بے باک نگاہوں سے زھرہ کا جائزہ لینا جو اس کا خون کھولانے کے لیے کافی تھا ۔ُاس کا بس نہیں چل رہاتھا وہ ان دونوں کو کہی دور اسی جھیل کے اندر جما آۓ جہاں سے ان کی پلید نظریں زھرہ کا طواف نہ کرسکے جب ہی اس کے فون پر یوشع کی کال آئ جسے ُاس نے فوراً ُاٹھالیا ۔
زہے نصیب آج ہمارا فون کیسے پہلی بیل پر ُاٹھا لیا دشمنوں نے لگتا ہے زوجہ محترمہ نزدیک نہیں "۔۔۔۔۔۔۔
یوشع نے استہزائیہ انداز میں ُاسے کہا جس نے جلتی کا کام۔کیا ۔
"یوشع مجھے شدید قسم۔کی الرجی ہوگئ ہے یہاں "۔
زین العابدین نے یوشع کی بات پہ تپ کر کہا ۔
"اچھا کون سی والی کیڑوں کے کاٹنے والی,موسمی ,یا اسکن والی؟۔"۔۔۔۔۔
یوشع نے مزاحیہ انداز میں اس سے پوچھا ۔
"اس الرجی کا نام ہے سلمان حیدر اور فریدون ,میں تمہیں پہلے سے باخبر کررہاہوں کے وہ دونوں میرے ہاتھوں سے ضائع ہونے والے ہیں, شوٹ کی ہر لڑکی کو تاڑتے ہوۓ ملتے ہیں نکمے رزیل کہی کے"۔
زین العابدین کے تپے ہوۓ انداز پر یوشع کے ہنس ہنس کے پیٹ میں بل پڑنے لگے۔
29
"ہنس لے ُتو جتنا ہنسنا ہے کمینے کا نام۔بھی ایسا پاک ہے کے گالی بھی نہیں لگا سکتا ,وہ سلمان حیدر تو میرا بھی لحاظ نہیں کرتا کے بوس سامنے بیٹھا ہوا ہے پر پھر بھی ُگھوم پھر کے ُاس کی نظریں ُاس پر آکر ٹھہر جاتی ہیں"۔۔۔۔۔۔
زین العابدین اپنے سامنے کھڑی زھرہ کو دیکھ رہاتھا جو نوٹ ُبک ہاتھ میں تھامے ہمنا تنویر سے کچھ بات کررہی تھی جس کے ٹھیک سامنے سلمان حیدر ہاتھ میں کوفی کا مگ تھامے زھرہ کو گاہے بگاہے دیکھ رہاتھا جس سے اس کے دل میں پھپولے ُپھوٹنے کے لیے تیار تھیں ۔
"تو تم بھابھی کو واپس ہوٹل بھیج دو "۔
یوشع نے دوستانہ انداز میں کہا۔
"وہ الٹا مجھ پر شک کرے گی کے میں اسے اکیلے ہوٹل کیوں بھیج رہاہوں "۔
وہ کھسیانی ہنسی کے ساتھ سامنے دیکھنے لگا۔جہاں وہ پری پیکر اپنے کاموں میں مصروف تھی۔
"واقع تو بھابھی کو ہوٹل کیوں بھیجے گا یہ تو سوچنے والی بات ہے"۔۔۔۔۔۔
یوشع نے معنی خیزی سے کہتے ہوۓ اوو کہا جس پر وہ برہم۔ہوا ۔
"شٹ اپ یار وہ میری بیوی ہے کو ئ گرل فرینڈ نہیں جو میں اس سے فائدہ اٹھاؤں گا ,چل تو آفس کو ٹھیک سے دیکھتا رہی کوئ مسئلہ ہو تو مجھے کال کرلینا ,باقی ان خبیثوں کو میں دیکھ لیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
اوکے باۓ جانی ۔۔۔۔
باۓ۔۔۔۔



Comments
Post a Comment