تشنہ دیدار آرز ریشب|Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 13


ARAZ RESHAB NOVELS

Dont copy paste without my permission kindly.


 زین العابدین نک سک سا تیار گہرے نیلے رنگ کے اوور کوٹ اور جینز پہنے  باہرلان کی جانب نکل آیا ابھی وہ کھلی ہوا میں سگریٹ کے گہرے کش لے ہی رہاتھا جب ہی کسی نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا ۔

زین تم میرے ساتھ ایسے کیوں کررہے ہو ؟۔۔

ہالے روہانسی آواز میں بولی ۔

"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہالے جس سے تمہیں کوئی پریشانی ہو۔۔

وہ ماتھے پر بل ڈال کے بولا۔۔

 ,میں نے یہ منگنی کرنے سے پہلے ہی تمہیں کہا تھا کے مجھے کچھ وقت چاہئیےتاکہ ہم ایک دوسرے کوسمجھ سکیں، اگر اس درمیان میں  مجھے یا تمہیں کوئی بھی مسئلہ ہوگا تو ہم خاموشی سے ایک دوسرے سے کنارا کشی کرلیں گے "۔۔۔

 گم صم سی ہالےزین العابدین کا جواب سن کے ٹرپ اٹھی۔

"ا۔ا۔اگر میں غلط نہیں سوچ رہی تو کیااس سب کی وجہ مس خان ہے ؟۔

ہالے نے تصغیر کر دینے والی نظروں سے زین العابدین کی جانب دیکھا جس کی چہرے پہ چھائی معنی خیز خاموشی  اس کے شک کو یقین میں بدل رہی تھی ۔

"اگر تم نہیں بتانا چاہتے تو تمہاری مرضی پر اگر  میری جگہ کوئی اور بھی ہوگا تو اسے بھی نظر آۓ گا کہ  کیسے تم اس کی چوکیداری کرتے پِھرتے ہو!! خیر میں تمہاری منگیتر سے پہلے خالہ کی بیٹی بھی ہوں زین العابدین, ان مِڈل کلاس لڑکیو ں کا کام ہی یہ ہوتا ہے کے جہاں امیر لڑکا دیکھا نہیں وہی اس پہ لائین مارنا شروع ہوجاتی ہے "۔

زین العابدین کا ہالے کی بات پرچہرہ غصہ کی تمازت سے سرخ ہوگیااس نے اس کی بات کو بڑی مشکل سے برداشت کیا تھا جب ہی وہ اس کی سوچ کی نفی کرنے کے بجاۓ اسے اور مستحکم کرگیا۔

"تم۔نے بلکل ٹھیک سوچا ہےہالے !!"۔

وہ چونک کر زین العابدین کی جانب دیکھنے لگی اسے لگا تھا کے وہ اس کی بات کو رد کرے گا مگر اس نے س کی سوچ کی نفی کردی ۔

"میرے خیال سے مجھے تمہیں یاد کرانے کی ضرورت  نہیں  کے تم میری ذاتیت میں دخل۔اندازی بِلکل  نہیں کروگی, پر خیر رہی انسان چاہے کتنا بھی براڈ مائنڈڈ ہوجاۓ مگر اپنی بیوی کے معاملے میں وہ ہمیشہ دقیا نوس اور قدامت پسند ہی ہوتا ہے اور جہاں تک  بات زھرہ کی ہے تو وہ ایسی لڑکی نہیں ہے۔یہ تمہیں بھی بہت اچھے سے نظر آتا ہوگا کے وہ انتہائ سُلجھی ہوئ لڑکی ہے خاص کر کےان بولڈ لڑکیوں کی طرح ِبلکل نہیں ہیں جو پکے ہوۓ پھل کی طرح ہم امیروں کی جھولی میں  گرتی ہیں۔ اس لیے اس پر نظر رکھنے کے بجاۓ تم اپنے اور  فیضان کریم کی دوستی پر توجہ دو تووہ زیادہ اچھا ہوگا"۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے جتادینے والی نظروں سے دیکھتے ہوۓ اندر کی جانب بڑھ گیا ۔پیچھے ہالے اپنا سر تھام کے بینچ پر بیٹھ گئ ,آخر اسے کیسے پتہ چلا کے میرا افیر اسپورٹس اسٹار فیضان کے ساتھ چل رہاہے  میں نے تو اسے بلکل چھپا کے رکھا تھا۔

Shittt!!!!.

_____________________________________________

وہ دھانی رنگ کے سوٹ پہ کالا اوور کوٹ پہنے نیچے کی جانب آرہی تھی جہاں تقریباً سب ہی لوگ شوٹ پر جانے کے لیے تیار کھڑےتھیں اس کی  نظروں کا تصادم۔زین العابدین سے جیسے ہی ہوا تو وہ منہ پھیرتی ہوئ ہمنا تنویر کی جانب چلی گئ ہالے ایک جہاندیدہ لڑکی تھی جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کی عادی تھی اتنی جلدی زین العابدین 

جیسےامیر بندے کووہ کھونا نہیں چاہتی تھی ,اس نے ان دونوں کے درمیان حائل کھنچاؤ اور تناؤ کو جیسے بھانپ لیا تھاوہ یہ موقع ہاتھ سے نکالنا نہیں چاہتی تھی اب اسے زھرہ کو جلد سے جلد زین العابدین کی جانب سے بدظن کرنا تھا ۔

                      __________________________

زھرہ جیپ میں بیٹھی شوٹ کی لڑکیوں کے ساتھ اپنے موبائل پر زینیہ کے میسیجز پڑھ رہی تھی جب ہی ایک مخصوص خوشبوں اسے اپنے نزدیک محسوس ہوئ ,جہاں زین العابدین اپنی چھاجانے والی شخصیت کے ساتھ کھڑا سگریٹ پیتے ہوۓ معاز سے باتوں میں مصروف تھا ,وہ اسے دیکھ کر پہلوں بدل کر رہ گئ۔جب ہی زین العابدین پورے استحقاق سے اس کی کھڑکی کی جانب سے جھانکتے ہوۓ اس کے ساتھ بیٹھی لڑکیوں سے مخاطب ہوا ۔

"ڈیڑ لیڈیز اگر آپ برا نہ مناۓ تو آپ کے لیے میں نےاس سے بھی اچھی والی ِجیپ خالی کروائ ہیں آپ سب پلیز ُاس میں چل کر بیٹھیں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔ساری لڑکیاں زین العابدین کی جانب اپنی مسکراہٹ اچھالتے ہوۓ باہر نکلنے لگی چونکہ زھرا کے دروازے کے آگے زین العابدین کھڑا تھا تو وہ دوسری جانب سے لڑکیوں کے باہر نکلنے کا انتظار کررہی تھی تاکہ وہ بھی باہر نکل سکے لیکن وہ جیسے ہی باہر نکلی زین العابدین نے اسے بنا کوئ دوسرا موقع فراہم کیے ہاتھ تھام کرفرنٹ سیٹ پر بٹھادیا وہ حواس باختہ ہوئ اسے دیکھنے لگی جو بڑے مزے سے اس کی جانب کا دروازہ لاک کرتا ہوا خود بھی فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوگیا ۔اس نے زین العابدین کی اس قدر بے باکی سے دھونس جمانے پر باہر کی جانب ترچھی نگاہوں سے دیکھا مگر کوئ بھی ان کی جانب متوجہ نہیں تھاسواۓ ایک ہالے کی ذات کے جو پچھلی جیپ میں بیٹھی یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی ۔

"یہ کیا مزاق ہے آپ کو میری بات سمجھ کیوں نہیں آتی سر مجھے لوگوں کی نظروں میں کیوں  مشکوک کررہے ہیں "۔۔۔۔۔

وہ غصے کی تمازت سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ زین العابدین پر ڈھاڑی تھی جس پر اس کی کسی بات کا کوئ اثر ہی نہیں ہوا تھا۔وہ ساری جیپز کو ایک ایک کر کے ریسٹ ہاؤس سے باہر نکلتے دیکھ رہاتھا ۔

"میں نے آپ سے کچھ کہا ہے دروازہ کھولے مجھے نہیں بیٹھنا یہاں "۔۔۔۔۔۔۔

وہ کڑے تیوروں سے اسے گھورتی ہوئ دروازے کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی جب ہی زین العابدین نے اسے بازوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچھا جس کی آنکھوں میں چھپا غصہ صاف جھلک رہاتھا ۔وہ اس کی بھوری ِجھیل سی آنکھوں میں دیکھنے لگا جہاں اسےصرف اپنی شبی نظر آرہی تھی وہ بے خود سا ہوا اس کی لرزتی پلکوں کو ٹکٹکی باندھیں دیکھ رہاتھا جب ہی زھرہ کی روہانسی آواز اسے ہوش کی دنیا میں واپس  کھینچھ لائ۔

"پلیز چھوڑے مجھے زین العابدین  "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ آنکھوں میں آنسوں سموۓ خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کررہی  تھی ۔جب ہی زین العابدین نے اس کے روتے ہوۓ وجود کو پورے استحقاق سے اپنے حصار میں لے لیا ,

"ذرا پھر سے لینا میرا نام "۔۔۔۔۔۔۔

وہ خمار آلود لہجے میں اسے دیکھتے ہوۓ بولا جو اس کے مضبوط قلعے کی دیواروں کو مسمار کرنے کی کوششوں میں ہلکان ہورہی تھی ۔وہ اس کی سانسوں کی تپش سے جھلس رہی تھی ۔جب ہی رندھائ آواز میں بولی ۔

"پلیز سر ایسے مت کرے میرے ساتھ مجھے مت ہاتھ لگایا کرے ,دور ہوجائیں مجھ سے "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ مزاحمت کرتی ہوئ تھک کر اس کے سینے پر سر رکھے اتنا روئ کے اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیوں رورہی ہے۔جو رات کا اندر غبار بھرا ہوا تھا وہ اسے آنسوؤں کے ذریعے باہر نکال رہی تھی ۔وہ اچھے سے جانتا تھا اس کی غیر ہوتی حالت کی وجہ جو اب تک خوف کے زیر اثر تھی اس نے اپنی مضبوط بازوؤں کا گھیرا مزید تنگ کیا تھا اسے تحفظ کا احساس دلانے کے لیے۔

اتنے آنسوں کہا سے لاتی ہو خان کی جان  "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ وقت کے بعد جب وہ خاموش ہوئ تو زین العابدین نے اس کے نزدیک سرگوشی کرتے ہوۓ سر کو جھکا کے دیکھا جو اس کے سینے سے لگی متواتر آنسوں بہانے میں مصروف تھی اس نے اپنی گرفت ڈھیلی  کی جسے ڈھیلی پڑتے دیکھ کر وہ فوراً اس سے دور ہوئ تھی۔

 اس کے ایسے پیچھے ہونے پر زین العابدین مسکرایا۔جو اپنی خجالت مٹانے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ,جب کافی دیر گزرنے کے بعد بھی زین العابدین نے گاڑی نہیں چلائ تو وہ زِچ ہوکربولی جو اس سے نظریں نہیں ملارہی تھی ۔

آخر آپ گاڑی کیوں  نہیں چلارہے؟ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ویسے ہی آج تمہارے ساتھ گاڑی میں وقت گزارنے کو دل چاہ رہاہے میرا "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے دیکھ کر شرارتی لہجے میں بولا  جس کا دل اِس وقت اسے شرارت پر اُکسا رہاتھا ۔

"مجھے نہیں بیٹھنا یہاں "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سلگتے ہوۓ لہجے میں بولی۔ 

"اچھا ایسا ہے کےمسسز خان !!چونکہ آپ اپنی کافی ساری اپنی انرجی ضائع کرُچکی ہے تو وہاں شاپر میں سے ایک جوس نکال کر فوراًپی لے تو پھر میں جیپ چلانے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں  ورنہ بھول جاؤ کے یہ ِجیپ چلے گی   "۔۔۔

اب کی بار اس کے لہجے میں سنجیدگی تھی,جسے دیکھ کر زھرہ نے جھپٹنے کے انداز میں  شاپر سے جوس نکالا  ۔

"آپ دنیا کے سب سے برے انسان ہے "۔۔۔۔۔۔۔

وہ روئ ہوئ آنکھوں کے ساتھ ہلک کے بل ِچلاتے ہوۓ جوس پینے لگی ,اس نے بمشکل مسکراہٹ کو اپنے ہونٹوں تک آنے سے روکا ۔ جب ہی اس  کی کھڑکی کی جانب سےایک آدمی  نے نوک کیا ۔زین العابدین نے شیشے کو نیچے کر کے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"سر راستہ کلیر کردیا ہے اب آپ جاسکتے ہیں دو گاڑیاں آپ کے پیچھے رہ کر فالو کرے گی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہلکار کی بات سن کر زھرہ کو خود پر گھڑوں پانی ِگرتا ہوا محسوس ہوا ,یعنی وہ سکیورٹی کی وجہ سے اب تک رکا ہوا تھا حد ہوگئ ہے زھرا ۔۔۔۔

اہلکار کے جاتے ہی زین العابدین نے کھڑکی کے ساتھ ِ

چپکی ہوئ اپنی نصف بہتر کو دیکھا جو شرمندگی کے مارے اس کی جانب بھی نہیں دیکھ رہی تھی وہ

اپنے سر کو جھٹکتےہوۓ گاڑی کو چلانے لگا جسے مستعدی سے دشوار گزار راستوں سےچلاتا ہوا اپنی منزل کی جانب بڑھتا جارہا تھا  ۔

ان کی منزل اس وقت سری پاے تھی جس کی سڑک بہت ہی تنگ اور کھڑی تھی جو عام ڈڑائیوڑ ز کے لیے  بلکل بھی آسان نہیں تھی احتیاط کے ساتھ چلانے کے باوجود بھی کئ ایسی جگہوں پر زھرہ کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا دل کسی بھی وقت پسلیاں توڑ کر باہر نکل آۓ گا  کیونکہ یہ پہاڑی سڑک تھی جس کے ایسے کچے خطوط اور خطرناک ڈراپ  تھیں کے زھرہ آہستہ آہستہ  کِھسک کر زین العابدین کے نزدیک ہوگئ تھی جو بظاہر تو  گاڑی توجہ سے چلارہاتھا پر گاہے بگاہے زھرہ پر بھی نظر ڈال لیتا تھا جو راستوں سے خوف زدہ ہوکر اس کے نزدیک بیٹھی ہوئ تھی ۔

"سر سامنے دیکھ کے "۔۔۔۔۔

زین العابدین کا دیھان ایک دم سے زھرہ کی جانب بھٹکا تھا جو۔سامنے سے آتے بکری کو بچے کو دیکھ کر گاڑی کو بریک لگا گیا جب ہی کچھ دیر کے توقف کے بعد زین العابدین نے اس کی جانب پلٹ کر دیکھا۔

"زھرہ ایسے بولتے ہیں ؟۔بکری کے بچے کا تو پتہ نہیں تمہاری چیخ سے میں اپنے بچے دیکھے بغیر دنیا سے چلا  جاتا"۔۔۔۔۔

وہ اس پر برہم ہوتے ہوۓ بولا جب ہی بکری کا بچہ تیزی سے پگڈنڈیوں کے اوپر سے گزرتا ہوا پیچھے کی جانب نکل گیا ۔زین العابدین نے ایک بار پھر انتہائ مستعدی سے گاڑی چلاتے ہوۓ کچھ ہی دیر میں  زھرہ کو منزل تک پہنچایا جہاں سب لوگ شوٹ کی تیاریاں کررہے تھیں وہ بنا زین العابدین کی جانب دیکھے ہمنا تنویر کی جانب بڑھ گئ جہاں وہ ونیزہ بلال کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی ۔دوپہر میں لنچ بریک کے وقت سب نزدیک ہی بنے ہوٹل میں کھانا کھانے میں مصروف تھیں وہی زین العابدین جو ہالے, حمنا اور ونیزہ کے ساتھ بظاہر تو کھانے میں مصروف تھا پر اس کی نگاہوں کا محور اس وقت زھرہ خان تھی جو ٹیبل پہ بیٹھی ایک لڑکی کے ساتھ کھانے میں کم اور فون پہ زیادہ مصروف تھی ۔ اس کی ساری حساسیت مزید بیدار ہوگئ جب زھرہ کی ٹیبل کے پاس سلمان حیدر کو اپنی پلیٹ تھامے کھڑا دیکھا جو اسے اجازت طلب نظروں سے بیٹھنے کی اجازت مانگ رہاتھا ۔

"کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں "۔۔۔۔۔۔۔

ْسلمان حیدر نے اجازت طلب نظروں سے زھرہ سے اجازت مانگی جو فون پہ کسی سے محو گفتگوں تھی اس نے اسے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے اپنے سینڈوچ کو بھی کھانے لگی , اس نے فون بند کر کے اپنا بقایا سینڈوچ کوبھی جلدی سےختم کیا ۔

"مس خان کیا آپ مجھے تھوڑا گائیڈ کرے گی اس ایڈ کے بارے میں ,جیسا کے اس کی تِھیم لائن آپ نے سیلیکٹ کی ہے تو "۔۔۔۔۔۔

سلمان حیدر نے چہرے پہ مضنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوۓ اس پری پیکر کو دیکھا جو سپاٹ چہرہ لیےاسے دیکھ رہی تھی ۔اس سے پہلے کے وہ اسے کوئ جواب دیتی نادانستگی میں اس کی نظریں زین العابدین کی جانب  چلی گئ جو اپنی ٹیبل پہ بیٹھا اسے ہی ُگھوررہاتھا وہ اس کو نظر انداز کرتی ہوئ سلمان حیدر کی جانب مسکرا کر دیکھتے ہوۓ اسے تھیم لائن کے بارے میں بتانے لگی , زین العابدین جو پچھلے پندرہ منٹ سے اپنے اندر پنپتے غصے کو دبانے کی کوشش کررہاتھا ,آخر کار خود  سے مجبور ہوکر اپنی ٹیبل سے اٹھ کھڑا ُہوا ۔وہ دو قدم چل کر کر سلمان حیدر کی جانب دیکھنے لگا ۔

"اگر آپ برا نہ مناۓ تو کیا میں آپ کو  

 کرسکتا ہوں؟ "۔۔۔۔۔۔        join 

"بلکل جناب یہ تو ہمارے لیے بہت اعزاز کی بات ہوگی "۔

سلمان حیدر نے خوش دلی  سے کھڑے ہوکر اسے بیٹھنے کے لیے کہا جس پر وہ کرسی کھینچتا ہوا بیٹھ گیا ۔زین العابدین کے ٹھیک اپنے سامنے بیٹھنے پر وہ پہلوں بدل کر رہ گئ جو سلمان حیدر کے سامنے بھی اسے دیکھنے سےاجتناب نہیں برت رہاتھا ۔وہ بظاہر تو سلمان حیدر سے ہلکی ُپھلکی باتیں کررہاتھا پر ُاس کی نظروں کا محور صرف وہ تھی جو اس کی نظروں کی تپش سے جھلس رہی تھی جب بات ؔحد سے سوا ہوئ تو وہ اٹھ بیٹھی۔

"excuse me"! !.

"مس خان کہا جارہی ہے آپ بیٹھے نہ پلیز ابھی مسٹڑ سلمان ہمیں اپنے ہاتھوں سے کوفی بناکر پلاۓ گے ,کیوں مسٹڑ سلمان ؟۔۔۔۔۔۔

سلمان حیدر نے سٹپٹا کر زین العابدین کی جانب دیکھا۔

"جی ضرور سر "۔۔۔۔۔

ْوہ یہ کہ کر بوتل کے جن کی طرح کوفی کاونٹڑ کی جانب بڑھ گیا زھرہ بجھے دل کے ساتھ واپس بیٹھ کراپنی ساری توجہ موبائل پر مرکوز کرگئی وہ اس کی نظروں کی تپش کو محسوس کررہی تھی جسے اسٹاف کی بھی پرواہ نہ تھی ۔

"dont look at me sir,you make me uncomfortable "....

"میری طرف ایسے مت دیکھے سر آپ مجھے بےچین/بےآرام کررہے ہیں ".۔۔۔۔۔ ۔

وہ اسے گھوری سے نوازتے ہوۓ بولی جو شاید آج اسے دیکھ کر ہی پیٹ بھرنے آیا تھا۔ زین العابدین کے لبوں پر مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا ۔

"I dont have look at you,because i make un comfortable"

میری نگاہ تم پر نہیں ہے کیونکہ میں تمہیں آرام۔دہ کرنا چاہتا ہوں۔۔

زین العابدین نےنہایت دلچسپی سے اسے مسکراتی نگاہوں سے گھورتے ہوۓ بولا جو اس کے اتنے مزے سے جواب دینے پر سرتاپا سلگ اٹھی تھی۔

"By the way a stranger is looking at you and you are not feeling uncomfortable ,but when I  look at you  you feel uncomfortable".......

"ویسےایک اجنبی جب آپ کی طرف دیکھتا ہے تو آپ کو تکلیف نہیں ہوتی ، لیکن جب میں آپ کی طرف دیکھتا ہوں ،تو آپ کو تکلیف ہوتی ہے"۔

کیا بات ہے آپ کی مسز خان"۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کی جانب مسکراہٹ اچھالتے ہوۓ بولا جو اس کی بات پہ کلس کے رہ گئ۔

"کیا مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ ؟۔کیوں اسٹاف کے سامنے ایسی حرکتیں کرکے مجھے مشکوک بناتے رہتےہیں "۔

وہ دھیمی آواز میں غراتے ہوۓ بولی ۔۔

"میں نے کیا کیاہے؟۔۔

زین العابدین نے اپنی آئ برو اچکا کے معصومیت کے سارے ریکاڑڈ توڑتے ہوۓاس کی جانب دیکھا ۔

"کچھ نہیں کیا آپ نے, سب کچھ میں نے کیا ہیں بس خوش اب اگر آپ نے ایک اور بار بھی مجھے کسی کے سامنے ایسے دیکھا تو نتائج کے زمہ دار آپ خود  ہوگے"۔

وہ خونخوار لہجے میں اسے باور کراتی ہوئ شیرنی ہی لگی۔

indirectly  یعنی" 

تم مجھے اکیلے میں دیکھنے کی اجازت   

 دے رہی ہو  "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے زچ کرنے لگا ۔

"اونہہ "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ نحوت سے اپنا رخ دوسری جانب کرگئ جہاں بیک وقت ہالے اور ونیزہ اسے ہی گھورتی نظر آرہی تھی جیسے وہ آج ہی اسے سالم نگل جانے کا ارادہ رکھتی ہو ۔

"اگر یہ بندر مجھے تمہارے آس پاس بھی مزید  نظر آیا تو میں اس سے بھی زیادہ حد پار کرسکتا ہوں اور تم اچھے سے جانتی ہو تمہارے معاملے میں میری کوئ حدود نہیں ہیے  "۔۔۔

وہ اسےجتا کے گویا ہوا ۔

"now standup from this table"۔۔۔۔۔

وہ کالی گھور آنکھوں میں شرارت سموۓ اس پر دھونس جماتے ہوۓ چلاگیا وہ اندر ہی اندر پیچ وتاب کھاتی ہوئ سلمان حیدر کے آنے سے پہلے ہی وہاں سے واک آؤٹ کرگئ۔

وہ اس وقت ڈڑیسنگ روم میں بیٹھا سگریٹ نوشی کے شغل سے لطف اندوز ہورہاتھا وہ یہاں سے جلد سے جلد نکل کر آزادی کا سانس لینا چاہتا تھا جب ہی زھرہ کمرے میں کاسٹیومز لینے کے اسپوٹ بواۓ کے ساتھ جلدی میں آئ جس نے زین العابدین کو بلکل نظر انداز کرکے اسپوٹ بواۓ کو تین چار ڈریسزز نکال کر دیے وہ جیسے ہی باہر جانے لگی زین العابدین نے اسے آواز لگا کر روک لیا۔

"مجھے تم۔سے ایک بات کرنی تھی تمہاری ایک بہت قیمتی چیز ہے میرے پاس "۔۔۔۔۔۔

"کیا چیز ؟"۔۔۔۔۔۔

زھرہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھاجس نے اپنے اپپر کی جیب سے ایک چین نکال کر زھرہ کے سامنے لہرائ ۔

"یہ تو میری چین ہے آپ کو کہا سے ملی"۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چین کو دیکھ کر جزباتی ہوئ ۔

" جب تم بیمار ہوگئ تھی تب اسپتال سے گھر لاتے وقت میرے پاس رہ گئ تھی "۔۔۔۔۔۔

زین العابدین اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر اس کی اہمیت کا اندازہ اچھے سے لگا سکتا تھا ۔

"یہ چین تمہیں کہا سے ملی زھرہ ؟"۔۔۔۔۔۔

زین العابدین نے تجسس سے پوچھا۔

"یہ میرے بابا کی آخری نشانی  تھی انہوں نے یہ میری امی کو دی تھی"۔۔۔۔۔

وہ۔مدھم لہجے میں بولی جن کے درمیان فاصلہ ایک انگشت جتنا تھا ۔

قدموں کی چاپ سن کےزین العابدین نے زھرہ کو کھینچھ کر پردے کے پیچھے کردیااورخود اس کے آگے کھڑا ہوگیا کیوں کے کمرے کا دروازہ آٹومیٹک بند ہوجاتا تھا ایسے میں زھرہ کے ساتھ ڈڑیسینگ روم میں اکیلا پایا جانا زھرہ کی پوزیشن کو آکورڈ کرسکتا تھا جو زین العابدین کو کسی بھی صورت میں قبول نہ تھا ۔

 اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب اس نے کمرے کا دروازہ لاک کرتی ونیزہ بلال کو دیکھا جو والہانہ انداز میں اپنا سفید نازک ہاتھ اس کی جانب بڑھارہی تھی ۔

"میں تو کب سے اس موقع کی تلاش میں تھی جب وہ آپ کی کزن ہالے آپ کے ساتھ نہ ہوتی "۔۔۔۔۔۔۔

وہ زین العابدین کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر آہستہ سے بولی بلاشبہ اس کا حسین چہرہ کسی بھی پروڈکٹ کو چار چاند لگاسکتا تھا مگر زین العابدین کو اس میں کوئ کشش محسوس نہیں ہوتی تھی جو وہ زھرہ کے لیے محسوس کرتا تھا۔

"انٹرسٹنگ مسس بلال ویسے آپ کس قسم کے موقع کی تلاش میں تھی کیا آپ روشنی ڈالنا پسند کرے گی "۔۔۔۔۔۔۔

زین العابدین کوفت زدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا جس کی نظریں زین العابدین سے ہٹنے کو تیار نہیں تھی وہی زھرہ پردے کی اوٹ میں داۓ جانب لگے شیشے میں اس کی حد درجہ بے باکی دیکھ کر متحیر ہوگئ۔

"ڈیڑ آپ جس طرح کا موقع لینے کی کوشش کرے گی یہ آپ کو دل و جان سے دوں گی "۔۔۔۔۔۔

ونیزہ بلال زین العابدین کے چہرے پہ انگشت پھیرتے ہوۓ لباس کی جانب اشارہ کرتی ہوئ بولی جو زین العابدین کے لیے تو نہیں مگر زھرہ کے چودہ طبق روشن کرگیا تھا وہ جس بے تکلفی سے اپنی خواہش کا اظہار کررہی تھی اسے سن کر زھرہ کے چودہ طبق روشن ہوگۓ ,۔

"بہت معزرت کے ساتھ پر مس بلال میں نکاح سے پہلے اس طرح کے رشتے کو استوار کرنا پسند نہیں کرتا امید کروں گا ہمارے تعلقات اس بات سے ختم نہیں ہوگے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 وہ دنگ نظروں سے زین العابدین کے پرسکون چہرے کو دیکھ رہی تھی جو سلیقے سے اس کی پیشکش کو رد کرچکا تھا ونیزہ بلال سر سری انداز میں اٹز اوکے بولتی باہر کی جانب نکل گئ۔

دروازہ۔بند ہونے کی آواز پہ زین العابدین نے پلٹ کے زھرہ کو دیکھا جس کی کانوں کی لوؤیں تک سرخ۔ہوچکی تھی ۔

"ہاں تو ہم کہا تھے ؟"۔۔۔۔۔۔

وہ اس کے لال ہوۓ چہرے کو دیکھ کر بولا ۔

"کہی بھی نہیں"۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کے کثرتی سینے پہ اپنے نازک ہاتھ رکھ کے اسے پیچھے دکھیل گئ۔

پھر یونہی سارا دن مصروفیت بھرا گزار کر وہ لوگ عصر کی نماز کے وقت واپسی کے سفر کے لیے نکل پڑے  ,اس باروہ  زین العابدین سے بنا الجھے خاموشی سے جاکر جِیپ میں بیٹھ گئ ۔

واپسی کا سفر بِنا کسی جنگ عظیم کے گزررہاتھا جب ہی زین العابدین نے گاڑی کی خاموشی کو ڑیڈیوں پہ اپنے سروں کے راگ الاپتے نصرت فتح علی خان کی قوالی سے چھیڑا ۔جن کی گاڑی میں مدھم سی آواز گونجنے لگی ۔

خدا کے لیے چھوڑدو اب یہ پردہ 

کہ ہیں آج ہم تم نہیں غیر کوئ

شب وصل بھی ہے حجاب اس قدر کیوں

ذرا رخ سے آنچل اٹھا کر تو دیکھو

زین العابدین نےخود بھی نصرت فتح علی خان کے ساتھ گانا شروع کردیا جس پر زھرہ جو بظاہر تو باہر دیکھ رہی تھی پر زین العابدین کی حرکتوں پر اسے اب غصہ آنا شروع ہوگیا تھا جو اسے زچ کرنے کا کوئ بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا ۔

ہمیشہ ہوۓ دیکھ کر مجھ کو برہم 

کسی دن ذرا مسکرا تو دیکھو"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہی زھرا نے ہاتھ بڑھا کر ڑیڈیوں کا گلا گھونٹ دیا ۔

"کیا ُہوا اتنا اچھی تو تھی قوالی, تمہاری نصرت صاحب اتنی تعریفیں کررہے تھے اس میں "۔۔۔۔۔۔۔

وہ استہزائیہ انداز میں کہتا ہوا سامنے کی جانب دیکھنے لگا ۔

"یہ آپ گاڑی کو اتنی سست رفتاری سے کیوں چلارہے ہے۔وہ سب کے سب کب کے آگے نکل چکے ہیں"۔۔۔۔۔

زھرہ باہر کی جانب بڑھتے اندھیرے کو دیکھتے ہوۓ بولی جہاں  دن اور رات  کے درمیان آنکھ مچولی چل رہی تھی۔

"دل چاہ رہا ہے میرا یہ سفر اسی طرح سے گزرتا رہے اسی لیے "۔

زھرہ نے اسے شاکی ہوکر دیکھا جس کے چہرے پہ چھائ شرارتی مسکراہٹ دیکھ کر وہ سمجھ گئ تھی کے وہ اسے صرف تنگ کرنے کے لیے ایسا بول رہاتھا جب ہی اس کا فون بجنے لگا ۔

"زھرہ میں ڈڑائیو کررہاہوں میری جیب سے فون نکال کر کال ریسیو کرے پلیز "۔


میں کیوں نکالو فون آپ کی جیب سے گاڑی روک کر کال سن لے خود ہی "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کی دھونس بھری  عادت سے چڑ کےبولی۔

زھرہ یہ ارجنٹ کال ہے میں گاڑی کسی صورت میں نہیں روک سکتا "۔۔۔۔۔۔

اب کے بار زین العابدین کے چہرے پہ چھائ سنجیدگی دیکھ کر زھرہ نے اسے اچھنبے سے دیکھا ۔

"آپ کو کیسے پتہ کے یہ ضروری کال ہے "۔۔۔۔۔۔

for  Godsake  Zahra u just got on my nerves"۔۔۔۔

وہ چٹانوں سی سختی لیے مشکل موڑ موڑتے ہوۓ زھرہ پہ ڈھاڑا جو اس کی آواز سن کر سہم گئ تھی جب ہی وہ اپنے لہجے میں نرمی لاتے ہوۓ بولا۔

جو بیل بج رہی ہے وہ والا نمبر صرف گاڑڈز کے پاس ہے اس لیے مجھے پتہ ہے یہ ایمرجنسی کال ہے"۔

کچھ پلوں کے لیے زھرہ نے اس کی جانب دیکھا پھر اس کے نزدیک کِھسک کر اس کے کوٹ کی اندر والی جیب سے موبائل نکالا ۔

"کال ریسیو کرکے اسپیکر کھولے "۔

وہ اس کی باتوں پر عمل کرتے ہوۓ موبائل کو اس کے نزدیک کرگئ۔

"ہیلو سر ولی شیر اسپیکنگ "۔۔

"بولو ولی شیر "۔۔

32

"سر آپ کا شک صحیح نکلا وہ سفید جیپز آپ کو فالو کررہی ہیں اور بیک وقت یہ تین جیپز ہے "۔

ولی شیر کی بات سن کر زین العابدین نے ڈڑائیو کرتے ہوۓ زھرہ کی جانب دیکھا جس کا ساری بات سن کر چہرہ فق  ہوگیا تھا ۔

"پھر اب کیا کرنا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔

زین العابدین نے سرد لہجےمیں پوچھا۔

"فلحال سر انہیں ڈاج دینا ضروری ہے کیوں کے ہماری تعداد ان کی تعداد سے کم ہے ایسے میں ہم آپ کو ٹھیک سے پروٹیکٹ  نہیں کرپاۓ گے اس لیے تھوڑا آگے جاکے داۓ جانب پہ ایک کچا راستہ آۓ گا, تھوڑا خطرناک ہوتا ہے جیپ اتارنا وہاں سےپر آپ کو کچھ بھی کرکے جیپ نیچے اتارنی ہے اس دوران ہم آپ کی جگہ انہیں اپنے پیچھے لاۓ گے, انشاللہ جب تک ہماری باقی گاڑڈز بھی پہنچ جاۓ گے ,آپ بس کال ُاٹھا لیجیے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔  

"ٹھیک ہے اپ ڈیٹ دیتے رہنا مجھے اگر بہت زیادہ ضرورت لگے تو پولیس کو انوالو کرنا ورنہ رہنے دینا"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زھرہ نے اس کی جانب دیکھا جو اس وقت بپھرے ہوۓ سمندر سے کم نہیں لگ رہاتھا۔مگر آنے والے وقت کا سوچ کر زھرہ کو پریشانی نے گھیر لیا تھا اگر وہ لوگ ہم تک پہنچ گۓ تو کیا ہوگا,اس سوچ کے آگے جا کے اسے اپنی جان سولی پہ لٹکی ہوئ محسوس ہورہی تھی ۔

"یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہورہا ہے اگر آپ گاڑی کی رفتار تھوڑی تیز کرلیتے تو ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے پر آپ نے تو قسم کھارکھی ہے مجھے زچ کرنے کی "۔۔وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔

"ہاں تاکہ اپنے ساتھ ساتھ ان کی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتا "۔۔۔۔۔۔۔

وہ سپاٹ لہجے میں بولتا ہوا موڑ کاٹنے لگا جب ہی وہ زھرہ کی جانب پلٹا جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑرہی تھی ۔

"بیلٹ لگا کر اپنا رخ میری جانب کرو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کے چہرے پہ چھائ سنجیدگی دیکھ کر خاموشی سے اس کی بات پر عمل کرنے لگی جب ہی جیپ ہچکولے کھاتی ہوئ نیچے کی جانب اترنے لگی جس پر زھرہ ہیبت زدہ سی گاڑی کی پشت سے سر ٹکاۓ آنکھیں موند کے قرآن پاک کی آیت کا ورد کرنے لگی ۔جیسے ہی گاڑی ہموار راستے پر آئ زین العابدین نے گاڑی کو بریک لگادی ۔

"we safely reached Zahra "۔۔۔۔۔.

زین العابدین نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کےاسے تحفظ کا احساس دلایا جس کی بند آنکھوں سے آنسوں لڑیوں کی صورت میں بہ رہے تھیں ۔جب ہی اس کے فون پر ِرنگ ہوئ ۔جسے اس نے فوراً ریسیو کیا ۔

"سر ہم پوری کوشش کررہے ہیں انہیں چاروں طرف سے گھیرنے کی آپ فلحال یہاں سے تھوڑی سی مسافت پر چھوٹا سا گاؤں ہے آپ جب تک وہاں پناہ لے ہم کچھ دیر تک وہاں پہنچتے ہیں"۔۔۔۔۔۔ 

زین العابدین  نے اپنی کلائ پہ بندھی ِرسٹ واچ پر نظر دوڑائ جس پر گھڑی رات کے سات بتارہی تھی۔اس نے  اپنی باۓ جانب بیٹھی زھرہ پہ نظر ڈالی جو خاموشی سے بیٹھی کھڑکی سے  باہر نیچے کی جانب دیکھ رہی تھی جہاں نزدیک ہی ایک دروازے کے باہر لالٹین ٹمٹمارہی تھی اس نے نہایت احتیاط سے جیپ کو تھوڑا اور چلا کر اس ڈھلان کے آگے کچھ اس انداز میں کھڑا کردیا کے جیپ اس کے پیچھے بلکل ُچھپ سی گئ۔وہ گاڑی سے نیچے اتر کر ُگھوم کے اس کی جانب آیا 

"باہر آئیے"۔

وہ اس کی جانب کا دروازہ کھول کے اسے باہر آنے کے لیے کہنے لگا,مگر اس کا حلیہ دیکھ کر اس نے چونک کے کہا۔

"wait"..

ذین العابدین نے سر سری سا اس کی جانب دیکھا جو اوور کوٹ کے اوپر ہم رنگ ُسوٹ کا ڈوپٹہ اوڑھے ہوۓ تھی ۔

"آپ کی شال کہا ہے ؟"۔۔۔۔۔۔

زین العابدین نے سوالیہ انداز میں اس کی جانب دیکھا ۔

"وہ میرے بیگ ہے "۔۔۔۔۔۔

وہ کش مکش کا شکار تھی آخر زین العابدین چاہ کیا رہاتھاجو گاڑی کی پچھلی جانب سے دروازہ کھول کر اسے اس کا بیگ لے آیا۔

"باہر بہت سردی ہے اپنی ساری چیزیں واپس پہنیں "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دروازہ کے آگے کھڑا اپنی سگریٹ کو لائٹڑ کی مدد سے سُلگاتاہوا اس کی جانب دیکھ کر بولاجو اس کےلہجے سے جھلکتی حاکمیت کے عنصر سے سخت نالاں تھی ۔مگر اس وقت وہ مجبور تھی سو جھنجھلائ  سی بیگ سے چادر نکال کر اوڑھ لی ۔پھر ہاتھوں میں دستانے پہن کر گاڑی سے باہر نکل آئ جہاں ہر سو گُھپ اندھیرہ چھایا ُہوا تھا ما سواۓ ٹمٹماتی روشنیوں کے  جوشاید جلتے لال ٹینوں کی تھی ۔جب ہی زین العابدین نے اپنی سگریٹ کو نیچے پھینک کر جاگرز کی مدد سے مسلتا ہوا ُاس کی جانب پلٹا ۔پھر ِبنا اسے کوئ موقع دیۓ اپنے یخ بستہ ہاتھ میں اس کے نرم گرم ہاتھ کو مضبوطی سے تھام کر وہ موبائل کی ٹارچ جلاۓ چلنے لگا ۔

وہ ُاس کی ِاس قدر دھونس بھری عادت سے ِچڑتے ہوۓ اپنا ہاتھ کھینچھ گئ تھی۔جو چلتا ُہوا ایک دم سے اس کی جانب پلٹا۔

"چھوڑے میرا ہاتھ "۔۔۔۔۔۔۔

وہ زین العابدین کی جانب دیکھ کر تیز لہجے میں بولی ۔

"کیوں "۔۔۔۔۔۔۔

وہ ٹاڑچ اس کے چہرے کی طرف کرتے ہوۓ بولا جس کے بے داغ چہرے پر چھائ معصومیت اسے اتنی بھلی سی لگی تھی کے وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا۔

"کیوں کے مجھے نہیں پسند آپ کا بات بات پہ ہاتھ تھامنا"۔۔۔۔

وہ زین العابدین کے ہاتھ کو جھٹکنے کی کوشش کررہی تھی جس پر اس کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئ تھی ۔وہ خاصی اجنبی بنی چہرے پہ  ناگواری لیے اسے گُھورنے لگی ۔

"میرے خیال سے تمہارا ہاتھ تھامنے کے لیے مجھے تمہیں بھی پوچھنے کی ضرورت  نہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے جتا کے گویا ہوا جس کے منہ سے سخت سردی کی وجہ سے دُھواں نکل رہاتھا ۔

"کیوں !کیوں ضرورت نہیں ہے؟کیامیرے آگے پیچھے کوئ نہیں میں بے سہارا ہوں ,تو میرے ساتھ جو مرضی سلوک رواں رکھے گے آپ "۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ چلائ تھی اس پر غصے میں جسے زین العابدین گہری نگاہوں سے دیکھ رہاتھاپھر ِبنا کوئ لمحہ ضائع کیۓ اس کی نازک مرمریں کمر میں بازو حمائل کیے اس کے وجود کو اپنی مضبوط پناہ میں لیا ۔

"اس دن کہا تھا میں نے تمہیں ایک دن تمہارے سارے سوالوں کا جواب دوں گا تو آج وہ وقت آگیا ہے شاید, نکاح  جیسے پاک رشتے میں بندھنے کے بعد اللّہ نے تمہیں میرا شریک حیات بنایا ہے زھرہ زین العابدین "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کے چہرے پہ آۓ آنسؤؤں کو اپنی انگشت سے صاف کرتے ہوۓ بولا جو ُاس کے مضبوط قلعے سے نکلنے کی تگ ودو میں مصروف تھی ۔

"تو محترمہ آپ کا ہاتھ تھامنے کا پرمیننٹ پیپر ہے میرے پاس ہاں میرے علاوہ اگر کوی میری بیوی  کو ُچھونے تو کیا غلط نگاہ سے دیکھنے کی بھی کوشش کرےگاتو ُاس کا انجام۔کیا ہوتا ہے یہ تم اچھے سے جانتی ہو ,تو آج کے بعد مجھ سے ِاس طرح کی باتیں مت کرنا زھرہ, یہ رشتہ بے شک ایک انسیڈینٹ کی وجہ سے ُجوڑا تھا پر تم اپنے دماغ میں یہ بات بٹھالینا ,کے اب میں یہ رشتہ اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ آخری سانس تک نبھاؤں گا ,اس کی وجہ کیا ہے!! کیوں ہے!! مجھے ابھی خود بھی نہیں معلوم !! جس دن مجھے وہ وجہ معلوم ہوگئ ۔ سب سے پہلے تمہیں ہی بتاؤں گا,اور تم  یہ سوچنا چھوڑدو کے تم بے سہارا ہو,میں ہوں تمہارا سہارا زین العابدین حیات خان!! نہیں ہو تم اکیلی  !میں ہوں تمہارے سر کی مضبوط چھت "۔۔۔۔۔۔    

وہ متوحش زدہ سی ہوئ اس کی جانب دیکھنے لگی۔جو اس کے چہرے پہ آئ بالوں کی لٹوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوۓ بولا ,وہ بدک کے پیچھے ہوئ تھی مگر ُاس کی مضبوط گرفت میں وہ صرف پھڑ پھڑا ہی سکی ۔

"اگر پھر بھی زیادہ شور مچانے کی کوشش کی تو سوچ لینا ِاس سے آگے میں کیا کیا کرسکتاہوں "۔۔۔۔۔۔۔

وہ کالی ُگھور آنکھوں میں شوخی ,شرارت, رعب ,دھونس کے ساتھ ُاس کی پیشانی پر اپناجلتا ہوا لمس چھوڑ ُچکاتھا ,زھرہ کو ُاس لمحے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا ,دل مانو کسی بھی وقت پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا ۔زین العابدین نے اس کے گِرد سے حصار توڑدیاپھر اس کا  ہاتھ تھامتے ہوۓ نیچے ڈھلانوں کی جانب ُاترنے لگا ۔وہ سٹل دماغ کے ساتھ ُاس کی ہمراہی میں نیچے کی جانب ُاترنے لگی۔جہاں زیادہ برف گری ہونے کی وجہ سے پاؤں اندر کی جانب ِدھنس رہےتھیں ۔وہ دونوں اس کچے مکان کے سامنے جا کر کھڑے ہوگۓ جہاں لکڑی  کےبوسیدہ دروازے کے سامنے لالٹین لٹکا ہوا تھا ۔زھرہ کو ابھی بھی اپنی پیشانی جلتی ہوئ محسوس ہورہی تھی جہاں کچھ دیر پہلے زین العابدین نے اپنے جلتے ہوۓ لب رکھے تھے, جب ہی زین العابدین کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

"اپنا چہرہ ڈھکو"۔۔۔۔۔۔۔

وہ بنا اس کی جانب دیکھے سرد آواز میں بولاتھا ۔جس پر زھرہ نے اپنی چادر کو اس انداز میں اپنے چہرے کے گِرد لپیٹا کے ُاس کی شال نقاب کی طرح بن گئ زین العابدین نے لکڑی کے بوسیدہ دروازے پر لگی زنجیر کو پھربجایا جسے کچھ ہی لمحوں کے بعد  ایک آدمی نے کھولا ۔

"سلام۔بھائ یہاں کوئ ریسٹ ہاؤس وغیرہ مل سکتا ہے ؟"۔۔۔۔۔

ُوہ اس آدمی کی جانب دیکھ کر بولا جو اپنے ِپھیرن پہنے ہوۓ اسے کشمیری لگا تھا ۔اس نے سرسری سا زھرہ کی جانب دیکھا جس پر زین العابدین ایک ناقابل شکست دیوار کی طرح زھرہ کے آگے اس طرح سے کھڑا ہوگیا کے وہ ِاس کے پیچھے ُچھپ سی گئ تھی ۔

"صاحب یہاں تو آپ کو ریسٹ ہاؤس نہیں ملے گا,آپ ایسا کرے یہاں پہ جو بانال ہے وہاں دیکھے,شاید کوئ بات بن جاۓ "۔

وہ آدمی زین العابدین کی جانب دیکھ کر بولا جب ہی پہاڑوں پہ ہلکی ہلکی برف پڑنا شروع ہوگئ تھی جو کے ِاس وقت ان کے لیے ِبلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔

"بانال کیا بھائ ؟"۔۔۔۔۔۔

زین العابدین نے اس  کی جانب ناسمجھی سے دیکھا۔

"بانال بھائ یہاں کی زبان میں پہاڑ پہ بنے چھ سات گھروں کو کہتے ہیں ,میرے پاس جگہ نہیں ہیں ورنہ میں آپ کو اپنے یہاں رات روک لیتا ,پر میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔یہاں کے مقامی ناظم۔نے ایک حجرہ بنوایا ہوا ہے جو لوگ بھٹک جاتے ہیں یا ہوٹلز میں جگہ نہیں ملتی تو پھر لوگ ایسے حجروں میں قیام۔کرتے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کہا ہے چلو پھر "۔۔۔۔۔۔ 

"میں آپ کو لے چلتا ہوں بس میں جیکٹ پہن کر آیا "۔۔۔۔۔  

وہ دو منٹ بعد ہی واپس پلٹ آیا پھر اس کی ہمراہی میں زین العابدین زھرہ کا ہاتھ تھامے ہوۓ اسے اور  دو مقامی لوگوں کی مدد سےناظم کے حجرے میں ان کی رہائش کا بندوبست کروا کر چلے گۓزھرہ نے کمرے کی جانب دیکھا جو پورا لکڑی سے بنا ہوا تھا فرش پر انھوں نے موٹے گدے ڈال کر چادریں ِبچھائ ہوئ تھی ۔کمرۓ میں دیوار کے ساتھ ایک ِسنگل پلنگ رکھا ہوا تھا وہی ُاس کے تھوڑا نزدیک دو کرسیاں اور میز بھی  تھی ,پلنگ کے نزدیک ہی  ایک چھوٹی سی کھڑکھی تھی جہاں سے یخ بستہ ہوائیں اندر کی جانب آرہی تھی ۔ زین العابدین اندر داخل ہوا ۔جہاں وہ کھڑکی بند کرنے کی کوششوں میں مصروف  تھی ۔وہ اس کے پیچھے سے ہاتھ بڑھاتا ہوا کھڑکی کو ایک جھٹکے سے بند کرگیا جب تک وہ اس کے پیچھے کھڑا تھا ,زھرہ نے ِہلنا بھی مانو گناہ سمجھ لیا تھا۔

وہ جیسے ہی کھڑکی بند کرکے پیچھے کی جانب پلٹا زھرہ کو ساکت کھڑا دیکھ کے اس کی رگ ظرافت پھڑکی۔

"اب تم سانس لے سکتی ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ اس کے کان کے نزدیک سرگوشی کرتاہوا پیچھے ہوگیا جس نے اپنا ُرکا ہوا سانس بحال کیاوہ کمرے کو جانچتی ہوئ نظروں سے دیکھتا ہوا پلنگ کی جانب بڑھ گیا ۔جہاں وہ نیم دراز ہوتے ہوۓاس کی جانب دیکھنے لگا جو چادر کو  اپنے گرد لپیٹے ہوۓ وہی کھڑکی کے نزدیک کھڑی تھی اس کے چہرے سے تھکاوٹ صاف جھلک رہی تھی ۔وہ اپنی جیب سے فون نکالتا ہوا شیر علی کو کال ملانے لگا جس نے تیسری بیل کے بعد ہی کال ُاٹھالی ۔

"کیا رپورٹ ہیں علی ؟"۔ ۔۔۔۔۔۔۔

زین العابدین نے سگریٹ سلگاتے ہوۓ زھرہ کی جانب دیکھا جو پریشانی کے عالم میں کمرے کے اندر چکر لگارہی تھی ۔

"سر ُبری خبر ہیں ان کی ایک گاڑی ہمارے ہاتھ لگی ہے جس میں سے پکڑے گۓ دونوں لوگوں سے تفشیش جاری ہیں ۔باقی دو گاڑیاں ہمارے ہاتھ سے نکل گئ ہیں ِاس لیۓ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہیں آپ کوشش کرے جہاں ہیں وہی رہے ابھی ہم صبح سے پہلے اس راستے پر واپس نہیں آسکتے کیوں کے برف باری کی وجہ سے جِیپ روڈ بند کردیا ہیں "۔

زین العابدین جو بظاہر تو فون پہ بات کررہا تھا پر اس کی توجہ کا مرکز اس وقت زھرہ کی کاروائیاں تھی جو نرم۔گدے پر اپنے موزے اتار کر ایسے واک کررہی تھی جیسے وہ کسی پارک میں آئ ہو۔

"ٹھیک ہے شیر علی جیسے ہی موسم صاف ہوگا آپ لوگ یہی آجانا ,ہم شوگراں کے نزدیک ہی کسی بانال پہ ہیں "۔۔۔۔۔۔۔

زین العابدین نے جیسے ہی فون بند کیا وہ اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔

خراب موسم کی وجہ سے ِجیپ ٹڑیک بند ہیے ,صبح سے پہلے ہم نہیں جاسکتے ْ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے موبائل پہ ُجھکا ہوا زھرہ سے بولا۔

اتنی سردی میں،سوکس(موزے) کیوں اتارے ہیں "۔

وہ سرد مہری سے  اس سے پوچھنے لگا جو اس پر بھولے سے بھی ایک نگاہ نہیں ڈال رہاتھا پر اس کی ہر چیز پر نظر رکھی ہوئ تھی کے اس نے کیا پہنا ہوا اور کیا نہیں ۔

"میں بیٹھ بیٹھ کے تھک گئ تھی۔اس لیے سوکس اتار کر  چل رہی تھی" ۔وہ خلاف توقع اس کی بات کا جواب دے گئ تھی ۔ دروازے پہ ہوتی دستک نے دونوں کو متوجہ کیازین العابدین اپنا فون تھام کر باہر کی جانب چلاگیا پھر کچھ ہی دیر بعد ہاتھ میں ٹڑے تھامے اندر آیا۔33

یہ تمہارا کھانا ہے,میں باہر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں گا "۔

وہ ٹڑے میز پر رکھتے ہوۓ باہر کی طرف نکل گیا وہ جانتا تھا کے وہ اس کی موجودگی میں کھانا ٹھیک سے نہیں کھاۓ گی اسی لیے اس نے اپنا کھانا باہر میز پر ہی لگوالیا۔

Comments

Popular Posts