تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode9

 



ARAZ RESHAB NOVELS


Dont copy paste without my permission kindly.


کیا مطلب ہے تمہارا ایسا کیاہوگیا ہے جوناامیدی کی باتیں کررہی ہو ,پچیس سال کی


ہوگئ ہو خوبصورت ہو ,ہاتھ پاؤں سلامت ہے  ,پڑھی لکھی ہو ,اسلامی تعلیمات بھی لی


ہوئی ہے اور کیا چیز ہے جوتمہارے پاس نہیں ہیں اور سب کے پاس ہیں !!!,بتاؤ


کیوں ایسی ناامیدی کی باتیں کرتی ہو ,کیا تم ان ُجُھگی والوں سے بھی گئ گزری ہو جو


اپنی بچیوں کی شادیاں کرتے ہیں ,ہر غمی خوشی مناتے ہیں چھوٹی چھوٹی سی ان کی


لڑکیاں بچے لٹکاۓ گلیوں محلوں میں ُگھوم رہی ہوتی ہیں کیا وہ بھی تمہاری طرح


سوچتی ہیں؟؟۔ان کے پاس تو چار آنے بھی نہیں ہوتے پر پھر بھی ایک نۓ


عزم سے گھر سے نکلتے ہیں کے شام سے پہلے گھر کھانا لے کر پہنچ جائیں گے پھر تمہیں کیا تکلیف ہے جو ُتو ہر چیز سے جلدی نا امید ہوجاتی ہے؟۔


 بتاؤ زارو اب گونگی کیوں بن گئ ہو ؟۔


زینیہ لال تمتائےچہرے کے ساتھ زھرہ کو قائل کرنے کی کوشش کی ۔


" تمہیں کس نے کہا میں نا امید ی کے بارے میں سوچتی ہوں تم۔نے میری آدھی ادھوری  باتوں کا غلط معنی اخز کر لیا ہے ۔ْ"



وہ کچھ دیر کے توقف کے بعد مرجھاۓ چہرے کے ساتھ  بولی۔


"میں ناامیدی سے نہیں بلکہ بد نصیبی سے ڈڑتی ہوں  زینیہ ,یہ بدنصیبی ہی تو ہے جو


میرے پیدا ہونے سے پہلے  اپنے بابا کو کھا گئ ,پھر دنیا میں آئی تو امی کے لیے


پریشانیوں  کےدروازے کھول آئی ,بڑی ہوئی تو ماں میرے بارے میں سوچ سوچ


کے دل کی مریضہ بن گئ ,اب پڑھ لکھ کر نوکری کرنے لگی ہوں تو یہ معاشرے کی گندی


گِدے مجھے نوچنے کے لیے تیار بیٹھی ہے ,تم بتاؤ کیا میں نے کچھ غلط کہا ؟۔نہیں نہ ! 



زھرہ نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوۓ کہا  ۔



"تجھے نہ سکون کی بہت سخت ضرورت ہے زارو "۔



زینیہ نے زھرہ کی چوٹی باندھ کر اسے دھیرے سے کہا ۔



۔اور  تجھےمعلوم ہے سکون کا پتہ ؟۔



زھرہ نے سوالیہ انداز میں زینیہ سے پو چھا  جو سر کو نہ میں ہلانے لگی ۔



"مجھے معلوم ہے !!پر دیکھوں میں کتنی بد قسمت ہوں جو معلوم ہونے کے باوجود


حاصل نہیں کرسکتی "۔


زھرہ نے افسردہ ہوکر اپنا سر جھکالیا۔


"کہا سے ملے گا سکون"۔


زینیہ نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھ کر پوچھا۔



"اکیلے بیٹھ کر اپنے رب سے گفتگوں کرنے سے جو سکون ملتا ہے وہ دنیا میں کہی نہیں


ملتا زینیہ پر یقین مانو اللّہ مجھ سے ناراض ہوگۓ ہےجب ہی چار دن سے سجدے کی


سعادت بھی چھین لی ہے مجھ سے "۔



زھرہ نے اپنے گھٹنوں پہ سر ٹکاتے ہوۓ دھیمے انداز میں کہا ۔جس کی یکدم وہاں نظر گ‏ئی تھی۔۔


"امی یہ سب چیزیں کہاسے آئی ہیں؟"۔


زھرہ نے صندوق پر پڑے جوس کے ڈبے اور پھلوں کے شاپر کو دیکھ کر اپنی ماں سے


استفار کیا جو زھرہ کی بات پر پریشانی سے اسے دیکھنے لگیں ۔


"امی میں کیا ُپوچھ رہی ہوں؟"۔ 


زھرہ نے اپنی ماں کو دیکھا جن کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہورہا تھا ۔


"بیٹا وہ جو تمہارے ساتھ آفس میں کام کرتا ہے نہ زین العابدین وہ دے کر گیا تھا چار


دن پہلے ۔۔وہ زھرہ کی چبھتی نظریں دیکھ کر پشیمان ہوئی تھی ۔۔


جب تمہارا بخار زیادہ ہوگیا تھا۔۔


وہ شوق کی سی کیفیت میں اپنی ماں کو دیکھنیں لگی۔


  اسی کے ساتھ تمہیں اسپتال لے کر گئ تھی


جب تم بے ہوش ہوگئ تھی  "۔


فوزیہ نے چیدہ چیدہ ساری باتیں اپنی بیٹی کو بتادی جو شولہ جوالہ بنی اپنے غصے کو قابوں


کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔


"زینیہ میرا فون دو ذرا "۔۔


زھرہ نے ماں کے باہر جاتے ہی زینیہ سے اپنا فون مانگا جو غصے میں آگ بگولہ ہوئی


  نمبر ڈائل کرنے لگی اس کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ ُچکا تھا یہ سوچ سوچ کر کے


اسے زین العابدین نے کیسے ہاتھ لگایا ۔مگر وہ اس کا فون نہیں اٹھارہا  تھا ,تھک ہار


کے اس نے اپنا نمبر بند کردیا پھر صبح آفس جا کے زین العابدین کی طبیعت صاف


کرنے کا سوچنے لگی ۔


"میری بہن پہلے ہی تیری طبیعت بہت خراب ہے تو غصہ مت کھا ,تو کچھ اچھا اچھا


کھا جس سے تیرے اندر  کچھ طاقت آۓ "۔


"زینیہ مجھے نیند آرہی ہے تو جا یہاں سے ابھی "۔


زھرہ چارپائی پر نیم دراز ہوتے ہوۓ زینیہ کو یہاں سے جانے کے لیے کہنے لگی۔


"سیدھا سیدھا کہ دے تو  چلی جا میں چلی جاتی ہوں۔


,خیر تو آرام کر میں پھر آؤں گی ۔

                                        ۞۞۞۞۞ٔ


"اشہد میری تھوڑی بات کو زیادہ سمجھنا بیٹے اگلے دو مہینے بعد الیکشن ہے اور میں


چاہتا ہوں تم میرے ساتھ بھرپور حصہ لو ِاس میں ,ایک بار میں جیت جاؤں  پھر


مل کر اس زین العابدین کو ٹھکانے لگائیں گے تم سن رہے ہو نہ میری بات میں


میڈیا پر کوئی تمہارا اسکینڈل نہیں چاہتا پہلے والے کیس میں بھی میں نے تمہیں بہت


مشکلوں سے نکالاتھا"۔



ناصرعزیز نے اپنے برابر میں بیٹھے اپنےچھوٹے بھائی  اشہد عزیز کو سمجھاتے ہوۓ


اس کے شانے کے گرد اپنا بازوں لپیٹا ۔


"ٹھیک ہے بھائی آپ کو کوئی شکایت نہیں ملے گی "۔


"شاباش میری جان "۔


ناصر عزیز,  اشہد عزیز  سے بغلگیر ہوتے ہوۓ بولا جو ایک خاموش سمندر کی طرح


فلحال بیٹھا ہوا تھاجو بعد میں کیا تباہی لانے والا تھا کسی کو علم نہیں تھا ۔

                             ۞۞۞۞۞۞


صبح ُاٹھ کر زین العابدین نے اپنا فون آن کیا جو کل سے چارجنگ کی وجہ سے بند تھا


اس نے جیسے ہی اپنا نمبر آن کیا تو کالز چیک کرنے لگا جن میں سے ایک نمبر ایسا تھا


جس نے اسے چونکنے پہ مجبور کردیا وہ اس نمبرپر کال بیک کرنے لگا مگر نمبر مسلسل  بند


جارہا تھا وہ جلدی سے آفس کے لیے تیار ہوکر نکل گیا تاکہ مزید دیر نہ ہوسکے ۔وہ جیسے


ہی آفس میں داخل ہوا روز کی طرح آج بھی مس خان کی خالی کرسی اس کا منہ چڑھا


رہی تھی جسے نظر انداز  کرتا ہوا وہ اپنےکمرے میں داخل ہوگیا جہاں روز مرہ کے


کام نبٹاتے ہوۓ اس کچھ ہی دیر گزری تھی جب ہی کوئی جارحانہ انداز میں


دروازے پر دستک دیتا ہوا سیدھا اندر داخل ہوگیا ۔جسے دیکھ کر وہ اپنی کرسی سے


اچھل کر کھڑا ہوگیا ۔


"تم آفس کیوں آئی ہو زھرہ تمہاری تو طبیعت خراب تھی "۔


وہ بے قرارسا اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر بولاجونیلے اور سفید رنگ کے


پرنٹڈ شلوار کمیز میں ہم رنگ ڈوپٹہ اوڑھے سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی ۔اس


نے بغور اس کا گلابی چہرہ دیکھا اور دیکھتاہی چلاگیا جسے اتنے دنوں بعد دیکھ کر آنکھوں میں ایک


عجیب سی چمک اتر آئی تھی ۔وہ اس نوخیز جزبے کو اپنے اندر چھپاتا ہوا دو قدم۔چل کرا س کے نزدیک ہوا تھا۔


"سب سے پہلی بات میرا نام ایسے مت لیا کرے"۔


وہ جھنجھلا کے سرد انداز میں  بولی ,جو اس کی بات پہ اپنے سر کو جھکا گیا,لبوں پہ


مسکراہٹ تھی۔



"تو پھر کیسے ُپکاروں یہ بھی بتا دے  ,مِس خان یا ِمسز خان ؟ "۔


زین العابدین کی رگِ ظرافت پھڑکی ۔


"مس خان "۔


 وہ دو ٹوک انداز میں الفاظ چبا کر ادا کرتی ہوئی بولی ۔


"آپ نے کیا سوچ کر میرے گھر میں سامان بھیجا؟ "۔


زھرہ غصے سے بھری ہوئی زین العابدین سے استفار کرنے لگی جو اپنی آئی برو کو


ُاچکاۓ میز کی سطح پر اپنی انگشت شہادت سے کچھ لکھنے کی کوشش کررہاتھا ۔


ایک مریضہ کی عیادت کے لیے ساتھ لائی ہوئی چیزوں سے میرا نہیں خیال آپ کی


عزت نفس کو میں نے مجروح کیا ہے "۔


زین العابدین  ُاس کی جانب بڑھتے ہوۓبولا جس کی بات ُسن کر زھرہ کا دماغ بھک


سے ًاڑ گیا  ۔


"اچھا پھر اپنے سارے ِاسٹاف میں سے جو جو بیمار ہوتا ہے آپ سب کے گھروں


میں اسی طرح چیزیں بھیجتے ہیں؟۔"


وہ استہزایہ انداز میں ُاس کی جانب دیکھتے ہوئی بولی جس پر زین العابدین  کی کشادہ


پیشانی پرناگوار لکیریں ابھر ائی ۔


مس خان آپ کو معلوم ہے آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے , شاید آپ کو آج تک کسی


نے بھی نہیں بتایا ہوگا پر میں ایک اچھا بوس ہونے کی وجہ سے آپ کو ضرور بتاؤں گا


آپ کے اندر ایک احساس کمتری کی شکار لڑکی ہے جسے کوئی بات ٹھیک بھی کہ رہاتو


اُسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ُاس کا مزاق ُاڑارہا ہے مگر اصل میں ایسے نہیں


ہوتا کیوں کے وہ سامنے والا انسان آپ کے ساتھ مخلص ہونا چاہتا ہے پر آپ جیسی


خوداری کا ٹیگ لگا کے اپنی جھوٹی انا کا رونا روتی ہوئی لڑکی اپنے آس پاس میں ہر اُس


انسان کو کھودیتی ہے جو ان کے ساتھ مخلص ہوتا ہے ! خیر میں جب بھی بیمار ہوا تو


آپ کو ضرور بتاؤ ں گا آپ میرے لیے وہی سب کچھ لاکر اپنی انا کا پندار بڑھالیجیے گا


اب آپ جاسکتی ہے امید کروں گا آپ کل سے جوائن کرے گی آج کا دن آپ کو


مزید گھر رہنا چاہیے "۔


زین العابدین سپاٹ چہرے کے ساتھ ُاس کے چودہ طبق روشن کرتا ہوا اپنی پینٹ


کی جیب میں ہاتھ ڈالیں اسے دیکھنے لگا جو اپنے پرس میں سے کچھ کھنگال رہی تھی۔


میں اجنبیوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانا پسند نہیں کرتی ۔اس لیے آپ کی عیادت کا


سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔


وہ دانتوں کو پیستيں ہوے بولی۔


,یہ پیسے رکھ لیجیے جو بھی آپ نے مجھ پر خرچہ کیا ُاس میں سے


کچھ رقم میں آپ کو لوٹا رہی ہوں بقایہ بھی میں آپ کو جلد لوٹا دوں گی ,اور ایک بات۔۔وہ لمحے بھر کو رکی تھی۔۔


اگر میں مر بھی رہی ہو نہ تو آئندہ مجھے کبھی بھی ہاتھ لگانے کے بارے میں سوچنا بھی


مت "۔

وہ پیسے میز پہ رکھ کر گلابی لبوں سے شعلے اگلتی ہوئی بولی جو کب



سے اس کی کڑوی کسیلی باتوں کو میٹھے پانی کے گھونٹ کی طرح پی رہاتھااس کا غصہ


ساتویں آسمان پہ پہنچ چکا تھا۔اس نے ایک ہاتھ بڑھا کے اس کی نازک ہتھیلی کواپنے


مضبوط ہاتھ میں دبوچا اور اسے ایک ہاتھ سے جھٹکا دیا جس نے خود کو اس سے


بچانے کے لیے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا۔


 "یہ کیا بات بات پر میرے سامنے پیسے نکالتی رہتی ہواور کیا کہا ہے کے مجھے ہاتھ


لگانے کے بارے میں سوچنا بھی مت"۔


وہ ہنوز ماتھے پر شکن ڈالے اس پر گرج رہا تھا جو اس کا ایسا روپ دیکھ کر سہی


معنوں میں سہم گئ تھی پر خود کو مضبوط کرتے ہوۓ وہ مزاحمت کرنے لگی ۔


"چھوڑے مجھے"۔۔۔۔۔


وہ اپنی نازک کلائی چھڑانے کی بھرپور کوشش کررہی تھی جو مقابل قطعی چھوڑنے کو


تیار نہ تھا۔ 


"تو ٹھیک کہا ہےمیں نے, آپ کی زرخرید غلام نہیں ہوں میں  جسے جب چاہا جیسے چاہا


ٹڑیٹ کرلیا آپ نے ہمت بھی کیسے کی مجھے ہاتھ لگانے کی اس وقت___"۔


اس نے ہلک کے بل ِچلاتے ہوۓ زین العابدین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے


پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تھی۔۔جو ایک ہی جست میں اس کی روشن پیشانی پہ بےقراری سے


اپنے جنون کی مہر ثبت کرگیا ۔


"اس طرح کی تھی ہمت!!  اگر نہیں سمجھ آیا تو دوبارہ ڈیمو دوں؟"۔۔۔۔


وہ اس کی گھنیری لرزتی پلکوں کو دیکھتے ہوۓ بولا جو کھلتی بند ہورہی تھی ۔وہ بغور ان


سہمی خوف زدہ آنکھوں میں اپنا عکس دھونڈنے لگا  جہاں سواۓ ڈڑ کے کچھ نہ تھا ۔


"آپ کی --طرح آپ کی --سوچ بھی --گھٹیاں ہے--- میں گھر سے--- نکلتے وقت-


- خود پہ آیت الکرسی --کا ِحصار کر کے نکلتی ہوں,-- آپ جیسے-- شیطان درندے


میرا --کچھ-- نہیں بگاڑ--سکتے "۔


زھرہ  نے ہچکیوں کے درمیان اٹک اٹک کے بولا ۔

ِ

سمجھتی کیا ہو خو کوہاں ؟ کے اس پوری دنیا میں صرف تم ہی پارسا ہو  ؟تمہاری جو یہ


اکڑ ہے نہ میں اسے ایک لمحے میں مزید ختم کرسکتا ہوں ابھی کے ابھی"۔


اس کی آنکھوں میں خون کے شرارے سے دوڑنے لگے جنہیں دیکھ کر زھرہ کو اس


سے خوف محسوس ہونے لگا وہ خود کو ملامت کرنے لگی کے وہ کیوں آفس آئی  تھی


وہ اسے پیچھے دکھیلنے کی کوشش کررہی تھی جس نے زھرہ کی کلائی زور سے جھٹکی کہ وہ


پیچھے دیوار سے ٹکرائی ۔۔ جس سے اس کی کمر پہ ضرب  لگی تھی۔۔ وہ تکلیف سے کراہ


اٹھی تھی مگر وہ اس کے اور اپنے درمیان سے فاصلہ سمیٹتا جارہا تھا۔ جب ہی


زین العابدین کی  آنکھوں میں اترتا خون دیکھ کر زھرہ نے اس کےچہرے پہ اپنے


نازک ہاتھ سے ایک زناٹے دار ٹھپڑ جڑ دیا جس پر وہ جو اسے صرف سبق سکھانے


کے لیے تھوڑا سا ڈڑانا چاہتا تھااس کے اس اقدام سے اپنے آپے سے باہر ہوگیا۔


"تمہاری ہمت  بھی کیسے ہوئی مجھ پر  ہاتھ ُاٹھانے کی ؟"۔


وہ اسے اپنے حصار میں قید کیے غصہ وجلال سے اس کے ملائم چہرے کو اپنی مضبوط


انگلیوں میں جکڑتے ہوۓ بولا جو اس کے غیض و غضب سے ڈڑی ہوئی تھی ۔


"س۔س۔سوری پلیزمجھ سے غلطی ہوگئ   "۔


وہ کپکپاتی ہوئی اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی جہاں غصے سے پنپتےُ اس لاوے کو قابو


کرنا دنیا کا سب سےمشکل کام تھا ۔


"ٹھپڑ مار کےکہ دیا غلطی ہوگئ!! اتنا آسان ہے نہ!! اپنے لیے تم نے خود میرے


جیسے عزاب  کو خود پہ نازل کیا ہے اس لیے تمہیں یہ سیکھ دینا ضروری ہے  تاکہ کبھی


کسی مرد کی انا پر چوٹ کرنے سے پہلے تم سوبار ضرور سوچوں"۔


وہ مزید اس پہ ُجھکتا ہوا اس  کےاور اپنے درمیان کےفاصلے کو سمیٹ گیا جو دیوار


کے ساتھ لگی اب تھر تھرکانپ رہی تھی ۔


وہ بیماری سے ُاٹھنے کے باعث اس افتاد کے لیے خود کو تیار نہیں کرپارہی تھی زھرہ


کا بے دم ہوتا وجود زین العابدین کی آغوش میں تھا ,وہ کھل کر سانس لینا چاہتی تھی


,اس کی اتھل پتھل ہوتی سانسوں اور سینے کی ڈھڑکنوں کو وہ کنٹڑول کرنے لگی جو


اپنے چہرے پر اس کی گرم سانسیں محسوس کیے بے لگام ہورہی تھی جب ہی عقل


وخرد سے بے سود وہ  زین العابدین کے سینے سے جالگی, وہ جو  آتش فشاں بنے اس


پر اپنا لاوا انڈیلنے ہی والا تھا اسے ایسامحسوس ہوا جیسے کوئی ٹھنڈی پھوار اس کے


جلتے سینے پر گری ہو ۔


اس نے اپنے حصار میں کھڑی زھرہ کو دیکھا جو اس کے مضبوط بازوؤں میں جھول


گئ تھی ۔وہ اس کے نازک سے وجود کو اپنی فولادی بازوؤں میں بھرے صوفے تک لے آیا ۔


                                   ۞۞۞۞۞۞۞۞

ماضی :-

وہ آج دروازے سے آنے کے بجاۓ پیچھے کی جانب بنی کھڑکی سے اندر داخل 


ہوا تھا کیوں کے دروازے کے نزدیک اسے کچھ مشکوک لوگ کھڑیں ہوۓ

 نظر آرہے تھیں  ۔


وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس نے بوڑڈ کے لیے ٹٹولٹے ہوۓ دیوار پر ہاتھ مارا اس نے جیسے ہی بٹن دبایا پورا کمرہ روشنی میں نہاگیا وہ ِفیا کو جس جگہ پہ صبح چھوڑ کر گیا تھاوہ وہی پر منہ کے بل لیٹی ہوئ تھی اس نے کمرے میں ہوئ آوازوں سے بھی کوئ جنبش نہ کی تھی جو عظیم کے لیے تشویش کا باعث بنی وہ تیزی سے اس کی جانب گیا جو بستر پر بے سدھ اوندھے منہ بخار میں تپ رہی تھی۔


"ِفیا ِفیا آنکھیں کھولو "۔


 وہ نیم غنودگی میں  عظیم کی آہنی بازوؤں میں تھی جس نے اپنی آنکھیں ذرا سی وا کی تھی ۔


"پانی!!!


اس نے سوکھے ہوۓ لبوں کو میچتے سے کہا جو اسے سہارا دے کر پانی پلانے لگا جو غٹا غٹ سارا پانی پی گئ۔


"اور چاہیے "۔


عظیم نے اپنے سینے پر سر ِٹکاۓ فِیا سے پوچھا جو سر نہ میں ہلانے لگی۔


اس نے ایک بار پھر بستر پر لٹاکر باہر دروازے کے جانب بنے سُوراخ سے دیکھا جہاں شائین ہیے کے جانے پہچانے ملازم۔پہرا دے رہے تھیں شاید اسے صبح کی ہوئی لڑائ کی وجہ سے اندازہ تھا کے وہ لوگ کہی دوبارہ نہ آجاۓ اسی لیے وہ ایسی صورتحال میں لڑکیوں کے کمروں کے باہر پہرہ لگادیتے تھیں۔


عظیم نے دیوار پہ زوردار َُِمکا مارا ۔۔


"اب اسے داکٹڑ پہ کیسے لے کر جاؤں "۔۔


وہ بے بسی کی تصویر بنا واپس کمرے میں آیا جہاں فِیا بخار سے پھنک ری تھی  اس نے  کچھ پلوں کے لیے ِفیا کو ایسے ہی لیٹے دیکھا پھر ایک ہی جست میں اس تک پہنچ کر اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں ُاٹھاتے ہوۓ واش روم کی جانب بڑھ گیا جہاں ُاس نے فیا کو مضبوطی سے تھامے ہینڈ شاور سے پورا گیلا کردیا جو اپنے اوپر پانی پڑتے ہی ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی تھی پھر اپنی مندی مندی سی  آنکھوں سے عظیم کو دیکھنے لگی جو اس کو کندھوں سے تھامے ہینڈ شاور سے گیلا کررہاتھا ۔فیا کچھ پل اس کی سینے سے جھلکتی چین کو دیکھتی رہی ۔۔پھر اپنا سرآہستہ سے عظیم کے سینے پہ ِٹکا دیا جو اس کی خود سپردگی کے اس انداز پر اس کے گرد اپنا بازوں حمائل کرتے ہوۓ اسے استحقاق سے اندر کمرے کی جانب لے گیا جہاں چاند بھی ِاس خوبصورت مِلن پر بدلیوں میں سے جھانک رہا تھا۔


اگلی صبح جب فِیا نیند سے بیدار ہوئی تو خود کو عظیم کے ِحصار میں مقید دیکھ کےگزری رات اسی کی آنکھوں کے سامنے سے ایک فلم۔کی طرح گزرنے لگی جسے سوچ کر وہ حیا سے گلنار ہوگئ تھی ۔


"ایسی خوبصورت صبح کے آغاز کے لیے شکریہ زندگی"۔


عظیم نے فِیا کے چہرے پہ چھاۓ حیا کے رنگ دیکھ کرمبہوت ہوگیااس کی روشن پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے ہوۓ عظیم کو ایسا محسوس ہوا جیسے ِفیا رورہی تھی اس نے فوراً اسے بالوں سے تھام۔کے ُاس کا سر پیچھے کی جانب کیا۔جس کی بادامی آنکھوں میں آنسوؤں کا طوفان برپا تھا ۔


"تم رو کیوں رہی ہو "۔


عظیم نے اپنی انگشت شہادت سے اس کے آنسوں صاف کیے جو شفاف موتیوں کی طرح اس کی آنکھوں سےبہ رہے تھیں 


"م م مجھے نہیں پتہ تم کون ہو پر تم ان سب لوگوں سے بہتر ہو جس نے مجھے اپنی عزت  سمجھ کر میری عزت و آبرو کی  ِحفاظت کی میرے محافظ بنے ,تم مجھے پلیز یہاں سے نکلوادو مجھے پاکستان جانا ہے یہ لوگ بہت بُرے ہیں "۔


فِیا نے ایک بار پھر اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھے رونا شروع کردیا جس پر عظیم نے تاسف سے اپنی متاع حیات کو دیکھا جو اس وقت بلکل اُس ایک بچے کی جیسی تھی جو بھیڑ میں کہی گم اپنوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے ۔


"فِیا یہاں دیکھوں میری طرف !اب رونا مت ,تم نے ٹھیک کہا ہے تم میرے بارے میں کچھ نہیں جانتی پر میں تمہارے بارے میں ہر ایک بات جانتا ہوں ,میرا پورا نام محمد عظیم خان ہے ,میں ایک انڈڑ کورآفیسر ہوں جو پاکستان سے بچوں کو اغواں کرکے یہاں بُرے کاموں میں ملوث کرتے ہیں ایسے گروہوں کےخلاف ہم ایک آپریشن کررہے ہیں ,جس کے لیےمیں یہاں بھیس بدل کر رہتا ہوں یعنی ان کا ریگولر کسٹمر بن کر وہ الگ بات ہے کے میں ہر لڑکی کو جسے اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا ان کے مشروب میں نیند کی گولی ملادیتا جس سے انہیں کچھ یاد نہیں رہتا تھا کے رات میں ان کے ساتھ کیا ِہوا ,اب قابل ِ غور بات یہ ہے  کے تم ان کی ہِٹ لسٹ میں آچکی ہو ,تو ظاہر سی بات ہے میں تمہیں ان کے قریب بھی بھٹکنے نہیں دوں گا تو اس کے لیے اب سے تمہیں میں جیسے کہتا جاؤں  وہ کرتی جاؤ پھر ان شاء اللہ ہم پاکستان ایک ساتھ چلیں گے اپنے گھر "۔


فِیا دم بخود ہوئی عظیم خان کی حقیقت جان کر خود کو ملامت کرنے لگی ,کیا کیا نہ کہا تھا میں نے اس نیک انسان کو مگر کبھی جو اس نے ُاف بھی کیا ہو جب ہی عظیم نے اس کے چہریں پہ پھونک ماری ۔


"کیا سوچ رہی ہو "۔


عظیم خان نے خیالوں ؔمیں ُگم۔چادر پہ بنے نقش و نگار  پہ اپنی نظریں مرکوز کیے اسے محویت سے دیکھےجارہی تھی جب ہی عظیم خان کی آواز اسے اتھا گہراہیوں سے کھینچھ لائی تھی ۔


                    ۞۞۞۞۞۞۞

حال:-


زین العابدین اسے صوفے پہ لٹاکے اس کے نزدیک ہی بیٹھ گیا ۔وہ اس کے رخصارتھپتھپانے لگا جو بیہوش پڑی تھی۔


"زھرہ ویک اپ"۔۔۔۔۔۔۔

اس نے نزدیک رکھے جگ سےپانی لےکے اس کے چہرے پہ چھینٹا مارا جو ہڑبڑا کہ ُاٹھ بیٹھی  ۔ وہ فوراً اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوۓ اسے سہمی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے لگی جس کے چہرے پہ دنیا جہاں کی پریشانی اور فکر تھی جو الجھا بکھرا سا  اپنے چہرے پہ آئ ہلکی ڈاڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہواکمرے کے اندر چکر لگانے لگا  ۔


"یہ میری پہلی اور آخری وارننگ سمجھ لینا مِسسز زین العابدین خان میں اپنی بات کو دہرایا نہیں کرتاتم۔نے اپنے لیے خود یہ گڑھا کھودا ہے اب اپنی سزاؤں کے لیے تیار رہنا اور  مجھ سےتو  تم دس قدم کے فاصلے پر  رہنے کی کوشش کر نا ورنہ میرے نزدیک آنے پہ تم  بہت زیادہ ُجھلس جاؤ گی "۔

وہ صوفے کے گرد اپنے بازوں رکھے  ُاس کی روئی روئی سی آنکھوں میں اپنا ہلکورے لیتا عکس دیکھ رہاتھاجب ہی زھرہ کی آواز اس کے کانوں

میں گونجی۔

آئي ہیٹ یو۔۔۔


وہ اس کے حصار سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی جو اسے آج اپنی دسترس سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دے رہاتھا ۔

Your reson for hating me just make me hate u more mrs khan ...


"اپنا حلیہ درست کرکےشرافت سے ڈڑائیور کے ساتھ گھر جاؤ,کل سے آفس جوائن کرنا "۔


یہ کہ کر زین العابدین نے  ان بھیگی پلکوں سے اپنی نظریں چرائی اور ایک جھٹکے سےاسے آزاد کیے  باہر کی جانب نکل گیا۔اگلا سارادن یونہی مصروفیت بھرا گزر گیا مگر زھرہ نے آفس کی پلٹ کے خبر تک نہ لی وہ مسلسل زین العابدین کی آتی فون کالز سے تنگ آکے اسے سوئچ آف کرگئ,جو اس کی اس حرکت پہ آگ بگولہ ہوا آفس سے نکل آیا ۔


"بی بی کہا یے تمہاری ؟"۔۔۔۔۔۔

وہ ٹھوڈی پہ ہاتھ پھیرتا ہوا گارڈ سےبولا ۔


"صاحب وہ ایک کلینک میں نوکری کرتی ہے شاید جب سے انہیں اس کوچنگ سے نکالا ہے "۔۔۔۔۔

گارڈ مودب انداز میں بولا ۔


"پتہ بتاؤ "۔۔۔

وہ سلگ کے بولا جو گارڈ کے بتاۓ ہوۓ ایڈریس پہ پہنچ گیا ,بظاہر تو کوئی چھوٹا سا ویلفیر لگ رہاتھا مگر اندر جا کے داکٹر کی آمدنی کااسے باخوبی اندازہ ہوا تھا ۔۔زین کو جہاں چھوٹے سے کمریں میں بیک وقت پچاس ,ساٹھ عورتیں بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی دکھی,وہی نزدیک ہی لکڑی کی دیوار میں نصب شیشے کے پار اسے زھرہ کا چاند چہرہ دکھائی دیا جو کاغذکی پرچیوں پہ نمبر لکھنیں میں مصروف تھی وہی وہ گولیوں کی پڑیاں بناتے کمپاؤدڑ کی نظروں سے سخت خائف تھی جسے وہ دن میں تین چار بار جھڑک چکی تھی مگر وہ گاہے بگاہے اسے ٹکٹکی باندھیں دیکھنے لگ جاتا ۔زھرہ اچھی نوکری کی تلاش میں فلحال اس چھوٹے سے کلینک میں دوائیاں دینے کے علاوہ سب ہی کام کررہی تھی۔

نزدیک کھڑیں زین العابدین کا پارہ اس وقت اوپر چڑھا  جب اس نے کمپاؤدڑ کو بہانے سے پڑیاں پکڑاتے ہوۓ زھرہ کے ہاتھ کو چھؤوا تھا وہ سیخ پا ہوا اس چھوٹے سے بند گیلری نما کمرے میں داخل ہوا وہاں زھرہ کھڑی غصے میں  اسے صلاوتیں دے رہی تھی۔

زین العابدین کو گیلری کے وسط میں کھڑا دیکھ کے دونوں نے بیک وقت پلٹ کے دیکھا جہاں ایک کا رنگ اسے دیکھ کے اڑا تھا تو دوسرے نے سوالیہ انداز میں اس کی جانب دیکھا۔


"او بھائی اندر کا گھسے آرہے ہو چلو باہر کا راستہ ناپو ,ابھی نمبر ملنا بند ہوگۓ ہیں "۔۔۔۔۔


کمپاؤدڑ نے زین العابدین کو کرخت آواز میں کہا جو سرخ آنکھوں سے اس پری پیکر کو دیکھ رہاتھا جو گھبراہٹ کے مارے اپنا ڈوپٹہ بار بار سر پہ ٹھیک کررہی تھی ۔


"کہا یار ابھی تیری پرچی تو کاٹی ہی نہیں کسی نے "۔۔۔۔


وہ چہرے پہ پراسرار سی مسکراہٹ لیے کمپاؤدڑ کے نزدیک گیا جہاں زھرہ ان دونوں کے درمیان حائل تھی وہ اس کا راستہ مسدود کیۓ کھڑی تھی جو اس کا ایک ہی جست میں نازک بازوں اپنے شکنجےمیں کیےاسے جھٹکا دے کر اپنے پیچھے کھڑا کر گیا ۔


"کیا کر رہاتھا تو اس کے ہاتھ سے ؟"۔۔۔۔

وہ آہستہ آواز میں بولا جسے زھرہ بھی نہ سکی۔


"ابےتو کون ہے؟چل نکل پتلی گلی سے شاباش  "۔۔۔


وہ پان چباتے ہوۓ بولا جس کا ہاتھ زین العابدین نے تھام کے ایک زور سے جھٹکا دیا جس سے کمپاؤدڑ کی دل خراش چیخیں کلینک میں بلند ہونے لگی وہ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں ایک جھٹکے میں توڑ چکا تھا۔


"میں اس جنگلی بلی کا شوہر ہوں "۔۔


غصے و بربریت  کی حد ختم تھی اس وقت زین العابدین پہ جو بے حس و حرکت کھڑی زھرہ کا ہاتھ تھام کے باہر نکل گیا 

وہ جارحانہ انداز میں اسے گاڑی میں بٹھاتا ہوا ریش دڑائیونگ کرنے لگا ۔جو تیز برستی بارش کی پرواہ کیۓ بنا رفتار بڑھاۓ چلا رہاتھا ,ساحل سمندر کے نزدیک اس نے تنہا گوشے میں گاڑی کو بریک لگائی جہاں زھرہ دروازے کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی ۔


"تم اس غلیظ کلینک میں نوکری کیوں کررہی ہو ؟"۔۔

اس کی آنکھوں سےچنگاریاں امڈ امڈ کے ایسے نکل رہی تھی جیسے وہ زھرہ کو ابھی بھسم کردے گی ۔


"کیوں کے مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ میں آپ کو لوٹاسکوں "۔۔۔۔۔۔۔


وہ دوبدو جواب دیتے ہوۓ بولی جو اس کی بات پہ سلگ اٹھا۔


"تو تمہیں تنخواہ ملتی ہے یوکشائر سےپھر الگ سے دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہیں ؟"۔۔۔

اس کی رگیں غصے سے تن گئ تھی ۔


"کیوں کے مجھے وہاں مزید اب کوئی نوکری نہیں کرنی !!میں بہت جلد آپ کے سارے پیسے آپ کو واپس لوٹادوں گی اب براۓ مہربانی یہ لاک کھولے تاکہ میں گھر جاسکوں"۔۔۔۔۔۔۔

وہ بظاہر ٹھنڈے پرسکون لہجے میں بولی مگر اندرونی طور پہ وہ زین العابدین سے خوف زدہ ہوگئ تھی جو کمپاؤڈر کا ہاتھ توڑ آیاتھا۔


"میرے خیال سے مسسز خان آپ اپنا ایگریمنٹ بھول چکی ہے کہے تو آفس لے جا کے یاد دلادوں "۔۔

وہ دانتوں کو پیستیں ہوۓ بولا جو فرار ہونے کے راستے تلاش رہی تھی ۔


"میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے زھرہ؟ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کی نازک کلائی کو اپنے شکنجے میں لیے ڈھاڑا۔


"میں نے کہا نا مجھے کوئی نوکری نہیں کرنی یوکشائر میں !!"۔۔۔۔

وہ بھی اپنا اعتماد بحال کرتی ہوئی کلس کے بولی جو اس۔کی بات پہ بھنا گیا۔


"لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گی "۔۔۔۔۔۔

وہ گاڑی کو ایک بار ہھر مستعدی سے چلاتا ہوا یوکشائر کے اندر پارکنگ میں داخل ہوا جہاں نیند سے بوجھل ہوئ آنکھوں سے چوکیدار نے ہڑبڑا کے زین العابدین کو سلام جھاڑا جو تھوڑا سا شیشہ کھولے اس سے ہاتھ بڑھا کے آفس کی چابیاں لیتا گاڑی آگے کی سمت لے گیا۔


"سر میرا ہاتھ چھوڑے آپ کیا کررہے ہے "۔۔

زھرہ زین العابدین کے شکنجے سے اپنا ہاتھ چھڑانے کے لیے مزاحمت کرنے لگی جو اسے کسی صورت میں بھی چھوڑنے پہ تیار نہیں تھا وہ لفٹ کی جانب بڑھا جہاں پوری بلڈنگ میں صرف پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ کے فلور میں نائٹ شفٹ ہوتی تھی جہاں بڑی تعداد میں اس وقت ورکرز موجود ہوتے تھیں ۔وہ زھرہ کو جارحانہ انداز میں لفٹ کے اندر لیۓ داخل۔ہوگیا جو مسلسل اس سے زور آزمائی کررہی تھی ۔


"اگر میری بات پہ چپ کرکے عمل کرلیتی تو کیا چلا جاتا مگر تمہیں تو ہر اس کام کا الٹ کرنا ہوتا ہے جو میں تمہیں بولوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ آفس کا لاک کھولتا ہوا اسے لیۓ اندر داخل ہوا ۔


"سر پلیز میں آجاؤں گی کل مجھے جانے دے میری امی پریشان ہورہی ہوگی "۔۔۔۔۔۔۔



وہ ایک بار پھر  چڑیا کی طرح اس کے شکنجے میں پھڑ پھڑانے لگی جو آفس کو اندر سے لاک لگاتا ہوا اس کی جانب پلٹا جس کی رونے کی وجہ سے آنکھیں سوجی ہوئی تھی ۔


"یہاں بیٹھوں مجھے تم سے بات کرنی ہے پھر گھر چھوڑ آؤں گا "۔۔۔۔۔۔

وہ استحقاق سے اسے اپنی کرسی پہ بٹھاتے ہوۓ بولا جس کی سٹی گم ہوچکی تھی۔ وہ اسپرنگ کی طرح اچھلی۔


"واٹ ہیپن ؟"۔۔۔۔۔۔

اس نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔


"یہ۔۔آپ۔۔کی۔۔کرسی۔۔ہے سر"۔۔۔۔۔۔۔

زھرہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔


"رونا بند کرو پہلے زھرہ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے آنکھوں سے تنبیع کرتے ہوۓ بولا ۔


"واپس بیٹھوں وہاں "۔۔۔۔۔۔۔

خود کو اکیلا سوچ کے آفس میں اس کے اوسان گم ہوتے جارہے تھے۔وہ زین العابدین کے خوف سے واپس بیٹھ گئ۔


" اگر زین العابدین کو میری کسی بھی بات پہ زیادہ غصہ آگیا تو کون بچاۓ گا مجھے ان کے عتاب سے "۔۔۔۔۔۔۔

وہ خود سے بڑبڑاتی ہوئ بولی جس کا چہرہ اتر گیاتھا اس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی ۔


"یہ فائل کھولو اور اسے ایک بار ازبر کرلو تاکہ مجھے دوبارہ تمہیں کچھ بھی یاد نہ کرانا پڑے اگر کسی بھی صورت میں تم یہ کانٹریکٹ توڑتی ہو تو کمپنی تمہارے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی"۔۔۔۔۔۔۔


وہ اس کے سامنے فائل رکھ کے  آئرن چیر پہ بیٹھ گیا۔جسے زھرہ نے پلک جھپکتے ہی پھاڑ کے پارہ پارہ کردیااس کی بچاکانہ حرکت پہ وہ زیر لب مسکرایا۔


"تمہیں کیا لگتاہے میں انٹرنیشنلی دو کمپنیوں کو کیسے اون کرتا ہوں ؟ کیا میں تمہیں پاگل نظر آتا ہوں جو تمہیں اورجنل پیپرز دوں گا ؟خیر اب تو تمہاری سزاؤں میں مزید اضافہ ہوگا تمہاری اس حرکت کے بعد "۔۔۔۔۔۔۔

وہ تنک کے فائل کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ بولا۔ ۔


"ٹھیک ہے میں کل سے آجاؤں گی "۔۔۔۔۔

وہ ہار مانتے ہوۓ بولی ۔


"بہت خوب پر کیا ہے نا مجھے تم۔پہ بلکل بھی بھروسا نہیں ہے اس لیے ایک بار ایسا ایک اور کانٹریکٹ بنوالیتے ہیں تاکہ تم اپنے قول سے پھرو نہیں"۔۔۔۔۔۔۔

 وہ نوٹ پیڈ اس کی جانب بڑھاتے ہوۓ بولا ۔


"دستخط کرو یہاں "۔۔۔۔۔۔۔

وہ متحیر ہوئی کورے کاغز کو دیکھنے لگی۔


"اس پہ تو کچھ بھی نہیں لکھا"۔۔۔۔۔۔

اس کی سٹی گم ہوچکی تھی۔


"ظاہر ہے میں اس نایاب پیپر پہ بہت سوچ سمجھ کے کچھ لکھوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے سلکی گھنیریں بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا۔


"تو مجھے بھی آپ پہ اعتبار نہیں !!آپ اس میں جانے کون کون سی شرطیں لکھ دیں"۔۔۔۔۔۔۔

وہ کلس کے بولی ۔


"ٹھیک ہے پھر تیار ہوجاؤ میرے ساتھ آفس میں سونے کے لیے ,ڈنڑ ابھی کچھ دیر تک منگواتا ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کسلمندی سے کرسی پہ نیم دراز ہوتا ہوا اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے بیٹھ گیا جو شاکڈ کی کیفیت میں تھی۔


"سر آپ مجھے بلیک میل کررہے ہے؟"۔۔۔۔۔

اس نے سوال داغا۔


۔"سوفیصد کررہاہوں ,کیوں کے نہیں کروں گا تو تم پھر کسی غلیظ جگہ پہ جاکے کسی کمپاؤڈر کو موقع دوگی کے وہ تمہیں ہیرس کرے!!  جو میں بلکل افورڈ نہیں کرسکتا "۔۔۔۔۔۔

زین العابدین نے اس کو طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا جو اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوۓ لال پیلی ہورہی تھی۔اس کی جھیل سی آنکھوں میں ناچاہتے ہوۓ بھی نمی بھرنے لگی ,


"ٹھیک ہے مسٹڑ زین العابدین بال آپ کے کوٹ میں ہے تو میں اس وقت مجبور ہوں مگر یاد رکھیے گا اگر اس میں کچھ بھی آپ نے فضول سا لکھا تو میں اسے بلکل بھی نہیں مانوں گی "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جل کے بولی۔


زین العابدین نے اس کے دستخط کرتے مخروطی ہاتھ دیکھ کر سکون کا سانس لیا  جس کے چہرے سے مایوسی جھلک رہی تھی ۔


"میرے کہے پر عمل کررہی ہو یہی کافی ہے چلو اٹھو"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرکے باہر نکل گیا جو اس کی ہمراہی میں چلنے لگی وہ اپنی رسٹ واچ میں وقت دیکھ کر چلا اٹھی جو اس کی چیخ پہ پلٹا۔


"واٹ ہیپن؟"۔۔۔۔۔

اس نے ابرو چڑھا کے سوال کیا۔


"سر۔۔نو۔۔۔بج۔۔گۓ۔۔ہے۔میری۔امی۔بہت۔پریشان۔۔۔۔ہورہی۔۔۔ہوگی ۔۔ سب۔۔کچھ۔۔۔آپ۔کی۔وجہ۔۔سے۔۔ہوتا۔۔ہے۔"۔۔۔۔

وہ ہکلا کے بولی جو اس ظالم دیو کی قید میں زیادہ دیر اپنے غصے پہ قابو نہ رکھ سکی۔


"محترمہ خاموشی میں ہی اپنی عافیت جانے ورنہ میرا زہن بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا "۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سرد انداز میں بولتا ہوا لفٹ کی جانب بڑھ گیا ۔

"ہمنا اور یوشع یہ پریزینٹیشن رپورٹ بہت اہم ہے ہماری آج کی مِیٹنگ کے لیے ایک بار پھر دیکھ لینا ُاس میں کوئی خرابی نہ ہو"۔


زین العابدین نے تندہی سے کام کرتے  ہوۓ ہمنا تنویر کو ایک بار  پھر یادہانی کروائی ۔


"یس سر میں نے پہلےہی پوری پڑھ لی تھی مسٹڑ فریدون نے بہت اچھے سے بنائی ہے "۔


ہمنا تنویر نے  فائل پہ قلم سے چند اہم کلاززلکھ کر انہیں زین العابدین کی جانب بڑھایا جب ہی دروازے پہ دستک ہوئی جسے اس نے مصروف سے انداز میں اندر آنے کی اجازت دےدی ,مگر اندر آنے والی شخصیت کو دیکھ کر دوسری کرسی پہ بیٹھی ہالے نے اپنے چہرے کے زاویے کو بگاڑا تھااس  کے شیطانی دماغ نے زھرہ کو دیکھ کر تیزی سے کام کرنا شروع کردیا ۔


"سر اس پہ آپ کے ضروری دستخط چاہیے تھے "۔


زھرہ نے  سپاٹ چہرے کے ساتھ زین العابدین کی جانب فائل بڑھانے کے لیے جیسے ہی قدم بڑھایا ہالے نے گزرتی زھرہ کے راستے میں اپنی ایڑی والی جوتی حائل کردی, وہ فائل سمیت میز پر  منہ کے بل گِری جس سےمیز پہ رکھی فائلوں پہ زین العابدین کی کوفی کا کپ ُالٹ گیا۔


"what the hell are you doing miss khan".

زھرہ زین العابدین کے ڈھاڑنے پہ ہڑبڑا کےٹیبل سے پیچھے ہوئی مگر جیسے ہی اس نے زین العابدین کی خون خوار آنکھوں میں دیکھا اس کی روح جیسے فنا ہوگئ تھی ۔


"کیا آپ دیکھ کر نہیں چل سکتی؟ ,گھنٹے بعد میٹنگ ہے سب کچھ برباد کردیا آپ نے "۔


زین العابدین تاہنوز ماتھے پہ شکن ڈالے اپنی لہوں رنگ آنکھیں ُاس پہ گاڑے ہوۓ تھا جو اس کو خود پر اس طرح برستا دیکھ کر شدید سبکی محسوس کررہی تھی ایک بے لگام آنسوں اس کی آنکھ سے ٹپک کر دامن میں جزب ہوگیا جس کو  دیکھ کر زین العابدین کو ان نگاہوں نے بہت شدت سے اپنی قید میں جکڑ لیا وہ بے بسی کا شکار ہوۓ ہونٹوں کو ایک دوسرے میں بھینچ گیا جو زبان سے اف تک نہ بولی تھی ۔

"Shitt"!!.

اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر وہ جھنجھلا اٹھا۔کتنی ہی دیر تک کمرے میں خاموشی کا راج رہا جب ہی زین العابدین کی آواز نے کمرے میں ارتعاش پیدا کیا۔


ہمنا کینسل کردو میٹنگ "۔


وہ بے بسی کا شکار بنا زھرہ کے نزدیک سے گزر کےباہر نکل گیا۔

کیسے کیسے لوگ رکھے ہوۓ ہیں زین نے اپنے آفس میں "۔

وہ زھرہ کے نزدیک کھڑے ہوکر اس کی بھیگی پلکوں کو دیکھنے لگی ۔


"چلو ہمنا اور یوشع پھر میں چلتی ہوں اور ہمنا تم یہ سارا میس جلدی سے صاف کروالینا ہمارے آفس سے یو نو "۔


وہ معنی خیز انداز میں ملائکہ کو دیکھ کر سناتی ہوئی ہمنا سے اپنی بات جاری رکھے ہوۓ تھی 


"اوکے ہالے میں کرواتی ہوں "۔۔


ہالے کے جاتے ہی زھرہ نے اپنی نم۔آنکھوں کو ہتھیلی سے صاف کرتے ہوۓ ہمنا تنویر سےپوچھا  ہمنا کے سامنے کھڑے ہوکر پوچھا 

۔

" میٹنگ میں کتنا وقت ہے میم "۔


زھرہ نے ہمناکے برابر میں بیٹھتے ہوۓ کہا جس پر کچھ دیر کے لیے ہمنا نے خاموش بیٹھے یوشع کی جانب دیکھا جس نے اسے آنکھوں سے ہاں کرنے کے لیے کہا


"زھرہ ہمیں معلوم۔ہے یہ سب نادانستگی میں ہوا ہے میں تمہیں ایک موقع دے رہی ہوں اگر تم اگلے آدھے گھنٹے تک بھی ستر فیصد پریزینٹیشن تیار کرلوگی تو میں انہیں کال نہیں کروگی now prove your self dear  "۔


ہمنا نے زھرہ کی جانب مسکراہٹ اچھالتے ہوۓ اسے اجازت دی ۔

"میم بس میرے ساتھ آپ اس انسان کو ایک پندرہ منٹ کے لیے بھیج دے تاکہ مجھے آئیڈیہ ہوجاۓ کے اس نے کیسی رپورٹ بنائی تھی ٔ۔

"اوکے زھرہ میں مِسٹڑ فریدون کو بھیج رہی ہوں آپ انتظار کرے "۔


فریدون کے نام پر زھرہ کا منہ کڑوے کسیلے کریلے کی طرح ہوا تھا کیوں کے پورے آفس کی لڑکیاں اسے ایک دل پھینک قسم کا انسان سمجھتی تھی جو ہر روز ایک نئ فیمل ورکر کے ساتھ گھومتا ہوا نظر آتا تھا ۔خیر مجھے کیا۔

وہ فریدون کے اہم نکات بتانے کے بعد انہیں تندہی کے ساتھ صفحہ پر لکھتی جارہی تھی لکھنے کے دوران اسے بلکل بھی ہوش نہ تھا کے فریدون صفحے پہ نظر دوڑانے کی خاطر زھرہ کی میز پہ ِجھکے کس قدر نزدیک آگیا تھا۔

                          ۞۞۞۞۞۞۞



کیوں مجھے ُاس کے آنسوتکلیف دے رہے تھے کیوں مجھ سے برداشت نہیں ہورہا تھا اس کا یوں پشیمانی سے سر ُجھکانا آخر کیوں !!,جب ہی ہمنا تنویر کی کال پر اس نے فون ریسیو کیا ۔

"یس ہمنا "۔

"سر کیا آپ کنٹڑول روم میں آسکتے ہے ؟"۔

ہمنا نے سنجیدہ انداز میں اسے کہا۔

"خیریت ہمنا کیا مسئلہ ہے ؟"۔


اس نے اپنے بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتے ہوۓ پوچھا۔

"سر آپ آۓ گے تو معلوم ہوجاۓ گا آپ کو "۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے میں آرہا ہوں "۔۔۔۔۔

وہ لفٹ کے ذریعے گراؤنڈ فلور پہ گیا جہاں آفس کا کنٹڑول روم بنایا گیا تھا جہاں آفس کے اندرونی اور بیرونی کیمروں کو وہی سے کنٹڑول کیا جاتا تھا ۔


"کیا پروبلم ہے ہمنا ؟"۔

اس نے اندر داخل ہوکر جب یوشع اور ہمنا تنویر کو سنجیدہ سا دیکھا تو معاملے کی نوعیت کو جاننے کے لیے اندر  بڑھا۔


"سر یہ دیکھے میں نے اور یوشع سر نے تو لائیو ہی دیکھا تھا پر میم کی وجہ سے اسے اگنور کرگۓ  پر ہماری انوسینٹ ورکر کواگر کوئ پرسنل ریزنز کی وجہ سے تنگ کرے گا تو پھر آپ کو بتانا ہمارا فرض ہے "۔


اس نے اسکرین پہ ہمنا تنویر کے آفس کا کلپ لگایا جس میں وہ صاف طور پہ دیکھ سکتا تھا کے کیسے ہالے نے زھرہ کو جان بوجھ کر گرایا تھا۔زین العابدین کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا اس کا دل و دماغ غصے سے بھر گیاتھا اگر اس وقت ہالے یہاں موجود ہوتی تو وہ اس کا منہ تھپڑ سے لال کردیتا اسے خود پہ غصہ آرہاتھا۔اس کی وجہ سے  زھرہ کی آنکھوں میں آنسوں آۓ تھے۔جزبات کی شدت سے زین العابدین کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اس نے اتنی زور سے اپنے جبڑے کو بھینچھا تھا کے دماغ کی نسیں ابھر آئی تھی ۔


"سر میں اب جارہی ہوں اس معاملے کو دیکھنا اب آپ کا کام ہے اور وہ رپورٹ جو خراب ہوگئ تھی اسے مس خان دوبارہ بنارہی ہے "۔

یہ کہ کر ہمنا تنویر کنٹڑول روم سے باہر نکل گئ جب کے یوشع زین العابدین کا شانہ تھپتھپاتے ہوۓ آہستہ سے بولا۔


"this is a cold war between two womans zain."


یوشع نے گہری سانس لیتے ہوۓ اسے کہا۔


"اب تو تمہیں اور بھی محتاط ہوکے رہنا پڑے گا اگر ہالے بھابھی پہ شک کررہی ہے ,ورنہ ہوسکتا ہے آج ٹیبل پہ گرایا ہے کل سیڑھی سے گرادے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یوشع کے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں چھپی ہیبت ناک بات نے اسے جھنجھوڑ کے رکھ دیا ۔


وہ لفٹ سے نکل کر جیسے ہی باہر آیا تو مِس  خان کو تندہی سے کاغز پر قلم گھسیٹتے ہوۓ دیکھا  ,وہی اس کے  ٹھیک سامنے کرسی پہ براجمان مسٹڑ فریدون میز کے اوپر بازوں ٹکاۓ فرصت سے زھرہ کو دیکھنے میں مصروف تھا۔ دور کھڑے زین العابدین کے اندر آگ کے بھانبڑ سے جلنا شروع ہوگۓ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوامِس خان کو ریوالونگ چیر سمیت اپنی جانب ِکھینچھ ُچکا ۔


زھرہ جو اپنے کام میں اتنی مگن تھی خود کو پیچھے کی جانب کھینچتے دیکھ کر یک دم سے حواس باختہ ہوگئ ُاس نے جیسے ہی گردن موڑکے دیکھا تو ُاس کے داۓ جانب زین العابدین اپنی چھا جانے والی شخصیت کے ساتھ سینے پہ ہاتھ باندھیے سرمئ پینٹ کوٹ میں مسٹڑ فریدون کو اپنی کڑی نظروں کے دائرے میں لیے دیکھ رہاتھاجو بوس کو ِاس طرح سےخود کو گھورتا دیکھ کر گھبرا گیا ۔


"آپ یہاں کیا کررہے ہے مسٹڑ فریدون ؟"۔


زین العابدین نے آئ برو اچکا کے فریدون کی جانب دیکھا جو فق چہرہ لیے اس کی جانب دیکھ رہاتھا ۔


اس کی بھاری مردانہ آواز پہ زھرہ اپنی نازک سی انگلیوں کو چٹخاتے ہوۓ فریدون کی اڑتی رنگت کودیکھنے لگی,  وہ کام میں اتنی مگن تھی کے وہ بلکل بُھول چکی تھی کے فریدون اس کے پاس کافی دیر سے بغیر کسی وجہ کے بیٹھا ہوا تھا۔اسے اپنی کوتاہی کا شدت سے احساس ہوا تھا۔


"وہ سر۔۔ میں ۔۔۔مس۔۔ خان کو ۔۔۔ پریزینٹیشن کے حوالے سےکچھ اہم کلاز زبتانے آیا تھا "۔


فریدون نے سنبھل کر  اپنی ٹائ کی نوٹ ٹھیک کرتے ہوۓ کہا جس کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئ تھی ,آس پاس میں بیٹھیں تمام ورکرز منجمند ُہوۓ فریدون اور زین العابدین کی جانب دیکھنے لگے۔


"تو بتائیں آپ نے اہم کلازز؟"۔

وہ مصروف سے انداز میں زھرہ کی بنائ ہوئ پریزینٹیشن کو دیکھتے ہوۓ بولا۔


"یس سر میں نےتمام کلازز (note down ) کروادیے ہیں "۔


فریدون نے اپنے ماتھے پہ آۓ پسینے کو  رومال سے صاف کرتے ہوۓ کہا ۔


"جب کلازز کروادئیے ہیں تو پھر آپ یہاں کیا کررہے ہے؟"۔۔۔۔۔۔

وہ ماتھے پر بل ڈالے بھینچھے ہوۓ لبوں کے ساتھ فائل کے صفحات پلٹتے ہوۓ اس پر گرجا تھا جو اس وقت  غیض و غضب کی حالت میں تھا۔

"sorry  sir".

"میں بس جارہا تھا "۔


 فریدون آندھی طوفان کی طرح اپنی کرسی پہ جا کر  بیٹھ گیااس کے جاتے ہی زھرہ نے اپنی تِرچھی نگاہوں سےزین العابدین کی جانب دیکھا جو اب فائل تھامے اس کی جانب اپنے قدم بڑھا رہا تھا زھرہ ڈھرکتے دل کے ساتھ اسے دیکھ کر اپنی نظریں چرا گئ جو اسے گہری نظروں  سے دیکھ رہاتھا ۔وہ اس کی جانب دیکھنے سے اجتناب برت رہی تھی جیسے اس نے اگر اسے دیکھ لیا تو وہ پتھر کی ہوجاۓ گی ۔جب ہی زین العابدین کی گمبھیر آواز نے خاموشی کا قفل توڑا ۔


"انسان کو اپنے کام میں مگن ہونا چاہیے پر اتنا بھی نہیں کے کوئی آپ کو دیکھ کر اپنی آنکھیں سینکھ رہا ہو اور آپ کو ہوش ہی نہ ہو "۔


وہ دھیمے لہجے میں سنجیدگی سے اسے کہتے ہوۓ  دو قدم واپس ہوا ۔


"اگر مجھے دیکھنے سے آپ سب کا دل بھر گیا ہو تو اپنے کام۔پر توجہ دے دیجئیے"۔





Comments

Popular Posts