تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode10




ARAZ RESHAB NOVELS


Dont copy paste without my permission kindly.

 



وہ کرسیوں پہ بیٹھیں تمام اسٹاف کو دیکھ کر تپ کے بولا پھر جاتے جاتے بھی زھرہ پر اپنی ایک کڑی نگاہ ڈالنا نہیں بھولا تھا جو ساکت سی اس کا چہرہ دیکھنے لگی ۔کیا تھا یہ شخص عجب دھوپ چھاؤں  سا رویہ اختیار کرنے والا ,وہ اپنے زہن سے تمام پراگندہ خیالات کو جھٹک کر اپنی پریزینٹیشن کی جانب مصروف ہوگئ ۔

                         ۞۞۞۞۞۞۞۞۞

"hey bro! cool down"۔

"یہ جل بھون کر کہا سے آرہے ہو "۔۔۔۔۔


یوشع نے زین العابدین کی جانب دیکھا جو اسے اپنی سرد نگاہوں سے گھورتا ہوا ُاس کے ساتھ ہی اپنے کمرے میں داخل ہوا ۔

"جب سن لی تھی ساری باتیں تو اس بکواس کا مطلب "۔

اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنی ٹائی کو ڈھیلا کرتے ہوۓ ماتھے پر تیوری چڑھاۓ یوشع کو  گرکھا۔


"مطلب ہی مطلب ہے بھائی میرے جب آپ کی وہ کچھ لگتی نہیں تو آپ کس خوشی میں جا کر بڑے استحقاق سے بھابھی کی کرسی  کو اپنی جانب کھینچھ کر کھڑے ہوگۓ تھے "۔


زین العابدین نے اپنی کرسی پہ بیٹھنے کے بجاۓ صوفے کی جانب قدم۔بڑھادیۓجہاں بیٹھ کر اس نے سب سے پہلے اپنی سگریٹ کی طلب کو بجھایا ,وہ ایک گہرا کش لے کر یوشع کی جانب دیکھنے لگا۔


"تو نے شاید دیکھا نہیں تھا۔ کیسے وہ ُالو کا پٹھا بڑی فرصت سے اسے بیٹھ کر دیکھ رہا تھا جیسے اسے ِاسی کام کے لیے میں نے یہاں رکھا ہے "۔

زین العابدین کنپٹی کو سہلاتے ہوۓ اپنی شوعلیں اگلتی زبان سے بولا ,یوشع اس کے غصے کی تمازت سے سُرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر اپنی مسکراہٹ پہ قابوں نہیں کر پارہا تھا ۔


"تو تجھے کیا ہے میرے یار یہاں ہزاروں لڑکیاں نوکریاں کرتی ہیں جن کا دن بھر مختلف مردوں سے مِلنا ُجلنا رہتا ہے یہ ان کے کام کی (demand)ہوتی ہیں۔کیا اب تو ہر لڑکی کے لیے اپنے امپلائیز کو باتیں سنایا کرے گا "۔


یوشع نے زین العابدین کی سگریٹ کی ڈبی سے سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوۓ اس کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا جو آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ پڑا ۔


" ہر لڑکی میرا درد سر نہیں ہیں "۔۔۔۔۔

وہ انگارے چباتا ہوا بولا۔



"یعنی کے زھرہ زین العابدین خان میرے دوست کے سر درد کی وجہ ہے (intresting)"۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یوشع نے استہزائیہ انداز میں دونوں کا نام ایک ساتھ جوڑتے ہوۓ اپنی بات جاری رکھی,پھر  زین العابدین کی جانب دیکھا جو سگریٹ کے ُدھوے کے مرغولے بنا کر ہوا میں چھوڑ رہاتھا ۔


"ہاں تو چاہے جن وجوہات کی بنا پر بھی میں نے نکاح کیا ہے ,رہے گی تو وہ میری بیوی ہی نہ "۔۔۔۔۔۔۔


"you can call me possesive or whatever but i wont let my wife have male freind "۔


"تم مجھے پوزیسو یا کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن میں اپنی بیوی کو مردوں سے دوستی کرنے نہیں دے سکتا "۔


"not because i wont trust her but being a man  my self, dont trust man this i my personal opinion"۔


"اس لئے نہیں کہ میں اس پر بھروسہ نہیں کرتا  بلکہ میں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے مردوں پر اعتماد نہیں کرتا اب تم اسے جس طرح سے بھی لے لو مگر میری سوچ مجھے یہی کہتی ہے یہ میری ذاتی راۓ ہے"۔


"اچھا تو پھر تُو ہالے کو کیوں نہیں روکتا وہ تو بہت ایڈوانس ہے ان معاملات میں "۔۔۔۔۔۔۔۔


یوشع نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوۓ اسے صحیح اور غلط میں فرق محسوس کروانے کی کوشش کی جس میں وہ کچھ حد تک کامیاب بھی ہوچکا تھا ۔


"جب وہ میرے نکاح میں آۓ گی تب کی تب دیکھے گے فلحال تو جو ہے پہلے اسے سنبھال لو یہ ہی بہت ہے "۔۔۔۔۔۔۔


زین العابدین نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے اپنے لفظوں میں باور کرواتے ہوۓ  کرسی پہ جاکر براجمان ہوگیا۔


"تو چاہ کیا رہا ہے زینو ویسے ,یعنی ہماری یہ جو شعلہ جوالہ بھابی جی ہے یہ ہمارے زینو صاحب کے دروازے پر دستک دے رہی ہے "۔


یوشع کی مزاحیہ انداز میں کہی بات پر پر کب سے اپنے لبوں کو بھینچھے ہوۓ  زین العابدین کے چہرے پر ایک مسکان سی چھاگئ تھی ۔


"یوشع میں آنٹی کو کال کرکے بتارہا ہوں کے آپ کا اکلوتا بیٹا میرے ہاتھ سے ضائع ہونے والا ہے "۔


"ضرور میرے آقا آپ کی کمپنی کا یہ لیگل ایڈوائزر آپ کے ہاتھوں قتل۔ہونے کے لیے تیار ہے "۔

                                  ۞۞۞۞۞۞


"ہمنا تنویر اپنے کام میں ہالے کے ساتھ مصروف تھی جب ہی دروازے پر دستک ہوئ اجازت ملنے پر زھرہ اندر داخل ہوئ جہاں ہالے ہمنا تنویر کے ساتھ تصویروں پہ تبادلہ خیال کررہی تھی ۔


"میم پریزینٹیشن تیار ہے "۔


زھرہ نے فائل اور سلائیڈڑز ہمنا تنویر کی جانب بڑھاتے ہوۓ کہا جس پر برابر میں بیٹھی ہالے کے دل پر سانپ لوٹ پوٹ ہونے لگے۔

"Wow welldone zahra",


"میں سر کو بتاتی ہوں آپ پلیزبیٹھ جاۓ "۔


یہ کر ہمنا نے زین العابدین کو کال ملائ جو اس نے اگلی۔بیل پر ُاٹھالی ۔


"سر پریزینٹیشن تیار ہوگئ ہے کلائینٹس کے آنے میں صرف پندرہ منٹ رہ گۓ ہیں اب کیا کرنا ہے ؟ "۔


ہمنا تنویر نے اپنی نظروں کا محور زھرہ کی جانب رکھا۔


"مِس خان کو ریڈی کرواۓ پریزینٹیشن کے لیے"۔


زین العابدین کی آواز اسپیکر پہ گونجی ,زھرہ اپنا پہلوں بدلہ کے رہ گئ,وہی ہالے کے اندر حسد کی آگ زور و شور سے جلنے لگی ۔

"hamna forgod sake dear "


"تم۔اس لڑکی کے کپڑے دیکھوں یہ ایسے ہماری کمپنی۔کو (represent) کرے گی تم مجھے دو میں کروں گی یہ پریزینٹیشن "۔


ہالے نے اس کو خاطر میں نہ لاتے ہوۓ کہا ,جو خود کو اس قدر  رسواہ ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی اس سے پہلے زھرہ ہالے کو کوئی جواب دیتی , ایر پیس پر زین العابدین کی آواز گونجی ۔


" ہالےاس کمپنی کا بوس میں ہوں اور اس بات کا فیصلہ میں کروں گا تم نہیں!! جس نے محنت کی ہے وہی پریزینٹ کرے گا, ہمنا ِمس خان کو اوپر بھجواۓ ڈیزائینر کے پاس  ہمارے پاس وقت کم ہے جلدی "۔

وہ دوٹوک لہجے میں بولا۔



"یس سر "۔


ہمنا تنویر فون بند کرتی ہوئی زھرہ کی جانب بڑھی جس کے طوطے اڑچکے تھے۔


"چلو لڑکی ہمارے پاس وقت کم ہے آج کسی طرح سے یہ کے ٹو سر ہوجاۓ پھر دیکھنا ذرا "۔


ہمنا تنویر زھرہ کے ساتھ آگے پیچھے چلتے ہوۓ اوپر کی جانب بڑھ گئ جہاں ڈیزائینر نے اسے اگلے پندرہ منٹ میں بلکل تیار کردیا تھا ان کا کہنا تھا کے زھرہ کے چہرہ اتنا پرنورسا ہے کے اسے ہلکے سے میک اپ سے ہی چار چاند لگ جاتے ہے ۔


یزھرہ میٹنگ چھٹی منزل پر ہے تم وہاں پہنچو میں بھی تھوڑا سا لیپا پوتی کرکے ائی "۔۔۔۔۔


ہمنا تنویر نےزھرہ کا ہاتھ تھام کر اسے لفِٹ کے آگے کھڑا کردیا اور  خود اندر کی جانب بڑھ گئ زھرہ لفٹ کا بٹن دبا کر اس  کے اوپر آنے کا انتظار کرنے لگی جو گراؤنڈ فلور سے اوپر کی جانب آرہی تھی لفٹ کا دروازہ جیسے ہی ُکھلا زھرہ نے اندر کی جانب قدم بڑھا دیۓ مگر جیسے ہی اس کی نظریں سامنے کھڑے لوگوں پر پڑی تو وہ ہونقوں کی طرح کبھی خود کو تو کبھی ان کو دیکھتی جس میں زین العابدین کے ساتھ دو کلائینٹس اور یوشع کھڑا تھا وہ ازلی اعتماد کے ساتھ چلتی ہوئ سب کو سلام کرتی لفٹ میں داخل ہوگئ ,جہاں زین العابدین نے زھرہ کو ناگواری سے دیکھ کے اپنے اوپری ہونٹ پہ انگشت شہادت پھیری کیوں کے آج ڈوپٹہ اس کے سر سے ندارد تھا جب ہی لفٹ چوتھی منزل پر پھر ُرکی جس میں اندر آنے والی شخصیت کو دیکھ کر زین العابدین کے ماتھے پر سلوٹوں کے جال میں مزید اضافہ ہوا وہ مسلسل اپنے کلائینٹ اور یوشع  کے ساتھ محوگفتگوں تھا پر اس کا سارادیھان اپنے داۓ جانب میں کھڑی زھرہ اور اس کے برابر میں کھڑے فریدون پر تھا ۔


جب ہی لفٹ پانچویں منزل پر ُرکی جس میں اندر آنے والے دونوں افراد کی وجہ سے زھرہ کا شانہ فریدون سے ٹکراتا اس سے پہلے ہی زین العابدین نے بِنا کسی کی نظروں میں آۓ زھرہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر اسے پیچھے کی جانب اپنے برابر میں کھڑا کرکے ہاتھ چھوڑ دیا زھرہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھنے لگی  مگر اس کی نظروں کا محور سامنے دیوار میں نصب شیشے پر تھا جس میں زھرہ کا حیران پریشان سا عکس دیکھ کر زین العابدین کے چہرےپر ایک معدوم سی مسکراہٹ چھاگئ تھی جسے وہ اپنی گھنی منچھوں تلے چھپا گیاتھا ۔


 اس کی نظر اس پری پیکر کے چہرے کا طواف کرنے لگی جس کا ہوشربا حسن اس لباس میں کھل سا گیا,اس سے  پہلےکے دل اسے پانے کے لیے مچلتا زین العابدین نے اپنی نظروں کا ارتکاز بدل لیا ۔

چھٹی منزل پر سب ایک ایک کر کے باہر کی جانب نکل آۓ جہاں ہالے ہاتھوں میں گلدستہ تھامے ان کو خوشامدید کرنے کے لیے کھڑی تھی مگر جب اس نے زھرہ کو گہرے نیلے رنگ کے شلوار کمیز پر ُسرمئ رنگ کا ڈوپٹہ اوڑھے پیروں میں بند منہ کی  ہائ ہیلز والی نیلی جوتی پہنے دیکھا تو گویا وہی ساکت ہوگئ جسے اسٹائیلسٹ نے میک اپ کے نام پر ہلکا گلابی رنک کا شیڈ اس کے لبوں پہ لگاۓ اسی کا ہم۔رنگ بلش آن کیۓ وہ آنکھوں میں کالی لکیر ڈالۓ اپنی گھنی مڑی پلکوں کے ساتھ اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کے وہ لڑکی ہوکر اس پہ سے نظریں نہیں ُاٹھاپارہی تھی تو زین العابدین نے اسے کتنا غور سےدیکھا ہوگا ۔ ۔

جب ہی زین العابدین کی آواز اسے خیالوں کی دنیا سے کھینچھ لائی ۔

"miss hallay".


"hellow sir welcome to Yokshire ".



وہ دونوں افراد کو غائب دماغی سے خوش آمدید کہ کے پھولوں کا گلدستہ اپنے ہاتھوں میں تھامے کھڑی تھی جب ہی زین العابدین نے اسے گھوری سے نوازتے ہوۓ خود آگے بڑھ کے گلدستہ مسٹڑ براؤن کی جانب بڑھایا جسے انہوں نے مسکرا کے تھام۔لیا ۔تمام افراد کے میٹنگ روم۔میں جاتے ہی زھرہ لابی میں کھڑے ہوکر لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔


"اگر آج کی پریزینٹیشن اچھی نہیں ہوئی تو وہ جلاد

 مجھے سچ میں بھسم کرڈالے گا اللّہ آپ ہی کا آثرا ہے بس مجھ پر اپنا کرم کردو تاکہ میں کامیابی سے ہمکنار ہو ,جب ہی ایک ایک کر کے تمام ڈاریکٹرز اور ایچ آر دیپارٹمنٹ کے ہیڈز میٹنگ روم میں داخل ہونے لگیں وہ اپنی دعاؤں میں اتنی مشغول تھی کے ہمنا تنویر اسے باہر لینے آئی۔


"best of luck my dear۔"


وہ دونوں آگے پیچھے میٹنگ روم میں داخل ہوئی جہاں اکثریت مردوں کی تھی خیر زھرہ نے سلائیڈز ہمنا تنویر کی جانب بڑھاۓ جو پروجیکٹڑ کے نزدیک کھڑے فریدون کو دے کر واپس اپنی کرسی کی جانب آگئ کمرے میں جیسے ہی اندھیرا چھایا اسکرین پر سلائیڈرز چلنا شروع ہوگئ جنہیں زھرہ انتہائ مہارت کے ساتھ تمام سامعین  کے سامنے اپنے اہم نکات کمپنی پالیسیس کے ساتھ انہیں بتانے لگی جنہیں زین العابدین کے ساتھ ساتھ کلائینٹس نے بھی بہت سراہا ۔میٹنگ کے اختتام پزیر ہوتے ہی کمرے کو پھر سے روشن کردیا گیا جس میں مسٹڑ براؤن کی تالیوں نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا جو اپنی سیٹ سے کھڑے ہوکر زھرہ کو۔سراہ رہے تھےاس  نے احتراماًان کی جانب دیکھ کر  سر کو جنبش دی ,پھر تمام داریکٹرز کی اور زین العابدین کی ان سے  مکالمے کے دوران کانٹڑیکٹ پیپرز پر دستخط ہوۓ ۔جیسے ہی دستخط ہوۓ زین العابدین انہیں لے کر لنچ کے لیے نکل گیا جب کے زھرہ واپس اپنے لباس تبدیل کرنے چلی گئ اس کے نیچے جاتے ہی تمام۔اسٹاف نےتالیاں بجا کر زھرہ کو خوشامدید کہاآخر ان کی ہیڈ ہمنا تنویر نے انہیں ایسا کرنے کے لیے کہا تھا زھرہ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوئ ہمنا تنویر کے ہمراہ ان کے آفس کی جانب بڑھ گئ ۔

                            ۞۞۞۞۞۞۞

"جی تو مس خان آج آپ کی اچھی پریزینٹیشن کی وجہ سے ہماری کمپنی کا آغا اینڈ سنز کے ساتھ بلاآخر معائدہ ہوگیا ہے,جس کے لیے آپ کو ایک خوش خبری سنائی جاتی ہے آپ کی سیلری کو دوگناہ زیادہ کیا جارہا ہیں,ساتھ ساتھ سال کی سالانہ چھٹیاں ,میڈیکل فری اور  دوکمروں کا ایک فلیٹ  بھی دیا جارہا ہیں ,جس کے لیے میں تمہیں گلے لگا کے مبارک دوں گی کیوں کے تم (deserve )کرتی ہو لڑکی"۔


ہمنا تنویر کے چہرے سے خوشی اس طرح پُھوٹ رہی تھی جیسے اس کی خود کی کوئی لاٹڑی نکل آئی تھی شاید اسی لیے کیوں کے وہ یوک شائیر کے ساتھ بہت مخلص تھی ۔


"اورہاں سب سے اہم۔بات پہلے تمہیں وقتی طور پر سیکریٹڑی کے سارے کام۔کرنے پڑتے تھیں مگر اب سے پروموشن کے بعد سے آپ کو جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز کر دیا گیا ہے تو اب شرافت سے مجھے تم۔ٹڑیٹ دوگی زھرہ بی بی "۔


ہمنا تنویر نے اس کی جانب اینویلپ بڑھاتے ہوۓ کہا جس پر اس نے تشکر بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ لفافحہ تھام لیا

                          ۞۞۞۞۞۞۞


"یار زین مجھے تیری ایک بات سمجھ میں نہیں آتی تو نے ہمنا سے کیوں کہا کے وہ بھابھی کو سیلری اور گھر کا بتاۓ تو نے خود کیوں نہیں دیا "۔


یوشع نے الجھن بھری نظروں سے زین العابدین کو دیکھا جو کلائینٹس کو لنچ کروا کے آفس جانے کے بجاۓ  گھر جارہے تھیں۔


تجھے کیا لگتا ہے میں اسے پروموشن لیٹڑ اور فلیٹ کی چابیاں دیتا تووہ ہنسی خوشی لے لیتی ؟۔


زین العابدین نے گاڑی چلاتے ہوۓ یوشع کی جانب دیکھا جو اپنے کندھے  ُاچکا کے پوچھنے لگا کے مجھے کیا پتہ۔


"منہ پہ ماردیتی وہ میرے سالے "۔


زین العابدین کی بات پریوشع نے فلک شگاف قہقہ لگایا جس پر زین العابدین نے اس کے ایک چِپت لگائی۔


"جب اس گھامڑ فریدون کے سامنے میں اس کی فائل پڑھ رہا تھا مجھے جب ہی معلوم ہوگیا تھا کے یہ پریزینٹیشن فریدون کی پریزینٹیشن سے بھی بہترین تھی اسی لیے میں نے ہمنا کو پہلے سے کہ دیا تھا کے وہ زھرہ کو میٹنگ کے کامیاب ہونے کی صورت میں لیٹڑ دے گی "۔


وہ ونڈ اسکرین پہ اپنی نظریں گاڑےہوۓ گاڑی کو مستعدی سے چلارہاتھا ساتھ ساتھ اپنی ہلکی ُپھلکی باتوں کو بھی جاری رکھے ہوۓ تھا ۔


"ویسے زین یہ اشہد اتنا خاموش کیوں ہے ؟آج تو ہم نے ایگریمنٹ پہ دستخط بھی کردیے اتنا بی با تو وہ ہے نہیں کے  آسانی سے پیچھے ہٹ جاۓ ,تو کیا کہتا ہے ,کیا وہ کوئی حملہ کرے گا مزید تجھ پہ یا بھابھی پہ "۔


اشہد عزیز کے زکرپہ وہ اپنے چہرے کے زاویے بگاڑتا ہوا کسی گہری سوچ میں گم ہوا تھا۔


"ویسے بھابھی سے یاد آیا آج بھی توخطرہ ہی ہے !!,کیا بھابھی گھر پہنچ گئ خیریت سے ؟۔"۔


یوشع نے موبائل پہ میسیج چیک کرتے ہوۓ زین العابدین کی جانب دیکھا جو سگنل پہ گاڑی روکےباہر برستی بارش کو دیکھ رہا تھا ۔


"گاڑڈ کا نمبر ڈائل کال پہ ہے اس سے پوچھ وہ کہا ہے "۔


اس نے اپنا موبائل ڈیشبورڈ سے ُاٹھا کر یوشع کی جانب بڑھایا پھر سگنل ُکھلتے ہی وہ گاڑی کو تیزی سے نکالنے لگا۔

وہ اپنی نظریں ونڈ اسکرین پہ مرکوز کیے ہوۓ تھامگر حساسیت ساری یوشع  کی گاڑڈ سے ہوتی گفتگوں پرتھی جس کے منہ سے جمال نام سن کر وہ کلس کے رہ گیا۔

 زین العابدین نے گاڑی ایک کنارے پرروک کر یوشع کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا۔


"وہ بھابھی کسی کوچنگ سینٹڑ اتری تھی پھر وہاں سے کوئی ان کا پڑوسی جمال ہے اس کے ساتھ پیدل گھر گئ ہیں "۔


یوشع اس کا سپاٹ چہرہ دیکھنے لگا جہاں چٹانوں سی سختی چھائ ہوئی تھی۔


"ریلیکس برو!! "۔


یوشع نے گڑبڑا کر زین العابدین کی جانب دیکھا جس کی آنکھوں میں ُسرخی اتر آئی تھی اس نے اپنے فون سے کال دوبارہ ڈائل کی جسے گاڑڈ نے پہلی ہی بیل پر اٹھالیا تھا ۔


"جب میں نے کہا تھا بی بی کو گھر چھوڑ کر آنا ہے تو وہ کیوں نہیں بیٹھی "۔


زین العابدین کا لہجہ دوٹوک تھا وہ چہرے پر کرختگی لیے گاڑڈ پر اپنا غصہ اتار رہاتھا ۔


"صاحب وہ بی بی نے کہا تھا وہ خود چلی جاۓ گی آپ بس مجھے کوچنگ سینٹڑ تک چھوڑدے "۔


گاڑڈ کی بات سن کر اس نے تاسف سے اپنا سر ہلایا پھر گاڑڈ کوزھرہ کی حفاظت کا کہ کر وہ اس کے نمبر پر کال کرنے لگا جو مسلسل بجنے کے بعد بند ہوجاتا تھا یوشع نے اسے پریشانی سے دیکھا جو اس وقت بھپرے ہوۓ سمندر کی طرح لگ رہا تھا۔


"یار چھوڑنا وہ بچی نہیں ہے پڑوسی ہے جب ہی ساتھ گئ تھی تو غصہ چھوڑ "۔


یوشع نے زین العابدین کو ٹھنڈا کرنا چاہا جس نے گردن موڑ کے اسے سخت نظروں سے گھورا۔ زھرہ نے مسلسل بجتے فون کو دیکھ کر کال ُاٹھالی جو ابھی ابھی کپڑے تبدیل کر کے آئی تھی ۔


"اسلام علیکم "۔

زھرہ نے تمیز کے تمام ریکاڑڈ توڑتے ہوۓ زین العابدین پر سلامتی بھیجی۔


"وعلیکم اسلام "۔


زین العابدین نے فون کان سے ہٹا کر اسکرین پر نمبر کی تصدیق کی کے کہی میں نے غلط نمبر پر کال تونہیں کی مگر نمبر زھرہ کا ہی تھا ۔


"آآپ فون کیوں نہیں ُاٹھارہی تھی محترمہ ذرا بتانا پسند کرے گی "۔


وہ سرد لہجے میں بولا  جو اس کے لہجے میں ُچھپی سختی سے اچھی طرح سے واقف تھی۔


آپ سے مطلب میرا فون ہے میری مرضی ,ویسے میں فریش ہونے گئ تھی خیریت"۔


زھرہ کے اتنے دھیمے انداز میں بات کرنے پر زین العابدین کے اندر جلتے الاؤ پہ جیسے ٹھنڈی سی پھوار پڑی تھی ۔


"جب میں نے آپ سے کہا تھا کے آپ گھر گاڑی میں ہی جاۓ گی اور گاڑڈ کے بِنا کہی نہیں جانا تو آپ کیوں کوچنگ سینٹڑسے گھر اکیلی آئی ؟۔ جب کے آپ کو اچھے سے معلوم ہے خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں  "۔


وہ حتی الامکان لہجے میں نرمی سموتے ہوۓ بولا جو اس کی بات سن کےرات کے اس پہرجلتے ہوۓ کوئلےمیں تیل ڈال کر اسے اور دہکانہ نہیں چاہتی تھی ورنہ اس کا کوئ پتہ نہیں تھا وہ بازپرس کے لیے یہی آجاتا  ۔


"میں اکیلے نہیں تھی سر میرے ساتھ جمال تھا "۔۔۔۔۔


زھرہ نے اس کے غصہ کو جانتے ہوۓ بھی ہڑبڑاہٹ میں جمال کا نام۔لے دیا۔جس پر زین العابدین نے اپنے ہاتھ کی گرفت اسٹیرنگ پر مضبوط کی۔


"کون جمال کیا وہ آپ کا سگا بھائ ہے ؟۔۔۔۔


زین العابدین نے دانت پیستیں ہوۓ کہا جس پر برابر میں بیٹھے یوشع سے اپنے قہقے کو قابوں کرنا مشکل ہوگیاتھا ۔


"نو سر وہ "۔۔۔۔۔


اس کا اگلا جملا پورا ہونے سے پہلے ہی زین العابدین نے اس کی بات درمیان میں  کاٹ کر اپنی بات پھر جاری کی۔


"پھر آپ کے والد ؟۔۔۔۔


والد کے نام پر زھرہ نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو بھینچھا,وہ اپنے اندر پنپتے غصےپر قآبوں نہیں رکھ پارہی تھی جب ہی زین العابدین کی گمبھیر آواز فون پہ پھر گونجی۔


"تو پھر آپ رات کے اس پہر کسی پڑوسی کے ساتھ گھر کیوں جارہی تھی جب کے آپ کے پاس گاڑی بھی موجود تھی اور گاڑڈ بھی "۔۔۔۔۔۔


ٓزین العابدین کے لگاتار سوال کرنے پر اس کی سیٹی گم ہوگئ تھی زھرہ اپنی تمام پچھلی لڑائیوں کوبالاۓ طاق رکھتے ہوۓ اپنے ازلی اعتماد کے ساتھ زین العابدین کے سوالوں کی بوچھاڑ پر اس پہ پھٹ پڑی ۔


"میری بات سنے سر آفس ٹائم۔ختم۔ہوۓ دوگھنٹے سےاوپر ہوگۓ ہے۔آفس کے باہر میں آپ کی کسی بھی بات کی پابند نہیں ,پر جیسا کے آپ نے فرمایا کے جمال کون ہے تو میرے نزدیک خونی رشتوں سے بھڑ کر پڑوسی ہوتے ہیں جو آپ کے سکھ دکھ کے ساتھی ہوتے ہیں میں ان کے ساتھ بچپن سے ایسے ہی اسکول ,کالجز سے واپسی میں آتی تھی یہ کوئی نئ بات نہیں ہے میرے لیے پر آپ کے لیے ہے, تو اسی لیے تفصیلی جواب دے رہی ہوں کیوں کے میں پھر ان کے ساتھ کہی گئ تو آپ پھر میرا فون کھڑکھا دے گےاس لیے آپ کو بتانا ضروری ہے ,امید کروں گی آپ مجھے دوبارہ اس بات کے لیے فون نہیں  کرے گے "۔۔۔۔۔۔


یہ کہ کر زھرہ نے فون چارپائ پہ پٹخ دیا ۔


"ْسمجھتے کیا ہے خود کو,جو بھی ہوگے اپنے گھر میں ہوگے جلاد کہی کے "۔


وہ کمرے کے گرد چکر لگاتی ہوئی مسلسل بڑبڑارہی تھی ,اس کے چہرے پہ چھائی سرخی دیکھ کر زینیہ اپنے چہرے پر ُامڈ آنے والی ہنسی پر قابوں نہیں رکھ پارہی تھی ۔


"ادھر آؤ میری جھلو دوست یہ کیا اول فول بولتی رہتی ہو ,اگر وہ اس طرح سےتمہارے لیےکئیردکھا رہا ہےتو اس کا کیا مطلب ہوا "۔

He isa nice gentelman !! .


تو میری پیاری زارواپنے دماغ کےاندر بھرےاس غصے کے گراف کو تھوڑاکم کرو اور دنیا کو خوشی خوشی دیکھوں,جن افسردہ نظروں سے تو سب کو دیکھتی ہے اس سے تو ُتو پکا ِڈپریشن کی مریضہ بن جاۓ گی ,اب تک تو نے مجھے جتنی بھی باتیں بتائی ہیں اپنی اور زین کی ان کا میں نےیہی نتیجہ نکالا ہے اس کی شخصیت کے بارے میں کے "۔


زھرہ نے ماتھے پر شکنیں ڈالے زینیہ کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا جو اپنی بات کے دوران خاموش ہوگئ تھی ۔


"وہ تیرے ساتھ بیک وقت غصہ بھی دکھاتا ہے اور دوسری جانب حق سے اپنی ملکیت سمجھ کر تجھ پہ رعب بھی جماتا ہے تو میرا ماننا یہ ہے کے میں نے ایک بہت اچھی کتاب میں پڑھا تھا کے,

"possessiveness is the outcome of true love ,and 

anger is the out come of true care so accept both from your loved ones ".


تو پیاری جو ِمل رہا ہے اسے تھام لے ایسے موقع اللہ بار بار نہیں دیتا "۔


زینیہ نے زھرہ کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اسے ایک اچھی دوست ہونے کے ناتے اپنے مشورے سے نوازا جس پر زھرہ کچھ پلوں کے لیے اس کی جانب دیکھتی رہی پھر سٹپٹا کے اس کے ماتھے پر ایک ِچپت لگائی۔


نِری بکواس ہے زینیہ ,تجھے کیا لگتا ہے,اسے اچانک سے بہت پرواہ ہوگئ ہے میری ,نہیں اسے پروہ ہے اپنی سو کالڈ عزت کی کے جس سے اس کا اسکینڈل نہ بن جاۓ میرے ساتھ یہی کہ کر تو اس نے مجھ سے زبردستی نکاح کیا تھا  ورنہ ہم جیسے مفلسی کے مارو کو ایسے امیر زادے سواۓ ٹِشو پیپر کے کچھ نہیں سمجھتیں ,جسے وقتی طور پر استعمال کیا اور پھینک دیا ,میں بھی زین العابدین کے لیے کچھ اسی طرح ہوں "۔


زھرہ بے زار سی تاثر بدلتے ہوۓ بولی ۔


"تو پھر تو اب فلیٹ کا کیا کرے گی؟ "۔


زینیہ نے آئی برو اچکا کےسوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔


"کرنا کیا ہے نہیں جاؤں گی تجھے کیا لگتا ہے میں کوئ چھوٹی بچی ہوں جسے لولی پوپ دوگے تو وہ خوش ہوجاۓ گی ,زین صاحب مجھ پر شاید کچھ زیادہ ہی ترس کھارہے ہے جب ہی ایسی رعایت مجھے ہمنا تنویر کے ذریعہ  مل رہی  ہیں "۔


وہ لب کاٹتے ہوۓ سنجیدہ لہجے میں کہنے لگی ۔


"تو پھر ُتو صبح کیا کرے گی ؟۔یعنی کل صبح ایک نئیہ

 جھگڑا تیار ہونے لگا ہے آپ کا "۔


زینیہ نے زھرہ کی جانب دیکھا جو اب صندوق سے اپنے لیے کپڑے نکال رہی تھی ۔


"نہیں زینیہ میں نے ایک فیصلہ کیا ہے میں جتنا ہوسکا اس انسان کی باتوں کو نظر انداز کروں گی مگر جب لگے گا اب بات حد سے زیادہ ہوگئ ہے تو اپنی عزت و وقار کے لیے تو  میں دنیا سے الجھ جاؤ ں پھر زین العابدین کیا چیز ہے "۔



زھرہ کے استہزایہ انداز پر زینیہ بھی ِکھلکھلا کے ہنس پڑی ۔


"امی نے کیا آج ڈیڑا لگا لیا ہے تمہارے گھر پر جو واپس آنے کا نام۔نہیں لے رہی "۔


زھرہ سیمنٹ کے فرش پہ چادر بچھا کےاپنے کل کے لیے کپڑوں کو استری کرنے لگی ,ساتھ ساتھ پیچھے پلٹ کےزینیہ سے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگی۔


"ہونا کہا ہے جمال بھائی کی آج کلاس لگی ہوئی ہے خالا جان کے آگے, ان سے تمہاری کوچنگ کی نوکری چھوڑنے کی وجہ پوچھ رہی ہے "۔

زینیہ کی بات پہ زھرہ کے اوسان خطا ہوگۓ۔


"پھر جمال نے کیا کہا ؟"۔


زھرہ کے چہرے سے فکرمندی جھلک رہی تھی وہ استری کا سوئیچ اتار کر زینیہ کی جانب گھومی جو مزے سے چارپائ پہ بیٹھی مالٹا کھارہی تھی۔


"ہونا کیا تھا جمال بھائی نے کہ دیا کےکوچنگ اچھا نہیں چل رہا تھا اس کی وجہ سے میڈم نے کافی ساری ٹیچرز کو نکال دیا ہیں "۔


زھرہ نے ایک لمبی سانس کھینچھی پھر استری کی تار لپیٹ کر زھرہ کی جانب بڑھادی۔


"شکر اللہ کا کے جمال نے بچا لیا مجھے چل یار میں سونے لگی ہوں ۔ آج بہت کام کیا تھا ,تم۔امی کو بھیج دینا اور اپنی استری بھی لے جانا "۔


زھرہ فرش پہ اپنے لیے بستر بچھاتے ہوۓ تھکاوٹ زدہ سی آنکھوں سے دیکھتے ہوۓ اسے کہنے لگی جو اپنی دوست کی آنکھوں میں چھائی نیند کے جھونکوں کو صاف دیکھ سکتی تھی ۔


"چل ٹھیک ہے میں خالا کو بھیجتی ہوں تم اپنا خیال رکھنا اور ہاں میرے بہنوئی سے لڑنا مت "۔


زینیہ جاتے جاتے بھی ُشرلی پھینکنے سے باز نہیں آئ تھی ۔

"تو پِٹے گی  کسی دن مجھ سے زینیہ "۔


                              ۞۞۞۞۞۞۞


ماضی : گجرات کے نزدیک گاؤں مرالہ کے محمد علی خان ایک ریٹائڑد کرنل تھے ۔ان کی شادی اپنی خاندانی تایازاد سلیما بیگم سے ہوئ تھی جن سے اللہ نے انہیں دوبیٹوں سے نوازا حیات علی خان اور عظیم علی خان۔حیات علی خان شروع سے ہی بزنس میں دلچسی رکھتے تھے اسی وجہ سے وہ والد کی خواہش کے باوجود پاک فوج میں نہ جاسکے , عظیم علی خان کا رجحان شروع سے ہی  اپنے والد کی طرح  پاک فوج میں تھا جس کی بنا پر وہ پاک فوج کے ایک بہادر سپاہی جو انڈر کور مِشنز پر تھے ۔ عظیم علی خان کے  فوج میں جانے کے کچھ عرصے بعد ہی محمد علی خان اللّٰہ کے حکم سے فوت ہوگۓ تھے جن کے گزرنے کے کچھ عرصہ بعد ہی حیات علی خان کو اللّٰہ نے ایک بیٹا زین العابدین حیات خان سے نواز۔جس کے پیدا ہوتے ہی کافی ساری  بے چیدگیوں کے باعث منتہا جانبر نہ ہوسکی جس پرحیات علی کی شادی رخشندہ بیگم سے ہوگئ جن سےاللّٰہ نے انہیں  دوسرا بیٹا قاسم علی خان نوازا جو آج کل اپنی پڑھائی کے سلسلے میں لندن میں رہائش پزیر تھا  رخشندہ بی بی, سلیما بیگم اور حیات علی خان کے ساتھ اپنی آبائی حویلی مرالہ میں  رہتی تھی جن سے زین کا خدا واسطے کا بیر تھا ۔

                           ۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞


"زھرہ کل مِس ونیزہ کے ساتھ آؤٹ دور ُشوٹ ہے تم آڑٹ داڑیکٹر کو ساری تھیم سمجھادینا اس کے علاوہ  مینیجر معاز سے ایک بار پھر بات کرلینا کے ہمیں ہر صورت میں کل ہی سارے پیسیس تیار چاہیے "۔


ہمنا تنویر زھرہ کو جلدی جلدی کل کے دن کی سارے اہم باتیں نوٹ کروارہی تھی ۔


"زھرہ ایک اہم بات یہ ہر آفس میں ہوتا ہے آپ کو اچھے سے معلوم ہوگا کیوں کےجنرل سیکریٹڑی کی ذمیداریاں کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں کے انہیں کام آؤٹ دوڑ بھی کرنا ہوتا ہیں تو کبھی ان ڈوڑ بھی اس لیے یہ آپ کا چیک ہے آپ کی واڈروب کے لیے, آج آفس سے گھنٹہ پہلے آپ کو ُچھٹی ملے گی جس میں آپ کو اپنے لیے جاکر شاپنگ کرنی ہے جو بہت ضروری ہے اسے آپ کسی طور پہ بھی منع نہیں کرسکتی کیوں کے کل سے آپ میرے ساتھ آؤٹ ڈوڑ ُشوٹ پر وادی شندورجارہی ہے جہاں آپ کو ایسے کپڑوں کی بہت ضرورت پڑے گی اور ہاں اپنی امی کو انفارم کردیجیے گا ہم کل صبح سات بجے نکلے گے تین دن کا ٹوؤرہوگا "۔


زھرہ ہونقوں کی طرح ہمنا تنویر کے منہ سے اتنے لمبے چوڑے منصوبے کو سن کر پریشانی سے ان کی جانب دیکھنے لگی ۔


"میم میرا جانے کا وہاں کیا فائدہ میں یہاں پہ سب سنبھال لوں گی اور ویسے بھی اتنی اچانک پروگرام پہ میں کیسے چلو؟  "۔


اس کے چہرے سے جھلکتی بیزاریت ہمنا تنویر کو نظر آرہی تھی وہ چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوۓ زھرہ کی جانب دیکھنے لگی ۔


"زھرہ تم کتنے سال کی ہو "۔


ہمنا طنویر کے منہ سے بلکل الٹ سوال سن کر زھرہ نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا۔


"میم میں پورے پچیسس سال کی اس جون میں ہوجاؤں گی,کیوں میم؟ "۔

اس نے سوالیہ انداز میں اپنی آئ برو کو اچکا کے پوچھا۔


"اس لیے بیٹا کے تم ایسی باتیں کرتی ہو کے مجھے گمان ہوتا ہے کے تم کافی کم عمر ہو ,مگر آپ ایک میچیور لڑکی ہو ڈیڑ اس آفس کے ورکرز ان فوجیوں کی طرح ہیں جو سرحد پر جنگ لڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کے آپ نے جنگ کر نے سے پہلے ہمیں انفارم نہیں کیا ,خیر جس طرح کی تم ہو مجھے نہیں لگتا تم شاپنگ بھی کروگی میں ٹھیک چار بجے آؤں گی پھر ہم۔دونوں ساتھ چلے گے بازار "۔


" لیکین میم  "۔

"thats my order".


ہمنا تنویر کے تنبیع انداز پر زھرہ سر ہلا کر منہ لٹکاۓ باہر آگئ ۔

                               ۞۞۞۞۞۞۞۞


وہ جیسے ہی اندر آنے کی اجازت ملنے پر داخل ہوئی سامنے ہی زین العابدین کالی پینٹ پہ ُسرمئ  ڈڑیس شڑٹ پہنے فائل ریک کے سامنے کھڑا اپنی مطلوبہ فائل تلاش رہاتھا۔


"سر آپ نے مجھے ُبلایا؟"۔


اس نے زین العابدین کی جانب دیکھتے ہوۓ  دھیمے انداز میں پوچھا جو اس کی آواز سن کر پیچھے کی جانب پلٹا ۔


"جی ہاں آپ کو میں نے ہی بلانے کی یہاں غلطی کردی ہے مس خان "۔

وہ سر کو جنبش دیتے ہوۓ اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا قلم  اپنے لبوں میں دباتے ہوۓ اب دونوں ہاتھوں کی مدد سے اپنی مطلوبہ فائل کو نکال کر میز کی جانب بڑھنے لگا جہاں وہ نزدیک ہی کھڑی تھی ۔


"اس بات سے آپ کا کیا مطلب ہے سر میں سمجھی نہیں  "۔


وہ ماتھے پر سلوٹیں لاۓاپنی آئ برو کو ُاچکاتے ہوۓ سوالیہ انداز میں زین العابدین کی جانب دیکھنے لگی۔


"کیا آپ بتانا پسند کرے گی مِس خان آپ نے ماڈل ونیزہ کے ساتھ کِن شرائط پہ معائدہ طے کروایا تھا جس  کی ِبنا پر وہ  ہماری کمپنی کی بڑینڈ ایمبیسیڈڑ بنی ہے ؟۔


زین العابدین فائل کو میز پر رکھتے ہوۓ اسی کے ساتھ اپنی کمر ٹکاۓ کھڑا ہوگیا ۔زھرہ اس کے ماتھے پہ ابھرتی ناگوار لکیریں دیکھ کر خود پہ اس کی چبھتی ہوئی نظریں اچھے سے محسوس کررہی تھی ۔ 


"سر آپ کو کانٹڑیکٹ پیپر دیا تھا میں نے کیا آپ نے دستخط کرنے سے پہلے پڑھا نہیں؟۔


اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ زین العابدین سے پوچھا جو میز کے سہارے کھڑا بڑی فرصت سے اپنی کمیز کے بازوؤں کو کہنیوں تک موڑ رہاتھا زھرہ نے سرسری سا قدرت کے اس شاہکار کو دیکھاجو مردانا وجاہت سے مالامال تھا اس کی نظروں کا ِحصار اس کے کثرتی بازوؤں پہ تھا جن کی رگیں تن کر مزید ابھری ہوئ پرکشش لگ رہی تھی جب ہی وہ لاحول ولا پڑھتی ہوئ ہڑبڑا کر کمرے میں رکھی چیزوں پہ اپنی نظریں دوڑانے لگی ۔


"وہ کانٹڑیکٹ پیپر ایک عام سا کانٹڑیکٹ پیپر تھا جس پہ میں نے دستخط کیۓ تھے ,آپ مجھے یہ بتاۓ آپ نے کیا کہ کر ماڈل ونیزہ کو اس پروجیکٹ کے لیے قائل کیا تھا"۔



زین العابدین کی سرد نظروں کا ارتکاز وہ اپنے چہرے پہ اچھے سے محسوس کرسکتی تھی جو اس کی۔جانب سے جواب کا منتظر تھا ۔


"سر وہ دوسری کمپنی کا پروجیکٹ کرنا چاہتی تھی کیوں کے وہ ان سے پہلے بات کرچکی تھی پرباتوں باتوں میں جب انہوں نے بتایا کے  انہیں آپ پر شدید قسم۔کا کرش ہے اور وہ ہمیشہ سے آپ کے انٹڑویوز میگیزینز میں شوق سے پڑھتی تھی تو میں نے انہیں کہا کے "۔


زھرہ ہڑبڑاہٹ میں بات کرتے ہوۓمسلسل اپنے لبوں کو کترتی ہوئ زین العابدین کو اپنی جانب متوجہ کررہی تھی۔


"تو اسے آپ نے کیا کہامِس خان؟"۔


وہ کڑے تیوروں سے پوچھتا ہوا ایک قدم اس کی جانب بڑھا جو اسے اپنے نزدیک آتا دیکھ کر پیچھے کی جانب ہوئی تھی۔


"تو !!میں نے انہیں کہا کے آپ اگر یہ پروجیکٹ کرے گی تو سر کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملے گا آپ کو "۔


وہ سہم کر بولتے ہوۓ اقبال جرم کررہی تھی جو مزید اس کی جانب اپنے قدم بڑھارہا تھا ۔


"پھر "۔


وہ تاہنوز اس کی جانب اپنے قدم بڑھاتا جارہا تھا جو اس کے پہ درپہ سوالوں کے جواب دیتے ہوۓ پیچھے کی جانب جارہی تھی۔


"پررر ! وہ پھر بھی نہیں مانی انہوں نے کہا کے مارکیٹ میں ان  کی ریپوٹیشن  خراب ہوجاۓ گی تو پھر انہوں نے کہا کے میں ایک شرط پہ یہ پروجیکٹ کروں گی کے "۔


وہ ُاڑی ہوئی رنگت کے ساتھ اپنے لبوں کو  بے دردی سے اضطرابی حالت میں ُکترتی ہوئی قدرے توقف کےبعد ڈڑ ڈڑ کے بولی جب ہی زین العابدین کی آواز نے اس کی بات میں خلل ڈالا۔


"Stop doing this ".


وہ انگشت شہادت کو اس کے لبوں کے قریب لے جاکر اپنے ہاتھ کو پیچھے لے گیا جو زین العابدین کے اتنے قریب آنے پر بوکھلا سی گئ تھی۔


"کس شرط پر مانی وہ "۔


اب کی بار اس کے لہجے میں تھوڑی نرمی تھی ۔وہ سینے پر ہاتھ باندھے دیوار کے ساتھ لگی زھرہ کو گہری نظروں سے دیکھنے لگا جو اپنی لرزتی پلکوں کے ساتھ اب اپنے دونوں ہاتھوں کی ُانگلیوں کو چٹخارہی تھی۔


"سر انہوں نے کہا کے وہ یہ پروجیکٹ اسی شرط پر کرے گی کے مسٹڑ زین العابدین میرے ساتھ پورے پروجیکٹ میں رہے گے"۔

وہ منمنائی کن انکھیوں سے اسے دیکھنے لگی جس کا چہرہ سپاٹ تھا۔


,"تو میں نے کہا ایسا ہی ہوگا سر آپ کے ساتھ ہی رہے گے ہر جگہ  "۔


زھرہ نے اپنی بے قابوں ہوتی ڈھڑکنوں کے ساتھ آنکھوں کو سختی سے مِیچے ہوۓ تیزی سے اپنی ساری بات زین العابدین کے گوش گزارکردی جو اپنےلبوں کو سِینچےہوۓ اسے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوۓ دیکھ رہاتھا۔


"بات مکمل کرے مس خان آپ نے نہ صرف اسے یہ کہا کے میں پروجیکٹ میں ہر جگہ اس کے ساتھ رہوں گا بلکہ آپ نے اسے آفیشل نمبر دینے کے بجاۓ میرا نہایت پرسنل نمبر جو میں اپنے گھروالوں کو دیتا ہوں آپ نے وہ بھی اس بلا کو دے دیا جو رات سے میری زندگی میں ڈسپرین کی گولی کی طرح میرا خون پتلا کررہی  ہے "۔


وہ کڑے تیوروں سے اسے گھورتے ہوۓ استفار کررہاتھا جس کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں دیکھ کر وہ مسکرادیا۔


"دیکھے سر اب آپ مجھ پر سارا ملبا نہیں ڈال سکتے آپ یاد کرے آپ نے کیا کہاتھا کے مِس خان کسی بھی صورت میں یہ ایگریمنٹ ہونا چاہئے تو اب مجھے جو بھی صورت نظر آئی میں نے اسے بروۓکارلاتے ہوۓ مس ونیزہ سے ایگریمنٹ پہ دستخط کروالیۓ"۔


زھرہ نے تلملا کر  رٹے طوطے کی طرح زین العابدین کی نقل اتارتے ہوۓ  اسے مزید سیخ پا کردیا جو اپنی انگلیوں کو چٹخانے کا شُغل جارے رکھتے ہوۓ باہر جانے کے لیے پر تول رہی تھی ۔


"اچھا تو آپ نے میرا نمبر کیجویلی دیا۔۔۔کس حق سے۔۔؟ "۔


اب کی بار زین العابدین نے اس کے سر کے پاس دیوار پہ اپنے دونوں ہاتھ ٹکادیۓ جس کے نزدیک سے پرفیوم اور سگریٹ کی مل جلی سی مسحورکن خوشبوں آرہی تھی وہ اس کے نازک مخروطی ٹھنڈے ہاتھوں کو  دھونس سےآزاد کروانے لگا  جنہیں وہ کب سے اضطرابی حالت میں چٹخ رہی تھی  ۔


وہ ان صحر انگیز آنکھوں میں جھانکنے لگی جہاں اس کے لیے پیار اور محبت کا نوخیز سمندر ٹھاٹھیں ماررہاتھا وہ یک ٹک  بس انہی نگاہوں میں دیکھنے لگی جب ہی وہ اپنی اس غیر ارادی حرکت کو سرزنش کرتے ہوۓ اس سے نظریں پھیر گئ  ۔جو اس کے اگلے سوال پہ بھونچکا گئ۔


"اسی حق سے جس حق سے آپ مجھ پہ دھونس جماتے ہے "۔


وہ اپنے ازلی اعتماد کو بحال کرتی ہوئی اس کی  صحر انگیز آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ اس مغرور اور خود سر آدمی کو  لاجواب کرگئ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کے سامنے کھڑے انسان کو کتنی تقویت ملی تھی اس کے ایک جملے سے وہ لبوں پہ مسکراہٹ لاۓاسے گہری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔


"امید کروں گی اب آپ مجھ سے مِس ونیزہ کے لیے مزید تفشیش نہیں کرے گے سر "۔




وہ ایک ایک لفظ کو چبا کر ادا کرتے ہوۓ جانے لگی جب زین العابدین نے اسے  داۓ جانب سے بھی مکمل اپنے حصار میں لے لیاجو اُس کی اِس قدر پیش قدمی پر بظاہر تو خود کو مضبوط ظاہر کررہی تھی پر اندرونی طور پر دل ہلک کے ذریعے باہر آنے کو بے تاب تھا۔


                                              ۞۞۞۞

ماضی:-


آج رات تمام اہلکاروں کی ایک خفیہ میٹنگ تھی شائین ہے کے گروہ کے بارے میں جس میں وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے والے تھے۔


"تم بولو ڈی کے کیا خبر ہے؟"۔۔۔۔۔۔

عظیم خان نے اپنے ایک انڈر کوور آفیسر کو مخاطب کیاجس کی ڈیوٹی صرف ڈارک بنگلوں میں رہنے کی تھی  ۔


"سر بہت بری خبر ہے شائین ہے نے ہماری کڑی نگرانی کے باوجود ان بچیوں کو جہاز کے ذریعے یہاں بلوالیا ہیں ,جن کی کل سے اب تک حالت بتر ہوگئ ہیں ,ایسے جلاد صفت لوگ ہیں کے چھوٹی چھوٹی معصوم سی بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے دل میں تو آتا ہیں کے ایک ایک کا سر ڈھڑ سے الگ کردوں جو ایسے غیر انسانی سلوک ان کے ساتھ رواں رکھتے ہیں "۔۔


ڈی کے افسردہ ہوا انہیں داڑک بنگلوں کی اندرونی باتیں بتانے لگا جسے سن کر تمام اہلکار گم صم سےہوگۓ ۔


"ان بچیوں کے ساتھ آگے کیا کرنے والا ہے شائین ہے کچھ معلوم ہوا ؟"۔۔۔۔۔۔۔


عظیم خان لکڑی کے بوسیدہ ٹیبل پہ انگشت شہادت سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچتا ہوا بولا ۔


"سر اس وقت شائین ہے کے سب سے زیادہ بیوپاری لندن اور سری لنکا سے ہیں  ,اور زیادہ تر بچیاں اس بار کمبوڈیہ اور انڈیا, پاکستان سے ہیں جنہیں منہ مانگی قیمت میں وہ فروخت کرنے والا ہیں "۔۔۔۔۔


"تو ٹھیک ہے ڈی کے آپ سب آپریشن کی تیاری رکھیں اور یہاں کی پولیس فورس کو خفیہ طریقے سے آگاہ کردیں ہر کام نہایت رازداری سے کرنا ہیں تاکہ وہ خبیث انسان شائین ہیے اور وہ نمک حرام شوکت جو ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکلا کررہاہیں انہیں  ہم جہنم واصل کرکے ہی دم لے گے تاکہ آنے والے لوگوں کے لیے وہ عبرت کی نشانی بن کے رہ جاۓ "۔۔۔۔۔


عظیم خان پر عظم لہجے میں بولا جس سے اس کے جوانوں کا مورال بڑھا تھاجو آمین کہتے ہوۓ اٹھ کھڑیں ہوۓ ۔


حال:-


"آپ کو کیا لگتا ہے میں اپنے باپ دادا کا بزنس کسی اور کے حوالے کر کے یوکشائیر پہ وقت کیوں سرف کررہاہوں  تاکہ ونیزہ جیسی ماڈلز کو وقت دے سکوں ہے نہ!! تو آفس کون سنبھالے گا سارا اگر میں  وہاں چلاگیا"۔


وہ اپنے لبوں پہ ہاتھ رکھے کچھ دیر  تک سوچتا رہا ۔


میرے خیال سے میرے مرحوم دادا آکر کرےگے ہے نہ؟"۔

وہ اشتعال آمیز انداز میں اسے دیکھ کر بولا جس کی جان سولی پہ اٹکی ہوئی تھی۔


"بہت سنگین غلطی کردی ہے آپ نے مسسز خان اپنے شوہر کا نمبر دے کر جس کا خمیازہ  توآپ کوُبھوگتنا پڑے گا"۔


زین العابدین نے لہجے میں شرارت سموتے ہوۓ اس کی جانب تھوڑا سا ُجھک کرکہا جو اسے درزیدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔


"بھول۔۔ہے۔۔ آپ۔۔ کی "۔۔۔۔۔


اس کے لہجے سے کپکپاہٹ ولڑکھڑاہٹ واضع چھلک رہی تھی جس پر زین العابدین کے گداز عنابی لبوں پر تبسم سا بکھر گیا,کافی دیر تک دونوں کےدرمیان میں خاموشی کا راج رہا بالآخر زھرہ کو ہی اس گمبھیر خاموشی کو توڑنا پڑا کیونکہ وہ تو اسے یہاں لاکر جیسے بھول ہی گیا تھا, وہ بہت ساری خود میں ہمت مجتمع کرتے ہوۓ اپنی لرزتی کانپتی پلکوں کو اوپر کی سمت ُاٹھاتے ہوۓ اسے دیکھنے لگی  تو دل اتنی شدت سے ڈھڑکا تھا کے ایسے لگا پسلیاں توڑ کے باہر آجاۓ گا۔کیونکہ وہ جانے کب سے اسے بغور گہری نظروں سے دیکھ رہاتھا ,اس کا سارا اعتماد ساری ہمت ریت کے گھروندے کی طرح پانی میں بہ گئ تھی ایک لمحہ ہی لگا تھا اسے نگاہ ُاٹھاۓ, کہ نگاہ سمیت گردن بھی جھکا گئ۔


"سررر مجھے باہر جانا ہے "۔


آگے کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے زبان تو جیسے تالو سے جا چپکی وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دباۓاپنی نازک انگلیوں کو آپس میں بے دردی سے مروڑ رہی تھی بظاہر تووہ بہت مضبوط اور پُر اعتماد  دِکھتی تھی پر اندر سے بلکل ایک نرم دل نازک اندام  سی لڑکی تھی جو دن بدن اس کے دل کے ایوانوں پر قبضہ جماتی جارہی تھی ۔مگر جلد ہی زین العابدین کواحساس ہوگیا تھا  کےاس کی گرم پرتپش لودیتی نگاہوں سے وہ سہم رہی تھی ۔اس سے پہلے کے اس سے کوئ گستاخی ہوتی وہ ایک دم سے اپنے خول میں واپس لوٹ گیا۔


"you may go now "۔


زین العابدین کی جانب سے آزادی کا پروانہ ملتے ہی وہ تیزی سے باہر کی سمت بھاگی تھی زھرہ کے بھاگنے کے انداز پر زین العابدین کے عنابی لبوں کی تراش میں مسکراہٹ کِھل ُاٹھی تھی۔

                       ۞۞۞۞۞۞

ماضی:؞

"عظیم خان اگلے دن ڈی کے پیغام پہ اپنے خفیہ اڈے پہ پہنچا تو اس کی جانب بجھے ہوۓ انداز میں ایک پرچہ بڑھایا ۔


"سر ایک بُری خبر ہے ہمارے لیے کل رات شائین ہے نے زومبی ڈسٹ کا  تجربہ کرنے کے لیے وینیسا کو کافی زیادہ مقدار میں پلادی جس کی وجہ سےوہ موقع پہ ہی دم توڑ گئ  "۔


عظیم ساتھی اہلکار کے منہ سے ایسی افسوسناک خبر سن کر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑاہوا ۔کچھ دیر تک کمرے میں خاموشی کا راج رہا جب ہی کمرے کی خاموشی میں ڈی کے کی آواز گونجی۔


"سر میں بہت شرمندہ ہوں کے میری موجودگی کے باوجود بھی میں وینیسا کو بچا نہیں سکا "۔۔۔

ڈی کے چہرے سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔



" زومبی ڈسٹ کیا "۔


"عظیم خان کے پتھریلے لہجے پہ ڈی کے سیدھا ہوکے بیٹھ گیا ۔


"سر وہ ایک ایسا سفوف ہے جسے کھانے سے دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے ایسے وقت میں اس کے سامنے جو بھی چیز موجود ہوتی ہے وہ اسےچیڑ پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں ,پر کیوں کے یہ سفوف منڈی میں ابھی متعارف کرایا گیا تو زیادہ تر لوگوں کو اس کی صحیح مقدار کا اندازہ نہیں ہیں  ,شائین ہیے نے بھی وینیسا کے ساتھ یہی غلطی کردی اس نے ان کے شربت میں ضرورت سے زیادہ محلول ملادیا تھا جس کی وجہ سے وہ "۔۔آگے اس نے بات ادھوری چھوڑدی تھی ۔


"سر اب کیا ُحکم ہے آج رات وہ لوگ کافی زیادہ تعداد میں لڑکیوں اور بچوں کو یہاں سے منتقل  کرنے والے ہے ۔"۔


"تم لوگ تیاری رکھوں ہم۔آج رات ہی شائین ہے کو جہنم واصل کرے گے ان شاءاللہ"۔


عظیم نے اپنی کنپٹی کو مسلتے ہوۓ اسے جانے کا اشارہ کیا پھر خود بھی اپنے قدم گھر کی جانب موڑلیے جہاں فلحال اس کی رہائش تھی۔دن بھر اپنے کاموں میں ُالجھ کر وہ ِفیا کو بلکل بھول ُچکا تھا جو اس وقت شدید قسم۔کی پریشانی سے دوچار تھی۔شائین ہے کے آدمی اسے گھر سے زبردستی داڑک بنگلوں کی جانب لے گۓ تھیں جہاں آج رات اسے بھی بچوں کے ساتھ بینکوک بھیجاجارہا تھا ۔آپریشن کی تیاریوں میں مصروف عظیم خان کے خفیہ کال پہ کان کھڑے ہوگۓ ۔


"ہاں ڈی کے کیا رپورٹ ہے ؟"۔


عظیم نے سرز انداز میں پوچھا۔


"سر وہ وینیسا کی دوست ِفیا بھی یہاں موجود  ہے "۔

ڈی کے کی بات سن کر عظیم کو اپنا دماغ کھولتا سا محسوس ہوا ۔


"کیا بکواس کررہے ہو ,تم کہا ہو ڈی کے ؟۔

اس کا غصہ ساتویں آسمان تک جا پہنچا تھا۔


"سر میں یہی ہوں۔۔

عظیم ڈی کے منہ سے سن کر کچھ پل کے توقف کے بعد پھر بولا ۔


"ڈی کے میری بات دیھان سے سنو ,ُفیا کی حفاظت تمہیں ہر صورت میں کرنی ہے جب تک میں وہاں پہنچ نہیں جاتا "۔


عظیم خان غیض و غضب میں بھرا ہوا اسے اپنا اگلا لائحے عمل بتانے لگا  ,پھر راتوں رات عظیم اور اس کی ٹیم نے ٹھائیلینڈ پولیس کے ساتھ مِل کر ڈاڑک بنگلوں پر حملہ کیا جس میں شائین ہیے کے متعدد ساتھی جن میں شوکت بجی شامل تھا اپنے انجام کو پہنچ چکے مگر جس کو عبرتناک انجام تک پہچانا تھا وہ ابھی تک ان کے شکنجے میں نہ آسکاعظیم ایک ایک کر کے اوپر کی منزل کے سب ہی دروازے کھولتا جارہا تھا مگراسے دور دور تک شائین ہیے کا کوئی ِسرا نہیں مل رہا تھا ۔

"sir All cleared ".


تھائ پولیس کےایک اہلکار نے عظیم کو آکر یہ خوش خبری سنائی پر وہ مزید بے چینی کا شکار ہوچکا تھا کیوں کے فرض کو ادا کرتے ہوۓ وہ اپنی بیوی کو اس ِبھیڑ میں کہی کھوُچکا تھا ,اب تک ملنے والی تمام لڑکیوں میں اسے ِفیا کا نام ونشان بھی نہ مل سکا تھا اس درمیان وہ مسلسل ڈی کے کے نمبر پر کالز کرتارہا  جو اس کا فون نہیں ُاٹھارہاتھا ۔جب ہی عظیم کے نمبر پر ایک نئے نمبر سے کال آئی جسے اس نے پہلی بیل پر ہی ُاٹھالیا  ۔


"ہیلو اگر اپنی پیاری ِفیا اور ساتھی کو بچانا چاہتے ہو تو ڈوک پہ بِنا کسی کو بتاۓ فوراً پہنچ جاؤ تمہارے پاس صرف پندرہ منٹ ہے "۔


وہ ہزاروں میں بھی شائین ہیے کی آواز پہچان سکتا تھا ,عظیم یہاں کے آپریشن کی ساری ذمیداری اپنے ساتھی کے ذمہ لگاکر ڈوک  کی جانب تیزی سے بڑھ گیا جہاں اس کے ساتھی اور متاع حیات کی زندگی خطرے میں تھی ۔




Comments

Popular Posts