تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 2



ARAZ RESHAB NOVELS
Dont copy paste without my permission kindly.

سر وہ اصل میں,میں  وقت پر ِنکلی تھی پرہڑتال ہونے کی وجہ سے مجھے سواری نہیں ِمل رہی تھی اوپر سے ایک نیک انسان نے میرے سارے کپڑوں پر اپنی گاڑی سے کیچڑ ُاچھال دیا تھا ورنہ میں ہمیشہ وقت کی پابندی کرتی ہوں "۔


وہ سر ُجھکاۓ ہوۓ اپنی نازک ہاتھوں کی ُانگلیوں کو مروڑتی ہوئ اپنا مدعا بیان کررہی تھی ۔جب ہی زین العابدین کی فائل پہ پڑتی نظریں ایک دم سے پلٹی تھی وہ پوری ُکرسی سمیت ُگھوم گیا جہاں اپنا شکار کھڑا دیکھ کر اس کی بانچھے کھل گئ تھی۔



"تو تم نے بھی تو ُاس کی گاڑی پہ پتھر پھینکا تھا اور پیسے بھی دیۓ بغیر بھاگ گئ تھی "۔۔۔۔۔

جانی پہچانی آواز ُسن کر زھرہ نے اپنےسر ایک جھٹکے سے ُاٹھایا۔


"تم م م تم یہاں کیا کررہے ہو "۔۔۔وہ پھنکارتے ہوۓ بولی۔



اپنی زبان کو سنبھال کر بات کرو ِمس خان میں تمہارابوس ہوں لگتا ہے اللہ مجھ پر بہت زیادہ مہربان ہے جب ہی تم میری  ِامپلائ نکلی اب ایک ایک پیسے کی تم سے بھرپائ کروگا جو صبح صبح تم نے میری اتنی قیمتی  گاڑی کا کیا تھا "۔وہ ماتھے پر شکن لاۓ ُاسے ُگھورتے ہوے کہنے لگا۔


"سوری سر چونکہ آپ نے پہلے مجھ پر ِکیچڑ ُاچھالا تھا تب ہی بدلے میں ,میں نے پتھر پھینکا تھا تو ِاس طرح سے ِحساب برابر "۔

زھرہ کا ازلی اعتماد لوٹ آیاتھا, وہ فائل ٹیبل پر رکھ کر جیسے ہی پلٹنے لگی زین العابدین کی آواز نے ُْْاس کے بڑھتے ہوۓ قدم روک لیۓ۔


"میرے خیال سے مس خان میں نے آپ کو جانے کو نہیں کہا ۔

وہ دانت پیستیں ہوۓ بولا۔


"سوری سر"۔


نقصان تو آپ کو بھرنا ہی پڑے گا چاہے کسی بھی صورت میں بھرے وہ میں طہ کروں گا کب اور کیسے وصول کرنا ہے ِفلحال آپ ِمیٹنگ روم میں سارےاسٹاف کی پروگریس ِرپورٹ لے کر آۓ فوراً"۔ِاس سے پہلے وہ کوئ بات کرتی زین العابدین نے ُاس کی بات کاٹ کر ُاسے جانے کو کہ دیا۔

"یس سر "۔زھرہ کے جاتے ہی وہ کرسی کی پشت سے کمر ِٹکاۓ اپنی آنکھیں موند گیا ۔

"انٹرسٹنگ ِمس خان "۔

@@@

"پتہ نہیں کونسا گناہ کیا تھا میں نے جو بوس کی صورت میں یہ انسان مجھے ِمل گیا,اللہ مجھ پر رحم کردے اب اور آزمائشوں سے مت ُگزار اپنی بندی کو ُتو رحیم ہے میرے مالک "۔۔۔۔

وہ اپنی کرسی پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ کر اللہ سے اپنے رازو نیاز کررہی تھی جب ہی فون کی گھنٹی زھرہ کو ہوش کی دنیا میں واپس ِکھینچھ لائ وہ جلدی جلدی سےاپنے امور ِنبٹا کے ِمیٹنگ روم کی جانب بڑھ گئ جہاں زین العابدین اور وہ آگے پیچھے کمرے میں داخل ہوۓ۔


"اسلام۔علیکم "۔سب نے بیک وقت سلام کا جواب دیا ۔


"میں عام بوس امپلائ والی باتیں ِبلکل نہیں کروں گا "۔


زین العابدین نے ایک پرچہ اپنی فائل  سے ِنکال کر سب کے سامنے لہرایا۔


۔"اس ِلسٹ میں ان لوگوں کے نام ہے جن کی ِپچھلے کچھ ماہ میں ِبلکل پروگریس نہیں ہے۔آپ سب ِاسکرین کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔ جن کو ِدکھائ نہیں دے رہا یہ لسِٹ انہیں نوٹِس بوڑڈ پر لگی ِمل جاۓ گی,  آپ سب کے آگے جو لیٹڑز موجود ہے وہ آپ سب کےایڈوانس ریزیگنیشن لیٹڑز ہیں ۔ ِاس پر سب اپنے اپنے دستخط کرکے ِمس خان کے پاس جمع کروائیں گے۔  توآپ سب کے پاس صرف ایک مہینہ ہے ِاس درمیان اگر کسی کی پروگریس ِامپرؤو نہیں ہوئی تو ُاس کا لیٹڑ قبول کرلیا جاۓ گا,اب یہ آپ لوگوں پر ُمنحصر ہے کےآپ نائیٹ ِشفٹ کرتےہےیا ڈے یہ آپ کا ہیڈک ہے مجھے ِاس ایک مہینے میں رزلٹ چاہیۓ میں ُامید کروں گا آپ سب کو دوبارہ مجھے یہاں اس ٹاپِک کے لیے نہیں ُبلانا پڑے گاجاتے جاتے آپ سب کو آپ کا پہلا ٹاسک دےرہا ہوں ہماری کمپنی کا یہ پہلا کانٹڑیکٹ ہے دبئ بیسڈ کلائینٹ کے ساتھ ہمیں انہیں یہ کنسائنمنٹ ہر حالت میں پندرہ دنوں میں پورا کرکے دینا ہے اب آپ لوگ اوور ٹائم کریں یا کچھ بھی آپ سب کی سیلیری اور نوکری ِاس کو وقت پر پورا کرنے پر ُمنحصر ہے ,ٹیمز بناۓ ہر سیکشن کا ایک ایک ہیڈ بناۓ, ان سب کو ڈیل آپ سب کی نئ ایم ڈی ِمس ہمنا تنویرکرے گی کوئ بھی مسئلہ ہوتو آپ سب ُان کے پاس جائیں گے  "۔

"have a Good day".

زین العابدین تزک و احتشام کے ساتھ اپنے آفس کی جانب بڑھ گیاجس کے جاتے ہی سارے ِاسٹاف کو گویا سانپ ُسونگھ گیا تھا,جب ہی اک آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔


"hello every one".


"میں ہوں آپ سب کی نئ ایم ڈی حمنہ تنویرچونکہ بوس نے آپ سب کو ساری باتیں ُکھل کر بتادی ہے تو میرا انہیں دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں آپ سب اپنے اپنے ڈپارٹمنٹ کے ایک ایک ہیڈ بنائیں اور وہ میرے روم میں آۓ فوراً"۔

نیلے ُکھلے ٹڑاؤزر پینٹ پر کوٹ پہنے گلے کے گرد ِاسکارف لپیٹے آنکھوں پر گولڈن فریم والا چشما لگاۓ وہ ایک جہاندیدہ خاتون لگ رہی تھی جو شاید چالیس کے قریب  تھی۔ ِمس حمنا کے جاتے ہی سب اپنی اپنی ُکرسیوں کی جانب بڑھ گۓ تھیں وہی انہی کے درمیان زھرہ خان ُگم ُسم سی کیفیت میں کھڑی تھی۔وہ جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی ۔


"اب کیا کروں گی میں نے تو رفیق صاحب کو ایڈوانس سیلری کا کہا تھا یہاں تو ایم ڈی ہی بدل دیا ,اب مسسز ڈیسُوزا کا کیا کروں وہ تو گھر سے نکال دے گی "۔۔۔۔۔۔۔


زھرہ اپنی ٹیبل پر سر ُجھکاۓ اپنے داۓ ہاتھ سے ُمٹھی کو بھینچھے ہوۓ اپنے ماتھے پر ُمسلسل ماررہی تھی جب ہی کسی کی کرخت آوازنے ُاسے گھر کی پریشانیوں سےباہر ِنکالا۔


"مس خان یہ آفس آپ کے آرام کرنے کے لیے نہیں لیامیں نے جو فائل میں نے آپ کو ِبھجوائی تھی وہ مجھے اگلے پندرہ منٹ میں تیار چاہیۓ اورہاں ُاس سے پہلے مجھے ایک کپ کوفی بناکر آفس میں ِبھجواۓ"۔


زین العابدین جو شاید  ہمنا کے آفس سے آرہا تھا زھرہ کو خالی بیٹھا دیکھ کر ُاسے جھاڑ پلاۓ ِبنا نہ رہ سکا۔جس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ چکے تھے کوفی مانگنے پر۔


"پر سر یہ کام تو پیون کا ہے"۔۔۔۔

وہ ٹھنڈے پرسکون لہجے میں بولی جو  زین العابدین کے غصے کا گراف مزید بڑھاگئ۔


"لگتا ہے ِمس خان آپ کو یہاں کے سارے ُرولز اینڈ ریگولیشنز دوبارہ سے یاد ِدلانے پڑے گے ,مجھے چاۓ کوفی دینا ِصرف اور ِصرف آپ کی ذمیداری ہے کل سے میرے آفس کے اندر آنے کے ٹھیک پانچ منٹ بعد آپ میرے لیے خود کوفی بنا کرلایا کرے گی ُاس کے بعد کوئ اور کام شروع ہوگا "۔


3

وہ سنجیدہ انداز میں کہتا ہوا اسے دیکھنے لگا جس کے انداز میں غیر سنجیدگی جھلک رہی تھی اس کی ُکشادہ پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئ۔

"I hope so you get my point ".

مجھے ُامید یے آپ میری بات سمجھیں گی۔

"آپ کو میری آفِس کی ساری تفصیلات کچھ ہی دیر میں ِمل جاۓ گی ُاس کے بعدسے کسی ِقسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جاۓ گی, آغا اینڈ سنز کی فائل لے کر آفِس میں آۓ فوراً "۔

اس کی آنکھوں میں چمکتے موتی دیکھ کر زین العابدین نے اپنی آواز کا گراف تھوڑاسا آہستہ کیاتھا اور سر جھٹکتے ہوۓاپنے کمرے کی جانب بھڑگیا۔فلحال زھرہ کو باہر اپنی ُپرانی کرسی پر بیٹھنا پڑرہا تھاجو ِبلکل زین العابدین کے آفس کے ساتھ تھا۔ ِاسی وجہ سےاس کی ساری ڈانٹ پورے ِاسٹاف کے کانوں تک لفظ بالفظ پہنچی تھی جس سے زھرہ کو اہانت محسوس ہورہی تھی۔


"یارتم آفس جارہی ہو تو پلیز یہ میری فائل بھی لے جاؤ سر تو بہت غصے میں لگ رہے ہے "۔

ثمرین نے جیسے ہی زھرہ کو سر کے آِفس کی طرف جاتےہوۓ دیکھا تو اپنی آفِس فائل ُاس کے حوالے کی ِجسے اس نے خاموشی سے تھام لیا ۔


"سر میں اندر آجاؤ ں"۔


"آجاۓ"۔زین العابدین کی  اجازت پر زھرہ اندر داخل ہوئ 

"سر یہ مِس ثمرین نے اپنی فائل بھجوائ ہے  "۔۔۔


زھرہ نے ہاتھ میں تھامی ہوئ نیلی فائل زین العابدین کی جانب بڑھائ۔ جہاں وہ سیگریٹ کا ُدھواں ُاڑاتا ہوا زھرہ کومحویت سے دیکھنے لگا ِجس کی خوبصورت بادام سی بھوری آنکھوں پر پلکوں کی باڑ نے پہرہ دیا ہوا تھا گلابی ہونٹ دھیرے دھیرے لرز رہے تھے یا کسی احساس کو چھپانے کی کوشش کررہے تھے, خود پہ پڑتی نظروں کی تپش سے گھبرا کر زھرہ نے پٹ سے اپنی جھیل سی آنکھیں اوپر اٹھائ جو ُاسے آفس ُبلا کر شاید ُبھول گیا تھا۔


"سر آپ نے یہ فائل منگوائ تھی آپ دیکھ لے میرا کافی سارا کام پینڈنگ پر ہے "۔زھرہ نے زین العابدین کی نظروں سے خائف ہوکر انتہائ کوفت سے ُاس کی توجہ فائل کی جانب مبذول کرائ تھی جِس میں وہ ُبری طرح سے ناکام ہوئ۔ 


"آپ کی آنکھیں اتنی لال کیوں ہورہی ہے ِمس خان "۔سیگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوۓزین العابدین نےبے خودی اور بے ساختگی میں  ُاس کی ِجھیل سی آنکھوں میں ہلکورے لیتے ہوۓگلابی دوڑوں کو دیکھ کر ُمنہ سے ِبلکل ُالٹ سوال کیا۔ ِجسے ُسن کر کچھ لمحوں کے لیے زھرہ بھی سٹپٹا گئ تھی مگر جلد ہی ُاس نے خود کو کمپوز کرلیا۔


"معزرت کے ساتھ میرے خیال سے آپ کے لیے یہ جاننا ِبلکل ضروری نہیں کے میری آنکھوں کو کیا ُہوا ہے آپ نے فائل کے لیے ُبلایا تھا ُاس کے بارے میں مجھے کوئ اہم بات بتانی ہے تو پلیز بتادیجیے"۔

زھرہ نے کچھ دیر پہلے ہوئ اپنی عزت افزائ کا بدلہ کچھ ِاس انداز میں لے لیا کے ُاسے زین العابدین کا ُدھواں ہوتا چہرہ دیکھ کر ُاس پر سَر شاری سی چھاگئ جو اپنی بے خودی اور بے اختیاری پہ خفیف سا ہوا تھا 


"مِس خان آپ نے ِبلکل ٹھیک کہا آپ میرے لیے کوئ اہمیت نہیں رکھتی آپ میری صرف ایک ُملازم ہے جسے کچھ دیر پہلے میں نے شاید سارے ِاسٹاف کے سامنے دانٹا تھا ِاسی لیے میں نے آپ سے انسانیت کے ناتےپوچھ لیا کے کہی آپ ُچھپ کے رو تو نہیں رہی "۔


"You know ".


"خوف خدا ہے مجھے بہت "۔۔۔


زین العابدین نے ُاس کے غصے سے لال ہوتے چہرے کو دیکھ کر اک گونہ اپنے اندر جلتےالاؤ پر ٹھنڈی ُپھوار گِرتی ہوئ محسوس کی  ۔جو براہ راست اس کی مغرور آنکھوں میں چٹانوں سی سختی دیکھ رہی تھی ۔


"یہ چاروں فائلیں مجھے اگلے ڈیڑھ گھنٹے میں ُمکمل چاہیےاور یہ والی فائل واپس لے کر جاۓ, مِس ثمرین کو کہے اپنبے کام خود کیا کرےاب آپ جاسکتی ہے "۔۔۔۔

وہ اسے درشت لہجے میں کہتا ہوا اپنے لیپ ٹاپ پہ مصروف ہوگیاوہی زھرہ بے دلی سے فائلیں ُاٹھاتی ہوئ اپنے کیبن کی جانب بڑھ گئ۔

                        ۞۞۞۞۞۞۞۞

"ہالے میری ایک بات کان کھول کر ُسن لو پاکستان میں اور یہاں کی زندگی میں بہت فرق ہے تم جانتی ہو ہم نے ِکس طرح  حیات کو شیشے میں ُاتار کر زین سے تمہارا رشتہ کروایا تھا ورنہ ُاس کی دادی تو کبھی بھی تمہیں اپنی بہو نہ بناتی اب پاکستان جارہی ہو تو اچھے سے یہ بات زہن نشین کرلو نہ سیگریٹ نہ شراب تم ان دونوں چیزوں سےدور رہو گی ورنہ یہ billionaire  تمہارے ہاتھوں سے نِکل جاۓ گا سمجھی "۔

ریحانہ بیٹی کو سمجھاتے ہوۓ ُاس کے ُسوٹ کیس سے شورٹس اور ِمنی اسکرٹس نِکال ِنکال کر ماربل پر پھینکنیں لگی۔


"موم میں آپ کو کچھ کہ نہیں رہی تو ِاس کا ہر گزِ یہ مطلب نہیں آپ میرے سر پر چڑھ جاۓفوراًسے پہلےمیرے کمرے سے باہر نِکلے"۔

ہالے ہلک کے بَل اپنی ماں پر چلارہی تھی جو بگڑی ہوئ لڑکیوں کی ُصحبت داری میں رہ رہ کر ِبلکل ان جیسی ہوگئ تھی۔


"ہالے میں تمہیں بتارہی ہوں ایسے کپڑے لے کر پاکستان مت جانا زین اور ُاس کی دادی کو ایسی لڑکیاں ِبلکل پسند نہیں"۔


ریحانہ نے ایک بار پھر ہالے کوسمجھانے کی کوشش کی, جو ُاس کی باتوں کو نظرانداز کررہی تھی ۔

to hell with them. 

ہالے نے اپنی ماں کا ہاتھ تھاما اور انہیں کمرے سے باہر دکھیل دیا .

"میں کوئ بچی نہیں ہوں اب مجھے آپ کی کوئ نصیحت نہیں چاہیۓ "۔

اس نےاپنی ماں پر برہم۔ہوتے ہوۓ اپنا غصہ دروازے کو زور دار انداز میں بند کر کے نِکالاتھا۔

                         ۞۞۞۞۞۞۞۞۞

"حیات ِادھر آؤ بیٹے کبھی اپنی ماں کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کرو"۔سَلیما بیگم جو کے حیات صاحب کی والدہ اور زین العابدین کی ہر دِل عزیز دادو تھی جن کی ہر بات پر لبیک کہنا زین العابدین کی زندگی کامقصد تھا ۔ُمنتہا کی زین العابدین کی پیدائش کے دوران ہوئ بےچِیدگیوں کے باعث جانبر نہ ہوسکی جس پر حیات صاحب اپنی دل عزیز بیوی کے غم میں اپنے اِکلوتے ِجگر کے ُٹکڑے کو بِلکل ُبھول ُچکے تھے ایسے وقت میں ایک سلیما بیگم ہی تھی جو بیک وقت بیٹے اور پوتے کو اپنی چھاؤں میں کڑی ُدھوپ کے ساۓ سے بچارہی تھی۔سلیما بیگم سے جوان بیٹے کا ُْدکھ دیکھا نہیں جاتا تھا ِجس پر انہوں نے زین العابدین کی قسم دے کر حیات صاحب کی شادی رخشندہ  سے کروادی جو ان کی دور پرے کی رشتےدار تھی۔ پہلےپہل رخشندہ بیگم ایک معصوم لڑکی ہونے کا ناٹک کرتی رہی پھر زیادہ دیر ِاس بناوٹی خول میں نہ رہ سکی تو اپنے خول کو چٹخا کے رفتہ رفتہ اپنے پَر ُْپُرزے کھولنے لگی جس پر سلیما بیگم سخت کبیدہ ہوئ جو زین العابدین کو سوتیلی ماں کے عتاب سے بچانے کی کوشش میں ُاسے خود سے دور کرنے کا سوچنے لگی ان ہی ِدنوں رخشندہ کے ہاں ایک بیٹا ہوا جو ہو بہو اپنی ماں کا پَر تو تھا جس کا نام قاسم حیات خان رکھا گیا۔جانے کتنے عرصے کے بعد حیات صاحب کے چہرے پر ِمسکراہٹ چھائ تھی۔جب زین العابدین نے قاسم حیات خان کو اپنی آغوش میں لینے کی کوشش کی تو رخشندہ بیگم نے اسے قاسم سے دور کردیا تھا جس پر وہ سخت رنجیدہ ہوکر دادی کے کہنے پر بورڈنِگ چلاگیا ,اس نے اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال جس میں ُاسے ماں اور باپ دونوں کے پیار کی بے انتہاہ ضرورت تھی اس نے وہ سال بورڈنگ میں تنہائ کی نظر کردیۓ۔وقت گزرتا گیا ,ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے گۓاور مہینے سالوں پر محیط ہوگۓ, مگر زین العابدین کا دل سخت سے سخت ترین ہوتا گیا ۔ ُاس کے دل میں ایک نرم گوشہ صرف اپنی دادی کے لیے پایا جاتا تھا جن کے لیے وہ ہمیشہ سے زینو بن جاتا تھا اور باقی سب کے لیے وہ وہی زین العابدین جو  کٹھور اورندڑتھا۔

"ماں جی میں آپ کے پاس ہی تو بیٹھا ہوں "۔حیات صاحب نے اخبار چھوڑ کر اپنی ماں کا ہاتھ تھاما۔

"ُپتر ایک بات کہوں اگر ُبرا نہ مناؤ تومجھے ِبلکل اچھا نہیں لگا تمہارا فیصلہ "۔

"ماں جی کون سا فیصلہ "۔حیات صاحب نے سوالیہ انداز میں دیکھا۔

"ُپتر میرا زینو بچپن سے ہی ماں باپ کے پیار کا ترسا ہوا ہے ,وہ بے شک پوری دنیا کے سامنے ایک بڑا کامیاب بزنس مین ہے پر تم نے ُاس کی شخصیت میں ایک خلا سا پیدا کردیاہے جس کی وجہ سے اسے خود سے پیار نہیں رہا ورنہ ہالے جیسی لڑکی کے لیے وہ کبھی بھی ہاں نہ کرتا کیا ہم اپنے بچے کی خوشی کے لیے ریحانہ کو جواب نہیں دےسکتے"۔

سلیما بیگم اپنا چشمہ ُاتار کر آنکھوں میں آۓ آنسوؤں کے ریلے کو اپنے دوپٹے سے صاف کرنے لگی ۔

"ماں جی میں آپ کی بات سمجھ رہاہوں میں خود مانتا ہوں میں نے زین کی شخصیت میں بہت توڑ پھوڑ کی ہے مگر بخدا ہالے کے رشتے کے لیے میں نے صرف پوچھاتھا۔زین نے خود ہاں کی تھی ویسے بھی ماں جی ہالے کوئ غیر تو نہیں ہے ُاس کی سگی خالا زاد ہے ,زین کو جو فیصلہ لینا ہے وہ خود لےگا میں ُاس کے فیصلے میں ِبلکل نہیں بولوں گا مجھ سے میرے بچے کے لیے پہلےہی بہت سارےغلط فیصلے ہوُچکے ہے اب ہر فیصلہ اپنی زندگی سے ُمنسلک زین خود کرے گا "۔

حیات صاحب نے اپنی ماں کے ہاتھوں پر بوسہ دیتے ہوۓ نرم لہجے میں کہا پھر اپنے قدم لان کی جانب بڑھادیۓ ۔

                       ۞۞۞۞۞۞۞۞۞

شام کے پانچ بج ُچکے تھے پر زھرہ کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہواتھا۔وہ تندہی سے اپنا کام مکمل کررہی تھی جب ہی ہمنا تنویر زھرہ کے کیبن میں داخل ہوئ۔


"ہیلو پڑیٹی گرل کیسی ہے آپ "۔۔۔۔


ہمنا تنویر نے کام میں مشغول زھرہ کی ٹیبل پر نوک کرکےاسے اپنی جانب متوجہ کیا۔


"ہیے میم کیسی ہے آپ "۔زھرہ نے خوشدلی سے ہمنا تنویر کو مُخاطِب کیا ۔


"میں ِبلکل ٹھیک ہوں اصل میں ,میں واپس جارہی تھی تو مجھے یاد آیا کےآپ سے تو ملاقات ہی نہ ہوسکی تھی خیر یہ بوس کا اسکیجیول ہے آپ کو ِاس ِحساب سے ان کی میٹنگز ارینج کرنی ہے اگر کوئ مسئلہ ہو تو آپ مجھ سے ِاس نمبر پر رابطہ کرسکتی ہے یہ میرا نمبر ہے ٹھیک پھر  میں چلتی ہوں باۓ ڈیڑ"۔۔۔۔

ہمنا تنویر نے اپنا وِیزیِٹنگ کاڑڈ زھرہ کی جانب بڑھایاپھر وہ باہر جانے کے لیے جیسےہی اٹھنے لگی زھرہ نے انہیں روک لیا۔


"ایک سیکینڈ میم کیا آپ اپنے قیمتی وقت  میں سے تھوڑا سا وقت نِکال سکتی یے "۔

زھرہ نے گزارش کرتے ہوۓ کہا۔


"ya sure honey tell me what happen".


ہمنا زھرہ کی آواز پرقریب رکھی  ُکرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئ۔

 "اصل میں میم میں نے آپ کے آنے سے پہلے ناصر صاحب سے جوکے ہمارے ُپرانے ایم ڈی ہے انہیں ایڈوانس سیلیری کے لیے درخواست دی تھی تو کیا آپ پلیز ُاسے  (accept) کرسکتی ہے مجھے بہت ضرورت ہے آج اس کی  "۔


زھرہ نے ملتجیانہ نظروں سے ہمنا تنویر کو دیکھا جو لبوں کو بھینچےہوۓ کسی گہری سوچ میں ُگم تھی۔


"زھرہ ِاس کے لیے تو آپ کو بوس کے پاس جانا پڑے گا وہی دستخط کرے گے میں توصرف اتنا کرسکتی ہوں کے آپ کی درخواست آگے تک پہنچادیتی ہوں باقی, کے- ٹو آپ کو خود سر کرناپڑے گا"۔

ہمنا تنویرسنجیدہ انداز میں کہتی ہوئ آخری بات پرخود ہی ُمسکراہ ُاٹھی۔


"چلو میں بات کرکے بتاتی ہوں "۔۔۔

وہ دھیمے انداز میں کہتے ہوۓ زین العابدین کے آفس میں داخل ہوئ جب ہی کچھ دیر بعد ہمنا تنویر نے زھرہ کا ٹیبل نوک کیا۔


"زھرہ آپ کو بوس ُبلارہے ہے آفس میں "۔۔۔۔

ہمنا تنویر کی بات پر زھرہ کےدل کی ڈھڑکن ایک سو بِیس کی رفتار سے چلنا شروع ہوگئ۔


"میم آپ بات کرلے پلیز میرے جانے سے کیا ہوگا "۔۔۔۔

وہ آنکھوں میں آنے والی نمی کو پیچھے دھکیلتے ہوۓ بولی پر لہجے میں موجود نمی کو وہ مخفی نہ رکھ سکی ۔

"زھرہ آپ تو مجھےکمزور نہیں لگتی ,بلکہ آپ تو مجھےبہت حوصلہ مند لگتی ہےتو پھر بیٹا ہمت پکڑے "۔۔۔

اس نے تاسف سے اس پیاری لڑکی کو دیکھ کر کہا۔


"اوربیٹا آپ تو بوس سے ایسے ڈڑ رہی ہے جیسے وہ آپ کے ِحساب کے ُاستاد ہے جو کام نہ کرنے پر آپ کو سزا دے گے"۔۔


زھرہ نے اس کی جانب دیکھا جہاں شرارت سے بھری شوخ مسکراہٹ تھی۔


"اوکے میں اب نہیں مسکراتی آپ اندر جاؤ آپ کا کام ہوجاۓ گا مجھے اب لیٹ ہورہاہے آپ اندر چلی جاۓ باۓ"۔۔۔


ہمنا تنویر نے ُاسے تسلی دیتے ہوۓ اپنا پرس ُاٹھایا اور باہر کی جانب نِکل گئ اس کے جاتے ہی زھرہ تیز ہوئ ڈھڑکنوں کو سنبھالتے ہوۓ زین العابدین کے آفس کا دروازے پر دستک دینے لگی کچھ توقف کے بعد آواز آئ۔

 "آجائے"۔

وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئ تو زین العابدین کو دیکھ کر چونک اٹھی جو ِبنا کوٹ کے لال ٹائ کو ڈھیلا کیۓ سفید شرٹ میں رف سے انداز  میں بازوؤں کو کہنیوں تک لپیٹے کسی بھی نازک اندام حسینہ کو ِاس وقت اپنا اسَیر کرسکتا تھا۔


"جی تو مِس زھرہ کیا میں آپ سے ُپوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کے ایسے کیا مسائل آپ کو درپیش ہے جو آپ پہلے دن ہی ایڈوانس سیلری مانگ رہی ہے"۔


4

زین العابدین نے لبوں میں سگریٹ دباتے ہوۓ اسے لائٹڑ کی مدد سےسلگایا ,پھر ایک گہرا کش لیتے ہوۓاس نے سوالیہ انداز میں اس کی جانب دیکھا۔

"سر کچھ پرسنل ریزنز کی وجہ سے مجھے چاہیۓ میں آپ کو بتا نہیں سکتی "۔۔۔


وہ اپنے ہاتھوں کی نازک انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیۓاپنا سر ُجھکاۓ اس سے اپنا مُدعا بیان کررہی تھی وہ ِاس وقت خود کو ایک ایسا جانور سمجھ رہی تھی جس کے ہاتھ پاؤ ں باندھ کر ُاسے زبردستی زبح کیا جارہاہوِاس سے پہلے ُاس نے خود کو کبھی اتنا بے بس محسوس نہیں کیا تھا ۔


پر مِس خان آپ تو میری پہلے سے ہی کافی مَکروز ہے مزید آپ کو سیلری دینے سے آپ سارے پیسے کیسے لوٹاۓ گی "۔اس نے ُاس کی ُدکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔


"سر آپ ہر مہینے میری سیلری سے ایک مناسب اماؤنٹ نکال لیا کرے اس کے علاوہ میں اوور ٹائم۔بھی کروں گی۔میں اپنے سارے پیسےکمپنی کوچھ ماہ میں پورے ادا کردوں گی"۔اس کے رسانیت سے کہنے پر زین العابدین نے متعجب ہوکر اسے دیکھا ۔


"ِاس سب کا مجھے کیا فائدہ ہوگا مِس خان  "۔۔۔

وہ پرسوچ لہجے میں بولا ,جس کی زیرک نگاہوں نے اس کی پریشانی کو بھانپ لیاتھا ,جب ہی اپنے لہجے میں گنجائش پیدا کرتے ہوۓ وہ اس سے سوالات کررہاتھا۔


" سر میں پوری ہارڈ ورکنگ ِ کروں گی آپ کو کوئ شکایت کا موقع نہیں دوں گی "۔اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں سے اس نے کافی حد تک اندازہ لگالیا تھا کہ بات کس نوعیت کی ہے ۔


"ٹھیک ہے پھر آپ کو اگلے چھ ماہ کی تنخواہ ابھی ِمل جاۓ گی مگر ُاس سے پہلے آپ ِاس پیپر پر یہ تحریر لکھ کر دے گی کے آپ اگلے چھ ماہ تک  پورے پیسے کمپنی کو لوٹاۓ گی ,اس کے علاوہ کمپنی کے تمام لیگل کام خوش اسلوبی سے کرے گی, بصورت دیگر کمپنی آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئ کرنے کا حق رکھتی ہوگی  "۔زین العابدین نے ُاس کے سامنے ایک کورا کاغز رکھاجس پر زھرہ نےُاسے ایک زہر کا کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا وہ دستخط کرکے زندگی میں پہلی بار اپنے اصولوں کے ِخلاف جا کر کسی سے ُادھار پیسہ مانگنے آئ تھی وہ انتہائ بے ِدلی سے آفِس سے باہر جانے لگی جب ہی زین العابدین کی آواز نے ُاس کے بڑھتے ہوۓقدم روک لیۓ ۔


ِ"مس خان آپ اپنی تیاری کرلیجیے گا کل آپ کو میرے ساتھ سیالکوٹ کے لیے نکلنا ہے ِاس کے علاوہ آغا اینڈ سنز کی تمام فائلیں نیچے ڈپارٹمنٹ سے لیتی جائیے گا "۔

"پر سر میں کیسے آپ کے ساتھ جاسکتی ہوں آپ کسی اور کو لے جاۓمجھے اجازت نہیں ِملے گی  "۔زھرہ نے ِاس نۓ سوشے پر پریشان ہوتے ہوۓ اس کی جانب دیکھا ۔


"آپ آفس کے کسی بھی کام کے لیے منع نہیں کرسکتی ِمس خان یہ آپ کی ڈیوٹی ہے اب آپ جاسکتی ہے صبح آپ آفس میں مجھے پورے آٹھ بجے چاہیۓ "۔

"you may go know".

"پر سر"۔زھرہ نے ایک بار پھر انکار کرنے کی کوشش کی ۔

"out".

زین العابدین نے کرخت آواز میں کہ کر فائل کھولے اسے  جانے کا کہ دیا ۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

زھرہ ا ِتنی دیر کردی بیٹے آج دفتر  سے آنے میں "۔فوزیہ نے گھر میں داخل ہوتی زھرہ کو دیکھ کر کہا,جوتخت پہ بیٹھی اپنی ماں کو دیکھ کر ِنڈھال سی حالت میں ُان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئ ۔

"کیا بات ہے بیٹے لگتا ہے آج زیادہ کام کیا ہے میرے بچے نے "۔فوزیہ نے بیٹی کے سر سے چادر سرکا کے ُاس کا سر دبانے لگی ۔


"نہیں امی ہم۔جیسے لوگوں کو کام کرنا کب کچھ کہتا ہے ہمیں تو بس ہماری سفید پوشی ماردیتی ہے "۔۔۔۔

زھرہ کی بند آنکھوں سے ایک موتی ُچپکے سے بالوں میں کہی ُگم ہوگیا پر وہ یہ قیمتی موتی اپنی ماں سے ُچھپا نہ سکی ۔


"زھرہ !! میرے بچے میں نے تو تجھے حالات سے مقابلہ کرنا سکھایا تھا ُتو تو پہلی سیڑھی پر ہی ڈگمگاگئ کیوں میری جان"۔۔۔۔

فوزیہ نے بیٹی کی آنکھوں سے شفاف موتیوں کو اپنی چادر کے پلوُں سے  ُچنا ۔

"امی جب میں بہت چھوٹی سی تھی نہ تو میں سوچاکرتی تھی کے سب اپنی  اپنی زندگی میں آسودہ حال ہے پر میں کیوں نہیں ہوں ,میری ماں کیوں نہیں دوسروں کی ماؤں کی طرح گھر میں رہتی ,وہ کیوں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی کیوں وہ رات رات بھر جاگ کر سیلائیاں کرتی تھی جب میں آپ کے ہاتھوں میں آبلے دیکھا کری تھی نہ تو دل کرتا تھا میں جلدی سے بڑی ہوجاؤں اور ساری خوشیاں آپ کے قدموں میں ڈھیر کردوں, پر جانے کیوں میری آزمائیشیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی, آپ نے مجھے سب کچھ سیکھایا دین ودنیا کا علم سیکھایا صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سیکھایا پر آپ نے مجھے   "۔روتے روتے زھرہ کے ہچکی بندھ گئ۔

"زارو میری جان پہلے پانی پی لو "۔فوزیہ نے بیٹی کو ِاس طرح بِلکتے ہوۓ دیکھا تو وہ ٹڑپ ُاٹھی۔


"امی آپ نے مجھے سب کچھ سیکھایا پر آپ نے مجھے اللّٰہ کے سواہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں سکھایا ,بتاۓ کیوں نہیں بتایا آپ نے مجھے"۔زھرہ ماں کی جھولی سے سر ُاٹھا کر انہیں دیکھنے لگی جس کا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ دیکھ کر ان کے دل میں ہول اٹھ رہے تھیں ۔


"آج ِاس چھت کے نیچے رہنے کے لیے میں نے ُاس مغرور انسان  سے کس طرح پیسوں کا بندوبست کیاہے یہ میں اور میرا اللہ جانتا ہے امی ,میں اب کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگوں گی مجھےُاس وقت ایسے لگ رہا تھا جیسے مجھے کوئ باندھ کر زبح کررہاتھا ۔اب میں کبھی ُاس انسان سے نظریں ِملا کر بات نہیں کرسکوں گی میں ُاس کی مقروز ہوگئ ہوں "۔زھرہ نے ماں کی گود میں ایک بار پھر سر رکھ کر وہ گزرا وقت یاد کیا جو ُاس جیسی خوددار لڑکی کے لیے ایک تکلیف دہ عمل تھا۔

"امی ایک بات بتائیں کوئ شخص کسی منزل کی جانب سفر کرے بہت لمبی مسافت طے کرلے اور جب اس منزل کی جانب پہنچنے والا ہوتو اسے معلوم ہو کے یہ اس کی منزل ہی نہیں تو پھر اس انسان کو کیا کرنا چائیے؟"۔وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں اپنی ماں سے بولی تھی جو اس کے لہجے میں یاسیت کا عنصر نمای محسوس کررہی تھی۔

"تو میری جان اللہ کا لاکھ شکر ادا کرو کے اس نے تمہیں مزید سفر کی تکان سے بچالیا "۔وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ رسانیت سےبولی۔

"میری جان اللہ اپنےنیک بندوں کوایک وقت تک آزماتا ہے یہ ہماری آزمائیش کا وقت ہے ہمیں ِاس میں صبروتحمل کے ساتھ اپنا وقت گزارنہ ہے,زندگی کا سفر بہت طویل ہےکئ التفاقات حادثے رونما ہوتے ہیں کیا زندگی منجمند ہوجاتی ہے ؟"۔انہوں نے رک کر اس کے اداس چہرے پہ نظر ڈالی ۔


"نہیں نا وقت گزرجاتا ہے لیکن اگر ہم کسی ایک ناکامی پر مایوس ہوجائیں اور تھک کر اللہ سے شکویں کرے تو زندگی تو ایسے نہیں گزرے گی نہ !اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنا ماضی یاد رکھو تو آگے کا سفر آسان ہوجاتا ہےاگر تم یہ سوچ کر ہمیشہ چلو گی کے غلطی ہمیشہ کچھ نہ کچھ سبق دیتی ہے تو  پھر دیکھنا کیسے خوشیاں میری بیٹی کے قدم ُچومے گی اب ُاٹھو جا کر کپڑے بدلی کرو اور کھانا کھاؤ شاباش "۔

                           ۞۞۞۞۞۞۞

"زین العابدین ُسست َروی سے ہاتھ میں کوٹ تھامے زینے کی جانب جارہاتھا جب ہی راستے میں کھڑی ِاک شفیق ہستی کو دیکھ کر ُرک گیا ۔

"اسلام علیکم دادو  آپ ِاس وقت کیوں جاگ رہی ہے"۔زین العابدین اپنی دادی کے شانے کے گِرد بازوں حمائل کیۓ انہیں ٹی وی لاؤنج کے صوفے کی جانِب لے آیا ۔

"جب میرا شیر بیٹا گھر نہیں ہوگا تو ماں کی آنکھوں میں نیند کیسے آۓ گی میری جان "۔وہ صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ نرم لہجے میں بولی ۔

"دادو بس کام ابھی ابھی شروع کیا ہے تو وقت کا پتہ نہیں چلتا اور ویسے بھی سردیوں کی وجہ سے اَندھیرہ جلدی ہوجاتا ہے ِاس لیے آپ کو لگتا ہے میں دیر سے آیا ہوں "۔

وہ اپنے مضبوط شانے سے بیگ اتار کر صوفے پہ رکھتے ہوۓ بولا۔


اچھا میری جان اب یہ بتاؤ میرے زینو نے کھانا کھایا"۔زین العابدین کے لبوں پر اِک دلفریب سی ُمسکراہٹ چھاگئ۔

"جی دادو کھانا کھالیا ہے بس اب آرام کروں گا مجھے صبح جلدی جانا ہے "۔

"ٹھیک ہے بیٹے اپنا خیال رکھنا پھر صبح ملتے ہے "۔

"شبَ خیر دادو"۔

زین العابدین دادی سے مل کر اوپر کی جانب بنی اپنی خوابگاہ میں آگیا جہاں ُاس کے اور دادی کے علاوہ سب کا داخلہ ممنوع تھا۔

وہ فریش ہونے کے بعد کپڑے بدلی کیۓبِستر پر نیم دراز ہوگیا۔ُاس نے جیسے ہی آنکھیں موندی تو چھم سے ِاک رویا رویا سا گلابی چہرہ آنکھوں کے سامنے آگیا ۔

"سر میں پوری ہاڑڈ وَرکنگ کروں گی آپ بس مجھے ایک موقع دے "۔

زین العابدین کے کانوں میں اِک سریلی سی آواز گُونجی تھی ُاس نے اپنی آنکھیں جھٹ سے کھولی۔

,"سر میں آپ کو نہیں بتاسکتی یہ میرا پرسنل ہے "۔ایک بار پھر زھرہ کی آواز  اس کی سماعت میں گونجی۔

"یہ میں کیوں اسے سوچ رہاہوں, کیوں وہ میری آنکھوں کے سامنے آرہی ہے "۔زین العابدین نے بیٹھ کر کمرے کا لیمپ جلایا۔

"شاید مجھے ِگیلٹ فِیل ہورہا ہے میں نے ُاسے پیسے دینے میں تاخیر کی اور ُاس سے شرائط منظور کرائ ,ویسے میں نے ِاس سے پہلےکبھی اپنے کسی اِمپلائ کے بارے میں اِتنا نہیں سوچا جتنا مسِ خان میرے دِماغ پر حاوی ہورہی ہے شاید میں کچھ زیادہ ہی ُروڈ ہوگیاتھا" ۔وہ کچھ دیرتلک چھت کو ٹکٹکی باندھیں دیکھتا رہا۔

Zain baita sleep now ..

زین العابدین نے اپنے آپ سے کہا اور ایک بار پھر ِبستر پر نیم درازہوگیا۔

                                  ۞۞۞۞۞۞۞

"امی پیسے دے آئ آپ "۔زھرہ فرش پر چادر بِچھاۓ کپڑے ِاستری کرتے ہوۓ اپنی ماں سے پوچھنے لگی جو آنگن سے اندر کی جانب آرہی تھی۔

"ہاں لے لیے ُاس نے پیسے پر بڑی باتیں ُسنارہی تھی خیر تم سناؤ اب ٹھیک ہو نہ ؟۔"فوزیہ نے چارپائ پر نیم دراز ہوتے ہوۓ زھرہ سے پوچھا جو کپڑے ِاستری کرنے میں مصروف تھی۔

"جی امی بس ایسے ہی میں پاگل ہوگئ تھی"۔اس نےاپنی لمبی چوٹی سے نکلتی آوارہ لِٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوۓ اپنی ماں سےکہا۔

"نہیں بچے سب میرا قصور یے میرے بیمار ہونے کی وجہ سے نہ میں نرگِس سے پیسے ُادھار لے کر علاج کراتی اور نہ تم لوگوں کی مقروض ہوتی مجھے معاف کردومیری بچی میں تمہاری ساری پریشانیوں کا سبب بن رہی ہوں "۔فوزیہ نے اپنے بہتے آنسوؤں کواپنی چادر کے پَلُو سے صاف کیا۔


"نہیں امی آپ کیسی باتیں کرتی ہے آپ پر سے تو میرے جیسی دس زھرہ بھی نثارکر کے پھینک دوں تو کم ہے ,آپ اپنے یہ قیمتی آنسوں مت بہائیں یہ سب ہمارے نصیب میں لکھاتھا نہ ہمارے ابوّ ہمیں چھوڑ کر جاتے اور نہ ہم دونوں یوُ دربدر کی ٹھوکڑیں کھارہے ہوتے آپ بس سوجاۓ "۔زھرہ اپنی ماں کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوۓ ُاٹھ کھڑی ہوئ۔


"یاد آیا امی آپ سے ایک اجازت لینی تھی آپ کو تو معلوم ہے مجھے سیکیٹڑی کی ِسیٹ پر بٹھادیا ہے جب تک کوئ نئ نہیں مِل جاتی, تووہ مجھے کل بوس کے ساتھ اور دو تین اور بھی اِ ِمپلائیز ہوگیں اُن کے ساتھ ہمیں سیالکوٹ جانا ہے ایک اہم مِیٹنگ کے لیے کیا میں چلی جاؤں "۔

زھرہ نے نظریں ُجھکا کر اپنی ماں سے پوچھا جو اپنی بیٹی کو پریشانی میں گِھرا نہیں دیکھ سکتی تھی۔

"زھرہ تم اتنی تہُمید کیوں باندھ رہی ہو مجھے اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے ۔کتنے ِدنوں کے لیے جارہی ہو "۔

"امی یہ تو میں نے ُاس وقت پوچھا ہی نہیں تھا میں پیسوں کی وجہ سے بہت پریشان تھی ۔ایسا کرتی ہوں صبح ساری معلومات لے کر میں نرگِس آنٹی کے گھر آفِس سےفون کرکے بتادوں گی ٹھیک ہے نہ امی"۔

جی میری جان اللہ تمہیں اپنے ِحفظ وامان میں رکھے اب سوجاؤ "۔

"جی امی "۔

                                  ۞۞۞۞۞۞۞

وہ پورے پونے آٹھ پر اپنے مطلوبہ بس ِاسٹاپ پر ُاتر آئ تھی ۔سِگنل بند ہونے کی وجہ سے زین العابدین جو اپنی گاڑی میں بیٹھا بے سان وگمان ُاسے دیکھنے لگا جو بس سے ُاتر کر اب سیدھی سڑک پر تیزی سے پیدل چلتی جارہی تھی۔آفِس سے بس اِسٹاپ ایک اِسٹاپ جتنا دور تھا جس کے لیے زھرہ روز ِاسٹاپ پر ُاتر کر پیدل جایا کرتی تھی کیوں کے رکشے جیسی سواریوں کے لیے پیسوں افوڑڈ کرنا ابھی زھرہ کے لیے ناممکن تھا ۔زین العابدین جو ُاسے پیدل جاتے ہوۓ دیکھ رہاتھا ہارن کی آواز پر چونکا جو شاید سگنل ُکھلنے پر پیچھے والی گاڑیاں کررہی تھی۔وہ گاڑی زھرہ کے نزدیک لاکر ِاس کی رفتار کم کرگیا تاکہ ُاسے آفسِ تک کے  لیے لفٹ دے سکے,پر جانے کیوں وہ اپنے چہرے پر پہلے والی نرمی 

5

جو اسے دیکھ کر چہرے پر ُعود آئ تھی ایک دم سے منقود ہوگئ وہ چہرے کو پہلے کی طرح سپاٹ کیۓ گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوۓ تیزی سے ِنکل گیا ۔زھرہ جو اپنے دِیھان میں پیدل چَلی جارہی تھی۔ ایک گاڑی کواپنے نزدیک ہلکی رفتار کیۓ دیکھ کر چونک سی گئ ُاس کے شیشے کالے ہونے کی وجہ سے ُاسے کچھ دِکھائ نہیں دے رہاتھا جب ہی کچھ لمحوں بعد وہ گاڑی تیزی سے آگے نِکل گئ۔

"اللہ کا ُشکر ہے گاڑی آگے نکل گئ ورنہ جِس انداز میں وہ میرے نزدیک کھڑی ہوئ تھی ِاس ُسنسان سڑک پر میرا تو دل پسلیاں توڑ کر باہر نِکل آنا تھا "۔

زھرہ نے چلتے ہوۓ اپنے ہاتھ میں بندھی گھڑی کو دیکھا آٹھ بجنے میں پانچ منِٹ کم تھے وہ بھاگم بھاگ آفِس پہنچی پھر بھی پانچ مِنٹ لیٹ ہوگئ وہ اپنی ِسیٹ پر بیٹھ کر سانس لے نے لگی جب ہی چپراسی ُاس کی ِسیٹ کے نزدیک کھڑا اپنے پیلے دانت نکالے ُمسکرارہا تھا۔

"کیا مسئلہ ہے کیوں صبح صبح اپنی یہ بتیسی دِکھارہے ہو"۔زھرہ اپنا سیالکوٹ لے جانے والا مواد ایک جگہ ِاکٹھا کررہی تھی جب ہی ِاس رنگین مزاج چپراسی نے زھرہ کا دِماغ اپنے دیکھنے کے انداز سے گُھومادیا ۔

"میں تو جی صبح صبح اپنی خوراک بوس سے کھا آیا ہوں اب آپ کی باری ہے بڑے غصے میں ہے آپ کو ُبلارہے ہے "۔

"ٹھیک ہے تم جاؤ"۔

زھرہ نے ِبنا اپنا سر ُاٹھاۓ ُاسے کہا اور اپنی چیزیں سمیٹ کروہ تیزڈھڑکتے دل کے ساتھ آفِس کے باہر کھڑی دروازے پہ دستک دینے لگی اندر آنے کی اجازت ملنے پر زھرہ اندر داخل ہوئ۔

"سر آپ نے ُبلایا "۔

"وقت کیا ہورہا ہے"۔

"سر آٹھ بج کر بِیس منٹ "۔زھرہ نے ہکلاتے ہوۓ کہا۔

"میں نے آپ کو کیا کہا تھا ٹھیک آٹھ بجے میرے آفِس میں مجھے رِپورٹ کرے گی ,ایک تو آپ پورے پانچ مِنٹ لیٹ ہوئی اوپر سے آپ نے اپنے پندرہ مِنٹ ٹیبل پر بیٹھ کر گزاردیۓ ,آپ کو معلوم ہے یہ ایک ایک مِنٹ میرے لیے کتنا ِامپورٹنٹ ہے ۔اب کھڑی دیکھ کیا رہی ہے جلدی سے آغا اینڈ سنزز کی فائل لے کر آیۓ تاکہ ہم اس کے اہم پوائینٹس پر مارکِنگ کرے "۔

وہ دانت کچکچاتے ہوۓ بولا ۔

"یس سر"۔

"اور ایک منٹ کیا آپ یوکشائر کمپنی کے بوس کی سیکیٹڑی ہونے کی حیثیت سےآج کی ِاس اہم میٹنگ میں ایسے جاۓ گی میرے ساتھ "۔زین العابدین نے ُاس کا مٹیالا سا پِرنٹڈ لیِلن کا ُسوٹ دیکھا جو شاید بار بار ُدھلنے کی وجہ سے اپنی اصلی رنگت کھو ُچکا تھا۔زھرہ نے اپنی طرف سے اپنا سب سے بہترین ُسوٹ نکالا تھا جو آج کی مِیٹنگ کے لیے ُاسے پہننا تھا  پر شاید قسمت میں ُاسے ِاس انسان کے سامنے بار بار شرمندہ ہونا لکھ دیا تھا ۔

"o GoD humna just help me out ".

 زھرہ نے سر ُاٹھا کر دیکھا تو آفِس میں رکھے صوفے سیٹ پر ہمنا تنویر اپنے سامنے فائلیں رکھیں ُاسے ہی دیکھ رہی تھی ۔جو آنکھوں آنکھوں میں ُاسے ریلیکس رہنے کا بول رہی تھی۔

"ہمنا تمہارے پاس پَچِیس مِنٹ ہے مجھے ُاس وقت میں یہ لڑکی  (Head to toe) سر سے لے کر پاؤں تک ریڈی چاہیۓ "۔

زین العابدین نے ہمنا تنویر کو سرد لہجے میں کہا 

"یس بوس"۔

"اور ہاں محترمہ آغا اینڈ سنز کی فائل مجھے دے کر جائیےگا "۔وہ اس کے سرد رویہ اور ناگواریت کو اچھے سے سمجھ رہی تھی مگر وہ پھر بھی تحمل کا مظاہرہ کررہی تھی 

"یس سر"۔

زھرہ اور ہمنا آگے پیچھے آفِس سے باہر نِکلی۔

"زھرہ جلدی چلو ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے تو Hurry up.

وہ ُاسے لِفٹ کے ذریعے اوپر والے مالے پر لے کر گئ ۔جہاں ایک الگ ہی جہان آباد تھا ۔

"یہ کون سی جگہ ہے میم میں نے پہلے تو نہیں دیکھی "۔

زھرہ نے اپنی حیرانگی کو ذرا ُچھپانے کی کوشش نہ کی ۔

"جب آپ لوگ نیچے کام کرتے تھیں تب یہ والا فلور مزدور بنا رہے تھیں, یہاں پہلے آپ کا اِسٹیچِنگ ڈیپاڑٹمنٹ تھا  خیر چھوڑو جلدی چلو ورنہ وہ ِدیو ہم دونوں کو کھا جاۓ گا "۔

زھرہ نے تعجب سے ہمنا تنویر کو دیکھا جو کتنا بے ڈھڑک ہوکر اپنے بوس کو دِیو بول رہی تھی کچھ بھی تھا وہ سِینیرز کے ساتھ مِل کر بوس کا مزاق نہیں بنا سکتی تھی جانے کون کب کِس کی شِکایت لگادے اور ُاس کا پتہ صاف ہوجاۓ یہ سوچ کر ہی زھرہ نے جُھرجھری سی لی ,وہ خاموشی سے ہمنا تنویر کے ساتھ واڈروب کی جانب بڑھ گئ جو اس کے لیےاپنی پسند سے کچھ ڈڑیسز  نکال کر لائ  جو ُاس کے سائز کے مطابق تھیں۔

"جاؤ ِاسے جلدی سے پہن کر آؤ "۔وہ ُاس کے ہاتھ میں کالااور سفید ُچنری کا سُوٹ تھماتے ہوۓ بولی جس کی اِسٹڑیٹ لانگ شرٹ کے ساتھ سفید کپری تھی ,زھرہ کچھ دیر شش وپنج کے بعد ُاسے پہن کر باہر آئ تو ہمنا تنویر نے منہ میں ُانگشت ڈال لی ۔

۔O my God zahra you look..gorgeous ,jst look at to ur self..

وہ اسے شیشے کے سامنے لے آئ جہاں وہ خود اپنا آپ اتنے عرصے بعد فِٹنگ والے کپڑوں میں دیکھ کر دنگ رہ گئ ۔شاید اچھے کپڑے پہننے سے انسان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے ُاس وقت زھرہ کو بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا تھا ۔

"چلو اب جلدی سے گُروم منگ روم میں چلو وہاں چل کر تیار ہو "۔۔وہ اسے لیے گروم منگ روم میں آگئ ۔

"ساشا یہ تمہاری کسٹمر ہے آج ِاسے تم۔نے دس منٹ میں ڑیڈی کرنا ہے جب تک میں اِن محترمہ کا بیگ تیار کردوں اور ہاں اگر یہ کسی بھی بات کے لیے منع کرے تو مجھے آواز لگانا "۔

"یس میم "۔ساشانے جلدی سے زھرہ کو ُکرسی پر بٹھایا اور تیار کرنے لگی۔ٹھیک دس منٹ بعد ساشا اور زھرہ میں تقریباً ہر چیز پر جنگ ِ عظیم ہونے کے بعد  ُاس نے ُاسے تیار کردیا ۔

"دِکھاؤ ساشا کیا کمال دکھایا ہے تمہارے ہاتھوں نے میری لڑکی پر "۔ہمنا تنویر نے جیسے ہی زھرہ کی جانب نظریں کی تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا ۔

"w0w wo0 just w0w".


"میری شیر میرے چیتے تیرے جیسا آرٹسٹ میں دنیا کے کسی کونے سے نہیں لا سکتی "۔ہمنا تنویر نے فرطِ جزبات میں ساشا کا ماتھا ُچوم لیا جو ہونقوں کی طرح اپنی بوس  کو دیکھ رہی تھی ۔

"تم دونوں کو نہیں پتہ یہ  میٹنگ ہمارے لیے کتنی اہم ہے پورے پاکستان کی کمپنیاں ِاس اِیگزیبِیشن میں ِحصہ لے رہی ہے اور جو کمپنی اسے وِن کرےگی وہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں ہائ ریٹیڈڈیمانڈ ڈہوجاۓ گی پاکستان کی جانب سے ,تم سمجھ رہی ہونہ زھرہ ہم۔سب کا اِس میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا مقصد ہم کسی بھی پوائنٹ سے کسی بھی کمپنی میں ہلکے نہیں لگنے چاہیے ,سر نے ِاسی وجہ سے تمہیں ُگروم کرنے کے لیے کہا تھا ویسے تو تمہیں ِبلکل بھی ضرورت نہیں تھی کیوں کے تم تو سادگی میں ہی بہت خوبصورت لگتی ہو پر پھر بھی تھوڑا بہت کرنا پڑتا ہے چلو اب جلدی سے ان میں سے کوئ بھی ہائ ہیلز پہنو اور نکلو "۔ ہمناتنویر نے ُاس کی توجہ شوز کی جانب کروائ۔


"میم وہ کیا آپ بتا سکتی ہے ہم کب تک واپس آئیں گے "۔


زھرہ بینچ پہ بیٹھی اپنے نازک پیروں میں کالی ہائ ہیلز پہننے کی کوشش کررہی تھی پر ُاس کے لمبے گھَنیرے ِسلکی بال ُاس کے چہرے کی جانب آرہے تھے جنہیں وہ بار بار پیچھے دکھیلنے کی کوشش کررہی تھی ۔جینٹس واڈروب سے اپنے لیےدڑیس لینے آۓ زین العابدین نے سامنے بیٹھی ُاس پَری کو دیکھا جو آج ایک بار پھر ُاسے مسمرائز کر ُچکی تھی وہ ُاس کے لمبے بالوں کو دیکھ رہا تھا جو دو دن سے وہ دوپٹے میں سلیقے سے ڈھکے دیکھتا تھا ۔ُاس نے ُان خوبصورت خمدار پلکوں کو دیکھا جو نیچے کی جانب ُجھکی ہوئ تھی ۔زین العابدین کو کسی نے اتنی بار اپنی جانب متوجہ نہیں کیا تھا جتنا ِاس لڑکی نے ِان دو دنوں میں کیا تھا ِاک عجیب سی کشش تھی ُاس میں جو ُاسے اپنی جانب کھِینچھتی تھی خاص کرکے اس کی آنکھیں ہمنا تنویر نے اپنا گلا کھنکار کے زین العابدین کو اپنی جانب متوجہ کیا جو زھرہ کو ٹِکٹِکی باندھیں دیکھ رہاتھا۔

"بوس آپ کو کچھ چاہیے تھا "۔زھرہ نے ایک دم سے اپنا سر ُاٹھا کر بوس کو دیکھا توہڑ بڑاہٹ میں فوراً کھڑی ہوگئ اور اپنا دوپٹہ جو ُاس نے کندھے پر پھیلایا  ہوا تھاشفون کا ہونے کے باعث فرش کو سلامی دے گیا ۔زین العابدین نے اپنی نظروں کا زاویہ فوراً بدلہ تھا جو جلد بازی میں اپنا دوپٹہ فرش سے ُاٹھا کر سر پر اوڑھ رہی تھی۔

"ہم میرے سُوٹ کیس میں پاڑٹی کے لیے سب سے اچھا ڈڑیس رکھنا اور ہاں ِان محترمہ کے لیے بھی رکھ لیجیے گا "۔

وہ زھرہ پہ ایک گہری نظر ڈالتا ہوا بولا

"یس بوس "۔ہمنا تنویر نے سر کو جنبش دی ۔

"پانچ منٹ میں نیچے آئیے "۔زین العابدین نے بِنا ُاسے دیکھےاپنے پیچھے آنے کے لیے کہااس کے جاتے ہی سب نے ایک لمبی سانس لی تھی۔

"میم آپ پلیز مجھے بتادے میری امی کو نہیں پتہ میں کب آؤ ں گی "۔اس نے سوالیہ انداز میں اپنی نظریں ہمنا تنویر پر۔مرکوز کردی۔

"زھرہ تم کل کہا تھی جب بوس بتارہے تھے خیر آپ لوگ تین دنوں کے لیے جارہے ہیں ,آپ کے سارے شیڈیولز آپ کے آفس بیگ میں رکھ دیے گۓ ہے ,دو دن آپ کو سیالکوٹ میں رہنا ہے اورتیسرے دن لاہور میں پھر اگلے دن واپسی "۔وہ ماتھے پر بل ڈالے ہوۓ اسے بتانے لگی,جو وقت پہ کوئ بھی بات نہیں سنتی تھی  ۔

"میم میرے پاس فون نہیں ہے آپ میرا ایک کام کردے پلیز آپ اس نمبر پر میری امی کو پیغام بھجوادے "۔زھرہ نے جلدی سے اپنے پرس سے ایک نمبرنکالا اور اسے ہمنا تنویر کی جانب بڑھایا۔


" اچھا ڈیڑ میں کردوں گی ڈونٹ وری "۔زھرہ نے شکریہ ادا کرتے ہوۓ دوپٹہ سر پر برابر کیا اور نیچے کی جانبِ آگئ جہاں زین العابدین اپنے مینیجر سے کچھ ضروری بات کررہاتھا۔زھرہ کو آتا دیکھ کر اپنے پیچھے آنے کا کہا اور باہر کی جانب نکِل گیا ۔زھرہ نے جب باہر آکر زین العابدین کو ُاسی کالی گاڑی کے نزدیک کھڑا دیکھا جو ُاس نے صبح اپنے نزدیک دیکھی تھی تو تعجب کا شِکار ہوئ پر ہوسکتا ہے وہ گاڑی بھی ِاس گاڑی جیسی ہو۔

مراقبے میں سے نِکل آۓ محترمہ یہاں سے ایرپوڑٹ کافی دور ہے ہماری فلائیٹ میں وقت کم ہے بیٹھے جلدی "۔وہ ماتھے پر بل ڈالے اس کی جانب پلٹا۔

"سر میں نے کس میں بیٹھنا ہے ؟"۔زین العابدین نے ُاسےاچھنبے سے دیکھا ۔

"میں سمجھا نہیں مِس خان "۔

"sir i mean to say 

کے یہ تو آپ کی گاڑی ہے۔ ِامپلائیزکس گاڑی میں جاتے ہیں "۔


"فِلحال تو آپ میرے ساتھ جارہی ہے بیٹھے"۔زین العابدین نے گاڑی کا فرنٹ دور زھرہ کے لیے اپنی کنپٹی کو مسلتے ہوۓ کھولا  وہ کچھ جِھجَھک کے ساتھ دروازہ بند کر کے بیٹھ گئ۔

"دروازہ صحیح سے بند کرے مِس خان "۔

"یس سر"۔

زھرہ نے دروازہ کھول کے ایک بار پھر بند کیا ۔زین العابدین نے گاڑی کو آگے بڑھادیا ۔سارا راستہ زھرہ نے اپنی گردن کو باہر کی جانب موڑے رکھا کے کہی سر میرے بارے میں کچھ غلط راۓ نہ قائم کرلے ۔زین العابدین ڈڑایئونگ کے دوران ُاس کی مخروطی ُانگلیوں کوگاہے بگاہے دیکھ رہاتھا جو بار بار اپنے دوپٹہ سے ُالجھ رہی تھی ۔وہ گاڑی کو ہوا کے دوش پر ًاڑاتا ہوا ایرپوڑٹ پہنچ گیا ۔ُاس نے جلدی سے گاڑی پارک کرکے اپنا اور زھرہ کا سُوٹ کیس نکالا ۔

"یہ آپ کا ُسوٹ کیس ہے مِس خان "۔زین العابدین نے لال رنگ کا ُسوٹ کیس ُاسے تھمایا پھر خود بھی اپنا سُوٹ کیس لے کر دومِیسِٹک فلائیٹس کی جانب آگیا۔فلائیٹ میں وقت کم۔ہونے کی وجہ سے انہوں نے بوڑڈنگ لیا اور جہاز کی جانب چل پڑے ایک دم سے اینٹڑینس ملنے پر پیسینجرز جلدی جلدی اندر جانے کے لیے لائین بنانے لگے ُاسی بیِچ میں زھرہ زین العابدین سے کافی پیچھے رہ گئ تھی ۔وہ اپنی نظریں اس کی تلاش میں  دوڑارہی تھی کے وہ کہا ہے جب ہی زین العابدین ُاسے پیچھے کی جانب سے آتا ہوا ِدکھائ دیا ۔

"ادھر کیوں کھڑی ہے؟ "۔وہ زھرہ پر برہم ہُوا ۔

"سر وہ آپ مِل نہیں رہے تھے تو سب لائن میں لگ رہے تھے تو میں بھی لگ گئ"۔ھرہ نے سر ُجھکاۓ اپنی پریشانی ُاس کے گوش گزار کردی جو ُاس کے سر ُجھکانے کے انداز پر اپنے لبوں پہ آتی مسکراہٹ کو ُچھپا نہ سکا ۔

"ظاہر ہے میں قومی ایر لائین میں نہیں جارہا میں ایر بُلو میں جارہا ہوں ,محترمہ اپنے اردگرد نظر رکھا کریں آپ اسلام آباد جانے والی فلایئٹ کی لائین میں لگ گئ ہے "۔

زھرہ نے ہربڑا کر ایر ہوسٹس کی داَئیس کے نیچے لگی اِسکرین پر پی آئ اے لکھا دیکھاتو دل چاہا کے زمیں پھٹے اور وہ ُاس میں سما جاۓ ہمیشہ ِاس انسان کے سامنے ہی مجھے ُسبکی محسوس ہوتی ہے ۔

"میرے پیچھے آۓ "۔وہ ُاسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا چلاگیا۔

"یس سر "۔پھر سِیٹ تک بیٹھنے کے لیے وہ زین العا بدین کے ساتھ ساتھ رہی ۔ایرہوسٹس نے زھرہ کو درمیان  کی ِسیٹ دی تھی جب کے زین العابدین کو کارنر والی اور آخری سِیٹ پر ایک درمیانی عمر  کے موٹےسے انکل آنکھیں موندے سوۓ ہوۓ تھے ۔زھرہ اسے دیکھ کر سوچنے لگی مطلب اتنی جلدی انہیں نیند کیسے آگئ۔ابھی ایر ہوسٹس سفر کے دوران حفاظتی تدابیر کے بارے میں بتارہی تھی کے برابر بیٹھے انکل نے اپنی کہنی زھرہ کے بازوں کےساتھ لگالی جس پر وہ کوفت کا شکار ہوئ ۔وہ تھوڑا سا ِسرک کر زین العابدین کی جانب ہوگئ جو ہاتھ میں موبائل تھامے جانے کیا کررہاتھا جب ہی وہ موٹے انکل نیند میں اپنا سر زھرہ کی جانب گرانے لگے جو ُاس کی برداشت سے باہر تھا وہ ایک دم سے کھڑی ہوگئ ۔

"what happen?"۔

زین العابدین نے زھرہ کی جانب دیکھا ۔

6

"سر آپ سِِیٹ تبدیل کرلے یہ نیند میں ُجھول رہے ہے "۔زین العابدین کے ماتھے پر دو بل نمودار ہوۓ تھیں ُاسے ایسے مردوں سے سخت ِچڑ آتی تھی جو عورتوں کے ساتھ ِاس طرح  کا برتاؤ کرتے ہے۔

ٹھیک ہے "۔زین العابدین نے اپنی سِیٹ پر زھرہ کو بٹھادیا اور خود ُاس آدمی کے برابر میں بیٹھ گیا جو وقفہ وقفہ سے اس پر کبھی اپنا سر رکھ رہاتھا تو کبھی ہاتھ  جب ُمسافر کی حرکتیں برداشت سے باہر ہوگئ تو زین العابدین نے ایرہوسٹس کو ُبلا کر ُْاسے بیدار کروایا تاکہ وہ ان کا سفر مزید خراب نہ کرے۔جہازجیسے ہی چلنا شروع ُہوا زھرہ نے ُاسے اپنی زندگی کی ایک اور جنگ سمجھ کر جس میں ُاسے اپنے برابر میں بیٹھےانسان سے کوئ مدد نہیں لینی تھی وہ قرآن پاک کا ِورد آہستہ آواز میں کرنے لگی تاکہ اس کا دیھان بٹا رہےجیسے ہی جہاز نے ُاڑان بھری زھرہ نے اپنی آنکھوں کو سختی سے مِیچ لیا اور سر  ِسیٹ کی ُپشت سے ِٹکادیا ُاس دوران برابر میں بیٹھے زین العابدین نے سَرسری سا زھرہ کی جانب دیکھا تھا,پر دیکھنا کیا تھا نظروں نے واپس پلٹنے سےہی ِانکار کردیا وہ آنکھوں کو مِیچیں اپنی خمدارگھنیری ُمڑی ہوئ  پلکوں کا چِلمن گراۓ گلاب کی سی پنکھڑیوں سے کچھ کہ رہی تھی شاید ,جہاز نے جیسے ہی اپنی ُاڑان کا راستہ ہموار کیا تو زھرہ نے کسی کی نظروں کی تپِش خودپہ محسوس کرکے اپنی آنکھیں جھٹ سے کھولی پر زین العابدین اپنی آنکھیں موندے سیٹ کی ُپشت سے سر ِٹکاۓ بیٹھاہوا تھا۔ جب ہی دونوں کو برابر میں بیٹھے مُسافرنے اپنی جانب متوجہ کیا 

"لگتا ہے آپ نیا شادی ُشدہ جوڑا ہیں"۔زین العابدین ُاس کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا تھا پر ُاس نے ُاس کی بات کاٹ دی۔


 "ارے نہیں نہیں آپ کچھ مت بولو ہم کو سب پتہ ہے ہم۔بس معزرت چاہتا ہےآپ سے آپ دونوں کو پریشان کردیامیں نے "۔

"نہیں کوئ بات نہیں ہوجاتا ہے "۔

"ویسے شادی خاندان میں کی ہے یا باہر "۔

زین العابدین ُاسے پھر جواب دینے لگا مگر خان پھر زین العابدین کی بات کاٹ گیا ۔

"آپ کچھ مت بولو ہم کو سب پتہ ہےظاہر ہے خاندان میں ہی کی ہوگی بھابھی کا چہرہ آپ سے بہت ملتا ہے "۔

زین العابدین نے اپنے لبوں پہ آنے والی ُمسکراہٹ کو ِبلکل نہیں روکا پھر اپنے برابر بیٹھی زھرہ کو دیکھا جو غصے سے لال پیلی ہوئ جہاز کا ایگزِٹ کا نقشہ ہاتھ میں تھامے ُاسے ُگھور رہی تھی ۔

"ویسے بچہ تو ابھی ہوا نہیں ہوگا "۔اب کی بار زین العابدین نے کوئ جواب نہیں دیا ۔تو وہ خود ہی بول ُاٹھا ۔

"ظاہر ہے شادی کو وقت ہی کتِنا ہوا ہے "۔زھرہ کا آگے کی طرف نکل کر خان کو ُگھورنے کے انداز پر وہ ایک دم سے گڑبڑاگیا اور زین العابدین کے کان میں منمنایا ۔

"لگتا ہے بھابھی بچہ کی وجہ سے پریشان ہے جب ہی مجھے غصے سے ُگھوررہی تھی آپ اگر کہتے ہو تو میں آپ کو بتاؤں  گا سمڑیال میں ایک بہت بڑے اچھے حکیم صاحب رہتے ہے وہ ایسا علاج کرتے ہے کے آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگاان کےہاتھ میں اللّٰہ نے بڑی شفا دی ہے ایک ساتھ پانچ چھ بچے ہوجاتے ہے قسم سے آپ کو تو پتہ ہے "۔

"جی جی آپ کو سب کچھ پتہ ہے"۔

وہ معنی خیز سی مسکراہٹ چہرے پہ لاتے ہوۓ بولا ۔

"سر آپ کا بریک فاسٹ "۔

ایرہوسٹس کی آواز نے زین العابدین کی ُامڈ آنے والی ہنسی کو قابو کیا اور وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

No i want coffe.

Ok.sir and mam u  ۔

زین العابدین نے زھرہ کی جانب دیکھا ۔

"چاۓ "۔

ِاسی طرح خان کی باتوں میں سفر کیسے گزرا انہیں پتہ بھی نہ چلا ۔سیالکوٹ انٹڑنیشنل ایرپورٹ پر جہاز نے جیسے ہی لینڈ کیا وہ دونوں اپنا اپنا ُسوٹ کیس لے کر باہر کھڑے اپنے ڈڑایئور کے ساتھ ہوٹل کی جانب ِنکل گئیں جو ہاتھ میں زین العابدین کے نام کا پلے کاڑڈ تھامے کھڑا تھا۔ہوٹل پہنچ کر زین العابدین نے ُ اسے ایک کمرے کے باہر چھوڑا۔

"مسِ خان یہ آپ کا کمرہ ہے برابر والا میراہے آپ اپنا موبائل نمبرمجھے دے تاکہ مجھے آپ سے کونٹیکٹ کرنے میں آسانی ہو "۔

"سسر --میرے --پاس-- موبائل-- نہیں ہے "۔

وہ کپکپاتے ہوۓ لہجے میں بولی۔

what!! 

زھرہ نے اپنی نظریں نیچے ُجھکادی جیسے گویہ کوئ ُجرم سرزد ہوگیا ہو کچھ توقف کے بعد زین العابدین نے ایک لمبا سانس کھینچھا اور زھرہ کی جانب دیکھا۔

"ٹھیک ہے آپ فریش ہوجاۓ میں آپ کا کھانا بھجواتا ہوں ُاس کے بعد ہمیں فوراً میِٹنگ کے لیے نکلنا ہے "۔

"جی سر "۔

                            ۞۞۞۞۞۞۞

آدھے گھنٹے بعد زین العابدین نک سک سا تیار کالا پینٹ کوٹ  میں سفید دریس شرٹ پہنے ہاتھ میں ُسرمئ ٹائ تھامے باندھنے میں مصروف تھا جب ہی ُاس کا دروازہ ناک ہوا ۔

"یس کم ِان"۔

زین العابدین نے شیشے میں سے اندر آنے والی شخصیت کو دیکھا ۔

"آجاۓ مِس خان "۔

زھرہ اندر داخل ہوتے ہی زین العابدین کی آواز پر صوفے کی جانب بڑھ گئ۔

"کھانا کھالیا آپ نے "۔

"یس سر"۔

Good.

"میں جب تک ریڈی ہورہا ہوں آپ میرے بیگ سے آغا اینڈ سنزز کی اور ساگا اِسپوڑٹس کی فائلیں نِکالیں"۔

"یس سر"۔


زھرہ جلدی سے سامنے پڑے آفس بیگ میں سے ُاس کی مطلوبہ فائلیں نکالنے لگی ۔

"اب انہیں میرے آفس بیگ میں رکھیں "۔

"یس سر "۔

زین العابدین پرفیوم ِاسپرے کرکے زھرہ کی جانب پلٹا جو بار بار اپنے سر سے سِرکتے دوپٹے کو ٹِکارہی تھی۔

"چلے مِس خان "۔

"یس سر "۔

وہ دونوں جیسے ہی لابی سے گزرنے لگیں سامنے سے آتے شہزادہ اندسٹری کے مالِک اشہد عزیز اور ُاس کی الٹڑا ماڈڑن سیکیٹڑی تنگ جینز اور ٹی شرٹ میں ان کا راستہ روکے کھڑے تھیں۔

"وہ آۓ ہمارے شہر میں رحمت کے در ُکھل گۓ کیسے ہے آپ زین العابدین حیات علی خان"۔وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجاۓ بولا۔

"آپ سے ِملنے سے پہلے تک تو بِلکل ٹھیک تھا,آپ کیسے ہے؟ "۔

وہ طنزیہ انداز میں بولا ۔


"ہم۔بھی ِبلکل ٹھیک ہے جناب ُسنا ہے ِاس بار آپ بھی ِحصہ لے رہے ہیں "۔

وہ طنزیہ لہجے کے ساتھ ساتھ تمسخراڑاتی نظروں سے اسے دیکھ رہاتھا۔

"جی ہاں اشہد عزیز ِاس بار ہماری کمپنی بھی کوٹیشنز جمع کرانے لگی ہے"۔زین العابدین نے اشہد عزیز کی ُمسلسل پیچھے کھڑی زھرہ پہ نظریں پڑتا دیکھ کر خود کو یہاں کھڑے ہونے پر ملامت کی تھی وہ ُاس کے رنگین مزاج ہونے کو اچھے سے جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کے پچھلے چار سال سے ان کی کمپنی کو ہی یہ کونٹڑیکٹ مِل رہا تھا ۔


"پھر تو بہت مزا آنے والا ہے نۓ چہروں کے ساتھ  ڈیبیٹس میں "۔وہ متحیر سا اس حسن و رعنائ کے جیتے جاگتے مجسمے کی بیکراں خوبصورتی اور دلکشی کو دیکھے گیا جو خود کو چھپانے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی ,اشہد عزیز کا اس طرح زھرہ کو گھورنا زین العابدین کے ماتھے پر ناگوار لکیریں ابھار گیاتھا۔

"دیکھتے ہے  پھر ملے گے مجھے دیر ہورہی ہے مسٹڑ اشہد عزیز, چلے مِس خان"۔

اس نے تقریباً اپنے پیچھے  ُچھپی ہوئ  زھرہ کو ساتھ چلنے کو کہا۔

"ضرور ملے گے مسٹڑ خان اور خاص کر کے آپ سے ِمس "۔

اشہد عزیز نے خود سے دور جاتے ُان دونوں کو دیکھ کر کہا۔


"آپ انتظار کرے یہی میں ابھی آیا"۔۔۔۔

باہر جاتے  زین العابدین نے ایک دم سے ُرک کر اپنے قدم  ریسیپشن کی جانب کھڑی فیمیل اسٹاف کی طرف بڑھاۓ۔

,دور کھڑی زھرہ اسے فیمیل اسٹاف سے بات کرتا ہوا دیکھ رہی تھی پھر کچھ ہی دیر میں وہ زھرہ  کی جانب پلٹا ۔۔

"یہ لے مِس خان ِاس سے اپنے ڈوپٹے کو پِن اَپ کرے"۔

وہ اس کی جانب پن بڑھاتے ہوۓ بولا۔

زھرہ حق دق سی اسے دیکھے گئ جو ُاُس کے دُوپٹہ کے لیۓ یعنی اَپنی ایک عام سی ورکر کے لیے ِپِن لینے خود گیاتھا یا ُاسے عورتوں کے وقار کی عزت کی بہت پرواہ تھی۔زھرہ کونے میں  لگے  شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے ڈوپٹے کو ِپن اپ کرنے لگی ُاس دوران زین العابدین اپنے فون پر کسی سے محوگفتگوں تھا جب زھرہ کو اپنی جانب آتا دیکھ کر ُاسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا وہ دونوں ِاس وقت باقی کمپنیوں کی طرح ڈِسکس کرنے کے بجاۓ عملی طور پر ساگا ِاسپوڑٹس کے وِزٹ کے لیے جارہے تھے چند ضروری ڈسکشنز کرنے بعد وہ دونوں ہوٹل کی جانب واپس  آگۓ جہاں ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ڈیبیڈ تھی ۔زھرہ اور زین العابدین لابی میں بیٹھیں ِاس وقت  آغا اینڈ سنز کی فائل کے اہم کلاز پڑھ رہے تھیں کے اچانک فون کال پر  زین العابدین نے فائل زھرہ کے ہاتھ میں تھمائ کے وہ ایک ضروری فون کال ُسن کر آرہا ہے  جب ہی اشہد عزیز ٹھیک سامنے والے صوفے پر اپنی آلٹڑا ماڈڑن میک اپ سے لدھی  سیکیٹڑی کے ساتھ آکر بیٹھ گیا جو اپنی فائل پر توجہ کم اور سامنے بیٹھی زھرہ پہ توجہ زیادہ دے رہاتھاوہ خود پہ پڑتی نظروں کی تَپِش سے ایک دم چونک گئ خود پہ پڑتی اشہد عزیز کی نظروں سے  وہ سخت کوفت کا ِ شکار ہورہی تھی جب ہی اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئ ایک بار پھر سے اپنے کام میں جت گئ ۔جہاں اشہد عزیز نے زھرہ کے چہرے پہ نو لِفٹ کا بوڑڈ دیکھ کر سخت بدمزہ ُہواتھاوہی دور کھڑے زین العابدین کے چہرے پر ُ مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا  ۔دن بھر آئ ملک بھر سے کمپنیوں کے تین سیشنز ہوۓ جس میں سے صرف دس کمپنیوں کو ہی آگے آنے کا موقع دیا گیا ۔یوکشائیر بھی ان خوش نصیبوں میں سے ایک تھی ۔

"سراب کیا کرنا ہے "۔

زین العابدین نے زھرہ کا تھکاوٹ سے بھر پور چہرہ دیکھاجو ُاس کے اگلے لائحہ عمل کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔


"کچھ بھی نہیں ,اب میرے خیال سے ڈنڑ ٹائم ہے نیچے ُبوفے ہے آپ کھانا کھالے پھر بے شک سوجاۓ "۔

وہ موبائل پہ بٹن پریس کرتے ہوۓ مصروف سے انداز میں بولا۔


"ٹھیک ہے سر میں نیچے جارہی ہوں, آپ کھانا نہیں کھاۓ گے؟ "۔

"نہیں مجھے ابھی ُبھوک نہیں آپ جاۓ "۔وہ سرسری سا اس کی جانب دیکھ کر بولا 


جی سر "۔زھرہ زین العابدین کے پاس سے واپس آکر جیسے ہی لابی میں کھڑے اشہد عزیز کے آگے سے گزرنے لگی  جو ُاسے  ایکسرے کرتی نظروں سے سر سےلے کر پاؤں تک دیکھنے لگا۔۔۔

دور کھڑے زین العابدین کا یہ منظر دیکھ کرخون کھول اٹھا یعنی یہ انسان اتنے سال گزرنے کے بعد بھی اپنی ایسی گھٹیاں حرکتوں سے باز نہیں آیااس نے جب زھرہ کے پیچھے نیچےاشہد عزیز کو جاتا ہوا دیکھا تو  ُاس نے اپنے لبوں کوِاتنی زور سے بِھینچھا کے ُاس کے دِماغ کی رگیں ُپھول کر نظر آنے لگی وہ تیزی سے نیچے کی جانب بنے کھانے والی جگہ پر گیا جہاں ُاسے اپنی توقع کے عین مطابق اشہد عزیز زھرہ کے نزدیک کھڑا ہوادِکھائ دیاجو ُاسے کچھ کہنے کی کوشش کررہاتھا ۔زین العابدین اپنے ہاتھوں کی ُانگلیوں کو ہتھیلی میں سختی سے پیوست کیے ان دونوں کی جانب بڑھا ۔


"اگر آپ کی فضول کی ایکٹیویٹیز ختم ہوگئ ہو تو کیا آپ مجھے کھانا سَرو کرنا پسند کرے گی ِمس خان"۔

وہ سینے پہ بازوں لپیٹے طنزیہ انداز میں بولا جس کا لہجہ زھرہ کو سخت ناگوار گزرا تھا وہ زین العابدین کو دیکھنے لگی جو تاہنوز ماتھے پر شِکن ڈالے اشہد عزیز کو تنقیدی نگاہوں سے د یکھ رہاتھاجو جانے کے لیے پر تولنے لگا۔

 "آپ مِسٹڑ اشہد عزیزِاس وقت میرے حریف ہونےکے ناطےمیری غیر موجودگی میں آپ میری سیکیٹڑی کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں جب کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ہمارے درمیان ایک اہم مقابلہ ہے   "۔

زین العابدین نے ایک ایک الفاظ چبا کر ادا کرتےہوۓ اسے کہا ,جس کا لہجہ سپاٹ اور ناگوار تھا۔


"یہ تو وقت بتاۓ گا زین العابدین کے کون کیا کررہاتھا ویسے تمہاری غلط فہمی دور کردوں , اشہد عزیز کو تمہارے جیسی نئ کمپنی سے کوئ خوف نہیں یہ کانٹڑیکٹ پِچھلے چارسالوں سے ہمیں مِل رہا یے اور اِس سال بھی یہ ہمیں ہی ملے گا میں تو ویسے ہی ِاس پری پیکر سے مِلنے آیا تھا سوچا یہ اکیلے کھڑی ہے تو کچھ وقت ساتھ گزار لے گیں پر افسوس !!چلے مِس خان کبھی فُرصت سے ملا قات ہوگی آپ سے جب یہ ظالم لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہوگے "۔

7

اشہد عزیز ستائش بھری نظروں سے زھرہ کو دیکھتے ہوۓ ذومعنی لہجے میں  کہنے لگا جو پاس کھڑے زین العابدین کے لیےایک کڑا امتحان تھا وہ ِاس وقت ایسی جگہ پر کھڑا تھا جہاں ذرا سا بھی اپنے بے قابوں۔ ہوتے غصے کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ اشہد عزیز کو کچھ کہتا تو ُان کی کمپنی کا عالمی منڈی پر ُبرا اثرپڑتا۔


"اپنی عامیانہ گفتگوں اپنی حدتک رکھےِمسٹڑ اشہد عزیز , مجھ جیسی لڑکیاں گھروں سے باہر اپنی مجبوریوں کی وجہ سے نکلتی ہے ِاس کا ِبلکل یہ مطلب نہیں کے کوئ بھی کہی بھی ہماری بے عزتی کردے ,مجھے اپنا وقار بہت عزیز ہے ِ اس لیے کوشش کیجیۓ گا آج کے بعد میرے سامنے ایسی گفتگوں مت کیجیۓ گا ورنہ میں سامنے والے کا منہ کس طرح توڑنا ہے اچھے سے جانتی ہوں اور سرآپ"۔


اس کی جھیل سی آنکھوں سے نفرت کی چنگاریاں نکلنے لگی تھی کے جیسے مقابل کو جیسے جلا کر خاکستر ہی کردیں گی,اب زھرہ نے اپنی توپوں کا ُرخ اب زین العابدین کی جانب کیا۔


" نہ تو میں آپ کی زرخرید غلام ہوں اور نہ ہی آپ نے مجھے اپنے ذاتی کاموں کے لیے مختص کیا ُہوا ہیں,میں اپنا کام انتہائ ایمانداری سے کرتی ہوالبتہ آپ اپنے کام انہی سے کراۓجو آپ جیسے امیروں کی جھولی میں پکَے ہوۓ پھل کی طرح ِگرتی ہے۔اس لیے براہِ مہربانی جب تک میں آپ کے پیسے نہیں لوٹادیتی ,میں آفِس کے علاوہ  آپ کے کوئ بھی ذاتی کام نہیں کروں گی اور آج کے بعد مجھے کسی کے بھی سامنے ِاس طرح سے ڈی گریڈ کرنے کی کوشش بھی مت کیجیۓ گا ورنہ پچھتاۓ گے آپ"۔


  وہ غصے سے لال بھبھوکا ہوگئ تھی جس کا غصہ ہما وقت شریانوں میں دوڑتاتھااسے اشہد عزیز  کےسامنے زین العابدین کی باتوں سےسخت ہتک محسوس ہوئ تھی یعنی وہ ُاس پہ شک کررہاتھاُُاس کی ایمانداری پہ سوال ُاٹھارہا تھا  کے میں ُاس کی کمپنی کےاہم۔پوائنٹس کہی لِیک آؤٹ نہ کردوں ِاس کا اس عزت افزائ پر دِماغ بھک سےاڑگیا تھا ۔

وہی ان دونوں کو آپس میں الجھتا دیکھ کراشہد عزیز  دبے پاؤں  آگے کی طرف ِنکل گیا۔


زھرہ اپنے امڈ آنے والے آنسوؤں کے گولے کو پیتی ہوئ سر تاپا سلگی تھی بلآخر خود ہی پیر پیٹختی وہاں سے چلی گئ۔


"یہ اتنی باتیں مجھے ُسنا کر گئ ہے زین العابدین خان کو "۔

وہ آنکھوں میں سرخ دوڑے لیے خود سے دور جاتی زھرہ کو دیکھنے لگا جس کے ماتھے پر ان گنت ناگوار شکنیں ابھری تھی وہ اپنا رخ مقابل کی جانب کرتا ہواآگے بڑھا ,زھرہ نےجیسے ہی زین العابدین کو کمرے کی دہلیز کی طرف آتے دیکھا تو وہ  کمرے کا دروازہ بند کرنے لگی مگر اس نے دروازے کے درمیان میں اپنا قیمتی ُشوز دے کرحائل ہوگیا وہ جیسے ہی دروازے کو جھٹکا دے کراندر داخل ہوا زھرہ فوراً پیچھےکی جانب ہوئ۔


" نیچےتم نے مجھے جو کچھ کہا میں ُاس کا کیا مطلب سمجھوں,کب دیکھا تم نے مجھے کسی لڑکی کے ساتھ جو میرے آگے پیچھے ُگھومتی ہے جواب دو تم نے کیا سوچ کر کہا ؟"۔۔۔


کالی گھور آنکھوں میں غصےغیض وغضب  کی چنگاریاں امڈ امڈ کے ایسے نکل رہی تھی جیسےہر شے کو جلا کے بھسم کردیں گی دماغ کی رگیں غصے سے تن گئ تھی ۔



 "جو سچ تھا وہی کہا اب آپ یہاں سے تشریف لے جاۓ مجھے آپ سے کوئ بات نہیں کرنی"۔


اس کے لہجے میں برہمی دیکھ کر زھرہ نے آنسوؤں کا گولہ اپنے اندر دکھیلا پھر چہرے  پرسختی لاتے ہوۓ ُاسے باہر کا راستہ ِدکھایا ۔جو زین العابدین کے غصے کو اور دہکا گئ وہ جارحانہ انداز میں اس کی کلائ کو اپنے شکنجے میں لیتا ہوا اسے دیوار سے لگا گیا جو سر لگنے سے کراہ گئ تھی مقابل کی آنکھوں سے نکلتے شعلے دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔


"کیوں نہیں کوئ بات کرنی تم نے مجھ سے تم بھی مجھے انہی لڑکیوں میں سے لگتی ہو جو ہم امیروں کی جھولی میں پکے ہوۓ پھل کی طرح گِرتی ہو۔!! آج کے بعد سوچنا بھی مت مجھ سےِاس  انداز میں با ت کرنے کے بارے میں ورنہ تمہارے دستخط کیۓ ہوۓ کورے کاغز پر ایسی ایسی شرائط لکھوں گا کے سر پکڑکر روؤگی تم میرے غصے سے ابھی واقف نہیں "۔۔۔۔


وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اکھڑپن سے بولا ۔


ان دونوں کے درمیان اس وقت ایک انگشت جتنا فاصلہ رہ گیا تھا  ُاس نے د یوار کی دونوں جانب ہاتھ رکھ کر زھرہ کو اپنے قلعے میں قید کرلیا تھا ۔جو ُاس کے جِھیل سی بھری نین کٹوڑوں میں جھانکتے  ہوۓ اپنی گرم سانسوں کی تَپِش سے ُاسے جُھلسارہاتھا ,

 " اور ایک بات!! تمہارے میرے درمیان میں شاید پہلے دن سے عام اِمپلائ اور بوس والی بات نہیں "۔

۔

"So be ready "..


وہ جاتے جاتے پلٹا اور انگشت شہادت ُاٹھاکے زھرہ کو تنبیع کی 

اس نے زھرہ کی بدآمی آنکھوں میں جب موٹے موٹے شفاف چمکتے موتی جیسے آنسوں دیکھےجنہیں وہ واپس دکھیلنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی تو مانو دل جیسے کسی نے ُمٹھی میں جکڑلیا ہو ,وہ کچھ پلوں کے لیے ان جھیل سی آنکھوں میں دیکھتا رہا جو اس کے بے انتہاء غصے سے اندر تک کانپ کے رہ گئ تھی وہ بوجھل دل کے ساتھ باہر کی جانب نکل گیا۔


کمرے میں واپس  آکر وہ بے چینی سے ٹہلنے لگا اس نے  گلے سے ٹائ ُکھینچھ کر دور ُاچھال دی, پھر سگریٹ جلا کر  ایک گہرا کش لیۓ غائب دماغی سےخود سے الجھنے لگا, اندر کا ِاضطراب ساتھا کے بڑھتا جارہا تھااس نے غصے میں آکر ٹیبل پر پڑا گُلدان ُاٹھا کر فرش پہ دے مارا۔

" کیا ہوجاتا ہے زین تجھے کیوں اپنے اوپر کنٹڑول نہیں رکھتا کیا ضرورت تھی اسے کھانےکا بولنے کی ,اوپر سے کتنی باتیں سُنادی میں نے ُاسے ,ٹھیک ہی تو کہ رہی تھی وہ ,وہ میری زرخرید غلام نہیں ہے اگر وہ اشہد عزیز سے بات کررہی تھی تو مجھے کیا تکلیف تھی ۔

shittt!!.shittt!!shittt.

زین العابدین سخت کبیدہ ہوکر باہر کی جانب نِکل گیا مگر وہ جیسے ہی باہر نکلا تو لاشعوری طور پر زھرہ کے کمرے کی جانِب دیکھا جہاں ُاس کا دروازہ ُکھلا ہوا تھااس نے اندر جھانک کر دیکھا جہاں وہ بستر پر اوندھی منہ لیٹی رونے میں مشغول تھی پشیمانی نے مزید گھیرا تنگ کیا۔

"ِمس خان "۔۔۔

زین العابدین کی آواز نے روتی بلکتی زھرہ کو ایک دم سے چونکا دیا جو غصے میں دانت پیستی ہوئ بستر سے ُاٹھ بیٹھی آنسوں آنکھوں سے متواتر بہ رہے تھے, اس کے پورے بال کسی آبشار کی طرح پوری کمر پہ پھیلے ہوۓ اک الگ ہی بہار دِکھارہےتھیں ,عام حالت میں جس کے سر سے ڈوپٹہ نہیں ہٹتا تھا اس وقت وہ بغیر ڈوپٹے کی تھی ۔وہ صحیح معنوں میں بری طرح بدکی تھی۔


"میں نے اپنی چوبیس سالا زندگی میں کبھی کسی نامحرم کی طرف  غیر ارادی طور پر بھی نظر ُاٹھا کر نہیں دیکھا, صرف اپنے کام سے کام رکھا ہے ,ہمیشہ اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی امی کو پریشانیوں سے دوررکھنا سیکھا ہےاور آپ نے ایک منٹ کے اندر میرے کریکٹڑ پرانگلی ُاٹھادی!! جاۓ اور جاکے ُاس کاغز پر جو مرضی لکھ دیں میں بھی آپ سے ِبلکل نہیں ڈڑتی جیسے ہی میں آپ کی کمپنی کا قرضہ اتاردوگی میں ُاسی وقت یہ نوکری چھوڑدوں گی "۔۔۔۔۔


وہ وحشت زدہ سا چہرہ لیے بے بسی سے بولتی ہوئ روپڑی جو اپنی بھڑاس اس پےنکال کر واش روم کی جانب بڑھ گئ زین العابدین کوشدید پشیمانی نے گھیر رکھا تھا زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کے وہ کسی کو پہچان نہیں پایا تھا کتنی بڑی اس سے بھول ہوگئ تھی اس نے کیا کچھ نہیں سنایا تھا اسے , کتنا درد,کتنے آنسوں دیے تھے میں نے اسے ,مگر جب بدگمانی کے بادل چھٹے تو سب کچھ صاف ,شفاف نکھرا نکھرا سا لگنے لگا۔


                                 


Comments

Popular Posts