تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 8



ARAZ RESHAB NOVELS


Dont copy paste without my permission kindly.

-

وہ اپنے ہونٹ سے خون صاف کرتے ہوۓ  ایک ُمکا ُاسے جڑنے لگاپر  اس نے سرکو پیچھے کی جانب کرکے خود کو ُاس کے وار سے بچایا  پھر پورا گھوم کر ایک فلائینگ کِک اس کے منہ پہ ماری جس سے وہ اچھل کر پیچھے کی جانب گِرا اس دوران اس کے تینوں دوست لڑنے کے لیے آگۓ۔

نقاب پوش نے دیوار کے ساتھ لگی کپکپاتی ِفیا کا ہاتھ کھینچھ کر اپنی جانب کیا جس سے وہ اس کے پیچھے کھڑی ہوگئ جو اس کے لیے سیسا پلائی دیوار کی طرح ان لٹیڑوں کے سامنے دٹ گیا تھاپھر ایک کر کے وہ ان کے ساتھ کسی فائیٹ کلب کی لڑائی کی طرح بھیڑ پڑا جب وہ انہیں مار مار کے ادموھا کرًچکا تو ایک لمبی سانس کھینچھ کے پیچھے کی جانب پلٹا جہاں ِفیا دیوار کے ساتھ لگی کانپ رہی تھی وہ جارحانہ انداز میں ُاس کی جانب پلٹا  جو اسے اپنی جانب آتا دیکھ کر حواس باختہ ہورہی تھی وہ اس نازک اندام۔لڑکی کو ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح اپنی گرفت میں لیےباہر لے جارہا تھااس میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کے وہ اس سے اپنا ہاتھ ُچھڑا پاتی جب ہی اس نے جانے پہچانے راستوں سے گزرتے ہوۓ اسے دیکھاجو اس کے گھر کے دروازے کو اپنی چابی سے کھولتے ہوۓ  اسے اندر لے جاکر بستر پر دھکیل دیا۔


"بہت شوق ہے نہ تمہیں ان لٹیروں کے درمیان میں رہنے کا ,منع کررہاتھا نہ میں تمہیں کے یہاں مت آؤ پر تمہاری عقل میں میری بات نہیں سماتی  "۔


نقاب میں سے جھانکتی  آنکھوں کو دیکھ کر وہ اس فرشتے کو دیکھ رہی تھی ۔جو جانے کہا سے اس کی حفاظت کے لیے آ پہنچا تھا پر یہ کیا فِیا شوق کی سی کیفیت میں اپنے سامنے کھڑے انسان کو دیکھ رہی تھی جو اپنا نقاب اتار کر پھینک ُچکا تھاجس کے ہونٹوں کے نزدیک سے خون رس رہاتھا وہ اس کے ماتھے پہ ابھرتی ناگوار لکیریں دیکھنے لگی ,جو اس کا محافظ ہے,جو اس کا زبردستی کا  شوہر!! جسے کچھ دیر پہلے تک  وہ کتنی باتیں سنارہی تھی ۔


"اب گونگی کیوں ہوگئ ہو جواب دو میری بات کا "۔


وہ اس کے لہجے میں برہمی دیکھ کر ایک دم۔سے ڈڑ کر پیچھے ہوئی مگر اس سے پہلے اس کا سر دیوار سے لگتا عظیم نے اس کے پیچھے ہاتھ رکھ دیا جس سے اس کا سر دیوار سے ٹکرانے سے بچ گیا وہ سخت اشتعال کے باوجود بھی  اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا , اسے اپنے غصے پر قابوں کرنا آتاتھا اس کی سوچوں کا دارومدار اس وقت صرف اس  لڑکی پر تھا جو جان بن  کر اس کے دل میں بستی تھی جو اس کی  متاع حیات تھی ۔


"م م مجھے نہیں پتہ تھا وہاں ایسے ہوگا "۔


فیا نے ہکلاتے ہوۓ اپنے آنسوؤں پر بند باندھنے کی کوشش کی جو بہتی ہوئ ندی کی طرح ُاس کی آنکھوں سے چھلک رہے تھے۔اسے ِاس طرح روتے دیکھ کر عظیم نے دیوار پر زور سے ہاتھ مارا جس پر ایک دم۔سے اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ گئ ۔


"سب کچھ خراب کردیا تم نے میری اتنے مہینوں کی محنت کو سب کچھ برباد ہوگیا "۔


عظیم نے نزدیک رکھےاسٹول کو ککِ مار کے دور ُاچھال دیا جس کے غصے کو دیکھ کر  فِیا زمین پر بیٹھتی چلی گئ جودروازہ کھول کے باہر کی جانب نکلتا چلاگیا پروہ جلدبازی میں بھی دروازے کو لاک کرنا نہ بھولا تھا ۔

                                      ۞۞۞۞۞


"یہ کس نے کیا ہے سارے بار کا حال "۔

عظیم  اپنی پورانی جیکٹ پہن کر بار کے پچھلے دروازے سے اندر چلا گیا جہاں تقریباً سارے کسٹمرز جا ُچکے تھے سواۓ ان چاروں کے جو زخمی حالت میں زمین پر پڑے تھیں ۔


"شوکت میں واش روم میں تھا مجھے نہیں پتہ کیا ُہوا ہے اِدھر "۔

عظیم نے بھرپور ایکٹنگ کا مظاہرہ  کرتے ہوۓ شوکت کو دیکھا جو اپنے منہ پہ ہوئ سوجن  پہ گرم کپڑا رکھ رہاتھا ۔جب ہی شائین ہیے بار میں داخل ہوا جسے دیکھ کر سارا اسٹاف کھڑا ہوگیا ,اس نے بار کی حالت دیکھ کر شوکت سے استفار کیا کے یہاں کیا ِہوا تھا ,اس پر اس نے ِفیا کا نام ہدف کر کے ایک نقاب پوش کی لڑائ کا بتا کر اپنے بوس کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جو اسے سرد نگاہوں سے ُگھور رہاتھا ۔


"ٹھیک ہے اس لڑکے کے بارے میں پتہ کرنے کی کوشش کرو باقی ان اطالویوں سے بھرپائ کرو یہاں کی توڑپھوڑ کرنے کے لیے "۔


وہ کروفر سے کہتا ہوا باہر کی سمت چلاگیا ,شائین ہیے کے جاتے ہی عظیم نے شوکت کو روک لیا جو باہر جانے کے لیے پر تول رہاتھا ۔


"تم نے اپنے مالک سے جھوٹ کیوں بولا کے لڑائی کس کی وجہ سے ہوئ تھی "۔


غظیم الجھے ہوۓ شوکت کو دیکھنے لگا جو ایک مسٹڑی کی طرح تھا۔


"عظیم سچ پوچھوں تو میں بہت پشیمان ہوں اسے یہاں لاکر ,میں نے سوچا تھا کے میں اسے ایک طرف رکھ کر اس سے صاف ستھرا کام کرالیا کروں گا تاکہ وہ اپنے بھائ کا آپریشن کراسکے پر مجھے اندازہ نہیں تھا میں اسے اس دلدل میں پھنسانےکی وجہ بن جاؤں گا۔


عظیم  نے سگار پیتے ہوۓ شوکت کی جانب دیکھا جو کسی  گہری سوچ میں ُگم تھا۔


"تو تم۔اسے واپس بھیج دو ُاس کے ملک "۔


عظیم نے فرش پہ بکھرے کانچ کے ٹکڑوں کو اپنے جوتے سے دور پھینکا ۔


"نہیں بھیج سکتا اب اسے کوئ نہیں بچاسکتا "۔

شوکت غائب دماغی سے بولا۔


"کیوں ایسا کیا ہوگیا ہے  "۔

عظیم کے ماتھے پر دو بل نمودار ہوۓ ۔


"میں نہیں بتا سکتا بس اتناسمجھ لو شائین ہیے اسے منہ مانگی قیمت پر  سری لنکا میں فروخت کررہاہے یا شاید مہینہ بھر کے لیے"۔


شوکت نے ایک لمبی سانس لیتے ہوۓ عظیم کو دیکھا جس کی آنکھوں سے لال شرارے ابل رہے تھے جو اس کے اندر ُچھپی ہیبت ناک انسان کی خمازی کررہے تھے۔


"تو تم نے اسے کیوں نہیں کہا کے میں منہ مانگے پیسے دینے کے لیے تیار ہوں "۔


عظیم نے لکڑی کے بنے میز پر زور سے ہاتھ مارا جس پر شوکت اسے الجھن بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔


"وہ اسے بیچ نہیں رہا اس کا کہنا ہے کے وہ ایک ہیرا ہے جو ہمیں ساری زندگی کما کر دے گی اب تم کسی اور لڑکی کو دیکھ لو اور اسے ُبھول جاؤ وہ نہیں ملے گی "۔


شوکت نے پر سوچ نگاہوں سے عظیم کو گھور کے کہا جو اس کی بات سن کر بھڑک ُاٹھا ۔


"تم جیسا نمک حرام۔انسان میں نے دنیا میں نہیں دیکھا ,آج اس سارے عرصے میں تم مجھے پہلی بار ایک دلال لگے ہو جسے صرف پیسے کی ُبھوک نظر آتی ہے "

۔

اس سے پہلے عظیم مزید کوئ بات کرتا بار کا ایک ویٹڑ شوکت کے نزدیک آکر ادب سے کھڑا ہوگیا ۔


"سر ِفیا گھر میں موجود ہے اس نے جواب دیا ہے وہ ٹھیک ہے اب کیا کرنا ہے "۔


ویٹڑ نے شوکت کی جانب دیکھا جو گرم کپڑے کوسوجے ہوۓ چہرےپہ رکھ کر اپنی تکلیف دور کررہاتھا ۔


"کچھ نہیں فلحال اپنا کام۔کرو سب کل دیکھے گے کیا کرنا ہے "۔

شوکت نے ویٹڑ کو بھیج کر اپنا ُرخ عظیم۔کی جانب کیا۔


"تم۔جس لڑکی پر بھی ہاتھ رکھو گے میں تمہیں وہ دلادوں گا باقی تمہاری مرضی ہے "۔


شوکت جیسے ہی ُاٹھ کر جانے لگا عظیم کی بات پر واپس بیٹھ گیا۔

"میے کا کیا ُہوا تم تو مجھے وہ بھی دے رہے تھے؟ "۔

عظیم نے دانت کچکچاتے ہوۓ شوکت کو ماتھے پہ بل ڈالے غرا کر کہا ۔


"میے کو بھی ُبھول جاؤں,شاید اسے بھی داڑک بنگلوں سے واپس لانا مشکل ہوگا "۔


شوکت نے عظیم کی جانب دیکھا جو میز پر رکھے گلاس کو زمین پر پٹخ کے باہر کی جانب نکل گیا ۔


                                         ۞۞۞۞۞۞

حال:-



نہیں ہے ,مجھے معاف کردو سب میں کہی دور چلی جاؤں گی پلیز,مجھے اپنا وقار بہت عزیز ہے , "۔


زین العابدین کے کانوں میں ایک کے بعد ایک زھرہ کی آوازیں گونجنے لگی جن سے پیچھا ُچھڑانے کے لیے وہ پنچنگ بیگ پہ بےدریغ پنچ ماررہاتھاجب ہی اس کے چلتے ہوۓ ہاتھوں کو دروازے پہ ہوئی دستک نے روکا جہاں ہالے کو اندر آتا دیکھ کر اس نے ہلتے ہوۓ پنچنگ بیگ کو اپنےمضبوط ہاتھوں میں  تھام لیا ۔


"کیسے ہو ڈیڑ منگیتر میں نے سوچا تم تو آؤ گے نہیں میں خود ہی آجاؤ "۔


ہالے نے اس کے کثرتی جسم کو نظر بھر کر دیکھا جس میں ابھرتے سکس پیک اس کی توجہ کے مرکز بنے ہوۓتھیں زین العابدین نے ٹاول سے پسینہ پونچتے ہوۓ ایک ُاچٹتی

 سی نظر اس پہ ڈالی جو اس کے جسم پر اپنی نظریں گاڑیں ہوۓ تھی, زین العابدین نے ناگوار نظروں سے اسے دیکھا تھا جو پہلوں بدل کر رہ گئ  

 

" کوئ کام تھا ہالے  "۔


اس نے اپنے کندھوں پر ٹاول پھیلاتے ہوۓ اسے دیکھا جو اب زمین پر پڑے ڈمپل دیکھ رہی تھی ۔


"ہاں کام۔تو تھا ضروری میں نے سوچا ہے کے جب تک میں واپس نہیں جارہی میں تمہارا آفس جوائن کرلو "۔

ہالے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی جو بلکل سپاٹ چہرہ لیے اس کی جانب دیکھ رہاتھا ۔


"یہ تو اچھی بات ہے پر تم کروگی کیا وہاں "۔


زین العابدین نے اچھنبے سے اس کی  جانب دیکھا۔


"ظاہر سی بات ہے زین میں نے ڈیزائنگ کورسس کیے ہوۓ ہیں میں تمہارے کلاتھ برانڈنگ میں مدد کرسکتی ہوں اگر تم چاہو تو ورنہ تمہاری مرضی ہے میں کسی اور کمپنی کو جوائن کرلوں گی  "۔


ہالے نے اپنا آخری پتہ پھینکتے ہوۓ ااس کی جانب دیکھا جیسے اسے معلوم تھا اس کے  نزدیک اس جیسے دقیانوسی مرد جن کی عزت یہ گوارہ نہیں کرتی کے ان کی گھر کی خواتین ان کے علاوہ کہی اور نوکری کرنے جاۓ ۔۔اس لیے ہالے نے زین العابدین کی ُدکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوگئ تھی۔


"ٹھیک ہے پر تم ہمنا کو اسسٹ کروگی فلحال اس کے بعد دیکھیں گے "۔

اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان کوشش کرکے نرم رکھا اور باہر کی سمت نکل گیا , ہالے کی آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں پہ چھائ استہزائیہ مسکراہٹ اس کی کامیابی کی راز جوئ کررہاتھا۔


" اب دیکھتی ہوں کیسے مِس خان تمہارے نزدیک بھی بھٹکتی ہے زین جب تک تمہاری جائداد میری نہیں ہوجاتی اس وقت تک تم بھی کسی کے نہیں ہوسکتے"۔


وہ اپنی گھناؤنی سوچوں کے ساتھ دور تک نکل چکی تھی جسے روکنے والا شاید اب کوئ نہ تھا۔

                                  ۞۞۞۞۞۞۞


ہلکے آسمانی رنگ کے پینٹ کوٹ میں سفید ڈڑیس شڑٹ پر وہ نیلی ٹائ لگاۓ بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ٹیبل پر پڑے پیپر ویٹ کو اضطرابی حالت میں گھومائ جارہا تھا جب ہی یوشع کی آواز نے اس کی مصروفیت میں دخل اندازی کی ۔


"تو نے سیکیورٹی تو ٹھیک سے کروائ ہے نہ بھابھی کے گھر کی "۔زین العابدین نے اپنی بھنویں سکیڑ کے یوشع کو گھورا

۔

"ہممم! سب سول ڈریس میں آس پاس ہی ہیں آج دوسرا دن ہے پھر دیکھتیں ہیں "۔

اس نے سگریٹ کا کش لیتے ہوۓ کہا 


"ویسے تجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا بھابھی کے ساتھ "۔


یوشع نے میز پہ رکھی اپنی کوفی کا ایک گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا ۔


"اب اگر تو نے ایک اور بار بھی اس جنگلی بلی  کو بھابھی کہاتو میں تیرا سر پھاڑ دوں گا "۔


مگر ایک بار پھر بھابھی کہنے اس نے پیپر ویٹ ُاٹھا کر یوشع کی جانب ُاچھالا جو اس نے آسانی سے کیچ کرلیا۔


"اور کیا کردیا ہے میں ان محترمہ کے ساتھ جو آپ کو ُ برا لگ رہاہے "۔


زین العابدین نے اپنی ریوالونگ چیر پر کمر ِٹکاتے ہوۓ یوشع کی جانب دیکھا جس کی آنکھوں کی چمک اسے کسی مزاحیہ بات کا پتہ دے رہی تھی ۔


"یار تجھے نہ پہلے بھابھی کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا پھر نکاح کرتا ان سے ,ایسے مجھے ٹھیک نہیں لگا جیسے تو نے سڑک چھاپ غنڈوں کی طرح دھمکی سے نکاح کروایا تھا "۔


یوشع نے اپنے چہرے پہ سنجیدگی لاتے ہوۓاس کی جانب دیکھا جو تا ہنوز چہرہ سپاٹ کیے سگریٹ کو ایش ٹڑے میں بجھا رہاتھا۔


"وہ جو تمہاری سوکالڈ بھابھی جی ہے نہ وہ بہت ٹیڑھی چیز ہے یا یوں کہ لو وہ بلکل الٹے دماغ کی ہے"۔


وہ انگشت شہادت یوشع کی جانب کرتے ہوۓ کچھ توقف کے بعد بولا ۔


" میری سیدھی زبان میں کی گئ بات پر اس نے سواۓ بھڑکنے کے کچھ نہیں کرنا تھا بلکہ الٹا مجھ پر ہی کوئ الزام لگا کے چلی جاتی اس لیے میں نے ایک طرح سے ڈنڈے کے زور  پر اس سے یہ نکاح اسی کی سیفٹی کے لیے کروایاہے ,مجھے معلوم ہے یہ غلط تھا پر اس وقت ہم دونوں کواپنی انا کو پسِ پشت ڈال کر اس خبیث سے ُچھٹکارا پانا  ضروری تھا "۔


زین العابدین کے اتنے تفصیلی جواب پر یوشع تالیاں بجاتا ہوا ُاٹھ کھڑا ہوا ,جسے اس نے سوالیہ انداز میں دیکھا۔


"آپ کی اتنی اچھی اور تفصیلی تقریر پر دل کررہاہے کے آپ کو کوئی ٹڑافی دوں ,خیر تم نے بھابھی کو کال کرکے خیریت دریافت کی "۔


یوشع نے استفہامیہ انداز میں پوچھا ۔


"تو باز نہیں آۓ گا نہ یہ بولنے سے "۔


زین العابدین اپنی کرسی سے کھڑا ہوتے ہوۓ یوشع کو گھورنے لگا جس کی کسی بھی گھوری کا کوئ بھی اثر نہیں ہورہاتھا ۔


"تو جا یہاں ںسے شاباش "۔


زین العابدین نے یوشع کو بازوؤں سے تھام۔کر دروازے سے باہر کیا اور خود بھی اوپر داریکٹڑ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

                                    ۞۞۞۞۞۞۞۞


زین العابدین کالا اپر اور ٹڑاوزر پہنے رات کے وقت لان کے نزدیک بنے سوئمنگ پول کے کنارے رکھی لکڑی کی آرام دہ کرسی پر نیم دراز ُہوا سگریٹ پھونک رہاتھا ساتھ ساتھ اپنی محویت کا گہوارہ  رات کے اندھیرے میں ہلکے جلتے سفید فارنوسوں کی روشنی میں ہوا کے ساتھ  ہلکورے لیتا ہوا سوئمنگ پول  کو بنایا تھا جو بہت شاندار نظارہ پیش کررہاتھا ۔


" آج دوسرا دن بھی گزر گیا اس خبیث نے کچھ کیا کیوں نہیں "۔


وہ سگریٹ پھونکتے ہوۓ  تاروں سے بھرا آسمان دیکھ رہا تھا۔جب ہی اس کا پالتوں کتا ُکووپر اس کے پیروں کے پاس آکر اپنا سر لگانے لگا۔

no cooper! .


وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ اسے پیار کرنے لگا ۔جب ہی ُاس کا دل کیا کے وہ مِس خان کو کال کرے مگر اپنی انا  کے سامنے وہ خود کا جھنڈا بلند رکھے ہوۓ تھااسی اضطرابی حالت میں اس نے یہاں بیٹھے بیٹھے تیسری سگریٹ پھونک دی تھی سوچیں گہرے قفل کے باوجود مسلسل منتشر ہوتی جارہی تھی جب ہی اس نے اپنے دل کی صدا پر مہر لگاتے ہوۓ  اپنی انا کا جھنڈا کچھ دیر کے لیے سرنگوں کردیا ۔


وہ بے صبری سے زھرہ کے کال ُاٹھانے کا منتظر تھا جو اس کا فون نہیں ُاٹھا رہی تھی, تیسری بار بھی ایسا ہی ُہوا تو تھک کر زین العابدین نے فون کو بند کردیا اسے معلوم تھا وہ اس کا فون جان بوجھ کر نہیں ُاٹھارہی تھی اس نے اب کی بارفون گاڑڈ کو کیا جس نے ایک ہی بیل پر فون ُاٹھالیا ۔


"چاچا سب کیسا چل رہا ہے وہاں "


زین العابدین نے گاڑڈ سے زھرہ کے گھر کے بارے میں پو چھا جو اسے دن بھر کی اطراف میں ہوئی باتیں بتانے لگا جوکچھ دیر سننے کے بعد اس نے ُاکتا کر اپنی مطلب کی بات گاڑڈ سے پوچھی۔


"بی بی گھر سے باہر گئ تھی "۔۔۔۔۔

وہ کووپر کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا ۔


"نہیں صاحب وہ تو دو دنوں سے باہر بھی نہیں نکلی "۔۔۔۔۔۔


گاڑڈ کے جواب پر لیٹا ُہوا زین العابدین ُاٹھ کر بیٹھ گیا ۔


"اور ان کی امی "۔۔۔۔۔

وہ فکرمند ہوا۔


"سر وہ بھی باہر نہیں آئی "۔۔۔۔۔۔


گاڑڈ کے جواب پر زین العابدین کے ماتھے پر سلوٹوں کا جال نمودار ہوا۔


"ٹھیک ہے "۔


وہ تنے ہوۓ اعصاب کے ساتھ ڈڑائیونگ سیٹ سنبھال کےریش ڈڑائیونگ کرتا ہوا لائیزایریا پہنچاجہاں کی تنگ گلیوں میں بارش کا پانی بھرا دیکھ کروہ کوفت کا شکار ہوا تھااسے اپنی بڑی گاڑی کو نکالنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاتھا جس میں اسے مزیدگھنٹہ لگ گیا وہ اپنے اعصاب شکن ڈڑائیونگ کے بعد بلآخراپنی منزل پہ پہنچ گیا ۔جہاں اس کے گارڈز گھر کے باہر نگرانی کرتے ہوۓ دکھے۔


اس نے جیسے ہی گاڑی سے باہر قدم رکھا تو بارش کا پانی نیچے جمع ہونے کی وجہ سے اس نے اپنا پاؤں  واپس گاڑی میں رکھ لیا,دوسری جانب کا دروازہ کھولا تاکہ وہاں سے نیچے اتر سکے مگر وہاں بھی یہی حال تھا اتنے میں گاڑڈز زین العابدین کے لیے اینٹیں اٹھا کر لے آئیں جن پہ پاؤں رکھ   کر وہ چلنے لگاوہاں کے  مقامی  لوگ یونہی آنے جانے کے لیے انہی بلاکز کا استعمال کرتے تھےوہ صبر کے گھونٹ پیتا ہوا ان اینٹوں  پہ پاؤں رکھ  کر زھرہ کے گھر کے دروازے کے باہر زنجیر بجارہاتھا جو کافی دیر تک بجانے کے بعد بلآخر ُکھل گیا۔


زھرہ کی امی سفید دوپٹے کو سر پہ لپیٹے نورانیت سے بھرپور چہرے  کےساتھ زین العابدین کے سامنے کھڑی تھی ۔


اسلام علیکم آنٹی  "۔


"وعلیکم اسلام بیٹا کیسے ہو "۔


فوزیہ نے زین العابدین کو پہچان کر فوراً اندر آنے کا راستہ دیا جو چوکھٹ کے پاس کھڑا صحن کو دیکھنے لگا جو بارش کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔


"جی میں ٹھیک ہوں آنٹی, میں بس یہاں سے گزر رہاتھا تو میں نے سوچا مِس خان کی عیادت کرتا جاؤ ں اب ان کی طبیعت کیسی ہے "۔

اس نے فوزیہ بیگم سے نہایت عاجزی سے پوچھا ۔


"بس بیٹے ُپھونک کر بخار چڑھ گیا ہے میں پاس والے کلینک سے داکٹڑ کو بلانے گئ تھی پر وہ پانی کی وجہ سے آیا ہی نہیں ُاس نے جو دوائ دی تھی اس سے ُبخار نہیں ٹوٹا, کہ رہاتھا آپ اسے بڑے اسپتال لے جاۓ"۔


فوزیہ بیگم  آنسوؤں پر بندھ باندھتی ہوئ رندھائ آواز میں بولی۔


"تو آپ لے کر کیوں نہیں گئ ابھی تک ؟"۔

اس کے چہرے سے پریشانی جھلکنے لگی ۔


"بیٹا زھرہ تو بے سدھ پڑی بستر پر ,میرے علاوہ کون ہے جو اسے اسپتال لے کرجاۓ گا ؟"۔


وہ کچھ توقف کے بعد بولی ۔


"یہاں پڑوس سے جمال کوبلوایا ہے میں نے بس آتا ہی ہوگا کوچنگ سے پھر اس کے ساتھ لے کے جاؤں گی اپنی بچی کو "۔

بغور فوزیہ کی بات سنتازین العابدین جمال کے نام پر اپنی کنپٹی پر ابھرتی رگوں کو دبانے لگااس کی طبیعت میں ایک ہیجان سا برپا ہوا تھا یہ سن کر کے اس کے ہوتے ہوۓ کوئ نامحرم زھرہ کو ہاتھ کیسےلگاۓ گا ۔


آنٹی آپ اگر ُبرا نہ مناۓ تو آپ میرے ساتھ چلے پہلے ہی کافی دیر ہوُچکی ہے"۔


زین العابدین اپنے ماتھے کے بلوں کو کم کرتے ہوۓ فوزیہ کو ساتھ چلنے کو کہا۔


"بیٹا آپ کو کوئ پریشانی تو نہیں ہوگی؟ "۔


فوزیہ نے اپنی خجالت مٹاتے ہوۓ زین العابدین کی جانب دیکھا جو اس وقت ان کے گھر میں ایک فرشتہ کی طرح آیا تھا ۔


"نہیں آنٹی بلکل بھی نہیں آپ آۓ فوراً میرے ساتھ"۔


 وہ صحن میں رکھی اینٹوں کے اوپر اپنے قدم مضبوطی سے  جماتا ہوا کمرے کی جانب بڑھ گیا جہاں چارپائ پر زھرہ  آسمانی رنگ کے لباس میں بے سدھ پڑی ہوئ تھی اس کے دل کو سخت پشیمانی نے گھیر لیا ,آخر یہ سب کچھ اسی کی وجہ سے توہورہا تھا۔


"نہ وہ اشہد عزیز مجھ سے پروجیکٹ کے لیے ُالجھتا نہ یہ معصوم لڑکی میرے ستم کا شکار ہوتی "۔


وہ اپنی سوچوں کے بھنور سے باہر نکلتے ہوۓ ُاس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر بخار کی نوعیت دیکھنے لگا جو دہکتے ہوۓ کوئلے کی مانند تپ رہی تھی وہ فوراً فوزیہ کی جانب پلٹا  ۔


" آنٹی مسِ خان کو بہت زیادہ  بخار ہورہا ہے آپ چلے میرے ساتھ فورا ً  "۔


اس کے چہرے پہ جہاں بھر کی پریشانی تھی فکر تھی زھرہ کے لیے ,وہ اجازت طلب نظروں سے فوزیہ کی جانب دیکھنے لگا جو سر کو جنبش دے کر اجازت دے گئ۔وہ اس کانچ سے نازک وجود کو اپنے مضبوط بازوؤں میں ُاٹھاتا باہر کی جانب نکلا جو زین العابدین کوبخار کی حدت سے جلتی ہوئ محسوس ہورہی تھی۔


جانے وہ کب سے ایسے تکلیف میں تھی میری وجہ سے"۔


اسے اس وقت اپنی جان ہتھیلی پر محسوس ہورہی تھی زھرہ کو اس حالت میں دیکھ کروہ اتنے قریب سے اس آج پہلی بار دیکھ رہاتھا جو اپنی ِجھیل سی گہری آنکھوں پر پلکوں کا ِچلمن گراۓ خود سے بھی ناراض لگ رہی تھی وہ اسے لیے باہر کی جانب  مضبوطی سے  اینٹوں پر پاؤں جماتے ہوۓ  باہر آگیاکچھ ہی دیر میں فوزیہ بیگم بھی زین العابدین کی پیچھے پیچھے  آگئ جو شاید اسپتال کے لیے اپنا پرس اور عینک تلاش رہی تھی ۔


19x

زین العابدین گاڑڈ کو آسان راستے سے باہر نکلنے کے لیے کہ رہاتھا پھر کچھ ہی دیر میں زین العابدین زھرہ کو  فوزیہ اور گاڑڈ کی ہمراہی میں لیے اسپتال پہنچ گیا وہ اسے اسٹریچر پر ڈال کر وارڈ بواۓ کی مدد سے ایمرجنسی میں لے گیا ۔جہاں اسے فوری ٹڑیٹمنٹ دیا گیا۔


"زھرہ پیشنٹ کے ساتھ کون ہے "۔


20

لابی کے چکر لگاتا ہوا زین العابدین مسلسل خود کو کوس رہا تھا جس کے ہر انداز سے بے چینی اور پریشانی و فکر ظاہر ہورہی تھی  …نرس کی ُپکار  پہ اس نے فوزیہ کو دیکھا جو شاید نماز ادا کرنے گئ تھی اس لیے وہ خود داکٹڑ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔


"یس داکٹڑ "۔


زین العابدین نے داکٹڑ کی جانب دیکھا ۔


"انہیں کتنے دنوں سے ُبخار تھا "۔


داکٹڑ نے تفشیشی انداز میں زین العابدین سے پوچھتے ہوۓکہا جو کیس ہسٹڑی میں لکھ رہاتھا۔


"دو دن سے تھا داکٹڑ "۔


"آپ کو معلوم ہے انہیں بخار کیسے ہوا کیوں کے یہ وائرل بخار نہیں ہے  "۔

داکٹڑ نے اپنا قلم فائل کے اوپر رکھ کر اپنا سر ریوالونگ چیر پر ٹکاتے ہوۓ پوچھا۔


"جی داکٹڑ یہ بارش میں بھیگی تھی بہت"۔

exactly ۔


جب آپ کو معلوم ہے سردیوں کی بارش میں نہیں بھیگتے تو آپ نے انہیں کیوں نہیں روکا اوپر  سے ان کا باقاعدگی سے علاج نہیں کروایا جس کی وجہ  سے ان کی طبیعت اتنی بگڑ گئ ایک سو پانچ بخار تھا انہیں ابھی اگر آپ مزید نہیں لاتے تو سر کو چڑھ جاتا یا جھٹکے لگنے لگ جاتے ,اب میں نے یہ نسخہ لکھ کر دیا ہے آپ باقاعدگی سے انہیں  کھلاتے رہیے گا دوائ کا ناغہ ِبلکل نہیں ہونا چاہیے ۔


Take care of your wife and pay attention to her diet


,اور اس کے علاوہ ان کے ٹیسٹ کے سیمپلز لیے ہے ان کی رپورٹ کل تک آجاۓ گی مجھے نمونیہ کا شک ہے لیٹس سی"۔


داکٹڑ نے زین العابدین کوپیشہ ورانہ انداز میں ساری باتیں کہی جو سپاٹ چہرے کے ساتھ داکٹڑ کی ہدایتیں سنتا رہا۔


"ْداکٹڑ وہ ڈسچارج کب تک ملے گا؟ "۔

اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔


"ْبس کچھ انجیکشنز اور ڈڑپ ختم ہوجاۓ پھر اس کے بعد آپ لے جاسکتے ہے"۔

"  thank you doctor ".


وہ داکٹڑ سے مصاحفہ کرتے ہوۓ جیسے ہی کمرے سے باہر آیا فوزیہ ابھی بھی واپس نہیں آئ تھی وہ خود ہی ان کی جانب بڑھ گیا جہاں وہ زمین پہ بچھی دری کے اوپر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی وہ انہیں داکٹڑ کی ہدایتیں بتانے لگا جو اللّہ کا شکر ادا کرنے لگی ۔


"بیٹے میں بس یہ نماز ادا کرلوں پھر آپ بے شک چلے جانا "۔


فوزیہ نے زین العابدین  کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ نماز پڑھنے کے لیے نیت باندھ لی جب کے وہ بوجھل قدموں کے ساتھ زھرہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا جو بستر پر بے ُسدھ پڑی ہوئ  تھی ۔وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم۔بڑھاتے ہوۓ اس کے نزدیک کھڑا ہوگیا ۔


"اگر تم اس وقت جاگ رہی ہوتی تو ضرور میرا قتل کردیتی آج "۔


آرام دہ بستر پہ لیٹی زھرہ کو دیکھ کر وہ اس کے نزدیک رکھی کرسی پہ بیٹھ گیا وہ بغور اس کے چہرے کو اپنی آنکھوں میں ازبر کرنے لگا ,یہ وہ چہرہ ہے جو اس کے دل میں بستہ ہے جسے اس نے شاید خودسے بھی چھپا کر سات پردوں کی تہ میں رکھا ہواتھا اسے آج اس حالت میں دیکھ دل ٹڑپ اٹھا تھا جس کی محبت اس کی رگوں میں دوڑنے لگی ہے جس آگ میں وہ دن رات جل رہاتھا اس پہ ٹھنڈی سی پھوار پڑرہی تھی زھرہ کو دیکھ کر ,جب ہی اندر نرس داخل ہوئ جو زھرہ کو انجیکشن لگانے آئ تھی وہ زھرہ کے نزدیک سے ُاٹھ کر باہر جانے لگا جب ہی وہ نرس کی آواز پر پلٹا ۔


آپ ِادھر آۓ پلیز یہ ان کے اِسلیوز نیچے آرہے ہیں آپ پکڑ کر کھڑے ہو مجھے انجیکشن لگانا ہے "۔


نرس نے زین العابدین کو مخاطب کیا جو کمرے کے وسط میں کھڑا نرس کو ُجھنجلائ ہوئ نظروں سے دیکھ رہاتھا نرس کے پکارنے پر زین العابدین نے اپنے پیچھے دیکھا شاید وہ کسی اور کو بلارہی تھی پر وہاں بھی کوئ زی روح انسان نہ تھا۔


"سسٹڑ آپ مجھے کچھ کہ رہی ہے؟ "۔


اس نے نرس سے اپنی جانب اشارہ کرکے پوچھا جو اسے بےزاریت سے دیکھنے لگی۔


"ظاہر ہے آپ ہی یہاں موجود ہے تو آپ ہی کو کہوں گی "۔


وہ نرس شاید آج ضرورت سے زیادہ مریضوں کو ُبھگتانے کی وجہ سے ُالجھی ہوئ لگ رہی تھی جب ہی زین العابدین کو اُکتا کے بولنے لگی جو نرس کے لہجے پہ  ایک لمبا سانس کھینچھ کر اپنے اندر کے اشتعال کو دباتا ہوا  زھرہ کی جانب دیکھنے لگا ۔


"i swear she gonna kill me", ..


وہ ہلکی آواز میں بڑبڑاتے ہوۓ نرس کے بتاۓ طریقے سے اس کا ملائم بازوں ہاتھ میں  تھام کر نرس کی مدد کرنے لگا ۔


"آرام سے "۔وی بے قراری س

اس نے جیسے ہی انجیکشن زھرہ کی بازوں میں لگانا چاہا زین العابدین کی آواز پر وہ چاہ کر بھی اپنی مسکراہٹ کو روک نہ سکی۔


"لگتا ہے نئ نئ شادی ہوئ ہے"۔۔


نرس کی بات پر زین العابدین نے چونک کر اسے دیکھا جو اس کے بےقراری سے بولنے پر مسکراکر بولی وہ اپنی آنکھوں کو جھپک کر اس کی بات کی تصدیق کرگیا پھر نظروں کے زاویےکو بدل کر وہ اپنے چہرے پہ چھاۓ تاثرات کو ُچھپاتے ہوۓ نرس کو دیکھنے لگا جو زھرہ کی ڈِڑپ چیک کرکے باہر نکل گئ تھی ۔


 زین العابدین  ہاتھ دھونے کے لیے کمرے میں بنے واش روم کی جانب بڑھ گیاوہ جیسے ہی واش روم کا دروازہ کھول کر باہر آیا وہاں زھرہ کے بستر کے نزدیک کھڑے انسان کو دیکھ کر ُاس کا خون کھول اٹھاجواس کی جانب اپنے ناپاک ہاتھ بڑھا رہاتھا زین العابدین نے پیچھے سے آکر ِاس کا ہاتھ پوری قوت سے پیچھے جھٹکا جس سے وہ لڑکھڑا کر پیچھے کی جانب رکھی روم فریج پر جا گرا۔


"اوہو میرے آدمیوں نے غلط خبر دی ہے کے یہاں پڑوسی کے ساتھ لیلا آئ ہے مگر یہاں تو مجنوں بھی موجود ہیں داد دیتا ہوں تیری ہمت کو ویسے"۔


اشہد عزیز نے زمین پہ بیٹھ کر زین العابدین کو دیکھا جو اسے غصے سے گھور رہاتھا۔


"کیا کررہاتھا تویہاں بول "۔


وہ اس کا گریبان ہاتھوں میں جکڑتا غرا کے بولا جس کی آنکھوں سے لہوں ٹپک رہاتھا۔


"کیا کررہاہوں مطلب, پیار کرنے آیا تھا تیری اسلیپنگ بیوٹی کو,سارا کاسارا موڈ خراب کردیا تو نے !! "۔


وہ زھرہ کی جانب  للچائ ہوئ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا جس کی بے ہودہ بات پر زین العابدین کاخون کھول اٹھا وہ بپھرے ہوۓ شیر کی طرح اس پہ پل پڑا ,پہ درپہ پڑنے والے مکوں سے اس کے منہ اور ناک سے خون کی لکیریں بہ نکلی مگر اشہد عزیز نے کوئ جوابی کاروائ نہیں کی جیسے وہ زین العابدین کو اکسا رہاتھا تاکہ وہ غصے میں آکے ایسا کچھ کریں جس سے بات میڈیاں تک پھیل جاۓ۔


get out of here ! you fu** ing bas***.


i kill you.۔۔

"ابھی کے ابھی نکل یہاں سے تیری ہمت کیسی ہوئ اسے گندی نظر سے دیکھنے کی ؟  "۔


 وہ کسی بھوکے شیر کی طرح اس پہ بھڑک رہاتھاجس کے منہ پر ایک بار پھر طمانچہ رسید کیا جو منہ کے بل دروازے کی جانب گرتامگر اس سے پہلے ہی اشہد عزیز کے بھائ نےاسے اپنے مضبوط بازوؤں کا سہارا دیے کرکھڑا کر دیا۔


"اچھا ہوا تم خود یہاں آگۓ !!!میں کون ہوں کیا ہو تم  سے بہتر کوئ نہیں جانتا مجھے ,اپنے بھائ کو اپنی زبان میں سمجھالو یہ آخری بار تھا جب میں نے اسے زھرہ کے ساتھ بے ادبی سے بات کرتے ہوۓ دیکھ کر زندہ چھوڑدیا ہے۔پر اب دوسرا موقع نہیں دوں گا سیدھا گولی ماروں گا "۔


وہ لال انگار آنکھوں سے دیکھتے ہوۓ بولا جس کا بس نہیں چل رہاتھا وہ اشہد عزیز کو چیڑ پھاڑ کے رکھ دے اس کی آنکھیں نوچ کے نکال دے۔

                                  __________________

  اشہد عزیز کا بھائ کالج کے زمانے سے زین العابدین کو جانتا تھا جو اس کے چچا کے بیسٹ فرینڈ کا بیٹا تھا مگر شہر الگ ہونے کی وجہ سے دونوں گھروں میں میل جول کم تھا , کالج کے زمانے میں اشہد عزیز کی سر عام ایک کلاس فیلو کا ڈوپٹا کھینچھنے پر  زین العابدین نے اسے تنبیع کی بس پھر کیا اشہد عزیز کو اس کا اپنے دوستوں کے سامنے تنبیع کرنا پسند نہیں آیا اور دونوں میں ہاتھا پائ شروع ہوگئ بات اس حد تک چلی گئ کے لڑکی کی شکایت پر اشہد عزیز کو کالج سے ریسٹیکیٹ کردیاگیا ,ناصر عزیز نے بہت کوشش کی کے کسی طرح سے اشہد عزیز کو کالج میں فائنل پیپرز تک کی مہلت مل سکے پر کالج والوں نے اسے دوسرا موقع نہ دیا دن ہونہی بے کیف سے گزرنے لگے ,فائنل پیپرز کے بعد زین العابدین مزید پڑھائ کے لیے پاکستان سے باہرچلاگیا مگر جانے سے پہلے یوشع کی فون کال نے اسے ہلاکے رکھ دیا جس نے انکشاف  کیا تھا کے جس لڑکی نے اشہد عزیز کو کالج سے نکلوایا تھا کل رات اسے کسی نے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔

                              ___________________


 ناصر عزیز نے اسے گارڈز کے ساتھ زبرسستی نیچے بھیج دیا پھر خود ہی اس شیر کو دیکھنے لگا جو خود پہ قابو پانے کے لیے کمرے کے گِرد چکر لگا رہاتھا جیسے شیر شکار سے پہلے  چکر لگاتا تھا۔


"زین کیا میں اتنا پوچھ سکتا ہوں اس لڑکی سے تمہارا کیا رشتہ ہے جو تم اشہد سے اس کے پیچھے الجھ رہے ہو؟ "۔


وہ کمرے کے گرد چکر لگاتا ہوا ناصر عزیز کی بات پر ایک دم سے ُرکا پھر دو قدم  چل کراس کی جانب بڑھا جہاں ناصر عزیز ُاس کی آنکھوں میں چھائ ُسرخی کو دیکھ کر باخوبی اس کے اندر دہکتےلاوے کا اندازہ لگا سکتا تھا جو کسی بھی وقت پھٹ کر سب کچھ تہس نہس کرسکتا تھا  ۔


"وہ میری جو بھی ہے ناصر!! تم اپنے بھائ کو یہ یاد دلادینا زین العابدین زھرہ کے ساتھ اب سے ساۓ کی طرح رہے گا!! جسے ُاس کے جیسے اوباش لوگ چُھوں بھی نہیں سکتے "۔۔۔


یہ کہ کر زین العابدین نےاس کے شانے پر اپنی انگشت شہادت رکھ کر اسے تھوڑا سا جھٹکا دیا جس پر وہ ایک قدم پیچھے ُہوا ۔


"جاؤ یہاں سے "۔


وہ اسے سرد لہجے میں بولا ۔ 


"تم اپنے ساتھ اچھا نہیں کررہے زین میں تمہیں بہت جلد ہی جواب دوں گا اس حرکت کا"۔


ناصر عزیز  نے اپنے شانے کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ زین العابدین کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا جو اس کے چہرے پہ چھائ کرختگی دیکھ کر مزید اسے کچھ کہے بغیر باہر کی جانب  نکل گیا۔


زین العابدین  اس وقت بپھرے ہوۓ سمندر کی طرح لگ رہاتھا جو کسی بھی وقت اپنا طوفان برپا کرکے ہر طرف تباہی مچاسکتا تھا اس نے اپنے اندر لگی آگ کو بجھانے کے لیے ٹیبل پر رکھی منرل واٹر کی بوتل سے پانی نکال کر پیا پھر ایک لمبی سانس کھینچ کر اپنے اعصاب پر قابوں پانے کی کوشش کرنے لگا ۔مگر اضطراب تھا کے بڑھتا جارہاتھا وہ بوتل صوفے کی جانب اچھالتا ہوا اٹھ بیٹھا۔


"کیوں آئ ہو تم میری زندگی میں !!کیوں تمہارے نزدیک میں کسی کا سایہ بھی برداشت نہیں کرسکتا "۔۔۔۔


وہ جارحانہ انداز میں اس سوۓ ہوۓ وجود کو دیکھ کر ڈھاڑا تھا جسے دیکھ کر دل کو ایک سکون سا ملا تھاوہ  اپنی جھنجھلاہٹ ,بےزاری اور الجھن کو اب ٹھیک سے سمجھ پارہاتھا جو پچھلے دو تین دنوں سے اس کے ساتھ ہورہاتھا ,

"تو کیا اسے اپنی دشمن جاں سے محبت ہوگئ تھی ؟"۔۔۔۔۔


shitt man!!


وہ فرش پہ پاؤں پٹختے ہوۓ کمرے کے گرد چکر لگانے لگا۔جب ہی فوزیہ کمرے میں داخل ہوئ ۔


"بیٹا میں اب آگئ ہوں آپ بے شک گھر چلے جاؤ "۔


فوزیہ نے تسبیح ٹیبل پہ رکھ کےزھرہ پہ ِپھونک ماری پھر زین العابدین کو مخاطب کیا۔


"نہیں آنٹی میں آپ کو ڈڑاپ کرکے جاؤں گا , جب تک ان کی ڈڑپ ختم۔نہیں ہوجاتی میں آپ کے ساتھ ہی ہوں "۔۔۔۔۔۔


وہ فوزیہ کی جانب دیکھتے ہوۓ ان کے لیے ُکرسی کھینچ کر زھرہ کے نزدیک لے آیا۔


"آنٹی آپ یہاں بیٹھے میں کچھ  دیر میں آرہا ہوں "۔


وہ اپنے موبائل پر ایک نمبر ڈائل کرتے ہوۓ مصروف سے انداز میں فوزیہ کو بتا کر باہر کی جانب نکل آیا جہاں اس نے کچھ گارڈز کی ڈیوٹی زھرہ کے کمرے کے باہر لگادی۔کچھ دیر بعد زین العابدین کھانے پینےوالی چیزوں سے لدا ہوا واپس لوٹا تو زھرہ کی ڈڑپ بھی ختم ہوچکی تھی وہ فوزیہ کی جانب مسکراہٹ اچھالتا ہوا ان سے جانے کی اجازت طلب کرنے لگا جو تشکر آمیز انداز میں اسے اجازت دیتی ہوئ زین العابدین کے پیچھے ہولی جو زھرہ کو اپنے مضبوط بازوؤں میں ُاٹھاتا ُہوا باہر کی جانب نکل گیا پھر گاڑی میں سوار ہوکر وہ اپنی منزل تک پہنچا جہاں وہ زھرہ کو تیزی سے اندر کی جانب لے جانے لگا۔ اس کے کمرے میں داخل ہوکےاسے بستر پر نہایت احتیاط سے لٹا کر  جیسے ہی پیچھے ہونے لگاتو اس کے گلے کی چین زھرہ کی چین میں اٹک گئ۔

"Shittt"..

"جتنا میں اس لڑکی سے دور بھاگ رہا ہوں قدرت اتنا ہی مجھے اس کے قریب لارہی ہے "۔

وہ فوزیہ کے اندر آنے سے پہلے جلد سے جلد چین الگ کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ الگ ہونے کے بجاۓ اور الجھتی جارہی تھی جب ہی زین العابدین نے قدموں کی چاپ سن کے زھرہ کی چین کا لاک کھول کر فوراً پیچھے ہوگیا ۔

20x


اب زین کی چین کے ساتھ زھرہ کی چین الجھ کر سینے پر ُجھول رہی تھی جسے فلحال وہ گھر جا کر سلجھانے کا پروگرام بنا بیٹھا تھا۔


چلے آنٹی اجازت دے اب میں چلوں گا کوئ بھی مسئلہ ہوتو آپ کسی اور کو بولنے کے بجاۓ مجھے بولے گی میں بھی آپ کا بیٹا جیسا ہوں ویسے یہ تو صبح تک ہی ُاٹھے گی اگر آپ کو کوئ مسئلہ ہوتو آپ مجھے فون کرلیجیے گا "۔


زین العابدین فوزیہ کے سامنے سر ُجھکاتا ہوا کھڑا ہوگیا جو اس کے سر پر پیار دے کر اسے دعائیں دینے لگی ۔


                                 ۞۞۞۞۞۞


"زھرہ یہ کیا حالت بنالی ہے تم نے ُتم تو ِبلکل بستر سے لگ کے رہ گئ ہو"۔

زھرہ کی اکلوتی دوست اس کی امی کے بعد اس کی ہر غمی خوشی کی ساتھی زینیہ بھٹی ڈھڑلے سے اس کی چارپائ پہ

چوکڑی مارے بیٹھ گئ۔


میرے جیسے لوگ جن کی زندگی میں کچھ اچھا نہیں ہوتا وہ ایسے ہی ہوتے ہے میرا مقدر مجھ سے روٹھ گیا  زینیہ میرے سونے جاگنے ,کھانے  پینے ہر جزبے کی موت ہوگئ ہے "۔


اس کا لہجہ تھکا ہوا تھا جیسے وہ ایک طویل مسافت طے کر کے آئ ہو جو چھت پہ لگے لوہے کے گاڑڈڑ میں بنے گھونسلے کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہوۓ بولی۔


"زھرہ تو اتنی نا امیدی کی باتیں کیوں کرتی ہے یہ الّلہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے, بے شک مشکل کے بعد آسانی بھی یے "۔


زینیہ نے زھرہ کے چہرے کے گرد اپنے ہاتھ رکھتے ہوۓ اسے توجہ سے سمجھایا جو نم پلکوں کو اپنی ہتھیلی کی پشت سے رگڑ کے صاف کررہی تھی۔



"تم مجھے ایک ہفتے بعد ملی ہو اس دن کی خطرناک بات بتا کر کہا غائب ہوگئ تھی کیا سوچا ہے پھر ؟ تم۔نے تو مجھے اپنی قسم دے کر باندھ  دیا ہے ورنہ میں بھائ کو بتاتی وہ ضرور ہماری مدد کرتے "۔


زینیہ نے اسٹول پہ رکھے پھلوں میں سے موسمبی نکال کر چھیلنا شروع کردی جو وہ ایک ایک کر کے زبردستی زھرہ کو کھلانے لگی۔


"کچھ بھی نہیں ہوا ,ٹیسٹ کراکے پلٹ کے خبر ہی نہیں لی "۔


زھرہ نے ایک لمبی سانس لے کر زینیہ کی جانب دیکھا جو اپنی دوست کو دلاسہ بھی نہ دے سکی ۔


رپورٹ ٹھیک بھی ہو تب بھی مت کرنا یار میری ایک دوست بتارہی تھی کے جن لڑکیوں کے ُگردے نہیں ہوتے ان کے بچے مشکل سے ہوتے ہیں "۔


زینیہ کی بات سن کر کب سے خاموش لیٹی زھرہ کے لبوں کو مسکان ُچھوگئ "۔


زینیہ تُو تو بہت آگے تک پہنچ گئ  ہےمیری جان ,مجھ جیسی حالاتوں کا شکار لڑکیاں شادیاں نہیں کرتی ۔تو چھوڑ اس بات کو امی سن لے گی ,اب اگر آہی گئ ہے تو میرے بال سلجھادے بہت خراب ہورہے ہے "۔



 

Comments

Popular Posts