تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 7
"آپ نے جھوٹ کیوں کہا میم سے مجھے سچ بتاۓ آپ کہا لے کر جارہے ہے مجھے سر "۔
زھرہ کے دل میں ایک بار پھر بدگمانی کے بادل گھیرا کرنے لگے تھیں جب ہی وہ ایک بلند و بالابلڈنگ کے باہر کھڑا ہارن پر ہارن دے رہا تھا جسے سن کر چوکیدار نے دروازہ کھول دیا ۔
دروازہ کیا کُھلنا تھا ۔زھرہ کو ایسے لگا جیسے اس کی قست کا دروازہ بند ہوگیا تھا ۔جب ہی اسے زین العابدین کی آواز خیالوں کی دنیا سے واپس کھینچھ لائ ۔
"نیچے ُاترو جلدی "۔
وہ ُاس کی جانب کا دروازہ کھولے ُاسے باہر نکلنے کے لیے کہ رہا تھا جو ُاترنے سے انکاری تھی ۔
"میں نہیں ُاتروں گی سر آپ مجھے گھر چھوڑ کر آۓ "۔
وہ باہر پھیلے اندھیرے کو دیکھ کر خوفزدہ ہورہی تھی جو شاید لائٹ جانے کی وجہ سے ہورہا تھا ۔
"زھرہ تم سیدھے طریقے سے کوئ بات نہیں سنتی اب تم خود زمیدار ہو سب کی "۔
وہ ُاسے کلائ سے تھامتا ہوا موبائل فون کی ٹارچ آن کیےایک ہی جھٹکے میں گاڑی سے باہر نکال لایا جلد بازی میں ُاس کی چادر گاڑی میں اڑ کر زمین بوس ہوگئ تھی ۔وہی ُاس کے نازک پاؤ ں سے ایک جوتی بھی ُاتر گئ مگر وہ بِنا اس کی ُسنےاس کو کھِینچتے ہوۓ گھر کے اندر داخل ہوگیاجہاں زھرہ نے ُاس سے اپنے بازوں ُچھڑانے کی بہت کوشش کی تھی مگر ُاس کی سب کوششیں ناکام ہورہی تھی اسی کھینچا تانی میں زھرہ کا پاؤ ں اندھیرے میں کسی چیز میں اٹکا تھاجس سے وہ منہ کے بل نیچے گرتی پر زین العابدین نے اس کی کمر کے گرد بازوں حمائل کرکے اسے کھڑا کردیا , وہ ہاتھوں میں جو بھی چیزیں آتی جارہی تھی ۔انہیں تھام کر خود کو زین العابدین کی مضبوط پکڑ سے آزاد کرانا چاہتی تھی پر وہ بے بسی کے ساتھ ُاس کے ساتھ گھسیٹتی جارہی تھی جب ہی ُاس نے ُاسے ایک کمرے کا دروازہ کھول کر بیڈ پر پٹخ دیا جو ہانپنے لگی تھی پھر خود بھی ایک گہری سانس لی جو اس کے ساتھ اوپر تک آنے میں ہانپ گیاتھا۔جب ہی شاید جنریٹڑ آن ہونے کی وجہ سے پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا۔
زھرہ تیزی سے ُاٹھ کر بیڈ کے دوسری جانب بھاگی تھی وہی سائیڈ ٹیبل پر پڑے گُلدان کو ہاتھ میں تھام کر وہ ہیبت زدہ سی ہوئ اس کی جانب گلدان ُاٹھاۓ کھڑی تھی۔
"میں آپ کوبتارہی ہوں مجھے اپنی امی کی قسم ہے اگر آپ میرے نزدیک بھی آۓ نہ تومیں خود کو ختم کردوں گی ۔"۔
اس وقت اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھی اپنی نسوانیت اپنی عزت و نفس کو بچانے کے لیے وہ مرنے مرانے پہ تلی ہوئ تھی۔زین العابدین نے ُاس کی جانب دیکھا جس نے رو رو کر اپنی غزالی آنکھیں ُسوجالی تھی, خوف سے ُاس کے ہونٹ کپکپارہے تھے , گھنے بال چہرے کے گرد بکھر گۓ تھیں سر کے اوپر ہما وقت سلیقے سے اوڑھا ہوا ڈوپٹہ ندارد تھا وہ مکمل بھیگی ہوئ ُ کسی بھی انسان کے لیے ایک امتحان سے کم۔نہ تھی زین العابدین جیسا مضبوط کردار کے مالک کے بھی قدم دگمگاۓ تھے اسے اس روپ میں دیکھ کر جو اپنے نفس کے گھوڑوں پر ہمیشہ لگام ڈالیں رکھتا تھاپر اس لمحے سارے مضبوط ارادے جیسے ڈانواں ڈول ہوۓ تھے مگر زھرہ کے زہر میں بجھے ہوۓ لفظوں نے فسوں خیز سحر توڑدیا۔
"واٹ ربش !!تم مجھے اتنا گِرا ہوا سمجھتی ہو کے میں تمہارے ساتھ زبردستی کروں گا؟۔
اس نے بگڑتے تیوروں سے کہا۔
"میں تمہیں یہاں صرف تھوڑی دیر کے لیے لایا ہوں تمہارے پاس صرف دس منٹ ہے باہر مولوی صاحب آرہے ہے تمہیں میرے ساتھ وقتی طور پہ یہ شادی کرنی ہے جب تک میں اشہد عزیز کا معاملہ ٹھیک نہیں کردیتا ۔کیوں کے ِاس کے علاوہ میرے پاس کوئ دوسرا راستہ نہیں ہے!! جسیے ہی ماحول سازگار ہوگےمیں تمہیں خود طلاق دے دوں گا ۔اب فیصلہ تمہیں کرنا ہے میں تمہاری وجہ سے کوئ بھی اسکینڈل نہیں چاہتا "۔
زھرہ سر کو داۓ باۓ ہلاتے ہوۓ پیچھے کی جانب ہوتی جارہی تھی ۔ جہاں شو پیس ٹوٹنے کی وجہ کانچ کے ٹکڑیں بکھرے پڑے تھیں۔جن پہ زھرہ نے اپنا پاؤں رکھ دیا ۔ مگر وہ چیخی نہیں ,کیوں کے ُاس تکلیف سے کہی گُنازیادہ یہ تکلیف تھی ۔جس کے لیے وہ ِچلا بھی نہیں پارہی تھی ۔
"مجھے کوئ شادی نہیں کرنی پلیز مجھے گھر جانے دو مجھے معاف کردے آپ سب میں سب سے معافی مانگ لوں گی پر پلیز مجھے زندہ درگور مت کرے میں آپ کی پائ پائ ُچکادوں گی پر مجھے گھر جانے دے "۔
زھرہ اپنی تکلیف سے بے نیاز ننگے پاؤں کھڑی زین العابدین کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑیں اس سے التجاء کررہی تھی جو اس کی نہ ُسن کر ایک بار پھر سے اشتعال میں آگیا۔
"میں نہیں کروں گی آپ سے نکاح سنا آپ نے میں کبھی بھی نہیں کروں گی "۔
اس کے قریب آنے پر اس کی جھیل سی آنکھوں میں اب غصے کی جگہ خوف امڈ۔آنے لگا جس پر اس کے آنسوؤں کا کوئ اثر نہیں ہورہاتھا وہ خود میں ہمت پیدا کرتی ہوئ زین العابدین پر چڑ پڑھی جو اس کے نزدیک آگیا تھا, وہ اپنے ناخنوں سے اس کے چہرے پر کافی خراشیں مار,چکی تھی جو اس اچانک افتاد کے لیے بلکل تیار نہیں تھا اپنا بچاؤ نہ کرسکا پھر ایک جھٹکے سے اسے دور کرتے ہوۓ اپنے بال درست کرنے لگا۔
"کرنی تو پڑے گی تمہیں وہ بھی ہر صورت میں اگر نہیں کرو گی تو پھر بھی میرے پاس بِنا شادی کے رہو گی جب تک وہ خبیث کو میں کہی ٹکھانے نہیں لگادیتا,کیوں کے میں اب کوئ رُسک نہیں لے سکتا اب یہ تم پر منحصر ہےاپنی انا زیادہ عزیز ہے یا عزت ,فیصلہ کرلو اگلے پانچ منٹ بعد مولوی صاحب اندر آۓ گے جواب ہاں میں ہونا چاییے "۔
وہ ہانپتی کانپتی ہوئ زھرہ کو دیکھ کر جو آنے والے وقت سے وحشت زدہ سی چہرہ گھٹنوں پہ رکھے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اس نے اپنے فیصلے پر مہر ثبت کی پھر کچھ ہی دیر میں ایک ملازمہ اندر سفید چادر لے کر داخل ہوئ جس نے ا س کا سر ڈھک دیا ۔
زھرہ نےاپنی زندگی کا ایک اور کڑا امتحان سمجھ کر اپنی انا کا گلا گھونٹ کےاپنی عزت کا پرچم لہرادیا یوں کچھ ہی دیر میں وہ زھرہ خان سے زھرہ زین العابدین بن گئ۔جو اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
۞۞۞۞۞۞
"وہ نکاح کے فوراً بعد کمرے میں داخل ُہوا۔ ُجہاں زھرہ صوفے پہ بیٹھی گھٹنوں پہ سر گِراۓ بے آواز رورہی تھی زین العابدین نے بِکھری ہوئ زھرہ کو دیکھا جس کی حالت بہت خراب ہورہی تھی جگہ جگہ پیروں سے خون رس رہاتھا اسے ِاس وقت شایداپنا بھی ہوش نہ تھاوہ کمرے میں رکھے سنگھار میز کے دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکال لایا۔
"زھرہ "۔زین العابدین نے اسے پکارا جو گھٹنوں میں سر دیۓ سسک رہی تھی۔
16x
جب وہ تمہارے پاس کوچنگ آیا تھا تو ُاس نے مجھے بھی ویڈیوں کال ملائ تھی لبِ لباب یہ ہے کے دھمکی دی ہے ُاس نے ہمیں اگر میں اکیلا ہوتا تو وہ میرا کچھ نہیں ِبگاڑسکتا تھا مگر مسئلہ سارا تمہارا تھا وہ تمہارے ذریعے مجھے ٹھریٹ کررہا تھا۔ایسی صورت میں میرے پاس ِاس کے علاوہ کوئ آپشن نہیں تھا"۔
اس کے لہجے میں اس وقت بے بسی ہی بے بسی تھی۔
"تو کس نے کہا تھا آپ مجھے اپنا مسئلہ بناتے,کیا کرلیتا وہ۔میرے ساتھ جو آپ کو تھریٹ کررہاتھا آپ میرے کوئ گارڈین نہیں تھے جس سے آپ کو کوئ مسئلہ ہوتا ,زیادہ سے زیادہ ماردیتا,یا مجھے زیادتی کا شکار بناتا آپ کو اس سے کیا تھا,میں فالتوں کی ہوں نا میرے سر 17
پہ کسی مرد کا ہاتھ نہیں ہے تو کیا میں فالتوں کی شہ ہوں جسے جب چاہا جیسے چاہا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلیا "۔
وہ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑی تھی ناگواری اور خود ترسی نے اسے ہسٹڑیکل بنادیاتھا۔
"زھرہ میں اس وقت تمہارے کسی بھی سوال کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ میں وقت کے ساتھ ساتھ تمہارے ہر سوال کا جواب ضرور دوں گا "۔
وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ لیے آنے والے وقت کا سوچ کر گہری سوچ میں گم ہوگئ تھی کے اسے زین العابدین کا اپنا زخمی پاؤں پکڑنے کی بھی خبر نہ ہوئ اس کا جیسے ہی ارتکاز ٹوٹا اس نے اپنا نازک پاؤں کھینچھنے کی کوشش کی ۔
مگر ُاس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت کے آگے وہ ایک بار پھرسے بے بس ہوئ تھی جو بے نیاز بنا ُاس کے پاؤں کو اپنے گھٹنے پر رکھے روئ اور ڈیٹول کی مدد سے صاف کررہاتھا ۔ساتھ ساتھ اس فیصلے کو لینے کی وجہ بھی ُاس کے گوش گزار کررہاتھا ۔
"ہمیں کچھ وقت کے لیے اس رشتے کو بر قرار رکھنا پڑے گا ۔اس دوران تم اور میں جیسے پہلے تھیں ویسے ہی رہے گے مگر سیکیورٹی کو لے کر تم مجھ سے کوئ بھی آرگیو نہیں کرو گی "۔
وہ دھیمے انداز میں اپنی طبیعت کے برخلاف جاکر ُاس سے بات کررہاتھا شاید اسے زھرہ کی بکھری ہوئ حالت دیکھ کر اس پہ رحم آگیا تھا وہ انہماک سا اس کے پاؤں کی بینڈج کر کے ُاسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ دے کر چلا گیا, جو نقاہت زدہ سی لڑکھڑاتے ہوۓ قدموں کے ساتھ ِاس محل نما کمرے میں سے باہر نکل آئ جہاں خالی ہال میں زین العابدین کھڑا شاید ُاس کا انتظار کررہاتھا جو اسے بنا جوتی کے دیکھ کر تعجب کا شکار ہوا۔
"تمہارے شُوز کہا ہے "۔
زین العابدین نے ُاس کے نازک پیروں کی جانب دیکھا جو ُاس کی وجہ سے جگہ جگہ سے ِچھل ُچھکے تھیں ۔اس کی جانب سے کوئ جواب نا پاکر وہ اپنے ملازمہ کو آوازیں دینے لگا۔
"جلدی سے میری کوئ سلیپر لے کے آؤ "۔
"جی صاحب "۔
وہ بوتل کۓجن کی طرح ُاس کے سلیپر لے آئ جنہیں زھرہ نے بِنا چوں چراں کیے پہن لیاوہ جیسے ہی باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی مگر پاؤں کی ُسوجن نے ُاسے لڑکھڑانے پہ مجبور کردیا , زین العابدین جو ُاس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا دو قدم کے فاصلے پہ کھڑی زھرہ کا ہاتھ تھام۔کر باہر کی جانب چلنے لگا مگر وہ مزاحمت کررہی تھی اس نے اپنا ہاتھ آزاد کرانے کے لیے۔
"بے وقوفی مت کرو زھرہ نہیں تو گرجاؤ گی !!جانتا ہوں !تمہیں ِاس کی ضرورت نہیں میں صرف تمہارا ساتھ دے رہاہوں,کیوں کے تمہیں یہ چوٹ میری وجہ سے لگی ہے "۔
وہ اکھڑ انداز میں گھرک کر اسے لے جانے لگ,جو بے بسی کی انتہاء پہ تھی صبرو آزمائش کااس وقت کڑا امتحان تھا وہ اس کے شکنجے سے نکلنا چاہتی تھی مگر کوئ راستہ نظر نہیں آرہاتھا ہر راستہ مسدود تھا جب ہی وہ اس کے پیچھے خاموشی سے ہولی,جو ڈڑائیور کے ساتھ اسے ُاس کے گھر چھوڑنے جارہاتھا ڈڑائیور نے جسیے ہی گاڑی زھرہ کے دروازے کے آگے روکی زین العابدین گاڑی سے باہر نکل آیا۔
"میں چلی جاؤں گی آپ واپس جاۓ "۔
وہ سرد انداز میں پھنکارتی ہوئ گاڑی سے اترنے لگی مگر زین العابدین نے ُاس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوۓ اس کا ہاتھ تھام لیا جسے زھرہ نےچھڑانے کی کوشش مگر ہر بار کی طرح وہ ُاس کی مضبوط گرفت میں شکست کھاگئی ۔
زین العابدین اس کا نازک ہاتھ اپنے مضبوط شکنجے میں لیے بوسیدہ سے لکڑی کے دروازےکو بجانے لگا جہاں زھرہ کی امی جو جوان بیٹی کے گھر نہ ہونے کی وجہ سے شاید نزدیک ہی بیٹھی تھی فوراً دروازہ کھول کے باہر نکل آئ پر زھرہ کا ہاتھ ایک اجنبی کے ہاتھ میں دیکھ کر ان کے دل میں ُبُرے ُبرے سے خیالات آنے لگے جنہیں زین العابدین کی آواز نے جھٹک دیا۔
"آنٹی میں زین العابدین ہوں ان کے آفس میں ساتھ ہوتا ہوں بارش کی وجہ سے بہت زیادہ ِپھسلن تھی جس کی وجہ سے مِس خان کو تھوڑی چوٹ آئ ہے باقی تفصیل میں آپ کو اندر آکر دوں گا "۔
اس نے بے زاری سے دروازے میں کھڑی عورت کو دیکھا جو روشنی کم ہونے کی وجہ سے ُاسے ٹھیک سے ِدکھ نہیں رہی تھی پر زھرہ کی حالت دیکھتے ہوۓ وہ ہٹ دھرموں کی طرح اسے لیے خود ہی اندر داخل ہوگیا ۔
"چھوڑے میرا ہاتھ امی لے جاۓ گی مجھے "۔
وہ دبی ہوئ آواز میں غراتے ہوۓ بولی ,جو زین العابدین کے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ نکالنے کے لیے مسلسل زور آزمائ کررہی تھی ۔
"میں نے تم سے مشورہ نہیں مانگا ,کیوں اپنی طاقت آزماتی ہو جب معلوم ہے کے تم کچھ نہیں کر سکتی جب تک میں نہ چاہوں "۔
وہ دھیمے انداز میں بولتے ہوۓ اسےفوزیہ کے پیچھے لے جانے لگا جو صحن کو پار کرتی ہوئ ایک کشادہ سے کمرے میں داخل ہوئ تھی جہاں ہرسو اندھیرہ ہی اندھیرہ۔تھا۔
"بیٹا یہاں تک چھوڑدو پھر میں ِاسے بٹھادوں گی۔ "۔
فوزیہ نے موم بتی کی روشنی میں ِاس نوجوان کو دیکھا جو ُاسے کسی اپنے کی شدت سے یاد ِدلاگیا تھا وہ سکتے میں کھڑی یہ تک بھول گئ تھی کے زھرہ کو سہارا دے کر انہیں ِبٹھانا تھا زین العابدین نے جب فوزیہ بیگم کو خود کو اس طرح سے ٹکٹکی باندھے دیکھاتو ُاس نے زھرہ کی جانب اپنی نگاہ کی جس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایا ہونے لگے تھے وہ بے خوفی سے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیتے ہوۓ چارپائ پر بٹھانے لگا جو فوزیہ کے نزدیک کھڑے ہونے کی وجہ سے ِبنا اس سے الجھے خاموشی سے بیٹھ گئ ۔
"آنٹی میں نے ڈڑائیور سے کہ کر دوائیاں منگوادی ہے وہ انہیں دے دیجیۓ گا میں چلتا ہوں "۔
زین العابدین نے فوزیہ کی جانب ُرخ کر کے احتراماً انہیں کہا۔
"بیٹے ایسے کیسے جاؤ گے ابھی تو آپ آۓ ہو اور وہ دیکھوں بارش تیز ہوگئ ہے آپ صحن سے جاؤ گے تو بھیگ جاؤ گے ذرا ہلکی ہوجاۓ پھر چلے جانا جب تک میں چاۓ بناتی ہو "۔
فوزیہ کو ایک دم سے جیسے ہوش آیا تھا وہ مہمان نوازی کے تکازے پورے کرنے کے لیے زین العابدین کو روکنے لگی جو جانے کے لیے پر تول رہا تھا۔
"نہیں آنٹی اس کی ضرورت نہیں میں بس ِنکلوں گا "۔
اس نے باہر برستی تیز بارش کو دیکھتے ہوۓ کہا ۔
"بیٹے میں نے آپ سے کہا نہ ابھی آپ ویسے بھی نہیں جاسکتے باہر بارش ہورہی ہے آپ یہاں بیٹھے میں بس دو منٹ میں چاۓ لائ "۔
فوزیہ نے کمرے میں رکھے اکلوتے پلاسٹک کے ِاسٹول کو زین العابدین کی جانب بڑھایاجو اس پر خاموشی سے بیٹھ گیا ۔
"آنٹی آپ کے گھر میں کوئ مرد نظر نہیں آرہا "۔
اس کی سماعت میں زھرہ کی کہی ہوئ بات گونجی تھی ,میرے سر پہ کسی مرد کا ہاتھ نہیں "۔اس نے کمرے کے اندر ہی لگے فرش پر چولہے کے نزدیک بیٹھی فوزیہ کو دیکھا جو چونکی پر بیٹھی چولہے پر چاۓ چڑھارہی تھی ۔
"بیٹے میں اوز زھرہ یہاں اکیلے رہتے ہیں اس کے بابا کا انتقال اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہوگیا تھا "۔
فوزیہ نے قہوے میں دودھ ملاتے ہوۓ دھیمی آواز میں کہا جو ان کی بات سن کر افسردہ سا ہوگیاتھا ۔
"افسوس ہوا بہت سن کر "۔
وہ کمرے میں پڑی چیزوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے لگا جہاں کمرے میں ایک چارپائ اور اسٹول کے علاوہ صرف دو صندوق پڑے تھیں جن پر سفید چادر ڈال کر برتن رکھے گۓ تھے یہ پورا کمرہ ہی زھرہ کی غربت کی ِچیخ چیخ کر داستان سنا رہاتھا جب ہی زین العابدین کو ایسا محسوس ہوا جیسے ُاس کےسر پر پانی کے قطرے گر رہے تھیں اس نے سر ُاٹھا کر اوپر کی جانب دیکھا جہاں لوہے کے گاڑڈر ڈلی چھت سے شاید بارش کا پانی ٹپک رہا تھا وہ ایک دم سے کھڑا ہوگیاچاۓ لاتی ہوئ فوزیہ زین العابدین کی جانب چونک کر دیکھنے لگی۔
"کیا ُہوا بیٹے؟ "۔
زین العابدین ان کے اس قدر شفقت بھرے انداز پر سخت پشیمانی کا شکار ہورہا تھا ُاس کی سماعت میں زھرہ کی آوازیں گونج رہی تھی جب وہ ُاس سے ایڈوانس کے پیسے مانگ رہی تھی اسے آج ُاس لڑکی کا بس اسٹاپ سے پیدل آفس آنے کی وجہ سمجھ آرہی تھی وہ اپنے دل کو مسوس کر رہ گیاتھا اس قدر سفید پوشی پر۔
"وہ آنٹی پانی ٹپک رہاتھا چھت سے"۔
زین العابدین نے اوپر کی جانب اشارہ کیا ۔
"وہ بیٹے بارش ہورہی ہے نہ اسی لیے اب انشاءاللہ جلد ہی زھرہ کو کہوں گی کے سب سے پہلے اس چھت کا کچھ کرے ۔اس بار میری بچی نے اپنے سارے پیسے میرے علاج پر لگادیے بس اسی لیے خیر آپ اس جانب بیٹھ جاۓ"۔
فوزیہ نے زین العابدین کاِاسٹول ُاٹھا کر زھرہ کی چارپائ کے نزدیک رکھ دیاجو شاید گہری نیند میں چلی گئ تھی جب ہی چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ زین العابدین نے سرسری سی نظر زھرہ پر ڈالی جس کی بند پلکوں میں جنبش ہوئ تھی ۔ُاس نے غور کیا تو جہاں زھرہ کی چارپائ تھی اب وہاں سے پانی ُاس کے چہرے پر ٹپک رہاتھا اس کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا دل کسی نے ُمٹھی میں پکڑ کر جکڑ لیا ہو وہ اپنے دل سے گھبرا کر ایک دم۔سے کھڑا ہوگیا ۔
"آنٹی ِمس خان پر بھی پانی آرہاہے"۔
زین العابدین نے فوزیہ کو مخاطب کیا جو سیمنٹ کے بنے فرش پر چونکی رکھے بیٹھی تھی۔
"ہاں بیٹے آج تو یہ پانی زیادہ تنگ کررہاہے ,بارش بھی تو بہت ہوئ ہے۔کوئ بات نہیں آپ کو پریشانی تو ہوگی پر کیا آپ ذرا ہاتھ لگوادیتے ہے تو یہ چرپائ آگے کو سرکادیتے,میرا آپریشن ُہوا ہے دل کا تو میں وزن نہیں ُاٹھا سکتی "۔
فوزیہ کی بات سن کر زین اس نے چاۓ کا کپ صندوق پر رکھا پھر فوراً چرپائ کو دوسر ی جانب آرام سے کھینچ کر دیوار کے نزدیک کرگیا جہاں سے پانی نہیں ٹپک رہا تھا۔
"بیٹے تم بھی سوچتے ہوگے میں کہا آگیا ,میری بیٹی کے آفس سے آج پہلی بار کوئ آیا ہے اور اسے بھی اتنی پریشانی ہوگئ ہماری وجہ سے "۔
فوزیہ نے سر پر ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوۓ کہا ۔
"نہیں آنٹی ایسی کوئ بات نہیں مجھے کوئ مسئلہ نہیں ہوا بلکہ مجھے بہت اچھا لگا یہاں آکر آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے ضرور بتائیے گا بلکہ ِاس نمبر پر کال کرلیجیے گا "۔
زین العابدین نے اپنی پینٹ کی جیب سے ایک ویزیٹنگ کاڑڈ نکال کر فوزیہ کی جانب بڑھا دیا۔
"بیٹے بہت۔شکریہ آپ نے ِاس مصیبت کی گھڑی میں ہماری اتنی مدد کی اللّہ آپ کا بھلا کرے"۔
فوزیہ نے کاڑڈ تھامتے ہوۓکمرے سے باہر جانے کے لیےجیسے ہی قدم بڑھاۓ ,مسسز ڈیسوزا دروازے کی دہلیز پہ آکر کھڑی ہوگئ ۔جس پر دونوں نے اس سمت دیکھا جو راستہ روکے کھڑی تھی ۔
"اے فوزیہ تمہاری بیٹی کے پیچھے اب غیر مرد بھی میرے گھر میں آدھی آدھی رات کو آئیں گے "۔
مسسز ڈیسوزا نے فوزیہ کے پیچھے کھڑے نوجوان کو دیکھ کر کہا جوماتھے پر تیوری چڑھاۓ اسے دیکھ رہاتھا ۔
"نہیں باجی میری زھرہ گِر گئ تھی تو یہ بچہ اس کے آفس میں ساتھ کام کرتا ہے اسے چھوڑنے آگیاتھا"۔
فوزیہ کوزین العابدین کے سامنے سخت شرمندگی نے گھِیرلیا جو اپنی مٹھیوں کو بھِینچھے ہوۓ اپنے غصے کو قابوں کرنے کی کوشش کررہاتھا۔
"اچھا گری تھی تو کیا ُہوا غیر مرد کو گھر میں لے آؤ گی تمہیں تو خیال نہیں ہے پر میری دو دو بیٹیاں ہے اب میں کسی کو ایسے منہ ُاٹھا کر اندر آتے ہوۓ نہ دیکھوں ,اور بی بی تمہاری بیٹی کہا ہے منہ اندھیرے نکِل جاتی ہے واپس ہمارے سونے کے بعد آتی ہے تاکہ میں اس سے کرایا نہ مانگ سکوں ابھی تو پچھلا کرایا اتنی مشکل سے اتارا ہے اب تم لوگ ایک اور کھاتا کھول کر بیٹھ گئ ہو۔صبح اپنی بیٹی سے کہنا مجھ سے مل کر جاۓ۔ورنہ بندوبست کرلو اپنے لیے گھر کا "۔
یہ کہ کر وہ اپنی چھڑی پکڑیے غیص و غضب میں واپس چلی گئ۔
"بیٹے مجھے معاف کردو یہ ہماری گھر کی مالک مکان ہے یہ بس ہم سے ایسے ہی بات کرتی ہے آپ ان کی باتوں کا ُبرا مت منانا "۔
زین العابدین نے فوزیہ کی جانب دیکھا جن کے چہرے پر شرمندگی چھائ ہوئ تھی۔اس نے ماتھے کی سلوٹوں کو کم۔کر کے ان کی جانب اپنا سر ُجھکایا۔
"ْآنٹی آپ کو شرمندہ ہونے کی بلکل ضرورت نہیں بلکہ اپنی بیٹی سے بھی اس سب کا زکر مت کیجیے گا۔میں آپ کے بیٹے جیسا ہوں ۔آپ ان کا دیھان رکھیے گا کوئ بھی ضرورت ہو تو مجھے کال ضڔور کیجیے گا ,اب یقین مانیے گا مجھے
بہت اچھا لگے گا آپ کے کام کرکے بشرطیکہ یہ راز ہم دونوں ماں بیٹے کا ہوگا ان کا نہیں "۔
17x
زین العابدین نے اپنے نزدیک کھڑی فوزیہ کا ہاتھ عقیدت سے تھامتے ہوۓ زھرہ کی جانب اشارہ کر کے بات کو ہلکے ُپھلکے انداز میں کہا تھا۔ تاکہ فوزیہ جو مسسز ڈیسوزا کی باتوں پہ دلگرفتہ ہوگئ تھی وہ اس بات کو بھول جاۓ جو شاید مشکل تھا ۔وہ اپنی بات مکمل کرکے بستر پر لیٹی زھرہ کو دیکھتا ُہوا باہر کی جانب نکل گیا۔
18
مگر وہ ایک عجیب سی بے چینی کا شکار ہوگیا تھا اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اپنی سب سے قیمتی چیز وہی چھوڑ آیا ہو مگر وہ کیا چیز تھی جسے وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا ۔
۞۞۞۞۞۞۞
ماضی:-
"باز نہیں آؤگی نہ تم یہاں آنے سے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بظاہر عظیم کاؤنٹر کے ساتھ کمر ٹکاۓ ہوۓ سامنے بار میں موجود لوگوں کو دیکھتے ہوۓ فیا سے بولا ۔
"اپنے کام سے کام رکھوں جاؤ یہاں سے مجھے کام کرنے دو "۔۔۔۔۔۔
شوکت نے اس کی ڈیوٹی ایک لڑکی کی جگہ آج ویٹڑیس کی لگادی تھی جب ہی وہ ٹڑے میں گلاس رکھتے ہوۓ تنک کر بولی۔
"سنو فِیا میں تمہیں دوبارہ نہیں کہوں گا مگر میری بات کو سمجھوں !جاؤ یہاں سے ورنہ انجام کی ذمیدار تم ہوگی"۔
عظیم نے چہرے کا ُرخ اس کی جانب موڑ کے پتھریلاانداز اپناتے ہوۓ اسے غرا کر کہا۔فِیا کو اس کے چہرے پہ چھائ سنجیدگی دیکھ کر ایک خوف سا محسوس ُہوا ۔
"Hey zeem lets go".
فِیا نے ڈاڑک بنگلوں کی ورکر کو دیکھا جو میک اپ سے لتھڑی ہوئ نازیبا لباس میں ملبوس ہوۓ عظیم کے گِرد اپنے بازوں حمائل کیے اسے ساتھ چلنے کو کہ رہی تھی جسے دیکھ کر ِفیا پاؤں پٹختی ہوئ ایک ٹیبل کی جانب بڑھ گئ اس کے جاتے ہی عظیم نے بے زاری سے ُاس لڑکی کو پیچھے کی جانب جھٹکا دیا ۔
"یہ لڑکی میرے ہاتھ سے ضائع ہوگی "۔
اس نے سگریٹ کو ُسلگھاتے ہوۓ فِیا کی جانب دیکھا جو اب ایک ایسے ٹیبل کی جانب بڑھ رہی تھی جہاں بیٹھے لوگوں کی اکثریت ڈاڑک بنگلوں کے ریگولر کسٹمرز میں سے تھی ۔جب ہی ان میں سے ایک آدمی نے فِیا کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی جو سب کو نجس مشروب سرو کررہی تھی دور کھڑاعظیم آنکھوں میں سرخ دوڑے لیے غیض و غضب میں سگریٹ پھونکتا ہوا اسے دیکھ رہاتھا جب ہی ُاس آدمی نے ِفیا کو ایک بازوں سے تھام کر ٹیبل کے گِرد بیٹھیں اپنے دوستوں سے کچھ کہا جس پر سب نے بے ہنگم جاہلانہ قہقے لگاۓ۔
No Azeem CONTROL ...
عظیم کے کان میں لگے آلے سے آواز آئ جو شاید ُاسے غصے میں خود پر قابوں کرتے ہوۓ دیکھ رہاتھا جب ہی وہ اس آتش فِشاہ کو ُابلنے سے روکنا چاہتا تھا ,ورنہ ان کا سارا کام بگڑ جاتا ۔
"شوکت اگر تو چاہتا ہے کے یہ بار صحیح سلامت رہے تو ُاس لڑکی کو وہاں سے ہٹادے ورنہ جو میں کروں گا وہ تیرے مالک کو پسند نہیں آۓ گا "۔
عظیم نے کاؤنٹڑ کے نزدیک کھڑے شوکت کو گریبان سے دبوچ کر غرا کے کہا جو ہونقوں کی طرح اس بپھرے ہوۓ شیر کو دیکھا۔
"پر عظیم یہ تو یہاں کے لیےعام سی بات ہے ِاس میں کیا ہوگیا "۔
شوکت نے ہکلا کےپچھلے ٹیبل کی جانب دیکھا جہاں ِفیا ُاس اطالوی آدمی سےاپنا ہاتھ آزاد کرانے کے لیے زور آمائ کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔
"عام بات نہیں ہے سمجھے وہ مجھے پسند ہے ,اور میری پسند کوئ عام نہیں ہوتی جاؤ یہاں سے اور اسے ہٹاؤ "۔
عظیم۔نے شوکت کو اس ٹیبل کی سمت دھکیلا۔
"ِفیا چلو یہاں سے اور کسٹمرز کو بھی دینا ہے ,سیم اس کا ہاتھ چھوڑدو ہمیں بہت کام ہے "۔
شوکت نے سیم کی جانب دیکھ کر اسے درخواست کی جو یہاں کا بہت ُپرانا کسٹمر تھا ۔
"تم۔کسی اور کو بھیج دو شوکی اسے میں لے کر جاؤں گا آج "۔
اطالوی کے آرام۔سے کہنے پر سہمی خوف زدہ سی فیا کو اپنی عزت و آبرو خطرے میں پڑتی نظر آرہی تھی وہ جلاد صفت آدمی اس کا ہاتھ اپنے شکنجے میں لیے کھڑا ہوگیا ۔
"سیم تم جو لڑکی کہوگے میں لادوں گا پر اسے جانے دو آؤ ِفیا"۔
وہ سیم کے ہاتھ سے ِفیا کا ہاتھ آزاد کرانے لگا پر ُاس کا ایک ُمکا شوکت کو برابر میں رکھے ٹیبل پر گراگیا ۔
let go baby, have some fun
وہ فِیا کو کھینچتے ہوۓ اوپر کی جانب لے جانے لگا جو خود کو اس سے آزاد کرانے کی مسلسل کوشش کررہی تھی۔
"چھوڑو مجھے میں کہتی ہوں ورنہ میں تمہارا قتل کردوں گی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی جھیل سی آنکھوں میں آنسوں آنے لگے تھے ,غصے کی جگہ خوف نے بسیرا کرلیا تھا وہ مسلسل ادھر ادھر اپنی نظریں دوڑارہی تھی تاکہ کسی چیز کو ہتھیار بنا کر وہ اس اطالوی کے خلاف استعمال کرسکے اور اپنی نسوانیت ,اور وزت نفس کو بچاسکے ,
و ہ اسے لِفٹ کی سمت لے جانے لگا جب ہی ُاس اطالوی دیو قامت آدمی کا کسی نے شانہ ہلایا جس پر ُاس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا جہاں ایک نوجوان منہ پہ رومال باندھیے کھڑا تھا ۔
"Hey man whats wrong with ".
اس کی بات مکمل۔ہونے سے پہلے ہی ُاس کے منہ پر ایک زوردار مکا پڑا جس سے وہ ہلا تو نہیں مگر ُاس کے ہونٹ کے نزدیک سے خون بہنے لگا۔
you wanna fight with me ...



Comments
Post a Comment