تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 6

 



ARAZ RESHAB NOVELS

Dont copy paste without my permission kindly.


زھرہ ونیزہ بلال سے میٹنگ کرنے کے بعد آفس آنے کے بجاۓ سیدھا کوچنگ سینٹڑ کے لیے چلی گئ تھی کیوں کے ونیزہ بلال نے ُسپر ماڈل ہونے کی وجہ سے اسے باہر ویٹنگ روم میں بہت زیادہ انتظار کرایا تھا وہ میٹنگ کے کامیاب ہونے پر ہمنہ تنویر کو ماڈل کے مان جانے کا بتا کر اپنی کلاس میں داخل ہوگئ جہاں ُاسے پڑھاتے ہوۓ ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں ُہوا تھاجب ہی تین نقاب پوش کوچنگ سینٹڑ کے اندر داخل ہوگۓ جنہوں نے زھرہ کی کلاس میں پڑی چیزوں کو توڑنا شروع کردیا اس سے پہلےکلاس کے بچے باہر کی جانب بھاگنے لگتےدروازے کو اندر کی جانب سے بند کیے ایک نقاب پوش وہی کھڑا ہوگیاجو اندر کی ویڈیوں اپنے موبائل سے بنا کر کسی سےلائیو شئیرکرنے لگا, زھرہ منہ پہ ہاتھ رکھے کوچنگ کے باقی اسٹاف کے ساتھ کھڑی خوف و ہراس کا شکار ہورہی تھی تب ہی ایک نقاب پوش زھرہ کی جانب بڑھا جو ُاس کے قریب آنے پر ایک قدم پیچھے ہوگئ تھی وہ ہاتھ میں پِسٹل تھامے زھرہ کے گِرد چکر لگارہا تھا  ُاس نے اپنی پِسٹل کی نالی زھرہ کے ُرخصار پر رکھی ۔


"بہت سے بھی زیادہ خوبصورت ہو تم پر "۔۔۔۔۔۔

وہ نقاب پوش زھرہ کے گرد چکر لگاتے ہوۓ ُاسے سر سے پاؤں تک دیکھ رہاتھا ۔


"دیکھے آپ لوگ کون ہے اور پیچھے ہوکر بات کرے ہمارے ِاسٹاف سے "۔

نرگس خالا کے بیٹے جمال نے آگے ہوکر ُاس نقاب پوش کو زھرہ سے پیچھے ہونے کے لیے کہا جس پر ُاس نے اپنی ِپسٹل سے جمال کے سر پر زور دار طریقے سے مارا کے وہ تڑپ کر پیچھے کی جانب گِرا ۔

زھرہ ِچلا کر اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے خوف سے تھر تھرکانپ رہی تھی جب ہی وہ اپنا تھوڑا سا نقاب سرکا کر زھرہ کی جانب دیکھنے لگا جو ُاسے ایک آنکھ جھپکاکر ُالٹے قدم پیچھے جانے لگا ۔


"دو دن ہے تم دونوں کے پاس, بس دو دن پھر ُبوم "۔۔۔۔۔۔

وہ ُاس کی جانب اشارہ کرتے ُہوۓ فلک شگاف قہقے لگا کے ہسنے لگا۔


۔ہاہاہاہاہاہاہا"۔

زھرہ ُاس انسان کو دیکھ کر گویا اپنی قوتِ سمات کھوچکی تھی وہ پتھر کی بنی ُہوئی اشہد عزیز کی دھمکی ُسن رہی تھی۔جو اسے دو دن کا وقت دے کر گیاتھا۔

                                       ۞۞۞۞۞۞


 ,وہ ِاس وقت یوشع کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا اپنے گھر کی طرف جارہاتھاجب ہی ُاس کےموبائل پر نۓ نمبر سے ویڈیوں کال آنے لگی جسےدیکھ کر ُاس نے کال ُ اٹھالی, ویڈیوں دیکھ کر زین العابدین نے اپنے ُگھٹنے پر رکھے ہاتھ کی ُمٹھی کو زور سے بھینچھا۔


"کیا ُہوا یوشع کیا ہے موبائل میں "۔

گاڑی چلاتے ہوۓ یوشع نے زین العابدین کے چہرے پر ان ِگنت ِشکنوں کے جال دیکھ کر ُاس سے پوچھا جو غائب دماغی سے ویڈیوں کو دیکھ رہاتھا۔


"دِکھا مجھے کیا ہے ِاس میں "۔



یوشع نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوۓ ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھالے زین العابدین کے ہاتھ سے فون لینا چاہا جس پر ُاس نے فون کا ُرخ یوشع کی جانب کردیا جس میں تین نقاب پوش زھرہ کے گِرد گھیرا کیے کھڑے تھیں اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ اشہد عزیز کو ُالٹا لٹکا کر کہی ماردے کیوں کے ُاس کے علاوہ ایسی اوچھی حرکت کوئی نہیں کرسکتا تھا۔




جو مِس خان کی ویڈیوں بنا کر ُاسے بھیجتا, جب ہی اسے ُاس نمبر سے کال آنے لگی ۔یوشع نے زین العابدین کا شانہ تھپتھپایا ُاس نے اپنے دانتوں کو  کریچتے ہوۓ فون ُاٹھایا


"جہاں بھی تم جاتے ہو وہی چلے آتے ہے چوری چوری میرا دل میں سماتے ہے یہ تو بتاؤ کےتم میرے کون ہو "۔


اشہد عزیز کی گانا گاتے ہوۓ آواز اسپیکر پر ُابھری جسے ُسن کر اس نے اپنے اندر جلتے بھانبڑ کو قابو میں کرنے کی کوشش کی اور تنک کر بولا ۔


"تیرا باپ"۔اور کچھ پوچھنا ہے تو بتاؤں"۔۔۔۔۔


ہاہاہاہاہا۔

اس کا بے ہنگم جاہلانا قہقہ گاڑی میں گونجا تھا۔۔


"نہیں نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں میں نے تو بس یہ بتانے کے لیے فون کیاتھا کے تیری لیلا کو میں کہی بھی اکیلا نہیں چھوڑتا اور آج تو وہ بہت ہی من موہنی لگ رہی تھی قسم سے"۔

زین العابدین نے اپنی مٹھیوں کو زور سے بھینچھا تھا اس وقت وہ زخمی شیر بنا ہواتھا جس کا صرف اشہد عزیز کو چیڑ پھاڑدینے کو دل چاہ رہاتھا۔


 ",بس دو دن اور پھر تو دیکھ میں کیسے تیرے ہاتھ سے یہ پروجیکٹ واپس لیتا ہوں اس دن میرے دل کو ایک سکون  آجاۓ گا جب میں تجھے دیکھ کر کہوں گا ہاتھ کو آیا پر منہ کو نہ لگا "۔۔۔۔۔


ہاہاہاہاہاہا۔


اشہد عزیز سپال کی آواز گاڑی میں بیٹھیں دونوں نفوس کے لیے ِبلکل نئ نہ تھی وہ ان سب کے پیچھے ُاس کا مقصد پہلے سے جانتے تھیں۔


"ہوگیا تیرا ,یا ابھی اور باقی ہےاب ُتو ُسن میں تجھے صرف نظرانداز کررہاتھا پر تو نے ایسا کر کے اپنی اوقات بتائی ہیں ,میں ُان مردوں میں سے نہیں ہوں جو کسی کمزور کو سیڑھی بنا کر ُاوپر چڑھتے ہے میں مرد کا بچہ ہوں تجھ سے مردوں کی طرح لڑوں گا اب تو میرا انتظار کر اور دیکھ میں کیا کرتا ہوں تیرے ساتھ تو مجھے دو دن دے رہا ہے نہ میں تجھے چوبیس گھنٹے دے رہا ہوں میں تیرے سامنے یہ پروجیکٹ شروع کروں گا اور تو دیکھتا رہ جاۓ گا "۔


وہ مشتعل انداز میں بولتا ہوالائن کاٹ گیا کچھ سوچتے ہوۓ ُاس نے گاڑڈ کو فون کیا جس نےایک دو بیل کے بعد ہی فون  ُاٹھا لیا۔


"بی بی کہا ہے "۔

اس کی سرد سی آواز فون پہ گونجی۔


"صاحب وہ کوچنگ سینٹڑ میں پڑھاتی ہے ِاس وقت وہ وہاں ہے۔


"آپ کہا ہے "۔

وہ بھنا کر بولا


"وہ میں نماز پڑھنے مسجد آیا تھا نزدیک ہی ہوں ,خیریت سر "۔

گاڑڈ نے ہڑبڑا کر پوچھا ْ۔


"پتہ بتاۓ فوراًیہاں کا "۔

وہ غصیلے لہجے میں بولا۔



"جی صاحب "۔

پتہ پوچھنے کے بعد زین العابدین یوشع کی جانب پلٹا۔


"گاڑی روک یوشع "۔

زین العابدین نے گاڑی چلاتے ہوۓ یوشع کو سرد انداز میں کہا ۔جو  بریک لگا کر گاڑی روکتے ہوۓ گردن موڑ کر زین العابدین کو سخت نظروں سے گھورنے لگا۔جو اپنی نظریں وِنڈ اسکرین پر گِرتی بارش کے قطروں پر جماۓ ہوۓ تھا


"نیچے ُاتر"۔

وہ ٹھنڈے سرد لہجے میں بولا ۔


"مگر یارمیں کیوں ُاترو, باہر دیکھ کتنی تیز بارش ہورہی ہے "۔


یوشع نے باہر جھانکتے ہوۓ زین العابدین کو کہا۔


"تُو پہلے میری بات غور سے ُسن تُو جلد از جلد میرے گھر گواہان اور مولوی کا انتظام کر میں لڑکی لے کر ٰآرہا ہوں"۔یوشع نے غصے کی تمازت سے اس کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھا۔


"زین تو ہوش میں تو ہے نہ ,یہ ٹھیک ہے کے میں نے ہی تجھے یہ مشورہ دیاتھا پر پہلے ِمس خان کی رزامندی جاننا ضروری ہے اور مجھے ایسا لگتا ہے وہ نہیں مانے گی"۔

یوشع نےاسے ٹھنڈا کرنا چاہا جو ُاسے کڑے تیوروں سے گُھور رہاتھاوہ ُاس کی آنکھوں میں ُاترے خون کو دیکھ کر آنے والے وقت سے خوفزدہ ہورہا تھا جس میں ِمس خان ُبری طرح ِپسنے والی تھی


" زین تو میری بات سمجھ یار"۔

یوشع نے ایک بار پھر ِاس بپھرے سمندر کو قابوں کرنے کی کوشش کی جو آج جانے کتنی تباہی مچانے والا تھا۔


"وقت بہت کم۔ہے میرے پاس تو  نیچے ُاتر یوشع "۔

وہ چہرے پہ کرود لیۓ ُاسے نیچے ُاترنے کے لیے کہ رہاتھا۔یوشع نے تاسف سے اسے دیکھا جو کچھ بھی سننے سمجھنے کے لئیے تیار نہیں تھا وہ پیٹرول پمپ کے نزدیک گاڑی روک کر فوراً نیچے اتر گیا۔


"زین میں ایک بار پھر کہوں گا وہ لڑکی تم دونوں کی بیچ میں پھنس گئ ہے ُاس کے ساتھ  پلیززیادتی مت کرنا "۔


یوشع نے گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوۓ ُاسے ایک بار پھر تنبیع کی جو ڈڑائیونگ سِیٹ سنبھالتا ُہوا آندھی طوفان بنا ُاس کے کوچنگ سینٹڑ  کے باہر پہنچ گیاجہاں بچوں کے باہر نکل کر شور مچانے پر لوگوں کا بارش ہونے کے باوجود تانتہ بندھا ُہوا تھا جب ہی وہ لوگوں کا ہجوم چیرتا ُہوا اندر داخل ہوگیا۔جہاں تمام ِاسٹاف جمال کے ارد گرد کھڑا تھا ُاس نے اپنی نظریں زھرہ کی تلاش میں ِادھر ُادھر دوڑائ مگر ُاسے وہ کہی نظر نہ آئ ,جانے کیوں ُاسے کسی انہونی کے ہونے کا احساس ہُوا تھاجب ہی اس نے  نزدیک کھڑی لڑکی سے پوچھا جس نے بتایا کے وہ ابھی  ابھی باہر نکلی ہے زین العابدین کے دل کو ایک گونہ سکون ِملا تھا کے وہ سلامت ہے پر ساتھ ہی ُاس نے اپنے چہرے کے تاثرات بدلے تھے اس کے جبڑے اور کنپٹی کی نسیں غصے سےواضع ہورہی تھی وہ واپس اپنی گاڑی کی جانب بڑھااورگاڑڈ کو فون کیا ۔


"بی بی کہا ہے"۔

"صاحب وہ یہاں کوچنگ کے قریب مسجد کے پاس سے گزر رہی ہے"۔

 گاڑڈ کے بتاۓ ہوۓ راستے پر ابھی تھوڑا آگے ہی نِکلا تھا کے وہ ُاسے نزدیک ہی صبح والے کپڑوں میں بارش میں بھیگتی  ہوئ نظر آگئ ۔


۔زین العا بدین نے اپنی گاڑی کو ٹھیک ُاس کے آگے لے جا  کر بریک لگائ ۔

گاڑی کے ٹائر بریک لگنے سے زور سے چرچراۓ جس کی آواز پر  بارش میں بھیگتی ہوئ زھرہ نے اپنے قدموں کو آگے بڑھنے سے روکا وہ جیسے ہی پلٹی تیز بارش میں آنکھوں میں پڑتی ہیڈ لائیٹس کی روشنی سے ُاس کی آنکھیں ُچندھیاں گئ جب ہی کوئ ڈڑائیونگ سِیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا ہیڈلائیٹس کی تیز روشنی میں ُاسےوہ اشہد عزیز کا ہیولہ سا لگا وہ الٹے قدموں بھاگنے لگی کے شاید یہ اشہد عزیز ہے پر ُبرا ہوا جو ُاس کا ہاتھ ُاس کی مضبوط  کلائ میں آگیا تھا۔

                              ۞۞۞۞۞۞۞۞

ماضی:-

"عظیم یار تجھے ِادھر کیسا لگتا ہے تو نے کبھی بتایا نہیں آج تو صرف مجھے اپنے بارے میں بتاۓ گا "۔

شوکت عظیم کے ساتھ بیٹھا بار میں گندہ محلول پی رہاتھا جب کے عظیم گلاس کو کافی دیر سے ہاتھ میں  تھامے ُاس کی باتیں ُسن رہاتھا ۔


بتایا تو تھا یار  چل آج تجھے پھر بتادیتا ہوں تب شاید تو نشے میں تھا پر اب میں آخری بار بتا رہاہوں ٹھیک ہے ,ہاجی تو میں ستائیس سالہ عظیم خان تھائ  لینڈ میں رہنا بہت پسند کرتا ہوں کیوں  کے یہاں رہنے کے لیےکوئی سخت اصول نہیں ہیں میں ایک لاجسٹک کمپنی میں کام کرتا ہوں لہذا میں بہت زیادہ سفر کرتا ہوں ۔

اس کام میں سخت محنت ہوتی یے ، لیکن میں بھی سخت کام میں  کھیلنا پسند کرتا ہوں ،اور  تم  یہ جانتے ہو؟۔ میری ملازمت کا دباؤ ہے ، لہذا میں رات کو باہر نکلتا ہوں اور خود ہی لطف اٹھاتا ہوں اور یہاں سب کچھ سستا ہےہر جگہ خوبصورت لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں" ۔


 عظیم مقامی بیئر کا ایک گھونٹ لیتے ہوۓ سامنے دیکھنے لگا وہ جس بار میں  بیٹھا تھا وہ  اسے اپنی نظروں سےاسکین کررہاتھا ساتھ ہی ساتھ شوکت کو اپنے بارے میں بتا تا بھی جارہاتھااسے یہ بار تھوڑی  چھوٹی اور تنگ لگی تھی جو دو۔منزلہ تھی ایک طرف ، ایک اسٹیج تھا ، جہاں چار لڑکیاں  موسیقی پر ناچتے ہوئے ڈنڈوں سے چمٹی ہوئی تھی دوسری طرف آئینے سے گھرا ہوا لال مخمل نشستوں کی ایک قطار تھی بہت سے لڑکوں کے لیے، یہ جگہ شاید ان کے لیے دنیا کی بہترین جگہوں میں سے ایک تھی ۔


"یار شوکت وہ بچی میے کہا ہے مجھے وہ چاہیے "۔

عظیم اپنے بارے میں بتاتے ہوۓ اچانک اپنی بات کا ُرخ بدل گیا جب ہی اسے اور شوکت کو سروو کرتی ِفیا اس کی بات پر  چونک کر  اسےدیکھنے لگی۔جو شوکت سے ایک بچی کا تقاضہ کررہاتھا فیا کا اس وقتندل چاہا تھا وہ عظیم خان کی آنکھوں میں تیزاب ڈال دے, وہ جاتے  جاتے بھی ُاسے گُھوری ڈالنا نہیں ُبھولی تھی جس کی ُگھوری ڈالنے کے انداز پر عظیم کے چہرے پر ایک دلفریب سی مسکراہٹ چھاگئ تھی ۔


"کون میے "۔


شوکت نے یاد کرنے کی کوشش کی پر اسے یاد نہ آسکا۔


"یار وہ زیادہ عمر کی نہیں ہے"۔

اس نے جینز کی پاکٹ سے سگریٹ اور لائیٹر نکالتے ہوۓ عظیم نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔


"اچھا اچھاجو کمبوڈیاں سے آئ تھی چودہ سال کی اف ویسے جو مزہ ان نوخیز کلیوں کو مسلنے میں آتا ہیں وہ مزہ کسی چیز میں نہیں"۔

شوکت کمینگی سے اپنی زبان کو لبوں پہ پھیرتے ہوۓ بولا ۔


"ہاں جی کل وہ یہاں میرے پاس کافی دیر بیٹھی رہی تھی مجھے وہ بہت اچھی لگی ہے تم ُاس کا پتہ کردو "۔

وہ چہرے پہ معنی خیز سی مسکراہٹ لاۓ بولا۔


"اوہو ویسے بڑا اونچا ہاتھ مارا ہے تو نے بڑی مانگ ہے اس کلی کی ,  آج تو نہیں پر دو دن بعد آۓ گی وہ, ایک کسٹمر کے پاس ہے ڈاڑک بنگلوں میں "۔

وہ اسٹیج پہ ناچتی ہوئ لڑکیوں کو دیکھ کر بولا ۔



"ٹھیک ہے جیسے ہی وہ آۓ تو اب کی بار مجھے  چاہیے وہ میں منہ مانگے پیسے دوں گا پر وہ اب آگے نہ جاۓ  "۔

وہ سگریٹ کا ایک گہرا کش لیتے ہوۓ بولا


"جو حکم۔سرکار کا "۔

شوکت کی بات پر عظیم کے چہرے پر ان گنت شکنوں کا جال بچھ گیا تھا وہ تیزی سے گلاس ایک طرف رکھتے ہوۓ باہر کی جانب نکلتا چلا گیا ۔

                                  ۞۞۞۞۞۞

فیا اپنا کام ختم کر  کے جیسے ہی گھر میں داخل ہوئ سامنے ہی وہ بستر پر نیم دراز تھا جسے ِفیا دیکھ کر نہ آج ڈڑی تھی نہ بھاگی تھی بلکہ آج وہ ُْاس کا سامنا کرنے کے لیے ایک شیرنی کی طرح کھڑی تھی ۔


"کیوں آۓ ہو یہاں نِکل جاؤ فوراً ورنہ میں تمہاری شکایت شوکت سے کروں گی "۔

وہ غصے سے لال پیلی ہوئ ُاسے باہر نکل جانے کے لیے کہ رہی تھی

جو ُاس کی ِاس معصوم حرکت پر کِھلکھلاکر ہنس پڑا۔


"ہاہاہاہا!!

"تمہیں شوکت کے علاوہ کوئ نہیں مِلا تھا دنیا میں جس سے میری شکایت کرتی "۔


اس کا انداز سراسر مزاق اُڑانے جیسے تھا


"میں نے تمہیں کیا کہا ہے جاؤ یہاں سے "۔

وہ آگ بگولہ ہوئ غصے میں بولی۔


"اور میں نے بھی تمہیں کہا تھاوہاں مت جانا پھر کیوں گئ تھی وہاں "۔

وہ بستر سے ُاٹھ کر ُاس کی جانب قدم بڑھانے لگا جو ُاس کے آگے آنے سے پیچھے کی جانب جاتی جارہی تھی


"تم کون ہوتے ہو مجھ پر ُحکم چلانے والے "۔

وہ ُاس کی اِس بھونڈی سی بات پہ اپنی ا برو اچکا کے اسے دیکھنے لگا۔


"وہ جو ہمارے مزہب میں کیا کہتے ہے شاید ش سے شوہر ,ہاں شوہر ہوتا ہوں آپ کا غلطی سے "۔

وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کچھ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا پھر یاد آنے پر ُاس کی جانب اشارہ کیا ۔


"کون سا شوہر  کہا کا شوہر ,میں کسی رشتے کو نہیں مانتی تم نے میرے ساتھ زبردستی شادی کی تھی۔"۔

عظیم کی بات پر ِفیا نے نحوت سے ناک چڑھا کر اسے کہا جو تپائ پر رکھے ُاس کے پرس کو ُالٹ پلٹ کر دیکھ رہاتھا وہ سرعت سے ُاس کی جانب پلٹا تین قدم چلنے کے بعد ُاس کے اور ِفیا کے درمیان انگشت جتنا فاصلہ رہ گیا تھا ۔


"نکاح نکاح ہوتا ہے مسسز عظیم خان چاہے جیسے بھی ہو,,آپ سے میں پٹانی مسجد میں گواہوں کے درمیان نکاح کیا تھا جس میں آپ نے خود قبول ہے کہا تھا اگر یاد نہیں آرہا تو مجھے یاد دِلانا آتا ہے اچھے سے"۔


وہ اپنی انگشت کو ُاس کی پیشانی پہ رکھے ُاس کی ُسرمئ آنکھوں میں دیکھنے لگا جس میں سے آنسوں متواتر بہ رہے تھے۔


"یہ بہت نایاب ہے میرے لیے فیاانہیں مت بہایا کرو  "۔

وہ ُاس کی آنکھ سے چھلکتا ایک شفاف موتی اپنی انگشت پہ رکھے ُاسے اپنی سانسوں کی تپش سے جھلسا رہاتھا۔


"تم ایک نہایت گھٹیاں انسان ہوعظیم خان, میں غریب ضرور ہوں مگر میں نے اپنی عزت کی ہمیشہ حفاظت کی ہے میں نہیں جانتی میں نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا جو اللّٰہ نے مجھے تمہارے سر ڈال دیا ,پر یاد رکھنا یہ بات آج ایک در بند ہے کل اور در ُکھلے گے تب میں دیکھوں گی تم کیسے بچاؤ گے ُاس پاک ذات سے اپنی جان کو "۔


وہ  وثوک سے کہتی ہوئ ُاس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ُاسے ورطہ حیرت میں ڈال رہی  تھی ۔


"کیا میں وجہ جان سکتا ہوں کے میری نازک اندام  بیوی اتنے انگارے کیوں چبارہی ہے "۔

وہ دیوار کے دونوں جانب ہاتھ ٹکاۓ ُاسے اپنے قلعے میں قید کیے کھڑا تھا۔جو سر ُجھکاۓ مسلسل اپنی ُانگلیوں کو  چٹخ رہی تھی۔

"میں نے تمہیں خود دیکھا تھا تم شوکے سے ُاس بچی کا ُپوچھ رہے تھے"۔

15x

ظاہر سی بات ہے ِفیا بیگم انسان ہوں میری بھی کچھ ضروریات ہے ,اب تم تو میرے ہاتھ لگتی نہیں تو میں تو اپنے بارے میں کچھ سوچوں گا  "۔

عظیم خان کی باتیں ُسن کر ُاسے اپنے کانوں سے ُدھواں نکلتا ُہوا محسوس ہورہاتھا وہ اپنی نم ہوئ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی وہ جلاد صفت آدمی قریب سے قریب تر آرہاتھا وہ پوری طاقت لگا کے اسے پیچھے کی جانب دھکیلتی ہوئ ہٹی ۔


16

"کب تم نے موقع چھوڑا ہے بولو کون سا لمحہ تھا جب تم نکاح کے بعد میرے قریب نہ آۓ تم نے مجھ سے نکاح اسی کام کے لیے کیا تھا "۔

وہ بھڑکتی ہوئ اسے پہ درپہ جھٹکے دے رہی تھی جو آج ُاسے شاید بہالے جانے والی تھی۔


"تو کیوں چھوڑوں میں تمہیں ,کیوں نہ قریب آؤ تمہارے حلال رشتہ ہے ہمارے درمیان میں "۔


وہ اسے بازوں سے تھامے ہوۓ آنکھوں میں محبت کے بادل ُچھپاۓ ہوۓ اسے اپنا احساس دلارہا تھا ۔جو اس کے سچے اور کھڑے جزبوں کو ہوس سے ملاتی تھی۔


"تو پھر کیوں کہا تم نے اسے بچی کا بولو جب تمہیں حلال اور حرام میں اتنا فرق معلوم ہے تو  کیوں میے کو منہ مانگی دام خرید رہے ہو ,بولو جواب دو آخر کب تم لوگ شیطان کے پیچھے لگ کر  یہ زناکاری کروگے خود کو انسان کہتے ہو وہ پر میری نظر میں تم۔سب ایک درندہ صفت ہو "۔


وہ ہلک کے بل ُاس پر چِلا رہی تھی جو بے قابوں ہوتی ہوئ ایک بھپرہ  سمندر بن گئ تھی جسے عظیم خان نے اپنے مضبوط بازوؤں کے قلعے میں قید کرلیا تھا  ۔


"ِفیا مجھے کچھ وقت دو میں تمہیں سب سمجھا دوں گا تم بس وہاں مت جاؤ اب میں شوکت کو پیسے دے دوں گا وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گا  "۔

                                   ۞۞۞۞۞۞۞۞

حال:-

"چھوڑومجھے کون ہو تم "۔۔۔۔۔۔

زھرہ آنکھوں پہ پڑتے بارش کے پانی کی وجہ سے اپنی آنکھوں کو ایک ہاتھ سے مسلتے ہوۓ ُاسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی جو اسے سردی میں کپکپاتا ُہوا دیکھ رہا تھا ۔

"میں ہوں زین العابدین"۔۔۔۔۔۔

زھرہ یخ بستہ ہواؤں میں برستی بارش میں زین العابدین کو رات کے ِاس پہر اپنے اتنے قریب کھڑا دیکھ کر حواس باختہ ہوگئ تھی جو ُاسے بِنا کوئ موقع دیے اپنی گاڑی کی جانب ِکھینچتا ُہوا لے گیا۔


"سر چھوڑے میرا ہاتھ آپ مجھے کہا لے جارہے ہے "۔۔۔۔۔

وہ۔برستی بارش میں ِچلا کر ُاس سے بولی جو ُاس کی آواز کو ان سُنی کرتا ُہوا گاڑی کا دروازہ کھول کےاسے زبردستی ُاس میں ِبٹھاتا ُہوا خود بھی ڈڑائیونگ سیٹ پہ آکر بیٹھ گیا۔

وہ لگاتار دروازے کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی جو ُکھل کے نہیں دے رہاتھا جب ہی زین العابدین کی آواز گاڑی میں گونجی ۔

"یہ دروازہ اب نہیں ُکھلے گا جب تک میں نہیں چاہوں گا "۔


وہ اس کی جانب پلٹی جو اپنے گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ُہوا ہیٹڑ کو مزید تیز کرنے لگا۔


"بہت ہی بھونڈی حرکت کی ہے آپ نےسر دروازہ کھولے مجھے گھر جانا ہے میری امی انتظار کررہی ہوگی "۔

وہ ماتھے پر شکن ڈالے سپاٹ چہرے کے ساتھ زین العابدین سے کہنے لگی جو اسے ہاتھ کے اشارے سے ُرکنے کے لیے کہنے لگا۔

"دو منٹ خاموش نہیں ہوسکتی تم ,مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے "۔

وہ ماتھے پر تیوری لیے ُاسے سرد نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ کہنے لگا۔

"بات کرنی ہے تو کیا؟؟۔ یہ کون سا طریقہ ہے بات کر نے کا جو مجھے زبردستی یہاں لے آۓ "۔


وہ تاہنوز چہرے کو سپاٹ کیۓ تلملاتے ہوۓ بولی  جو ُاس کے لہجے میں چھائ کرختگی دیکھ کر اپنے اندر دہکتے لاوے کو میٹھے گھونٹ کی طرح پی گیا۔وہ ریش ڈڑائیونگ کرتا ہوا اسے اپنےفلیٹ کی جانب لے گیا کیوں کے ُاسے معلوم تھا ِاس لڑکی سے بات کرنا پتھر سے سر ٹکڑانے کے برابر ہے ۔


"سر آپ میری بات ُسن کیوں نہیں رہے روکے گاڑی مجھے گھر جانا ہے میری امی پریشان ہورہی ہوگی پلیز آپ گاڑی روک دے "۔

وہ ُمسلسل زین العابدین کو گاڑی روکنے کے لیے کہ رہی تھی جو ُاس کی بات ُسنے بغیر اپنا سارا دیھان وِنڈ اسکرین پہ جماۓ ہوۓ تھا جب ہی زھرہ نے ِاسٹیرنگ کو  گھوماتے ہوۓ گاڑی کو روکنے کی ایک ناکام سی کوشش کی جسے زین العابدین نے اپنی ڈولتی گاڑی کو سنبھالتے ہوۓ زھرہ کو پیچھے کی طرف دکھیلا جو بپھری ہوئ شیرنی کی طرح ُاس پہ چڑ دوڑی تھی  ُاس نے ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھال کر  دوسرے ہاتھ سے زھرہ کو پیچھے کی جانب دکھیلا ۔

"are you gone mad ".

"کیا کرہی ہو ہاں !!!

وہ ہلک کے بل ڈھاڑا زھرہ ُاس کی آنکھوں سے ُابلتے شرارے دیکھ کر سچ میں ہیبت زدہ ہوگئ تھی۔

"کھا نہیں جاؤ ں گا تمہیں صرف ضروری بات کرنی ہے مجھے تم سے "۔


ُاس نے گاڑی کو سائیڈ پر بریک لگاتے ہوۓ ڈیش بوڑڈ سے فون ُاٹھایا پھر ایک نمبر پرکال ملائی ۔جسے چند ثانیوں کے بعد ہی ُاٹھالیا گیا ۔


"ہیلو زین العابدین بات کررہاہوں ابھی مِس خان کے گھرکال ِ مِلاؤ اور انہیں کہو کے آج آفس میں بارش کی وجہ سے سب کودیر ہوجاۓ گی اس لیے مس خان تھوڑا دیر سے آۓ گی "۔


یہ کہ کر زین العابدین نے بِنا ہمنہ تنویر کی کوئی بات سنے کال کاٹ دی جو فون کو ہاتھ میں تھامے ہوۓاپنے بوس  کے منہ سے ایسی بات ُسن کر اب سچ میں پریشان ہوگئ تھی ۔


"اِس کا مطلب توٹھیک سوچ رہی ہے ہمنا بی بی ,بوس کےاور زھرہ کے درمیان کچھ ضرور چل رہاہے "۔


ہاہاہاہا۔


"پر کال کسے کروں میں, میرے پاس تو زھرہ کی امی کا نمبر ہی نہیں"۔


ہمنہ نے اپنے فون میں نظر دوڑاتے ہوۓ کہنے لگی جب ہی اسے ایک نمبر یاد آیا جو زھرہ نے اسے دیا تھا کے وہ ان کی پڑوسن کا نمبر ہے پھر کچھ ہی دیر میں ہمنہ نے رابطہ کر کے زھرہ کی امی کو انفارم کر کے اپنی ذمیداری ادا کردی ۔

                             




Comments

Popular Posts