تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 5

 


ARAZ RESHAB NOVELS
Dont copy paste without my permission kindly.




"کیوں چھوڑدوں میں وہ نوکری آخر تم ہوکون میرے جو میں تمہاری بات ُسنو ,مجھے نہیں جانا کہی بھی تمہارے ساتھ اگر اب میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تو رب سوہنے دی قسم میں خود کو ماردوں گی "۔


وہ ُاس کے ِحصار میں مچلتے ہوۓ ہلک کے بل چِلائ تھی جس نے اس کی نازک کمر کے گرد اپنی گرفت کا گھیراؤ تنگ کیا تھا۔


"اچھا خود کو ماردوگی تو وہ کیا نام بتا رہاتھا شوکت ہاں ماجد ُاس کا کیا ہوگا وہ تو بیچارا ساری زندگی اپاہج ہی رہ جاۓ گا ُاس کے بچے کھانے پینے سے بھی جائیں گے پھر بچی ایک تمہاری بھابھی وہ بھی گھر کے حالاتوں سے تنگ آکر گھر چھوڑدے گی اور آخر میں جیسے ایک بے بس اپاہج انسان کرتا ہے وہ ماجد کرے گا یعنی خودکشی"۔


ہاہاہاہاہا۔

وہ ُاسے چھوڑتے ہوۓ پیچھے کی جانب لگے سِنگل بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹ گیا ۔


"عزیم خان تم دیکھنا ایک دن تم یاد کروگے مجھے جب مظلوم کی ہاں لگتی ہے نہ توعرش بھی ہلادیتی ہے ,میں نے اپنی دوڑیاں اللہ کے حوالے کی ہے وہ جہاں مجھے لے جاۓ گا میں چلی جاؤں گی پر بچوگے تم بھی نہیں"۔

وہ بھاگتے ہوۓ واش روم کی جانب بڑھ گئ وہی عزیم خان کو اتھا گہراہیوں میں تنہا چھوڑگئ۔

                                ۞۞۞۞۞۞۞

حال:-

ِوہ گھڑی پر وقت دیکھنے لگا ُاسے آۓ ہوۓ دس منٹ سے اوپر ہوچکے تھے پر وہ ابھی تک آئ کیوں نہیں؟ وہ اپنے کمرے کے اندر چکر لگانے لگا مگر اضطراب تھا کے بڑھتا جارہاتھابالآخر اس نے ریسیپشن پر کال کی ۔


"مس ُگل ,مس خان آگئ "۔


"نو سر وہ ابھی تک نہیں آئ "۔


زین العابدین کو عجب بے کلی سی تھی نہ وہ کام کرپارہا تھا نہ ہی اپنے زہن کو اسے سوچنے سے روک پارہا تھا اگر یہ مغرور لڑکی میری بات ُسن لیتی تو اس کا کیا چلاجاتا۔


"سارا سکون غارت کردیا ہے اس جنگلی بلی نے"۔۔۔۔

 وہ اپنے دل ودماغ کی چھڑی جنگ میں دل کی بات پہ اثبات کی مہر لگاتے ہوۓتیزی سے چابیاں اٹھاتا  اپنی آسٹن مارٹن لیے باہر کی جانب نِکلا جہاں کچھ ہی دور اسے وہی کرولا ُفٹ پاتھ کے آگے زھرہ کاراستے روکے کھڑی نظر آئ جسے دیکھ کر اس کا غصہ سوا نیزے پر پہنچا تھاوہ ہاتھوں کی گرفت کو اسٹیرنگ پر مضبوط کیے دانتوں کو کچکچاتے ہوۓ تیزی سے گاڑی کو لے کر وہاں گیا ۔جہاں ِْمس خان آنکھوں میں آنسوں سموۓ ہاتھ میں فائل تھامے بے بسی کی تصویر بنی کھڑی تھی جب ہی زین العابدین نے ٹھیک کالی گاڑی کے پیچھے لے جاکر اپنی گاڑی کھڑی کردی تاکہ وہ اپنی گاڑی بھگا نہ سکے ۔وہ ماتھے پر تیوری چڑھاۓ اپنی گاڑی سے باہر نکلتے ہوۓ زھرہ کی جانب بڑھا ۔


"جاؤ"۔


وہ اپنے ماتھے پر بل ڈالیں ُسرمئ پینٹ کوٹ میں چہرے پر غیض و غضب کے نمودار ہوتے آثار لیے زھرہ کو جانے کے لیے کہنے لگا جو  ُْاس کےچہرے سے جھلکتے غصے کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگئ تھی اسے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے ہوۓ دیکھ کر زین العابدین ہلک کے بل شیر کی طرح ڈھاڑا ۔


"جاؤ یہاں سے "۔


اس کی لرزا دینے والی  ڈھاڑ پر وہ جیسے ہوش میں آئ تھی اور تیزی سے آفِس کی جانب بھاگی تھی وہ جاتے جاتے گاڑڈزکو زین العابدین کے پیچھے بھیجنا نہ ُبھولی تھی جو فوراًالڑٹ ہوکر باہر کی جانب بھاگے تھیں زھرہ لفِٹ میں بند ہوکر گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔وہ آنکھیں موندے آنسوں بہاتی ہوئ ِلفٹ میں نصب شیشے کی دیوار  سے سر ٹکاگئ۔


" شاید میری زندگی کا ایک نیا باب ُکھلنے لگا ہے جس میں نجانے ابھی مجھے کتنے کانٹوں پر سے گزر کر جانا ہے"


 وہ اپنا سانس بحال کرتی ہوئ اپنی کرسی کی جانب بڑھ گئ۔

                                ۞۞۞۞۞۞۞۞

"باہر نِکل "۔


اس نے زور سے ُاس کا شیشہ بجایا مگر جواب ندارد تھااب کی بار زین العابدین کی اندر دہکتا ہُوالاوا چھلکنے کے لیے بے تاب ہوگیا اُس کی کنپٹیوں سے جیسے رگیں ُابھر آئ تھی کے خون کی گردش کنپٹیوں پہ محسوس ہورہی تھی  ۔ُاس نے زمین سے بڑا پتھر ُاٹھا کر گاڑی کے پچھلے شیشے پر مارا,پھر ہاتھ ڈال کر ُاس میں سے جیسے ہی لاک کھولنے لگا ڈڑایئونگ سِیٹ پہ بیٹھا نوجوان اپنی طرف کا دروازہ کھول کر بھاگنے لگامگر زین العابدین نے ایک ہی جست میں اسے اپنے شکنجے میں لے لیا ۔


"بھاگتا کہا ہے خبیث انسان بہت شوک ہے نہ تجھے لڑکیوں کو تنگ کرنے کا بجا ہارن اب "۔

زین العابدین نے ُاسے گریبان سے پکڑ کراپنے دوسرے ہاتھ سے ُاس کے منہ پر ایک زور دار ُمکا مارا کے ُاس کا سر پیچھے گاڑی سے ٹکرایا۔


"معاف کردو صاحب میں پھر نہیں کروں گا مجھے جانے دو اللہ کی قسم میں باجی سے معافی مانگ لوں گا"۔


وہ مریل سا لڑکا جو عمر میں بھی بیس اکیس سال کا تھا زین العابدین کے ایک ہی ُمکے سے اس کی بس ہوگئ تھی جو اپنے ہاتھ جوڑے اس سے معافی مانگ رہاتھا اس نے اپنا کوٹ اتار کر نزدیک کھڑے گاڑڈ کو دیا جو زھرہ کے کہنے پر بھاگتا ہوا آیا تھا۔


"میں تجھے چھوڑدوں گا پہلے تو بتا تجھے کس نے بھیجا تھا "۔


زین العابدین نے اپنی ٹائ کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوۓ  سفید کمیز کے بازوں اوپر کی جانب موڑتے ہوۓ ُاس سے سرد انداز میں پوچھا۔

صاحب میں جھوٹ نہیں بول رہا مجھے کسی نے نہیں بھیجا وہ تو بس ایسے ہی میری قسمت خراب "۔


زین العابدین گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاۓاپنے سگریٹ کو ُسلگاتے ہوۓ سگریٹ کے کش لینے لگاپھر سگریٹ اپنے لبوں تلے دبا کر ُاسے ایک بار پھر گریبان سے پکڑاجو ُدھوے کی وجہ سے کھانس رہا تھا قریب کھڑا گاڑڈاور وہ نوجوان دونوں زین العابدین کی آنکھوں سے چھلکتے لہوں کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگۓ تھیں جو اب ُاس نوجوان کےچہرےپر متواتر ُمکے جڑنے لگا وہ خون میں لت پت نڈھال ہوُچکا تھا۔


"کس نے بھیجا تھا "۔


ٓوہ اپنی شعلہ باز نظریں ُاس پہ گاڑیں اس کا گریبان تھام کردھیمی آواز میں پھر سے پوچھنے لگا ۔


"صاحب مجھے مِسٹڑ سپال نے بھیجا تھا اب مجھے جانے دو "۔


وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے ُاس سے معا فی مانگ رہاتھا  ۔


"کیا مقصد تھا ُاس کا ایک ہی بار میں بتادے کیوں کے ُتو میری مار سہنے کے قابل نہیں "۔


وہ اسے گریبان سے تھامےہوے َہوا میں اونچا کرتے ہوۓ پوچھنے لگا جو زین العابدین کے  چہرے پہ چھائ ہولناکی دیکھ کر  ہیبت زدہ ہوگیاتھا ۔


"صاحب وہ بس کہ رہے تھے کے باجی کو کو دن رات آتے جاتے ڈڑانا ہے "۔

زین العابدین نے ُاس کا جیسے ہی گریبان چھوڑا وہ زمین پر لڑکھڑاتا ہوا بیٹھ گیا ۔


اپنے بوس کوکال ملاؤ "۔

وہ سرد لہجے میں بولا۔


"جی سر"۔


اس لڑکے نے کال ملا کر زین العابدین کے ہاتھ میں فون تھمایا ۔


"ہاں شِیدے کیا خبر ہے ہماری لیلاکیسی ہے اور ُاس کے مجنوں پر نظر رکھی ہے کے نہیں "۔


اشہد عزیز کی باتوں پر زین العابدین نے اپنے ہاتھوں کو مٹھیاں بنا کر سختی سے بھینچھا تھا کے ہاتھ کی کوئ ہڈی نہ چٹخ جاۓ۔


"اگر مرد کا بچہ ہے تو مردوں کی طرح لڑ یوں ُچھپ کر عورتوں پہ وار کیوں کرتا ہے "۔

وہ فون پہ اشہد عزیز پر ڈھاڑا تھا۔


"ہاہاہاہا یقین نہیں آتا تمہاری سروس اتنی تیز ہے اپنی محبوبہ کے لیے ,کے اسے بچانے بھی آگۓ ۔

NoT bad zain...


ویسے میں مرد کا بچہ ہوں اور مردوں کی طرح ہی لڑوں گا دیکھ لو تمہاری جان کو خود ہاتھ  بھی نہیں لگاؤں گا بلکہ تمہارے"۔

SHUT UP YOU BUS****.


"اب اگر ایک بھی لفظ اپنی زبان سے گندہ نکا لا تو میں تیری یہ زبان کھینچھنے میں ایک لمحا نہیں لگاؤں گا اگر ُاس لڑکی کا نام بھی جوڑا میرے ساتھ "۔


تیری دشمنی مجھ سے ہے نہ تو آجا ,جگہ بتا مجھے میں ابھی آتا ہوں پر اس شریف لڑکی کو ہمارے درمیان میں مت لا "۔


وہ جاہ و جلال میں ُاس پہ چلا کر بولا جس پر اشہد عزیز کے قہقے کی آواز فون پر گونجی ۔


ہاہاہاہا۔


صحیح جارہے ہو لڑکے صحیح جارہے ہو ,پر تم غلط فہمی پر ہووہ مس خان تو اب ہمارے درمیان تاقیامت رہے گی تم اسے جتنا مرضی پیچھے دھکیل دو پر یہ سپال تمہاری لیلا کو بخشنے والا نہیں پر ایک بات ہے تم نے میرے ایک پنٹڑ کو تو پکڑ لیا اب باقی کو کون پکڑے گا "۔


ہاہاہاہاہاہا۔


"تو ٹھیک نہیں کررہا اشہد مجھے برا بننے پر مجبور مت کر کے تو پانی کو بھی ترسے,اب سن میری  بات میں ایک خان ہوں اور ہم عورت کی عزت کے پیچھے اپنی جانیں گواں دیتے ہے اور لے بھی لیتے  ہیں"۔۔۔۔

آخری بار کہ رہا ہو  دور رہ اس سے ورنہ جل جاۓ گا "۔


                            ۞۞۞ٔٔ۞۞۞۞۞

ماضی:-    

وہ آج پھر اپنے وقت پر بار میں اپنے مخصوص یونیفارم میں موجود تھی جو کالی پینٹ کے اوپر کالی کمیز تھا وہ وینیسا لُوپز کو دیکھ کر ُاس کی جانب آگئ جس کا تعلق بھی پاکستان سے تھا ۔


"آج تم  پہلے آگئ مجھ سے "۔

فیا نے جیسے ہی ُاس کے نزدیک جاکر کاؤنٹڑ سنبھالا تو وینیسا کے چہرے پہ پڑے نِیل دیکھ کر افسردہ سی وہ یسا کو دیکھ کر اس پہ گزری قیامت کا بخوبی اندازہ ہورہاتھا۔


یہ کیا ُہوا ہے وینیسا "۔


فِیا نے ًاس کے چہرے کو تھام کر بے صبری سے پوچھا


"وہی جو ایک لاچار عورت کے ساتھ روز ہوتا یے  "۔


اس کی ایک آنکھ سے موتی بے مول ہوکر نیچے کی جانب گِر گیا ۔


"آخر کوئ تو راستہ ہوگا یہاں سے نِکلنے کا وینیسا "۔

فِیا نے اپنی نظریں کاؤنٹر کے نزدیک رکھے فِش ایکویریم پر گاڑیں ہوۓ پوچھا ۔


"کوئ راستہ نہیں ہے فِیا ہم ایک ایسی غار میں ہے جِس میں صرف اندھیرہ ہے ہمیں اندر آنے کا تو پتہ ہے پر جانے کا نہیں ,یہاں سے کوئ فرار نہیں ہوسکتا سواۓ موت کے اور وہ بھی شاید ہمیں نصیب نہ ہو کیوں کے اگر میں ایسا کرتی ہوں تو ہرجانے کے طور پر میرے گھر سےچھوٹی بہن کو لے آۓ گا اور تمہاری شاید بھتیجی کو "۔ْ

وہ آنکھوں میں آنسوں لیے چہرے پر مضنوعی مسکراہٹ سجاۓ اپنے ساتھ گزری کسمپری پر خود سے نالاں تھی ۔


"ہم پولیس کی مدد کیوں نہیں لے سکتے وینیسا "۔


"یہ پولیس سے مدد مانگنے کا ہی تو نتیجہ ہے۔"


"کیا مطلب"۔


 ِ"ایک دن جب میں بار سے اپنے فلیٹ کی طرف جا رہی تھی تب مجھے راستے میں ایک پولیس والا نظر آیا میں نے اپنے آگے پیچھے دیکھا کے کوئ ہے تو نہیں پھر جب اچھی طرح میں تسلی کرُچکی تو میں نے ُاسے آواز لگائ جو میری فریاد ُسن کر ُرک گیا جب میں نے اسے اپنے ساتھ ہوۓ واقعےکے بارے میں  بتایا تو چند لمحوں تک  مجھے سر سے لے پاؤں  تک جانچنے  لگا  پھر مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا "۔


وینیسا فِیا سے بات کے دوران وائین گلاسس کو کپڑے سے صاف  کر کے اوپر گلاس ہولڈڑز میں ہینگ کرری تھی جب کے ِفیا ُاس پہ گزری قیامت کو کاؤنڑ پہ اپنے ہاتھ ٹکاۓ سن رہی تھی۔


"تمہارا پاس پورٹ کہا ہے "۔


"وہ میرے بوس  شائین ہِے کے پاس ہے "۔


وینیسا نے اپنے ہاتھوں کی ُانگلیوں کو چٹختے ہوۓ کہا  جو اس کے چہرے پہ چھائ گھبراہٹ کو دیکھ کر فلک شگاف قہقہ لگا بیٹھا ۔

وہ مجھے ایسے دیکھ کر ہنس رہا تھ جیسے میں نے اسے کوئ لطیفہ سُنایا تھا ۔


"پھر "۔


زھرہ نے وائین کی بوتل صاف کر کے کاؤنٹڑ پر سجاتے ہوۓ اس سےپوچھا جوخاموش ہوگئ تھی۔


"ُاس نےاس انداز میں میرے ہاتھوں کو ُچھوا تھاکے میں اس کی گاڑی سے باہر نکل آئ کیوں کے مجھے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ غلط آدمی تھا جو میرے کسی کام نہیں آۓ گا "


"اس رات میں اپنےفلیٹ پرجب واپس آئ تو اپنا دروازہ لاک کر کے جیسے ہی اندر داخل ہوئ تو شائین ہے سامنے ہی میرے بیڈ پر بیٹھا تھااوراس کے نزدیک ہی وہ پولیس والا کھڑا تھا جو تھوڑی دیر پہلے مجھے باہر مِلا تھا انہیں ایک ساتھ دیکھ کر مجھے  لگا میرے پیروں تلے  سےزمیں کھینچھ گئ ہو۔


"میں کیا ُسن رہا ہوں وینیسا تمہیں ہم نے قید کیا ِہوا ہے "۔

شائین ہےِ خالص انگلش میں وینیسا  کے بال کِھینچھتے ہوۓ ُاس سے ُپوچھنے لگا جو اس کے ڈھاڑنے پر تھر تھر کانپ رہی تھی۔


"ن ن ن نہیں مجھے کہی نہیں جانا مجھے معاف کردو پلیز"۔

وینیسا اسے انگریزی میں جواب دیتے ہوۓ رونے لگی ۔وہ پوری جان توڑ کوشش کررہی تھی اس کے شکنجے سے نکلنے کی مگر وہ بری طرح پھنس چکی تھی۔


"پہلے تو ہم تم سے بہت آسان کام کرواتے تھےپر اب ہمیں تمہارے یہ پر کاٹنے پڑیں گے "۔

وہ اسے اپنے بازوؤں میں جکڑتے ہوۓ اس کے کان کے نزدیک  دھیرے سے بولا۔


"یہ لو مائیک آج کی رات یہ تمہاری ہے کل شام میں ِاسے بار میں چھوڑ جانا "۔

وہ وینیسا کو مائیک کی جانب دھکیلتے ہوۓ باہر نکل گیا ۔جو اسے اپنے رب کے واسطے دینے لگی, عاجزی و انکساری سے بھیک مانگنے لگی مگر ان شیطانوں نے اس کی ایک نہ سنی۔

"وہ رات مجھ پر قیامت بن کر گزری تھی فیا جب مائیک نے شائین ہۓ کے ڈاڑک بنگلوں میں مجھے لےجاکر اپنے چار دوستوں کے ساتھ مل کر نا صرف درندگی کا نشانہ بنایا بلکہ مجھے بلیک میل کرنے کے لیے اپنے ہینڈی کیم سے میری فلم بھی بنائ "۔


12

یہ کہ کر وینیسا ڈھاڑے مار مار کر رونے لگی جسے فِیا اپنے ِحصار میں لیے ڈڑیسنگ روم کی طرف بڑھ گئ جو صرف اسٹاف کے لیے بنایا گیا تھا ۔


"اب یہ روز کا معمول ہے جس کی بات نہیں ُسنتی تو وہ ایسے تحفے سے نواز جاتا ہیں۔"

وہ کچھ دیر کے توقف کے بعد پھر بولی۔


 ِفیا ,تم  بہت خوش قسمت ہو جو تمہیں اس شوکت کی وجہ سے صرف گولیا ِکھلانے کے لیے رکھا گیا ہے ورنہ میری جیسی زندگی تو کسی دشمن کی بھی نہ ہو"۔۔۔۔۔

وہ اپنے آنسوؤں کوصاف کرتے ہوۓ بولی۔


"وینیسا مجھے ایک بات بتادو جب ہم ان کسٹمرز کو یہ گولیاں سیل کرتےہیں تو یہ کس چیز کی گولیاں ہوتی ہیں تم تو پڑھی لکھی ہو تمہیں تو معلوم ہوگا "۔

فیا نے رازدانہ انداز میں وینیسا کے نزدیک جاکر پوچھا۔


"کیا تمہیں سچ میں نہیں معلوم وہ کس چیز کی گولیاں ہے "۔


فِیا نے سر نہ میں ہلایا ۔


"تو پھر میں تمہاری بڑی بہنوں کی طرح ہوں جو چیز ُچھپی ہوئ ہےُاسے پردے میں ہی رہنے دو میری طرح خود کو ِاس اندھیری قبر میں مت دھکیلوں اب جاؤ بار ُکھلنے کا وقت ہونے والا ہے مارک آکر دانٹے گا "۔

وینیسا چہرہ سپاٹ کرتے ہوۓ اسے باہر جانے کے لیے کہنے لگی وہ اپنے اندر ُچھپے ان سوالوں کا جواب نہ ملنے پر ایک بار پھر بے چینی کا شکار ہوگئ تھی۔

                           ۞۞۞۞۞۞۞۞


حال:-

وہ بے دِلی سے آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کررہی تھی اسے اندازہ ہوگیا تھا زین العابدین کا سیالکوٹ میں جلالی ُروپ دیکھ کر وہ اپنی کرسی پہ بیٹھی  ُانگلیوں کو مُسلسل چٹخ رہی تھی مگر اندر کا اضطراب تھا کے بڑھتا جارہا تھا ۔جب ہی زین العابدین آندھی طوفان بنا اپنے آفِس کے اندر تیزی سے داخل ُہوا تھا جس کے چہرے سے جھلکتے غصے کو دیکھ کر سارے ِامپلائیز کو سانپ ُسونگھ گیا۔

جب ہی وہی ُہوا جس کا زھرہ کو دڑ تھا زین العابدین کے بلاوے پر وہ کانپتی ہوئ ٹانگوں کے ساتھ اپنی تیز ہوئ ڈھڑکنوں کو سنبھالتی ہوئ بوس کے کمرے کی جانِب بڑھ گئ اس کی پہلی دستک دینے پر ہی ُاس نے اندر ُبلالیاوہ جھکے سر کے ساتھ خود کو زبردستی دھکیلتی ہوئ ُاس کی ٹیبل کے نزدیک جا کر کھڑی ہوگئ جو شیشے کی دیوار کے باہر جانے خلا میں کیا تلاش رہاتھا۔جب کافی دیر تک زین العابدین نے کوئ بات نہیں کی تو بالآخر زھرہ نے اوکھلی میں سر خود دے دیا۔


"سسر-- آپ نے-- مجھے-- ُبلایا تھا"۔

وہ ہکلا کر بولی ۔


"جی ہاں آپ جیسی مغرور لڑکی کے ساتھ ایک سیلفی لینی تھی اسی لیےبلایا تھا "۔


اس کی غصے سے نسے تنی ہوئ تھی وہ ُاس کے چہرے پہ چھاۓ کرود کو دیکھ کر اپنی غلطی پر پشیمان ہورہی تھی۔


"اب تو آپ کو بہت اچھا لگا ہوگا جب وہ آپ کوراستہ نہیں دے رہا تھا بتاۓ مجھے"۔


وہ اپنی لال انگار ہوئ آنکھوں سے ُاس کی روئ روئ سی آنکھوں میں جھانک کر استفار کررہاتھا جو زین العابدین کے اپنی طرف بڑھتے قدم دیکھ کر پیچھے ہوتی جارہی تھی۔


"اگر میں واپس نہیں آتا تو کیا سارا دن وہی ُاس کے ساتھ آنکھ مچولی کرتی رہتی اب کہا گیا تمہارا سیلف ڈیفینس "۔


وہ بات کرتے کرتے آخر میں اتنی زور سےڈھاڑا تھاجس پر زھرہ کو ایسا محسوس ُہوا جیسے ُاس کا جِسم۔شل ہوگیا ہو وہ بامشکل اپنے قدم پیچھے کرپائ تھی جب ہی دیوار ہونے کی وجہ سے ُاس کا سر زور سے ٹکرایا تھاوہ دو قدم ُاس کے اور نزدیک آیا تھااشہد عزیز کی باتوں کی وجہ سے اس کا دل چاہ رہاتھا وہ سب کچھ تباہ کردے جو اس نے زھرہ کے بارے میں کہے تھے۔


"اب میری بات غور سے سُنو لڑکی میں تمہاری وجہ سے کوئ بھی اسکینڈل نہیں چاہتا وہ سپال میرا کچھ نہیں ِبگاڑ سکتا البتہ تمہارے لیے وہ بہت مشکلات کھڑی کرسکتا ہے ۔تو تمہاری جان بخشی اسی صورت میں ہوگی کے تم یہاں آنے کے لیے پِک اینڈ ڈڑاپ آفس کی طرف سے لُوگی اس کے بعد تم بھاڑ میں جا ؤ  میری طرف سے,

I damn care!!


وہ دیوار کے اوپر ہاتھ مارتے ہوۓ بولاجس پر زھرہ نے خوف زدہ ہوکر اپنی آنکھیں مِیچ لی تھی جو اپنی گُھٹی گھٹی چیخوں کو دباتے ہوۓ بے آواز رورہی تھی ۔


آفس کی حدود میں تم میری زمیداری ہو ,ہاں اگر تمہاری سو کالڈ گھمنڈ تمہیں آفس کی مراعات لینے نہیں دے رہاتھا تو تم مجھے کل کی تاریخ میں اپنے سارے ایڈوانس پیسے واپس کروگی ُسنا تم۔نے "۔


ان کے درمیان اس وقت صرف انگشت جتنا فاصلہ تھا  وہ جان ُبوجھ کر اس سے پیسوں  کا تکازہ کررہاتھا تا کہ وہ  نوکری چھوڑ کر نہ جاسکے تاکہ وہ اس پر نظر رکھ سکے ورنہ سپال اگر گھر تک پہنچ گیا تو وہ کیا کرلے گا, زین العابدین اپنا ایک ہاتھ دیوار پہ ٹکاۓ زھرہ کو مُجرموں کی طرح اپنے کٹہرے میں لیے کھڑا تھا جو ُاس کے غیض وغضب سے آج پناہ مانگ رہی تھی ۔جب ہی کوئ بِنا دروازہ بجاۓ اندر داخل ُہوا۔


"اُوپس ,میں تو غلط وقت پر آگئ  "۔۔۔۔۔


ہالے لال سویٹڑ پر ڈینم جینز پہنے ہائ ہیلز کے ساتھ بال کھولے طمطراق کے ساتھ آفس میں داخل ہوئ وہی زین العابدین ایک جھٹکے سے زھرہ سے پیچھے ہِوا,وہ غیظ و غضب میں یہ بھی ُبھول گیا تھا کے وہ ُاس کے کتنے نزدیک کھڑا تھا۔


"مِس خان آپ جائے یہاں "۔۔۔۔۔


پہلے سے باہر جانے کے لیے پر تولتی زھرہ ایک لمحے میں آفس سے باہر نِکل گئ ۔


"ہالے میرے خیال سے تم۔خود بھی بزنس کرتی ہو,اور تمہیں خود بھی اندازا ہوگا کے کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دروازے پر دستک دی جاتی ہے "۔


وہ دانتوں کو کچکچاتے ہوۓ ُاسے سرد نگاہوں سے گُھورنے لگا پھر اپنی ٹائ کی ناٹ ڈھیلی کر تے ہوۓ اپنے کمرے کا پنکھا چلانے لگا ,جو شاید ایک ادنیٰ سی کوشش تھی اپنے اندر لگی آگ کو ُبجھانے کی۔


"لگتا ہےکافی  کچھ ُہاٹ ُہوا ہے یہاں جب ہی تمہاری مِس خان رورہی تھی "۔

وہ اپنی مخصوص ادا کے ساتھ چلتی ہوئ  اپنی ایک آنکھ کو جھپک کر  دھیمے انداز میں ُاس کے کان کے نزدیک بولی۔


"ہالے!!"۔


وہ سیخ پا ہوکر اپنے غصے کو قابوں میں نہ رکھ سکا اور ہالے پہ ہاتھ ُاٹھا بیٹھا پر اسے مارنے سے پہلےہی اپنے ہاتھ کو ہوا میں معلق کرگیا ۔


"ُاٹھاؤ نہ ہاتھ کیوں نہیں ُاٹھایا یہی تو آتا ہے تم ٹیپیکل مردوں کو ,یہ وہی ہے نہ جس کے لیے تم ُاس دن ہوٹل میں بھی لڑے تھے,

intresting  ,

وہ اپنے ہاتھوں کی ُمٹھیاں بناۓ انہیں سختی سے بھینچے ہوۓ ُاس پر ِچلا ُاٹھا۔

"ہالے"۔


"اپنی گھٹیاں سوچ اپنے تک رکھوں ہالے کسی معصوم پر کیچڑ ُاچھالنے سے پہلے ہمیشہ یاد رکھنا کیچڑ میں پتھر پھینکنے والے پر خود بھی چھینٹے آتی ہے 

so stay away from my matters.۔


وہ جاہ و جلال کے ساتھ ٹیبل پر سے اپنا موبائل اور گاڑی کی چابیاں ُاٹھاتا ہوا باہر کی جانب نکل گیا .۔۔۔۔۔

                             ۞۞۞۞۞۞۞

زھرہ آفس ٹائم ختم ہونے کے بعد گاڑڈ اور ڈڑائیور کی معیت میں گھر جانے کے بجاۓ ایدھی سینٹڑ جانے کا کہنے لگی جس پر ڈڑائیور اور گاڑڈنے چونک کراسے دیکھا۔


"بیٹا آپ کو وہاں پر کیا کام ہے "۔


اس کے ستے ہوۓ چہرے پر چھائ خاموشی ایک گہرے طوفان کا پیغام دے رہا تھی ۔


"مجھے کچھ کام۔ہے بس ایک انفارمیشن لینی ہے پھر آپ مجھے گھر چھوڑ دیجیے گا  "۔


"ٹھیک ہے بیٹے "۔


گاڑی ایدھی سینٹڑ کے باہر جاکر ڈڑایور نے روکی ۔


"بیٹے میں اندر لے کر جاتا ہوں "۔


"نہیں بابا مجھے بس ایک منٹ کا کام یے وہ کرلوں پھر چلے گے پارکنگ میں وقت لگ جاۓ گا "۔


یہ کہ کر زھرہ تیز تیزقدموں کے ساتھ جالی کے پار بیٹھے مولوی صاحب سے مخاطب ہوئ جو یہ نہیں جانتی تھی گاڑڈ اس کے ٹھیک پیچھے کھڑا تھا ۔


"انکل مجھے ایک انفارمیشن لینی تھی مجھے معلوم نہیں کہا سے پتہ کرنا ہے آپ تھوڑا سا گائیڈ کردے "۔


"بولے بیٹا "۔


"انکل اگر کسی ضرورت مند کو اپنا گردہ بیچنا ہو تو کیا وہ یہاں ِبک سکتا ہے ْ؟۔۔۔۔۔۔

                           ۞۞۞۞۞۞۞

وہ گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا سردیوں کی یخ بستا ہواؤں میں جو لہروں کو چیرتی ہوئ اس تک آرہی تھی۔وہ خاموشی سے سگریٹ پھونکتے ہوۓ اشہد عزیز کے لفظوں کی تپش میں جھلس رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کہی سے زھرہ کو غائب کردے جس کی وجہ سب کچھ ہورہا تھا ۔جب ہی اس کے زہن میں ایک خیال ُکوندا "۔


اس نے جلدی سے اپنے گاڑڈ کو کال مِلائ جس نے پہلی ہی بیل پر کال ُاٹھالی۔


مِس خان کو چھوڑ آۓ؟ "۔


وہ سیگریٹ کا کش لیتے ہوۓ  دھوۓ کے ہوا میں مرغولے بنانے لگا ۔

"جی سر بس انہیں چھوڑ کر ہی جارہے ہے "۔


"اتنی دیر سے کیوں ,آفس ٹائم تو کب کا ختم ہوچکا ہے وہ دیر سے گئ تھی یا راستے میں کوئ مسئلہ تو نہیں ُہوا "۔

وہ چونک کر گاڑڈ سے استفار کرنے لگا جس پر تھوڑی سی شش و پنج کے بعد گاڑڈ نے ایک بات کہی جس نے زین العابدین کے چودہ طبق روشن کردیے۔

"نہیں صاحب وہ بی بی کو ایک کام تھا راستے میں ہم وہاں ُرکے تھیں"۔۔۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے "۔

"صاحب ایک بات بولے اگر آپ بُرا نہ مناۓ تو "۔

گاڑڈ نے ہچکچاتے ہوۓ اپنے مالک سے اجازت چاہی جو عمر میں ُاس کے بیٹے جتنے تھا۔

"بولو "۔

"صاحب وہ اگر بی بی آپ سے پیسے مانگے گی تو انہیں دے دینا منع مت کرنا "۔

"کیا مطلب "۔

زین العابدین کی پیشانی پر دو بل نمودار ہوۓ۔

"صاحب وہ بی بی کو پیسوں کی سخت ضرورت ہے وہ اپنا گُردہ بیچنے لگی ہے "۔

"کیا"۔

صاحب ایک بات بولے اگر آپ بُرا نہ مناۓ تو "۔


گاڑڈ نے ہچکچاتے ہوۓ اپنے مالک سے اجازت چاہی جو عمر میں ُاس کے بیٹے جتنے تھا۔


"بولو "۔


"صاحب وہ اگر بی بی آپ سے پیسے مانگےآۓ گی تو انہیں دے دینا منع مت کرنا "۔


"کیا مطلب "۔

زین العابدین کی پیشانی پر ناگوار لکیریں ابھری تھی ۔


"صاحب وہ بی بی کو۔پیسوں کی سخت ضرورت ہے وہ اپنا گُردہ بیچنے لگی ہے "۔


"کیا "۔۔

وہ سیگریٹ پُھونکتا ہوا گاڑی کے بونٹ پہ بیٹھا اِک دم سے اپنی گاڑی سے نیچے ُاتر آیا۔


"پوری بات بتاؤ چاچا اور جلدی بولو "۔


وہ اضطرابی حالت میں ایک ہاتھ سے فون کو کان سے لگاۓ جب کے دوسرے ہاتھ سے اپنی ہلکی داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ زمین پر پڑی ریت پر اپنے جوتے کی نوک ماررہاتھا جو اس کے اندر پھیلی بے چینی کا پتہ دے رہی تھی ۔


"صاحب جی وہ ایدھی والے نے تو انہیں منع کردیا تھا کے یہاں پر اعضاء عطیہ کیے جاتے ہے اگر آپ کو پیسوں کی ضرورت ہے تو وہ انہیں صبح ایک کلینک ُبلارہے تھے جہاں ان کے پہلے کچھ ٹیسٹ لیے جاۓ گے پھر بتاۓ گے کے ان سے ُگردہ لے گے یا نہیں "۔


گاڑڈ کی بات غور سے سنتا ہُوا زین العابدین اپنے لبوں کو بھینچھے ہوۓ گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا  ۔


"صبح کتنے بجے ُبلایا ہے ُاس نے "۔اس نےماتھے پر تیوری چڑھاۓ گاڑڈز سے نہایت سرد انداز میں پوچھا۔


"صاحب صبح دس بجے ُبلایا ہے بی بی کو "۔


"ٹھیک ہے اِس بات کا زکر کسی سے بھی مت کرنا باقی میں خود دیکھ لوں گا "۔


چند ضروری باتیں کرنے کے بعدزین العابدین نے اپنی گاڑی ساحل سمندر سے واپسی کے لیےموڑلی اس نے گاڑی سیدھا اپنے دوست یوشع کے گھر کی جانب موڑلی جو کچھ ہی دیر میں ُاسے اپنے گھر کے ڈڑائینگ روم میں لیے بیٹھا  ُاس سے سارے دن کی باتیں پوچھ رہا تھا۔


"یوشع اب میں نے تجھے ساری بات بتادی ہے ِاس وقت میں بہت زیادہ ٹینس ہوں ایک طرف نیا بزنس شروع کیا ہےتو دوسری طرف یہ رزیل انسان نے تنگ کیا ہوا ہے تو بتا کیا کرو ں میں "۔


زین العابدین صوفے پہ بیٹھا  ٹانگ پر ٹانگ جماۓ ِسیگریٹ ُپھونکتا ہوا عجیب بے چینی کا شکار تھا۔


"یار ایک بات تو پکی ہے وہ تجھ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا ,مگر جیسا کے تو بتا رہا ہے مِس خان کا وہ تجھے ُاس کے ذریعے دھمکی دے رہاہے تو ہم سیدھے طریقے سے پولیس میں رپورٹ کردیتے ہیں"۔

ہاں یہ تو جیسے بہت آسان ہے نہ تمہیں ُاس کا گیم نظر نہیں آرہا شاید ِاس کے پیچھےوہ خبیث جان کر مجھے ُاکسارہاہے تاکہ میں  جلد بازی میں آکر کوئ غلط فیصلہ کروں"۔


وہ ٹانگیں سیدھی پسارتے ہوۓ صوفے کی پشت سے آنکھیں موندےکمر ٹِکاگیا ۔پھر ایک گہرا کش لیتے ہوۓ یوشع  کی جانب دیکھا۔


"تو ُاس سے اسے کیا فائدہ "۔

اس نے اپنی ایک آئ برواچکا کے پوچھا ۔


"فائدہ ہی تو ہے سیالکوٹ والے پروجیکٹ میں ان کی کمپنی دوسرے نمبر پر آئ تھی ,مگر اسپیچ کی وجہ سے ان کے ایک پوائنٹ کم ہونے سے یوکشائیر وِن کر گئ "۔

"تو "۔یوشع کو ابھی بھی اس کی بات سمجھ نہیں آئ۔

تو یہ کے میں پولیس کو انوالو کرتا ہوں تو ظاہر سی بات ہے 13

میری کمپنی کی بدنامی ہوگی اس اسکینڈل کی وجہ سےاورجو پروجیکٹ ابھی شروع بھی نہیں ہوا وہ ہم سے واپس لے لے گے تاکہ ان کی کمپنی کی ساخت پر اثر نہ پڑے "۔۔

وہ اپنی پیشانی کو مسلتے ہوۓ گمبھیر لہجے میں بولا ۔


"OK NOW I GOT YOUR POINT ".

اس نے مسکراتے ہوۓ کہا,


"یوشع سیدھی سی بات ہے میں ُاس لڑکی کی وجہ سے کوئ اسکینڈل نہیں چاہتا ,مگر مجھے یہ بھی معلوم ہے اشہد ہر ُاس حد تک جاۓ گا جس سے میں مجبور ہوں کیوں کے ُسنا ہے ُاس نے کافی پیسہ ُاٹھایا ہوا تھا مارکیٹ سے "۔


وہ ایش ٹڑے پر سگریٹ مسلتے ہوا بولا۔


"ہم !مسئلہ تو کافی گھمبیر ہے ایسی صورت میں دو ہی (option) ہے "۔


یوشع نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓملازم کو دیکھ کر خاموشی اختیار کی جو اشہد اور اسے کوفی سرو کررہاتھا۔


"ہاں تو میں کیا کہ رہاتھا کے تیرے پاس ِاس وقت دو راستے ہے ایک یہ کے تو لڑکی کو نوکری سے نکال دے "۔

یوشع نے ملازم کے جاتے ہی اپنی بات دوبارہ جاری کی۔


"وہ پھر بھی جاۓ گا ُاس کے پیچھے ُاس نے مجھے کہا ہے ۔

next option".


زین العابدین نے یوشع کی بات درمیان میں ہی کاٹ کر اپنی بات اسے کہی ۔


"تو پھر ُتو سپال کو اغواء کروادے"۔

اس نے مزاحیہ انداز میں کوفی پیتے ہوۓ کہا۔


"ُاس کا بھائ شاید تجھے یاد نہیں سیاست میں ہے اس کے لیے اسے ڈھونڈنا کوئ مشکل بات نہیں جب کے اسے معلوم ہے کے میری تازہ تازہ لڑائ ہوئ ہے ُاس کے بھائ سے "۔

وہ یوشع کے مشورے پر بھڑکتے ہوۓ بولا ۔


"تو پھر بیٹا تو ُچپ کر کے ُاس لڑکی کو پکڑپیپر میرج کر پھر اس کے بعد تو ُاس لڑکی پر وہ ہاتھ آسانی سے ڈالے گا نہیں کیوں کے شیر کی کچھاڑ میں ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوتا ,

,اب تو دیکھ لےکیوں کے تو خود کہ رہاہے وہ strong background سے تعلق نہیں رکھتی تو ایسے میں تو ,ُتو بھی اس کی  حفاظت نہیں کرسکتا جب تک وہ تیری نگرانی میں نہیں ہوگی "۔


یوشع ایک ہاتھ سے کوفی پیتے ہوۓ نہایت سنجیدگی سے زین العابدین کو اپنے مشوروں سے نواز رہاتھا جو ُسن سا بیٹھا ُاس کی باتیں ُسن رہاتھا ۔


"تو نگرانی تو میں ویسے بھی کراسکتا ہوں ُاس میں نکاح کی کیا ضرورت "۔

زین العابدین نے اپنے گھنے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ پوچھا ۔


"نکاح کا ِاس لیے کہا ہے جیسے کوئ precautions (احتیاطی تدابیر) کے طور پر پہلے سے کرلیتا ہے میں ُاس طرح کہ رہاہوں جیسے کے تو نے مجھے کہا تھا کے وہ پلید آدمی تجھے کہ رہاتھا کے وہ تیرے ذریعہ سے اس لڑکی کو( sexually abuse )جنسی استحصال کرے گا تو ہوسکتا ہے ُاس کے زہن میں کوئ منصوبہ(plaining) چل رہا ہو باقی تو خود سمجھدار ہےایک بار پروجیکٹ شروع ہوجاۓ توچھوڑدینا ُاس کو,ابھی ویسے بھی initial signature (ابتدائ دستخط ) ہوۓ ہے"۔


یوشع نے زین العابدین کی جانب دیکھا جس کے چہرے پر چھاۓ شِکنوں کے جال ُاس کے اندرچلتے بونچھال کی ترجمانی کررہی تھی ۔

buddy relax ..

ُتو میری مان تو ُاس لڑکی کو کہی غائب کروادے "۔

ؔیوشع صوفے پہ نیم دراز ہوتے ہوۓ بولا ۔0ق


"کیا یوشع وہ کوئ گڑیاں نہیں ہے جسے میں ٹوٹنے کے ڈڑ سے ُچھپالوں گااس کی بھی کوئ فیملی ہے جن کے بیچ میں وہ رہتی ہے اور تو نے کیا مجھے کوئ گینگسٹڑ سمجھا ُہوا ہے جو لوگوں کی بیٹیوں کو اغواء کراتا پھرو "۔

وہ برہمی کا اظہار کرتے ہوۓ اسے کشن اٹھا کر دے مارا۔



"تو بس بیٹے تو جا اور اسے اعتماد میں لے کر یہی کام کر اس کے علاوہ تیرے پاس کوئ چوائس نہیں "۔

زین العابدین اپنے لبوں کو بھینچھےہوۓ ایک دم سے کھڑا ہوا 

"چل ٹھیک ہے سوچتا ہوں کیا کرنا ہے "۔

BYE            ۔

                            ۞۞۞۞۞۞۞۞

"وینیسا یہ کیسے جہالت سے بھرے لوگ ہے کیا ان کو نظر نہیں آتا کے یہ لوگ کیا کررہے ہے "۔

فیا اور وینیسا اپنی شِفٹ ختم کرکے کے باہر نکلنے کی تیاری میں تھی جب ہی ِفیا نے بار میں ناچتی لڑکیوں کو دیکھ کر کہا جو انتہائ نازیبا لباس میں مردوں کے اِردگِرد تِھرک رہی تھی ۔


"کون ؟ یہ جو مردوں کا ہجوم لگا ُہوا ہے تم ان کے بارے میں کہ رہی ہو "۔


وینیسا نے اسٹیج کے نزدیک کھڑے مردوں کو دیکھ کر کہا جو ہاتھوں میں گندے مشروب تھامے نشے کی حالت میں بار دانسرز کے ساتھ ِتھرک رہے تھیں۔


"ہاں یہی لوگ کیوں کےان ڈانسرز کی تو وجہ میں جانتی ہوں وہ کس مجبوری سے یہاں کھڑے ہوکر یہ کام کررہی ہے پر ان مردوں کو کیا تکلیف ہیں یہ کیوں یہاں آتے ہیں ,پر بلاشبہ مذہب سے دوری ان کی ایک وجہ ہوسکتی ہے کیونکہ نہ تو ہمارا معاشرہ و مذہب اور نہ ہی اخلاقی اقدار ایسی حرکات کی اجازت دیتی ہیں"۔

فِیا بات کرتے ہوۓ وینیسا کے ساتھ  باہر کی جانب نِکل آئ تھی وہ آہستہ آہستہ باتیں کرتی ہوئ چل رہی تھی۔


"معزرت کے ساتھ پر میں یہ سوچتی ہوں کے صرف مزہب سے دوری ان کی وجہ نہیں بلکہ میں ِاس کی زمیداری میڈیا پر عائد کرتی ہوں کیوں کے یہ سیٹیلائیٹ نشریات اور ڈش اینٹیناز نے لوگوں کی ذہنیت میں بگاڑ پیدا کیا ہےجس کی وجہ سے یہ جنسی بے راہ روی بڑھتی جارہی ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت ان کے دیکھنے کے  رجحان  میں اضافے کے باعث یہ بے راہ روی بڑھتی ہے "


وینیسا نے نزدیک ہی کھڑے کھانے کی کیبن کار کے پاس روکا ۔

"Two pa pia sod please".


"میرے خیال میں اتنے گمبھیر مسئلے کی کوئی ایک وجہ تلاش کرنا بھی بےانصافی ہوگی اس میں کچھ قصور تعلیم کا اور کچھ تربیت کا بھی ہے اور ہا ں کچھ مسائل نفسیاتی ہیں جو غیر متوازن معاشرتی دباؤ سے جنم لیتے ہیں اور سچ پوچھوں تو  کچھ سوچ کی خرابی بھی ہے"


فیا نے وینیسا سے کاغز پہ رکھے پا ِپیا سوڈ کو ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔

ٹھیک کہ رہی ہو لڑکی جس کی وجہ سےاِس شائین ہےِ جیسے لوگ ہم جیسی ُمفلسی کا شکار لڑکیوں کو جبراً اپنی فہاشی کی جگہوں پر لا پھینکتے ہے تاکہ ہم انہیں کما کر دے سکے 

پر وہ یہ نہیں جانتے جب مظلوم کی آواز ُاس عرش تک جاتی ہے تو وہ کیسے اشتعال میں آجاتا ہے اور جس دن میرے خدا نے اس ظالم کی رسی کھینچھی تو دیکھنا ُاس دن مجھے سکون آجاۓ گا "۔


وینیسا ُلوپز نے اپنی ایک آنکھ کا بہتا قیمتی موتی اپنی مخروطی انگشت سے صاف کیا ۔


"اچھا یار چھوڑو بھی پہلے یہ بتاؤ تم نے مجھے کیا کھِلایا ہے یہ لگ تو مزے کا رہا ہے پر ِاس میں کچھ حرام چیز تو نہیں"۔


ہاہایاہا۔


"اب کیوں بتاؤ پہلے تو بڑے مزے سے کھارہی تھی "۔


"وینیسا بتاؤ نہ یار "۔


"ڈیڑ یہ ایک رول ہے اب تم کہوگی رول کیا بس اتنا سمجھ لو

اس میں سبزی ہوتی ہے اور اوپر سے ڈالنے کے لیے فِش ساس "۔۔

"یعنی ٹھیک چیز ہی کھائ ہے نہ "۔


"جی ہاں چلو پھر میں چلتی ہوں آج زیادہ دیر ہوگئ ہے "۔


"وینیسا تم میرے ساتھ چل لو نہ مجھے اکیلے جاتے  ہوۓ ڈڑ لگ رہا ہے "۔


فیا نے ڈھلتی شام کی جانب دیکھ کر کہا۔


"ِفیا میں چلی جاتی پر تم جانتی ہو اگر میں وقت پر نہیں پہنچی تو شائین ہِے مجھے کیا سزا دے گا ,تم خود چلی جاؤ میری جان ویسے بھی جب تک تم تیرنا نہیں سیکھوں گی تو سمندر میں کیسے رہو گی "۔

وینیسا نے ُاس کے شانے کے گرِد بازوں پھیلاتے ہوۓ کہا ۔


"ٹھیک ہے پھر میں جارہی ہوں تم بھی دیھان سے جانا "۔


"خداحافظ "۔


وینیسا کے جانے بعد ِفیا تیزی سے اپنی منزل کی طرف جانے لگی مگر آج اس کا کسی نے پیچھا نہیں کیا تھا جو شاید ُاس کے لیے ایک حیران ُکن بات تھی وہ سیدھا اپنے اِسٹوڈیوں اپارٹمنٹ کا لاک کھولتے ہوۓ اندر داخل ہوگئ جو یہ نہیں جانتی تھی کے وہ کسی کی نگرانی میں اپنے گھر تک با حفاظت پہنچی تھی۔

باہر کھڑے اس کے چہرے پہ ایک گمبھیر سی ُمسکراہٹ چھاگئ تھی وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ُہوا ُاس وقت کو یاد کرنے لگا جب وہ تیز بارش میں ُاسے پٹانی کے ٹاپو کے نزدیک بنے لکڑی کے ُپل کو تیزی سےپار کرتی ہوئ نظر آئ تھی جب ہی وہ اپنی ہائ ہیلز کی ایڑی کا ایک پاؤں ُاس میں ْاڑا بیٹھی دور کھڑا عظیم خان جوٹاپوں پار کرنے کے لیے کشتی کا انتظار کررہاتھا قدرت کے ِاس شاہکار کو دیکھ کر  مبہوت ہوگیا مگروہ ایک دم سے اپنےحواس قابوں میں لاتا ہوا ُاس کے نزدیک گیا کیوں کے لوگوں کا ہجوم برستی بارش سے بچنے کے لیےکشتی کے اوپر پہلے سوار ہونے کی دوڑ میں تیزی سے ُاس کی جانب بڑھ رہاتھا عظیم خان ُاس کی جانب کمر کیۓ لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے روک رہاتھا تاکہ کوئ بھی بے دیھانی میں ُاس کے اوپر نہ گِرےوہ ُمسلسل ُاس نوجوان کی کمر کو پلٹ کر دیکھ رہی تھی جو اجنبی ہونے کے باوجود اس کی مدد کے لیے لوگوں کے سامنے سیسہ پلائ دیوار بن گیا تھا مسافروں  کے سوار ہونے کے بعد عظیم خان ُاس کی جانب پلٹا جو کالے یونیفارم میں اپنے گھنے بالوں کی چوٹی بناۓ اپنی ہِیل کو نکالنے کی کوشش کررہی تھی  ۔عظیم خان  نے ُاس کی جانب اجازت طلب نظروں سے دیکھا  تاکہ وہ اسے ِاس پریشانی سے ُچھٹکارہ ِدلا سکے فیا نے کچھ شش و پنج کے بعد اپنے ہاتھ ہٹادیۓ ,ُاس نےنہایت احتیاط سے ُاس کے پیر سے جوتی کو آزاد کرایا پھر ایک جھٹکا دے کر ُاس کی  ُجوتی نکالی جو لکڑی کے بنے ُ پل میں پھنس گئ تھی چند پلوں کے لیے ِفیا نے عظیم خان کی صحر انگیز آنکھوں میں جھانکا تھا مگر تیز ہوتی بارش کی وجہ سے وہ تیزی سے ُاٹھ کر اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگی مگر عظیم خان اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہا تھا جب ہی وہ بِنا ُاس کی نظروں میں آۓ ُاس کا پیچھا کرنے لگا ۔


                           ۞۞۞۞۞۞۞۞۞

"ہیلو کہا ہے یار ُتو ؟مجھے ُبلا کر خود غائب ہوگیا "۔

یوشع زین العابدین پر بگڑتے ہوے بولا ۔


"کیا مطلب !اتنی رات کو کیوں فون کررہا ہے سونے دے نہ یار ابھی تو آیا ہوں تیرے پاس سے "۔


زین العابدین نے نیند سے بند ہوتی آنکھوں سے ُاسے فون پر بوجھل آواز میں کہا۔


"ہاہاہاہا! زین بابا ذرا گھڑی میں وقت دیکھے آپ صبح کے بارہ بج رہے ہے "۔


" کیا "۔

"o shit "


وہ لحاف میں سے چِلاتا ہوا ُاٹھا اور گھڑی میں وقت دیکھا ۔


"yosha ill call u back ".


وہ تیزی سے تیار ہوکر آفس کے لیے نِکل پڑا رات دیر تک جاگنے کی وجہ سے زین العابدین کی آنکھ دیر سے ُکھلی تھی ,وہ بھاگم بھاگ آفس میں داخل ُہوا جہاں تمام  ِاسٹاف اپنے مالک کو دیکھ کر ادب سے سلامgood afternoon  جیسے کلمات ادا کرنے لگےوہ سر ہلا کر سب کو جواب دیتا ہوا اپنی داۓ جانب بنے کیبن کو دیکھتا ُہوا گزرا جہاں زھرہ خان اپنی ُکرسی پہ بیٹھی بڑی منہمک انداز میں کام کررہی تھی وہ   ایک سرسری سی نظر اس پرڈالتا ُہوا سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا زھرہ جو اپنے کام میں مصروف تھی ہوگو بوس کی خوشبوں اپنے اطراف میں سونگھ کر ایک دم سے اپنا سر ُاٹھا کر دیکھنے لگی مگر ُاسے زین العابدین کہی نظر نہیں آیااس نے اشارے سے ُگل سے پوچھا۔

" سر آگۓ"۔

 اس نے گردن کو ہلا کر ُاس کی تصدیق کردی  جب ہی چپراسی اس کا ُبلاوا لے کر آگیا وہ ُبجھے دل کے ساتھ کمرے کے باہر دستک دینے لگی جس پر زین العابدین نے ُاسے اندر ُبلالیا ۔


"اسلام علیکم سر "۔

وعلیکم سلام "۔


وہ ُاس پہ اپنی نظریں جماۓ ُہوا تھا جو آج ہلکے گلابی رنگ کے شلوار کمیز پر ُاس کا ہم رنگ ڈوپٹہ سر پہ اوڑھے شال کو اپنے شانوں کے گرد لپیٹے کھڑی تھی ۔


"کیا شیڈیولز ہے آج کے ِمس خان "۔

زین العابدین نے اپنی گھڑی پہ نظر دوڑاتے ہوۓ کہا۔


"سر آج آپ کی دو میٹنگز کینسل ہوگئ ہے جو صبح نو سے دس کے درمیان تھی ۔اس کے علاوہ آپ کی ایک میٹنگ ہے لنچ بریک کے بعد جو کے ونیزہ بلال کے ساتھ ہے ہماری کمپنی کے اشتہار کے لیے "۔


"ٹھیک ہے ُاسے لائین اپ کرو ِاس کے علاوہ "۔


ُاس نے اپنے سامنے فائل کھولتے ہوۓ پوچھا


"سر یہ کچھ فائلز ہے ان کے اوپر آپ کے دستخط چاہیۓ "۔


زھرہ نے ُاس کے سامنے دو فائلیں کھول کر رکھی مگر زین العابدین فائل کو دیکھنے کے بجاۓ ُاس کے ہاتھ پہ لگی روئ اور ٹیپ کو دیکھ رہا تھا ُاس نے جلد اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ اور فائلوں پر اپنی نظریں دوڑانے لگا ,پھر زھرہ کے جاتے ہی ُاس نے ُگل کو آفس میں ُبلا بھیجا جو کچھ ہی دیر میں پریشان سی اپنے مالک کے سامنے کھڑی تھی ۔

"جانے کیا غلطی ہوگئ ہے جو اس اینگری مین نے مجھے ُبلالیا ہے "۔وہ دل ہی دل میں زین العابدین پر صلواتیں ُسناتی ہوئ آگئ۔

14

مس ُگل آج کون کون آفس میں دیر سے آیا تھا "۔


زین العابدین نے جان کر بہانے سے پوچھنا شروع کیا ۔


"سر سب تو وقت پر آۓ تھیں کوئ بھی لیٹ نہیں آیا "۔

گل نے دماغ پر زور دیتے ہوۓ کہا۔


"تو پھر آفس سے درمیان میں کسی نے بریک لی "۔

اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔


"یس سر وہ مِس خان کو کچھ ضروری کام تھا تو انہوں نے کہا تھا وہ اپنا ایک گھنٹہ لنچ بریک میں کام کرکے پورا کردے گی "۔

الجھی ہوئ گل کو ایک دم سے یاد آنے پر وہ چٹکی بجاتے ہوۓ بولی۔


"مس خان کو کیا ضروری کام تھا انہوں نے بتانا ضروری سمجھا کسی ہیڈ کو "۔

اس نے چبھتے ہوۓ لہجے میں پوچھا۔ 



"نو سر وہ کہ رہی تھی کے کچھ پرسنل کام ہے انہیں تو وہ پھر مِس ہمنا سے اجازت لے کر باہر گئ تھی "۔


"ٹھیک ہے آپ جاۓ "۔


"یس سر "۔


زین العابدین اپنے لبوں کو بھینچھے ہوۓکچھ پلوں کے لیے اپنے ہاتھ میں پیپر ویٹ اسٹون کو گھوماتا رہا پھر کچھ سوچتے ہوۓزھرہ کے لیے مختص کیے گۓ  ڈڑائیور کو کال ِملائ جس نے پہلی ہی بیل پر فون ُاٹھالیا ۔


"سلام صاحب "۔


"سلام "۔


"بابا آپ بی  بی کو کہی لے کر گۓ تھیں"۔۔۔۔

اس نے اپنی ایک آبرو اچکا کے پوچھا ۔


"جی صاب آپ نے کہا تھا انہیں جہاں بھی جانا ہوگا ہم لے کر جاۓ گا انہیں "۔


وہ اپنے خاص لہجے میں بولتا ہوا زین العابدین کے شک کو یقین میں بدل رہا تھا


"گاڑڈ کو فون دے"۔


"جی صاحب "۔


"بی بی کہا گئ تھی "۔


زہن العابدین نے سرد لہجے میں گاڑڈ سے پوچھا ۔


"صاحب وہ وہی کلینک گئ تھی آپ کو ہم نے بتایا تھا "۔


"کیا کروایا ہے وہاں مِس خان نے "۔

وہ ٹیبل کی سطح پر اپناعکس دیکھتے ہوۓ سرد انداز میں  بولا ۔


"صاحب ابھی ٹیسٹ ہوۓ ہیں کل رپورٹ ملے گی پھر پتہ چلے گا کے وہ دے سکتی ہے کے نہیں "۔


"ٹھیک ہےاب سے آپ اور صادق آفس ٹائم کے بعد بھی بی بی کی نگرانی کریں گے مگر  ِبنا ُاس کی نظروں میں آۓ "۔

وہ ہنوز پیپر ویٹ کو گھوماتے ہوۓ بولا 


"جی صاحب اور کوئ حکم "۔۔


"نہیں کوئ بھی بات ہو تو آپ مجھے میرے نمبر پر سیدھا کال کرے گے "۔


"جی صاحب "۔


گاڑڈ کا فون بند کر کے زین العابدین شیشے کی بنی کھڑی کے نزدیک کھڑا ہوگیا جو آج سفید پینٹ کوٹ اور شرٹ پر  کریم رنگ کی ٹائ لگاۓ اپنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیۓماتھے پہ ان گنت شکنوں کا جال بچھاۓ کھڑکی سے برستی بارش کو دیکھ رہاتھا جس کی وجہ سے موسم میں مزید ُخنکی ہوگئ تھی وہ اپنی ہلکی داڑھی پہ ہاتھ پھیرتا ہوا کسی گہری سوچ میں ُگم تھا  ۔جب ہی اس نے شیشے کی دیوار سے باہر جھانکا جہاں تمام ِاسٹاف کیفیٹیریامیں لنچ بریک کے لیے جاُچکا تھا سواۓ مِس خان کے جو تندہی سے  سر ُجھکاۓاپنے کام میں ِاتنی مشغول تھی کے اسے اپنے سر سے ِسرکتے ڈوپٹے کا بھی ہوش نہیں تھا جو فرش کو سلامی دے رہا تھا  اس کی لمبی ُچوٹی سر ُجھکانے کی وجہ سے آگے کی جانب آرہی تھی وہ کچھ پلوں کے لیے ہی صحیح پر ان ُمڑی سایہ فگن پلکوں کو دیکھ کر مبہوت ہوجاتا تھا وہ متواتر اسے دیکھ رہاتھا جب ہی دل کی آواز پر لبیک کہتا ُہوا وہ اپنے قدم ُاس کی جانب بڑھانے لگا جو اپنے کام میں منہمک تھی زین العابدین ٹھیک ُاس کی ٹیبل کے نزدیک کھڑا ُجھک کر ماربل سے ُاس کا آدھا ڈوپٹہ ُاٹھاتے ہوۓ ٹیبل پر رکھ گیا ۔

زھرہ جو اپنے کام میں مصروف تھی بوس کو اپنے اتنے نزدیک  کھڑادیکھ کر چونک اٹھی جو سرسری سا ان غزالی آنکھوں میں دیکھتا ہوا سیدھا ہمنا تنویر کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔


وہ ایک لمبی سانس لیتے ہوۓ واپس اپنی ِسیٹ پر بیٹھ گئ  جب ہی چپراسی ُاس کی ٹیبل پر کھانے کی ٹڑے رکھتے ہوۓ جانے لگا تو زھرہ نے ُاسے آواز دی جو ٹڑے میں ایک سینڈوِچ اور دو جوس کے ڈبے لایا تھا  ۔


"یہ میں نے نہیں منگوایا اسے لے جاؤ "۔۔۔۔

وہ ماتھے پر سلوٹیں لاۓ اسے کہنے لگی ۔


"میم بوس نے کہا ہے یہ آپ کو دینا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کے آپ یہ کھا کر پھر کام شروع کرنا "۔

یہ کہ کر چپراسی واپس جانے لگا تو زھرہ نے ُاسے پھر آواز دی۔

"ُرکو !یہ لو پیسے جس نے منگوایا ہے ُاسے دے دینا میں کھانا ُمفت میں نہیں کھاتی "۔

زھرہ نے ُاس کی جانب پیسے بڑھاتے ہوۓ کہا جسے دیکھ کر چپراسی کا رنگ ُاڑگیا۔


"بی بی یہ پیسے آپ خود دے میں نہیں دوں گا "۔

وہ گھبرا کر کہنے لگا۔


"تو پھر یہ ٹڑے بھی لے جاؤ "۔

زھرہ نے اپنی ایک آئ برو ُاچکا کے کہا جس پرچپراسی شش و پنج میں مبتلا کبھی زھرہ کی جانب تو کبھی بوس کے کمرے کی جانب دیکھتا,ایک سیر تھا تو دوجی سواسیر تھی آخر وہ پیسے لے کر بوس کے پیچھے ہمنا تنویر کے آفس چلاگیا جہاں اسے زین العابدین نہیں ِملا۔


لنچ بریک ختم۔ہونے کے بعد زین العابدین جو اوپر بنے پڑودکشن سیکشن میں تھا وہاں کے ڈیزائینرز سے آج کی میٹنگ کے لیے سیلیکٹ کیے ڈڑیسیس کو دیکھنے گیاتھا واپس آنے کے بعد اپنے آفس میں یوشع کی موجودگی پر خوش ہوگیا ابھی وہ دونوں کمپنی کے لیگل ایشوز کو ڈسکس کر ہی رہے تھیں۔ جب ہی چپراسی دروازہ بجاتا ہوا اندر داخل ُہوا ,اس نے ادب کے ساتھ زین العابدین کی جانب سو سو کے تین نوٹ بڑھاۓ جنہیں دیکھ کر زین العابدین نے سوالیہ انداز میں دیکھا۔


"یہ کیا ہے "۔


"وہ وہ صاحب "۔

چپراسی ہکلانے لگا۔


"آگے بھی بولو کیسیٹ پھنس گئ ہے کیا "۔

چپراسی کا پژمردہ چہرہ دیکھ کر زین العابدین کا دل کھٹکا تھا جو اس کے ڈڑ سے ہکلانے لگاتھا ۔


"وہ صاحب مِس خان نے پیسے بھجواۓ ہیں "۔

زین العابدین نے پیسوں کی جانب دیکھا جیسے وہ انہیں سالم ہی نگل جاۓ گا۔


"کس لیے "۔

اس نے اسے گھور کے دیکھا۔



سسسر وہ وہ کہ رہی  تھی جس نے کھانا بھیجا ہے اسے دے دینا میں مفت میں کھانا نہیں کھاتی "۔

چپراسی کی جان جیسے سولی پر لٹکنے جارہی تھی جب ہی اٹک اٹک کے بولا۔


 وہ تادیر اپنے بھڑکتے غصے پہ قابو نہ رکھ سکا جب ہی اپنے ہاتھوں کو ٹیبل پر زور سے مارا جس پر چپراسی ایک دم سے پیچھے ُہوا۔


"آپ جاۓ "۔


یوشع نے چپراسی کو باہر بھجوایا جو فوراًہی باہر نکل گیا۔


"دیکھا کیا کہاتھا میں نے تمہیں 

"She is totally Insane" .


وہ جارحانہ انداز میں باہر کی جانب جانے لگاجس پر یوشع پہلے تو اسے دم سادھے سنتارہا پھراڑیل گھوڑے کی طرح  بے قابوں ہوتے زین العابدین پہ اپنی گرفت مضبوط کی۔

"cool down zain ۔"

"تو چھوڑ اسے ہم چلتے ہے باہر "۔

یوشع اس کے مضبوط کثرتی شانے کے گرد ہاتھ پھیلاۓ اسے باہر لے جانے لگا تاکہ اس کے غیض و غضب کےقہر سے زھرہ کو بچا سکے۔


"مطلب یوشع میں نے ہمدردی میں اسے کھانا بھجوایا کے وہ ٹیسٹ کرواکر آئ ہے اوپر سے لنچ بریک ِاسکپ کررہی ہے تو میں اس کی مدد کردیتا ہوں 

but she is totally insane"۔

اس نے بپھر کر کہا۔

 ..

جب ہی دروازے پر دستک ہوئ جسے زین العابدین کے بجاۓ یوشع نے یس کہا ۔جہاں سے اندر داخل ہوتی ہستی کو دیکھ کر زین العابدین کی آنکھوں سے  شرارے ُابل پڑے یوشع کو سمجھنے میں ایک لمحہ نہیں لگا کے یہ ہستی کون ہے ۔

"یوشع ان سے کہو اگر کام کے علاوہ کوئ بھی بات ہے تو یہ یہاں سے تشریف لے جاسکتی ہے "۔


وہ زخمی شیر بنا ہوا غصیلے لہجے میں بولا جو اس کے لہجے پرتلملا سی گئ۔


"مس خان آپ مجھے بتاۓ کیا کام ہے آپ کو "۔یوشع زین العابدین کو خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوۓ زھرہ سے پوچھنے لگا۔


"سر وہ آدھے گھنٹے بعد ُسپر ماڈل ونیزا کے ساتھ سر کی میٹنگ ہے ُاس کے لیے نِکلنا ہے "۔زھرہ نے بیزاری سے یوشع کو ساری تفصیل بتاکر سر پہ ڈوپٹے کو برابر کیۓ زین العابدین کی جانب دیکھا جو سیگریٹ کے کش لیتا ُہوا اپنے غصے کو پی رہاتھا۔


"یوشع مجھے کسی میٹنگ میں نہیں جانا میں جارہا ہوں تو نے چلنا ہے تو چل ورنہ میں اکیلے جارہا ہوں "۔

اس کے بے نیاز لہجے پر زھرہ بل کھا کے رہ گئ۔


"پر سر ہم نے بہت مُشکلوں سے ان سے میٹنگ ارینج کی ہے ورنہ انہیں ہماری کمپیٹیٹڑ کمپنی بھی ہائیر کرنا چاہتی ہیں"۔۔۔۔

زھرہ زین العابدین کی بات ہر ہکا بکا رہ گئ جو جانے سے انکاری تھا,پر خود کو کمپوز کرتے ہوۓ تھوڑا آرام سے بول کر اس کی جانب دیکھنے لگی جو اب سیگریٹ پیتا ُہوا ریوالونگ چیر پر بیٹھا فائلوں کو الٹ پلٹ رہاتھا۔


"آپ جاۓ گی ونیزا کو اپروچ کرنے کے لیے میں نہیں جاؤں گا اگر آپ ان سے ڈیل کیے بغیر واپس آئ تو آپ کو پورا ہفتہ اوور ٹائم کرنا پڑے گا"۔زین العابدین شعلہ بار نظروں سے گھورتے ہوۓ بولا۔


"سر میں کیسے انہیں اپروچ کروگی"۔۔۔۔۔

وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی ۔

"you may go now"۔

وہ سپاٹ لہجے میں بولا ۔

"But sir".

وہ بے اختیار پھر بولی ۔


"Out"۔

وہ تنے ہوۓ اعصاب کے ساتھ بولا جس کا بس نہیں چل رہاتھا کے سب کچھ تہس نہس کردے پر جانے کیوں اس پری پیکر کا چہرہ دیکھ کر اس کے اعصاب ڈھیلے ہوگۓ تھےاس کے جاتے ہی یوشع نے حیرانگی سے زین العابدین کی جانب دیکھا۔


"یار تو خود بھی ٹھیک بندہ نہیں ہے بغیر دھمکی کے تو بات نہیں کرتا ابھی کیا ضرورت تھی اسے اوور ٹائم کا بولنے کے لیے "۔

یوشع کے خشمگیں لہجے پر وہ سر جھٹک کے رہ گیا ۔


"تجھے نہیں معلوم جب وہ غصے میں ہوتی ہے نہ تو کام زیادہ اچھا کرتی ہے ابھی تو دیکھے گا یہ ُاس ماڈل کو کیسے لے کر آۓ گی "۔

اس کے غصے کا گراف کم ہوتے دیکھ کر یوشع نے اسے شکایتی نظروں سے دیکھا۔


"بڑا معلوم ہے بھئ لوگوں کو اپنی سیکریٹڑی کے بارے میں!! ,ویسے زین تو نے تو مجھے بتایا نہیں کے تیری سیکریٹڑی تو بہت خوبصورت ہے "۔

یوشع کے مزاحیہ انداز پر سگریٹ پیتے زین العابدین کو ٹھسکا لگا …


کیا ہوگیا میرے یار"۔


"دماغ خراب ہوگیا ہےوہ بھی میرا نہیں تیرا ,اب چل اور کام کرے "۔

وہ یوشع کو دھپ لگاتے ہوۓ بولا۔


Comments

Popular Posts