تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 4
ARAZ RESHAB NOVELS
Dont copy paste without my permission kindly.
ٓ۞۞۞۞۞۞
زھرہ صبح امی کے ہلانے پر ُاٹھی تھی جو گدھے گھوڑے بیچ کر سورہی تھی وہ کسلمندی سے اپنی جِھیل سی آنکھوں کو مسلتی ہوئ ُاٹھ بیٹھی ۔
"کیا ہوا امی آپ مجھے ایسے کیوں ُاٹھارہی ہے آج میں نے آفس نہیں جانا"۔
وہ جمائ کو اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش میں ایک لمبی سانس کھینچھ کر بولی ۔
"بیٹے تمہارے آفِس سے ڈڑائیور آیا ہے وہ تمہیں ُْبلارہا تھا میں نے اندر بلالیا ہے "۔۔۔
زھرہ ایک جھٹکے سے ُاٹھ کر بیٹھی ۔
"کہا بٹھایا ہے آپ نے آپ کو کیسے پتہ وہ میرے آفس کا ہے ایسے کسی کو بھی گھر میں داخل نہیں کرتے امی "۔۔۔
وہ بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتی ہوئ اپنے کپڑوں کی ِشکنیں دور کرنے لگی پھر دوپٹہ سر پہ اوڑھتے ہوۓ ماں کی طرف دیکھ کر بے صبری سے بولی ۔
"کہا بٹھایا ہے آپ نے ڈیسوزا آنٹی کے پاس؟۔ "۔۔۔۔۔۔
"ارے نہیں بیٹا یہ صحن میں ُکرسی رکھ دی ہے "۔۔۔۔۔۔
وہ سر ہلاتی ہوئ باہر آگئ جہاں سفید یونیفارم میں بوس کا پرسنل ڈڑائیور زھرہ کو دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔
"جی بابا آپ یہاں خیریت سے آۓ "۔
وہ اپنی ایک آئبرو اچکا کے بولی۔
"جی بِٹیا یہ کمپنی کی طرف سے آپ کے لیے موبائل آیا تھا میں اسے دینے کےلیے آپ کے پاس آیا ہوں باقی آپ کو خودہی کال آجاۓ گی "۔
ڈڑائیور زھرہ کے ہاتھ میں موبائل کا ڈبہ رکھ کر واپس پلٹ گیا۔
"جی شکریہ بابا آپ کے لیے ناشتہ پانی کچھ لاؤں "۔
زھرہ نے میزبانی نبھاتے ہوۓ کہا۔
نہیں بیٹے بس جاؤں گا اب ایک دو جگہ اور جانا ہے اللہ حافظ "۔
"امی یہ کمپنی کی طرف سے میرے لیے موبائل آیا ہے "۔
زھرہ ہاتھ میں موبائل کا ڈبہ تھامے ہوۓ کمرے میں داخل ہوئ۔
"اچھا دکھاؤتو ذرا اللہ بھلا کرے تمہارے ِاس نۓ بوس کا جو ہماری اصل ضرورتوں کا خیال کرتا ہے پہلے تمہیں ایڈوانس سیلری دی اور اب یہ موبائل "۔
زھرہ نے موبائل ڈبے میں سے نکال کر امی کے ہاتھ میں تھمایا جسے وہ ہاتھ میں تھام کر فرط ِجزبات میں ُاس پر اپنے لب رکھ بیٹھی ۔
"امی یہ کیا کررہی ہے آپ اور یہ آنکھوں میں آنسوں کیوں ہیں؟ "۔
زھرہ کاماں کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر دِل پسیج گیا ۔
"تو اور کیا کروں میں کیسے تونے پڑائیوٹ ماسٹڑز کیا تھا یہ میں جانتی ہوں میرے بچے, دن میں اسکول کو جانا شام میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانا پھر راتوں کو جاگ جاگ کر تواپنا پڑھتی تھی کے گھر کا کراۓ اور کھانے کے پیسے نکل سکے, جب کہی جا کے یہ نوکری لگی تھی تیرے ماسٹڑ کی ڈگڑی ملنے پر میرے دل کے دورے نے تیری ساری محنت برباد کردی تجھے سارے پیسے میرے علاج پر لگانے پڑگۓاورہم اپنی معمولی ضروریات تک پوری کرنے کے قابل نہیں رہیں۔ اب آج اتنے عرصے بعد یہ چیز ہاتھ میں دیکھی ہے تو مانو دل بھر آیا ہو میرا خوشی کے مارے ,کے میری زارو کا موبائل آگیا ہے"۔
زھرہ ماں کو سینے سے بھینچے ہوۓ ُان کے دل کی باتیں سنتی رہی جن کا وہ کبھی ُبھولے بسرے بھی زکر نہیں کرتی تھی ۔وہ نہایت نرم وملائم شفقت بھرے انداز میں زھرہ کو دیکھتے ہوۓ بولی۔
"امی آپ پریشان کیوں ہوتی ہے آپ دیکھیۓ گا میں جیسےہی سارے پیسے کمپنی کو لوٹادوں گی تو پھر تو روز آپ کی اور میری موجیں ہوگی اب آپ بس دیکھنا کیسے میں رفتا رفتا سب ٹھیک کچھ کردوں گی اللہ کے ُحکم سے "۔۔۔۔۔
"انشاءاللہ"۔
۞۞۞۞۞۞۞۞۞
"کروں یا نہ کرو"۔۔۔۔۔۔۔
وہ سوچوں کے بھنور میں کھویا ُہوا ِاسی شش وپنج میں تھا
کے میں مِس خان کو کال کروں یا نہ کروں۔
"اگر خودکال کروں گا تو وہ نک ِچڑھی لڑکی خود کو ریما اور مجھے شفقت چھیما سمجھ کر باتیں ُسنانے لگے گی پر کروں کیا معلومات لینا بھی توضروری ہے پر اپنا بوس والا ایٹیٹیوڈ بھی رکھنا ہے "۔
وہ اپنے ایک ہاتھ میں سگریٹ تھامے دوسرے ہاتھ سے اپنے سر کو مسلتے ہوۓ ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا باہر کے نظاروں میں ُگم تھا جب ہی اس کے زہن میں ایک خیال کوندا۔
"ہیلو ہمنا تنویر میں آپ کو ایک نمبر سینڈ کررہاہوں آپ اس پر کال کرے اور پوچھے کے کمپنی کی طرف سے آپ کو موبائل بھیجا گیا ہے آپ ُاس کا استعمال کرے اور کوئ بھی پریشانی ہو تو بوس سے فوراً رابطہ کرے "۔۔۔۔۔۔
زین العابدین فون کان سے لگاۓہوۓ دوسرے ہاتھ سے سگریٹ کے گہرے گہرے کش لیتے ہوۓ بولا جو اضطرابی حالت میں کمرے کے اندر چکر لگارہاتھا۔
"یس سر پر کیا مجھے کال کرنے والے کا نام معلوم ہوسکتا ہے؟"۔۔۔۔۔۔
"ہمنا تنویر نے پروفیشنل انداز میں زین العابدین سے پوچھا جواس کی بات سننے سے پہلے ہی کال منقطع کرچکا تھاوہ فون کو ہاتھ میں ُگھورتی ہوئ میسیج فولڈڑ سے نمبر نکال کر ڈائل کرنے لگی جو کچھ ہی بیلز کے بعد ُاٹھالیا گیا۔
Hello, I am hamna tannveer speaking from yokshire Company may i know your good name?
"میم میں زھرہ خان بات کررہی ہوں "۔
فون کی گھنٹی بجتی دیکھ کر زھرہ نے لپک کر فون ُاٹھایا جس میں سے ُابھرنے والی آواز ہمنا تنویر کی تھی ۔
"زھرہ خان بوس کی سیکریٹری؟ "۔
ہمنا تنویر نے ایک بار تصدیق کرنے کے لیے پوچھا ۔
"جی میم ,آپ کیسی ہے ایگزیبیشن کیسی جارہی ہے "۔
زھرہ نے چہرے پہ مسکراہٹ سجاتے ہوۓ پوچھا جیسے ہمنا تنویر اسے دیکھ رہی ہو ۔
"اللہ کا شکر ہے ِبلکل ٹھیک ہے میں نے بس اسی لیے کال کی تھی اپنا فون اب استعمال میں رکھے آپ پر بہت ساری ذمیداریاں ہے جس کی ِبنا پر آپ کو یہ موبائل کمپنی نے فراہم کیا ہے امید کروں گی کوئ بھی کمپنی سے ریلیٹید آپ کو مسئلہ ہو تو آپ نے فورا ً بوس سے یا مجھ سے رابطہ کرنا ہیں "۔
"یس میم میں پوری کوشش کروں گی کوئ بھی مسئلہ نہ ہو آپ اپنا خیال رکھیے گا "۔
اللہ حافظ "۔
ہمنا تنویر نے فون بند کر کے زین العابدین کو ڈن کا میسیج کیا جسے پڑھ کےاس کے اندر چھائ بےچینی کو کچھ قرار ملا تھاوہ اب تک اس بے چینی کو اپنی امپلائ کے لیے پریشانی سے ماخوز کررہا تھا جو اس کی وجہ سے اس پر نازل ہوئ تھی دو دن کی ایگزیبیشن ختم کرکے وہ ایک نۓ دن کے ساتھ پیر والے دن آفس پہنچاتھاجہاں سے گزرتے ہوۓ کوئ ُاسے کھڑے ہوکر تو کوئ اسے سر کو ہلا کر سلام کررہاتھا وہ لاشعوری طور پر مِس خان کی ٹیبل کے نزدیک سے گزرتے ہوۓ اسے دیکھنے لگا جہاں کی خالی کرسی اسے منہ چڑارہی تھی وہ سیدھا ریسیپشن پر گیا۔
"ایکسکیوزمی مِس "۔
"یس بوس "۔
"مِس خان کو ان کے نمبر پر کال کیجیے کے اگلے دس منٹ میں آپ کو ڈڑائیور لینے آرہا ہے آپ آفس پہنچے اور آکر مجھے رپورٹ کرے"۔
"یس بوس "۔
وہ آفس میں جاکر اپنے پینڈنگ کام نبٹانے لگا ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر بھی نظر ڈال لیتا ,جب ہی دروازے پر دستک دے کر وہ اندر داخل ہوئ۔
"اسلام علیکم سر "۔
"وعلیکم سلام "
زین العابدین نے خود کو مصروف ظاہر کرتے ہوۓ ایک غلط نگاہ بھی زھرہ کی جانِب نہ ڈالی ,وہ تاہنوز ہاتھ میں فائل تھامے کھڑی تھی,وہ اسے کہی سے بھی محسوس نہیں کرانا چاہتا تھا کے وہ دو دن سے کس قدر اس کی وجہ سے بے چینی کا شکار تھا۔
"سر آپ نے مجھے بلایا تھا "۔
زین العابدین شاید ُاسے اپنے کمرے میں ُبلا کر بھول ُچکا تھا ْوہ زھرہ کے مخاطب کرنے پر ُاس کی جانب سرسری سا دیکھتے ہوۓ ُاسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"مس خان آج کے سارے شیڈیولز لائن اپ کریں مجھے آج کے دن زیادہ زیادہ سے زیادہ کام وائینڈپ کرنا ہے "۔
وہ مصروف سے انداز میں بولا ۔
"یس سر "۔
"اس کے علاوہ آج سے آپ آفس کی حدود کے اندر ِاس کمپنی کی ذمیداری ہے اس لیے آپ کو پِک اینڈ ڈڑاپ کی سہولت دی جارہی ہے۔باقی جب تک اشہد عزیز کوئ قدم نہیں ُاٹھاتا آپ کو محتاط ہوکر رہنا ہوگا "۔
وہ ہنوز لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوۓ اسے بولا تھا جب اس کی چلتی انگلیاں زھرہ کی آواز پر منجمند ہوئ تھی۔
"سر آپ کو میری وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں اپنا د ِفاع کرنا جانتی ہوں رہی بات سروس مہیا کرنے کی تو اگر سارے اسٹاف کو مہیا کی گئ ہیں تو میں ضرور اسے اویل کروں گی "۔
زین العابدین نے اپنا سر کرسی کی پشت سے ِٹکا کر پیچھے کی جانب کیا,وہ اپنا ایک ہاتھ عنابی لبوں پہ رکھے دوسرے ہاتھ سے پیپر ویٹ کو ُگھومانے لگاجس سے ُاس کے ماتھے پر نمودار ہوتے شکنیں ُاس کے اندر پھیلے غصے کی غمازی کررہاتھا جو زھرہ کے نہایت ٹھنڈے پرسکون لب ولہجے میں جواب دینے پر اسے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ جلتے توے پر بیٹھ گیا ہو وہ زیادہ دیر اپنے بھڑکتے ابلتے خون کو قابوں میں نہ رکھ سکا جب ہی آنکھوں میں چٹانوں سی سختی لیے اسے دیکھ کر بولا۔
"میں تو ُبھول گیا تھا آپ تو ُسپر وومن ہے آپ اتنی خود پسند ہے کے آپ کو اپنے علاوہ ہر دوسرا انسان فضول نظر آتا ہے جو آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے خیر آپ جیسے لوگ واقعی اس کمپنی کی کسی بھی طرح کی مراعات حاصل کرنے کے قابل نہیں ,اب آپ میرے سارے میٹنگزلائن اپ کرے "۔
زین العابدین نے کروفر سے زھرہ کی بات کا جواب دے کر ُاسے جانے کا پروانہ دےدیا جس پر وہ خود کو سرزنش کرتی ہوئ ُاٹھ بیٹھی تھی وہ اپنے غصے کو قابوں کرنے کی کوشش میں لال انار کی طرح ہوگئ تھی جب ہی اس کی جانب دیکھ تنک کر۔بولی تھی
"میں کس قابل ہوں یا نہیں یہ آپ کا درد سر نہیں ہے مِسٹڑ حیات ,میں آپ کی مقروض ہوں ِاس کی وجہ سے آپ کامجھے ِاس طرح ذلت کی اتھاہ گہراہیوں سے بار بار روشناس کرانا ضروری نہیں ہر عروج کوزوال بھی ہے اور ایک بات سر آپ نے جو مجھے موبائل بھجوایا ہےکیوں کے وہ میری نوکری کی ضرورت ہے تو میں ُاس کے پیسے آپ کو دو قسطوں میں ادا کردوں گی ایک ِاس مہینے دوسری اگلے مہینےمیں آپ کا کسی بھی طرح سےاحسان میں مزید نہیں لوں گی آپ کی میٹنگز لائن اپ کرکے آپ کو انفارم کرتی ہوں تھوڑی دیر میں "۔
9x
وہ یہ کہ کر زین العابدین کو جلتی ہوئ آگ میں جھونک کر باہر نِکل آئ جو آج سارا دن ُاسے کسی نہ کسی بات پر جِھڑک کر اپنے اندر لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کررہاتھا جو کم۔ہونے کے بجاۓ اور بڑھتی جارہی تھی وہ آفس ٹائم ختم ہونے کے بعد سیدھا نرگس خالا کے بیٹے کے بتاۓ ہوے کوچِنگ سینٹڑ کے باہر کھڑی تھی جہاں ُاس کے دوست کےکوچنگ سینٹڑ میں وہ شام چھ سے نو بجے تک بچوں کو اکاؤنٹس پڑھانے کے لیے نوکری کرنے لگی تھی تاکہ جلد سے
10
جلد وہ اپنا قرضہ اتار سکے وہ دن بھر کی تھکی ہوئ جب لوکل بس کے ذریعے گھر پہنچی تو کمر نے مانو جواب دے دیا ہو ۔اس میں آج اتنی بھی ہمت نہ تھی کے دروازہ بجا سکےوہ گھر کے باہر کھڑی دروازہ بجانے ہی لگی تھی کے ٹھیک ُاس کے پیچھے ہلکی رفتار سے آتی کرولا نے اسے ہارن دے کر اپنی جانب متوجہ کیا جس پر شیشے کے پار بیٹھے انسان کو دیکھ کر ُاس کی ڑیڑھ کی ہڈی سنسنا ُاٹھی تھی جو اسے ہاتھ کے اشارے سےسلام کررہاتھا وہ اپنا دروازہ زور زور سے پیٹنے لگی جب ہی فوزیہ نے دروازہ کھول دیا ۔
"کیا ہوگیا ہے لڑکی باولی تو نہیں ہوگی ایسے دروازہ بجاتے ہے میں نے ُاڑ کر تو نہیں آنا تھا "۔
زھرہ نے ماں کو راستے سے ہٹا کر جلدی سے اندر آکر دروازہ بند کیا فوزیہ جو کب سے زھرہ کو اندھیرے میں دیکھے ِبنا بولی جارہی تھی بیٹی کا ڈڑا سہماہوا چہرہ دیکھ کر وہ چونک اٹھی۔
"زھرہ کیا ُہوا ہے میری بچی تو اتنا ڈڑی ہوئ کیوں ہے "۔
فوزیہ بیٹی کے چہرے پر خوف کے ساۓمنڈلاتے ہوۓ دیکھ کر فکرمند ہوگئ زھرہ کے جب اوسان بحال ہوۓ تو ماں کی جانب پلٹی۔
"امی وہ باہر کتا میرے پیچھے پڑگیا تھا میں ڈڑ کر بھاگی تھی بس اسی لیے آپ پریشان نہ ہو"۔
وہ کمال ہوشیاری سے اپنی بات بدلتے ہوۓ اپنی ماں کو یقین دلاگئ تاکہ وہ پریشان نہ ہوجاۓ پر زھرہ خود کے لیے کھودے گۓ اس پہاڑ کے نیچے دب گئ تھی جس میں وہ اب زین العابدین کوبتا بھی نہیں سکتی تھی کے اشہد عزیزسپال کراچی میں ُاس کے گھر تک پہنچ گیا تھا ۔
۞۞۞۞۞۞۞۞
"اسلام علیکم دادو "۔
زین العابدین جیسے ہی خان مینشن میں داخل ہوا توسامنے بیٹھی دادو اور ان کے برابر میں صوفے پہ اکڑ کر بیٹھی ہالے قابل قبول لباس میں اسےدیکھ کر مسکرا ُاٹھی وہ جیسے ہی ان کے نزدیک آیا ہالے آگے بڑھ کرزین العابدین کے گِرد بازوں حمائل کرتے ہوۓ ُاس کے گال پر اپنے لب رکھ بیٹھی جس پر زین العابدین نے اسے خود سے فوراً دور کیاوہی دادو نے اپنا پہلو بدلہ۔
"Behave your self halle".
زین العابدین نے ُاسے سرد نگاہوں سے ایسے دیکھا جیسے وہ دادی کے سامنے ایسی حرکت کرنے پر اسے سالم ہی نگل جاتا وہ قابل اطمینا ن ڈھیٹ بنی صوفے پر جاکر واپس بیٹھ گئ ۔جب کے زین العابدین دادی کے برابر میں جاکےبیٹھ گیا ۔
"کیسا ہے میرا بچا "۔
سلیما بیگم نے زین العابدین کی جانب دیکھا جو ان کا ہاتھ تھامے ہوۓ سہلارہاتھا۔
"بلکل ٹھیک دادو آپ کا دن کیسا گزرا آج کا "۔
زین العابدین اپنی دادو کے گِرد بازو حمائل کیے ان سے دن بھر کی باتیں پوچھنے لگااس دوران وہ ہالے کا وجود ِبلکل نظرانداز کیۓ دادو میں ُ گم رہا جب ہی ہالے خود کا نظر انداز کیا جانا برداشت نہ کرسکی اور تن فن کرتی اوپر کی جانب بنے گیسٹ روم کی طرف بڑھ گئ جس میں ُاسے دادی نے ٹھرایا تھا۔
"زینو وہ بچی لگتا ہے ناراض ہوگئ ہے "۔
بی جان نے ہالے کو اوپر کی جانب جاتا دیکھ کر کہا۔
"نہیں دادو وہ ناراض نہیں ہوتی آپ ُاسے چھوڑے اور اپنے کمرے میں چلے "۔
وہ دادی کو چھوڑتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا فریش ہوکر وہ جیسے ہی صرف کالے ٹڑاوزر میں باہر نکلا تو سامنے صوفے پہ ہالے کو براجمان دیکھ کر وہ سخت کوفت کا شکار ہوا تھاوہی ہالے کا پہلی دفع اس کے جسم۔پرواضع ہوتے سکس پیک دیکھ کر منہ ُکھلے کا کھلا رہ گیا ۔
"کسی کے کمرے میں آنے سے پہلے اجازت طلب کی جاتی ہے ہالے"۔
وہ اپنی الماری سے ٹی شرٹ نکالتا ہوا پہننے لگا جب ہی ہالے کا ہاتھ اپنے کثرتی بازوں پر دیکھ کر ُاس کا ہاتھ جھٹکا ۔
"میں تمہاری منگیتر ہوں زین ,میں نہیں آؤں گی تو کون آۓ گا پھر "۔
"ہالے میں تمہیں ایک بات پہلے بھی کلیر کرچکا ہوں کے میں کس طرح کی زہنیت کا انسان ہوں تم اسے میری دقیانوسیت سمجھو یا کچھ بھی مگر مجھے شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کا رشتہ ایک لمٹ تک پسند ہے اس لیے پلیز تم اس طرح سے مجھے مت چھونا "۔
وہ اسے تنبیع کرتا ہوا کمرے سے باہر چلاگیاوہی ہالے دل ہی دل میں بیچ وتاب کھاتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ ۔
۞۞۞۞۞۞۞۞
پ
وہ صبح آفس جانے کے لیے ڈھڑکتے دل کے ساتھ آیت الکرسی کا ِحصار کرتی ہوئ باہر نکلی وہ اپنے روٹ کی بس پر سوار ہوکر کھڑکی سے سارا راستہ باہر جھانکتی رہی آفس کے قریب وہ آخری اسٹاپ پر ُاتر کرپیدل چلنے لگی جب ہی ُاس کے نزدیک سےرات والی کرولا دھیمی رفتار میں ُکالے شیشے چڑھاۓ ُہارن پر ہارن دیتی ہوئ اس کے برابر میں سڑک پہ رینگتی جارہی تھی جس پر زھرہ کی سانس اٹک رہی تھی وہ تیز تیز قدم بڑھاتے ہوۓ آفس کی جانب بڑھنے لگی جہاں صبح کے وقت ِاس گنجان سڑک پر تیزی سے گزرتی گاڑیاں کسی پر دیھان دیے بِنا چلی جارہی تھی وہ آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوۓ اس راستے کی سِمٹنے کی دعائیں مانگ رہی تھی جب ہی دور سے آتی آسٹن مارٹن میں بیٹھے زین العابدین نے دور سے یہ منظر دیکھا جہاں اسے پورا یقین تھا کے ُفٹ پاتھ پر چلتی ہوئ یہ لڑکی ہو نہ ہو مِس خان تھی جس کے نزدیک گاڑی ہلکی رفتار میں چلتی جارہی تھی زین العابدین نے رفتار بڑھاتے ہوۓ اور واضع دیکھنے کی کوشش کی تو گاڑی پر سیالکوٹ کا نمبر پلیٹ دیکھ کر اس کی رگیں تن گئ جو اپنی گاڑی کا مسلسل ہارن بجاتا ہوا زھرہ کو تنگ کررہاتھا ۔
اس نے اپنی گاڑی کو زھرہ کے نزدیک سے لے جاکر آفس کی جانب بڑھادیا وہی زھرہ کے پیروں تلے سے زمین کھِینچھ گئ جب ُاس نے زین العابدین کو سیدھا نکلتے ہوۓ دیکھ کر اس کالی گاڑی کو دیکھا جو اب اس کا راستہ کاٹے کھڑی تھی ۔
زھرہ اپنے شل ہوتے پیروں کے ساتھ اپنے آگے کھڑی گاڑی کو دیکھنے لگی جو ُاس کا راستے روکے کھڑی تھی وہ خود میں ہمت پیدا کرتے ہوۓ جیسے ہی کالے شیشے کو بجانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھانے لگی گاڑی کے ٹائر ایک دم سے چرچراۓ وہ گاڑی کو پیچھے کی جانب جاتا ہوا دیکھ کر تھوڑا پرسکون ہوئ تھی جب ہی وہ آگے کی جانب قدم بڑھانے لگی تو پیچھے ہوتی کرولا نے ایک دم سے گاڑی آگے کی جانب دیوار سے ٹکرادی مانو اسے نفع نقصان سے کوئ فرق نہیں پڑتا تھازھرہ چِلا کر پیچھے ہوئ جو دیوار کے ساتھ لگی گاڑی کو دیکھ کر اب تھر تھر کانپ رہی تھی پر وہ خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوۓ گاڑی کے شیشے پر اپنے دونوں ہاتھوں سے زور زور سے کھٹکھٹانے لگی مگر اندر بیٹھے انسان کو سواۓ اسے زِچ کرنے کے اورکوئ کام نہیں تھا۔
۞۞۞۞۞۞۞
ماضی؞
وہ تھائیلینڈ کی تنگ گُمنام گلیوں میں سے تیزی سے گزرتی ہوئ ایک تنگ گلی میں داخل ہوئ جہاں ہر کمرے کے آگے ایک پردہ لٹکا ہوا تھا یہاں زیادہ تر آبادی مفلسوں کی تھی جہاں چھوٹے چھوٹے بچے کھیلتے کودتے ہوۓ اپنی ماؤں کو تنگ کررہے تھیں وہ تیزی سے ان کے آگے سے گزرتے ہوۓ اپنے خستہ حال دروازے کے آگے کھڑی لاک کوکھولنے لگی ,پھر وہ تیزی سے اندر ایسےداخل ہوئ جیسےاس کا کوئ پیچھا کررہاہو وہ پرس سائیڈ پہ پھینک کر لمبے لمبے سانس لینے لگی جب ہی اس کے زہن میں ایک خیال ساکُوندا وہ ایک دم سے پلٹی کے وہ دروازہ بند کرنا تو بھول گئ تھی ُاس نے جیسے ہی نیم اندھیرے میں دروازہ بند کرنے کےلیے تیزی سے ہاتھ بڑھانا چاہاتو کسی نے اسے ایک ہی جست میں دیوار کے ساتھ لگا دیااور وہی ہوا جس کا اسے دڑ تھا۔
"دیکھوں میں تمہیں کہ رہی ہوں مجھے ہاتھ بھی مت لگانا "۔
اس کی سانسوں کی تپش سے وہ کپکپارہی تھی جو اسے اپنے قلعے میں قید کیۓ اس کی حالت سے حظ ُاٹھارہا تھا۔اس نے اس کے باقی کے لفظوں کو اپنے لبوں میں قید کرلیا۔
"کون ہے جو مجھے روکے گا ایسا کرنے سے بولو "۔
اس نے کچھ دیر بعد سر ُاٹھایا تو اس کے نزدیک ہوۓ سرگوشیاں کرنے لگا جو ایک بار پھر ُاس کے آگے بے بس ہوگئ تھی جو اپنے گزرے وقت کو یاد کرکے رو پڑی تھی ۔
۞۞۞۞۞۞۞
"ماجے تو دیکھے گا اک دن اپنے پیرا تے کھلو کے تو کِینجھ اپنی پین دا سارا بنے گا"۔
ماجے تم دیکھوں گے ایک دن اپنے پیروں پہ کھڑے ہوکر کے تم کس طرح اپنی بہن کا سہارا بنوگے۔
"شوکے تو ٹھیک کہ رہاہے پر میں کیسے اتنی دور بھیج دوں اپنی بہن کو "۔
ماجے نے چرپائ پر لیٹے ہوۓ اپنے ِجگری دوست شوکے کو دیکھا جو سر سے لے کر پاؤں تک بلکل بدل گیا تھا کہا وہ ُدھوتی ُکرتا پہننے والا آج ولایتی کپڑے پہنے بڑی ٹھاٹ باٹ سےمُوڑے پر بیٹھا سگار پی رہاتھا۔
"ویکھ ماجے ِاک واری گل کراداں بار بار نہیں کواں گا ,تو میرا قومی شناختی کاڑڈ لینا ای تے لیللے جے ایس تو ود کوئ گواہی چائ دی آ تے دس میں تینوں او وی دے چھڑا گا پر ہون میں تینوں نہیں اکھاں گا "۔
دیکھوں ماجے میں ایک بار بات کرو گا بار بار نہیں کہوں گا ,تمہیں میرا قومی شناختی کاڑڈ لینا ہے تو لے لو اگر اس سے زیادہ کوئ چیز چاہیے تو بتادو میں آپ کو وہ بھی گواہی کے طور پر دوں گا پر اب میں آپ کو نہیں کہوں گا ۔
"سنیے جی آپ شوکے بھائ کی بات مان کیوں نہیں لیتے آخرہمیں پیسوں کی ضرورت ہے آپ کا ایک بار آپریشن ہوجاۓ تو ہم فِیا کو خود واپس ُبلا لے گے آخر شوکے بھائ کے ساتھ اور اماں رکھی کے ساتھ ہمارا سالوں کا واسطہ ہیں"۔
سائکا نے اپنے شوہر کو بردباری سے سمجھاتے ہوۓ کہا جس پر زمین پہ سکڑی سمٹی سی بیٹھی فِیا نے اپنا سر ُگھٹنوں پر ٹیک دیا وہ اپنی زندگی کو بہت عرصہ ہوا اپنے بھائ اور بھابھی کے لیے وقف کر ُچکی تھی اب تو بس آخری کِیل ٹھوکنا باقی تھا۔
"ٹھیک ہے شوکے ُتو کاعزات بنوا پر اونانو اے دس چھڑی کے میری پین صرف پنج جماعتا پاس اے "۔
ٹھیک ہے شوکے تو کاغزات بنوا پر انہیں یہ ضرور بتادیناکے میری بہن صرف پانچ جماعتیں پڑھی ہوئ ہے۔
"او ٹھیک اے باؤ ُہن تے تو ہاتھ ای نہں آنا ,تانُوں تو ُہن ِولیتی چیزا شیزا آیا کرن دیا "۔
ٹھیک ہے باؤ اب تو تم نے ہاتھ ہی نہیں آنا ہمارے ,اب تو باہر سے چیزیں آیا کرے گی ۔
شوکے نے بستر پہ لیٹے ہوۓ ماجے کے شانے کو زور سے تھپتھپایا جس پر ماجے نے اسے مسکرا کے دیکھا ,پھر کچھ یوں شروع ہوئ ہماری فِیا کی کہانی جس کی قل کائنات ُاس کے ماں باپ کے گزر جانے کے بعد اس کا اپاہج بھائ ماجد تھا,جو ایک حادثے میں چلنے پھرنے سے رہ گیا تھاداکٹڑوں کا کہنا تھا کے ایک آپریشن کے بعد ماجا پھر سے چل پاۓ گا ۔جس کی وجہ سے انہیں اشد پیسوں کی ضرورت تھی شوکا عُرف شوکت ماجے کا جُگری دوست تھاجو کچھ سال پہلے تک پیلیوں میں اپنے دوست کے ساتھ کھیتی باڑی کا کام کرتا تھا ,لیکن ایک دن شوکت کا دور پرے کا ماموں جو تھائیلینڈ میں کام کرتا تھا شوکت کو اپنے ساتھ کچھ ہی عرصے میں تھائیلینڈ لے گیا جہاں سے ُاس کی واپسی پانچ سالوں بعد پاکستان کے گاؤں ویرم میں ہوئ جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا وہی سائکا بھی انہی میں سے ایک تھی جو شوکے کو اپنے گھر ماجے سے ملانے لائ تھی وہی ُاس کی نظر تندور پہ روٹیاں لگاتی ہوئ فِیا پر پڑی تھی جو ُاسے پہلی ہی نظر میں بہت اچھی لگی ۔
۞۞۞۞۞۞۞
ْ"میں روکوں گی تمہیں چھوڑو مجھے گھٹیاں انسان "۔۔۔
وہ اس حسن کی ملکہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھنیں لگا جو شعلہ جوالہ بنی اسے مارنے پر تلی ہوئ تھی , بے ایمان دل اسے پانے کا طلب گار تھا ۔جو اسے پوری قوت لگا کے پیچھے کی جانب دھکیل گئ تھی۔وہ سلیب پہ پڑی چھری اٹھا کے اس کی جانب خوف زدہ نگاہوں سے دیکھنے لگی جسے کسی بھی صورت میں اپنی عزت کو محفوظ رکھنا تھا ۔
"دیکھوں میں تمہیں آج آخری بار کہ رہی ہوں مجھے تنگ مت کرو میرے پاس یہ آخری آشیانہ ہے ,اسے بھی مجھ سے مت چِھینو "۔
اس کی غزالی آنکھیں غصے کی تمازت سے سرخ ہوگئ تھی جو اپنی عزت و آبروکی حفاظت کے لیے مرنے مرانے پر تلی ہوئ تھی ۔
"کون چھین رہا ہے تم سے یہ گھراور یہ کیا پاگل پن ہے اسے مجھے دو تمہیں لگ گئ تو ؟"۔۔۔
اس کی غزالی آنکھوں میں غصےکی جگہ خوف نے لی تھی وہ دراز قد و قامت والا شخص اس کے قریب آنے لگا جس نے ایک جست میں بنا اپنی پرواہ کیے اس کے ہاتھ سے چھری چھین کر اس نازک مجسمے کو اپنے مضبوط قلعے کا حصہ بنایا تھا ۔
"چھوڑو مجھے پلیز "۔۔۔۔۔
وہ اس کے مضبوط حصار میں پھڑپھڑانے لگی۔
10x
میری جان ان نازک ہاتھوں کے تھامنے کے لیے ایسی چیزیں نہیں بنی تم صرف عظیم خان کے لیے بنی ہو میں تمہیں کل کا دن اور دے رہا ہوں شرافت سے وہ بار کی نوکری چھوڑدو اور میرے ساتھ چلو تم جتنا پیسا کہوگی یہ عظیم خان تمہیں دے گا پر اب تم مجھے وہاں نظر نہ آؤ "۔
وہ ان مغرور آنکھوں میں تادیر تک اپنا عکس دیکھتا رہا جس کی آنکھوں سے نفرت کی چنگاریاں نکلنے لگی جیسے مقابل کو جلا کر خاکسترہی کردیں گی جسے وہ ایک میٹھے گھونٹ کی طرح پی گیا۔



Comments
Post a Comment