تشنہ دیدار آرز ریشب |Tashna-e-Deedar by araz reshab Episode 3


ARAZ RESHAB NOVELS

Dont copy paste without my permission kindly .

اگلا دن تمام کمپنیز کے لیے بہت ہی اہم دن تھا جِس کی ِبنا پر یہ کانٹڑیکٹ کسی بھی کمپنی کو ِملنے والاتھا ۔زین العابدین نک َسک ساتیار گہرے نیلے رنگ کاپینٹ کوٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیۓ اپنی مضبوط کلائ میں گھڑی پہننے لگا ,وہ گاہے بگاہے گھڑی پر نظر ڈال لیتا ُاسے وقت کی پابندی کرنا پسند تھا مگر ِمس خان کا د ور  دور تک کوئ اتا پتہ نہیں تھا جو اس کےصبر کا پیمانہ لبریز کررہی تھی وہ زیادہ دیر تک اپنی غصیلی طبیعت پہ قابوں نہ رکھ سکا اور آندھی طوفان کی طرح کمرے سے باہر نِکلا مگر سامنے  ہی زھرہ کو سفید شفون کے انارکلی فراک میں سر پہ ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے دیکھا جو کسی بھی قسم کے میک اپ سے پاک اپنے قدرتی ُحسن سے کسی بھی لڑکی کو مات دے سکتی تھی ۔آراستگی میں آج صرف ِان نین کٹوڑوں میں کالی لکیریں کھینچھی گئ تھی ,ان سے تھوڑا نیچے عارض شاید سخت سردی کے باعث ہلکے گلابی ہورہے تھے جوچہرے پر حزن کے ساتھ عجب بہار ِدکھارہے تھے۔وہ ُاس کا تفصیلی جائزہ لینے میں مصروف تھا جب ہی زھرہ کی آواز پر چونکا۔


"اگر میرا جائزہ لے لیا ہو تو ہمیں جانے میں دیر ہورہی ہے سر"۔

زھرہ نے اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں دیکھتے ہوۓ سنجیدہ انداز میں  کہا جس پر زین العابدین نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلتے ہوۓ ُاسے ُرکنے کے لیےکہاوہ اندرسےاپنا آفس بیگ اور موبائل لیے باہر کی جانب آگیا جو ُاسے پروفیشنل انداز میں آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتی جارہی تھی۔وہ دونوں آگے پیچھے آڈیٹوڑیم میں پہنچیں , جہاں آج ہر کمپنی کے پریزیڈینٹ  اپنی اپنی کمپنی کی ترجمانی کریں گے ۔مگر ہال میں ِاک غیر یقینی طور پر بات پھیلی ہوئ تھی کے آج کے پروگرام میں کچھ نیا انداز اپنایا گیا تھا جو کے تمام کمپنیز کے لیے پریشانی کا باعث تھا جب ہی اسٹیج پر مائک تھامے اناؤننسمنٹ کی گئ کے سب اپنے اپنے سیکیریٹریز کو اسٹیج کے پچھلے ِحصے کی جانب بھیجیں جسے ُسن کر سب کے لیے اِک تشویش کا باعث تھا کے آخر۔میں پرسنل امپلائیز کو بیک اسٹیج کیوں ُبلایا جارہا ہے ۔خیر زھرہ نے زین العابدین کی جانب دیکھے بِنا اسٹیج کی پچھلی سائیڈ پہ چلی گئ وہ ُاسے کچھ سمجھانا چاہتا تھا پر ایچ آر نے کسی کو بھی ُرکنے کا موقع نہیں دیا اور اندر کی جانب لے گئیں۔

"جی تو آپ سب حیران ہوگئیں ہوگے کے آپ کی پرسنل سیکیریٹریزکو بیک اسٹیج کیوں ُبلایا گیا  تو جیسے کے آپ سب جانتے ہیں آغا ایڈ سنزز ہمیشہ سے نۓ ٹیلنٹ کو ُابھارتے ہے جس کی ِبنا پر ہمارے ڈیزائنز نۓ ٹیلنٹ کے ساتھ ساتھ ایکسپیرینسڈ امپلائیز کے ساتھ اپنی یونِیک تخلیق کی وجہ سے عالمی منڈی میں بہت ڈیمانڈنگ ہیں ,ِاس لیے ہم چاہتے ہے اس بار پریزیڈینٹ کے بجاۓ سیکریٹریزاپنی کمپنی کے لیے تقریر کریں جس میں تمام اہم پہلوؤ ں پر روشنی ڈالی جاۓ اب دیکھنا یہ ہے کے کون سی سیکریٹڑی نے میک اپ پہ زیادہ دیھان دیا یا اپنے اہم کلازز پر تو ناظرین آپ سب ہما تن گوش رہیں کچھ ہی دیر میں آپ سے ملتے ہیں"۔


اشہد عزیز سمیت تمام کمپنیز کے مالکان متحیر تھے کے انہوں نے تو ِاس نظریہ سے سوچا ہی نہیں تھا۔دوسری جانب زین العابدین متحمل مزاجی سے سگریٹ پُھوکنے میں مشغول تھا وہ اپنی اس نئ اور پریشان کن کیفیت پر خود کو بار بار ڈپٹ رہا تھا ۔

"جو کچھ میں نے ِمس خان کے ساتھ کردیا ہے ُاس کے بعد تو مجھے آمین پڑھ لینی چاہیۓ ِاس میگا پروجیکٹ, پرچلو دیکھتے ہے مِس خان آپ آج کیا ُگل کھلاتی ہے "۔


وہ اپنی انگشت شہادت میں سگریٹ دبا کر ہوامیں ُدھواں اڑاتے ہوۓ کھڑا ہوگیا۔پھر ِاسی طرح پےدرپے لڑکے لڑکیاں آتے گۓ جن میں سے کچھ نے تھوڑی اچھی نمائیندگی کی اورکچھ نے ِبلکل بھی  نہیں جب کے مسلسل چار سال سے جیتنے والا یہ پروجیکٹ اشہد عزیز اپنی سیکریٹری کی جانب سے آن اسٹیج معازرت پر اپنی متوقع شِکست کے لیےسر تھامے بیٹھا ہوا تھا ۔


 پچھلے پورے ایک ہفتہ میں زین العابدین نےاہم کلازز کو اتنی بار زھرہ کو پڑھوایا تھاکے وہ اسےازبر ہوگۓ تھیں اس کی تین منِٹ کی تقریر کے دوران زین العابدین ُاس کی سریلی  سی آواز کو  ُسںنتے ہوۓ ُاس کے باوقار انداز کو دیکھنے لگا جو لائم لائٹ کی روشنی میں کُھلی کتاب کی مَانند روشن چمکتے چہرے پرسفید دوپٹے سے سر کو  ڈھکے ہوۓ تھی جس کےچہرہ کے گرد اٹھکیلیاں کرتی چند بالوں کی آوارہ لِٹیں جیسے چاند بدلیوں میں سے جھانک رہاہو ,خوبصورت گلاب کی پتیوں سے قدرے ُمڑے ہوۓ ہونٹ ُاس کی خوبصورتی کو اور نِکھار رہے تھے۔مگر اگلے ہی پل زین العابدین نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل دیا ۔یہ کیسی کشش ہے جو میں اسے نظر بھر کر دیکھتا ہوں 


وہ خود کو ملامت کرنے لگا جب ہی پنڈال میں موجود اکثریت نے زھرہ کے لیے کھڑے ہوکر تالیاں بجائ جسےدیکھ کر ان جھیل سی آنکھوں میں نمی سی چمکنے لگی ,پھر تین چار اور لوگوں کے بعد نتیجہ کا انتظار ہونے لگا ۔توقع کے عین مُطابق ِاس سال کا یہ میگا پروجیکٹ یوکشائیر کو ِمل گیا ۔زین العابدین ِاتنی بڑی خوشخبری پر پُھولے نہیں سما رہا تھا

۔

کافی دیر تک اس کے نزدیک مبارک دینے والوں کا تانتا بندھا رہا مگر جس کی بدولت یہ میگا پروجیکٹ یوکشائیر کو مِلا تھا وہی کہی ِاس ہجوم میں کھوگئ تھی جسےاس کی نظریں تلاش رہی تھی جب ہی وہ اسےآخر کی ُکرسیوں پہ بیٹھی ہوئ نظر آگئ وہ مسرور سا کروفر کے ساتھ ُ اس کی جانب قدم بڑھانے لگاان کے درمیان دوقدم جتنا فاصلہ رہ گیا تھا وہ زھرہ کی جاِنب والہانا انداز میں بڑھ رہا تھا ۔ِاس سے پہلے زین العابدین زھرہ تک پہنچتا کسی صنف نازک نے زین العابدین کو اپنے حصار  میں لے لیا ,جس پر زھرہ نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا  ۔

"SuRprise ".

"دیکھا میرا کمال کیسے ِاس آڈیٹوڑیم میں قدم رکھتے ہی یوکشائیر کوفرش سے عرش پر پہنچادیا میں نےبہت بہت بہت مبارک ہو "۔۔۔۔۔

"my baby."


ہالے زین العابدین کے گِرد اپنے بازوں حمائل کیے ہوۓ ُاسے مبارک  دے رہی تھی جو اس کی حد درجہ بے باکی پرگہری سانس بھر کے رہ گیا جب ہی اسے آہستہ سے بولا۔


"فرش سے عرش تک پہچانا صرف اللّٰہ کا کام ہے ہالے ایسے ُکفر کے کلمات اپنے منہ سے مت نکالا کرو البتہ تم نے مجھے واقعی چونکا دیا"۔


وہ خود کو ہالے کے ِحصار سے آزاد کرتا ہُوا دو قدم پیچھے ُہوکر  ُاس کا لباس تنقیدی نگاہوں سے دیکھنے لگا جو دوسروں کی آنکھیں سینکنیں کی وجہ بنی ہوئ تھی ,وہ گٹھنوں تک آتی کالی اسکڑٹ پہنے ُاس پر ہلکے گلابی رنگ کے سویٹڑ پر شانوں تک آتے اسٹڑیکِنگ کیۓ ہوۓ بالوں میں, تیکھے نقوش کو میک اپ سے اجاگر کیےتمام مردوں کا دل بہلارہی تھی۔

"ہالے تم یہاں کیسے آئ ہواور یہ کیا لباس زیب تن کیا ہُوا ہے "۔

زین العابدین نےاس کے لباس کو ناگوار نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا ۔

"نہ سلام نہ دعا صرف تمہارے منہ سے مجھے تنقید ہی ملی ہے سننے کو میں نے سوچا تھا تمہیں سرپرائیز دوں گی سیالکوٹ پہنچ کر پر تمہیں تو میرے آنے سے کوفت ہورہی ہے "۔

ہالے کو اس کا سپاٹ انداز گراں گزرا تھا ۔


"نہیں ہالے ایسی بات نہیں ہے پر تمہارا لباس یہاں کے لیے مناسب نہیں ہے ,خیر میں تم سے تھوڑی دیر میں بات کرتا ہوں ِاس وقت میرا وہاں سب کے درمیان ہونا ضروری ہے تم جب تک کچھ اسنیکس وغیرہ لو پھر مِل کر کھانا کھاتے ہیں"۔


وہ اپنا ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالتے ہوۓ ُاسے اسنیکس والی ٹیبل کی جانب بھیج کر زھرہ کی تلاش میں اپنی نظریں دوڑانے لگا جو جانے کب وہاں سے ُاٹھ کر چلی گئ تھی وہ اسےکچھ وقت کے لیے پس پشت ڈال کر لوگوں کی جانب بڑھ گیا ,وہ اپنے ان قیمتی لمحات کو کھونا نہیں چاہتا تھا ِاس لیے  آڈیٹوڑیم میں ملک بھر سے آۓ کمپنیز کے عہدےداروں سے علیک سلیک کرنے لگا۔ کافی دیر لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد وہ اور ہالے کھانا کھانے لگا جب ہی آڈیٹوڑیم میں بنی کھڑکی کے نزدیک کھڑے زین العابدین نے کھانا کھاتے ہوۓ باہر چھائ ُدھند پہ جیسے ہی نظر ڈالی تو ُاسے نیچے ُپول کے نزدیک کھڑے چند لوگوں کے درمیان زھرہ دکھائ دی جو خود سے بے نیاز سفید لباس میں کوئ اپسرا لگ رہی تھی  ۔

"میں ویسے نوٹ کررہی ہوں تم مجھے کافی دیر سے نظر انداز کررہے ہو ,میں جب سے یہاں آئ ہوں تمہارے اندر ایک عجیب سی بے چینی دیکھی ہے میں نے جیسے کوئ چیز کھوگئ ہے تمہاری ,کیا مسئلہ یے بتاؤ مجھے"۔۔۔۔۔۔


ہالے کی بات پر زین العابدین نے چونک کر ُاسے دیکھا ,وہ کیا کہ گئ تھی اس کی نظریں بھری محفل میں ایک ُاسی کو تو تلاش رہی تھی جس کے سامنے وہ اپنی کیفیت کو سختی کے پردے میں چھپاۓ رکھتا تھا ۔ایسا پہلی بار ہواتھا کے اس کا دل الگ تال پہ ڈھڑکا تھا ان نظروں کو پہلی بار کوئ اچھا لگا تھا اس کا بے ایمان دل اس نازک پری پیکر کو پانے کی تمنا کرنے لگا تھا۔


"نہیں ایسی کوئ بات نہیں بس تھک گیا ہوں ہالے جانے کتنی راتوں سے ِاس پروجیکٹ کی وجہ سے میں ٹھیک سے سو نہیں  پایا "۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی کنپٹی کو مسلتے ہوۓ بولا ۔


"اچھا تم یہ بتاؤ تم نے مجھے یاد کیا تھا" ٖ۔

ہالے ایک ادا سے زین العابدین کے سینے پہ ہاتھ جما کر بولی تھی۔

                               ۞۞۞۞۞۞۞

"سر آپ نے زیادہ پی لی ہے آپ کو نشہ ہورہا ہے "۔

اشہد عزیز کی سیکریٹڑی نے اپنے بوس کو روکنا ضروری سمجھا تھاجو ہوٹل کے اندر کھڑی اپنی گاڑی میں سے شراب نکال کر اپنی ہار کی وجہ سے پی رہاتھا ۔

"یہ سب کچھ تیری وجہ سے ُہوا ہے سالی کت***تجھے اتنا پیسہ کس لیے ِکھلاتا تھا بول سواۓ سجنے سنورنے کے کبھی کام پر بھی توجہ دےلیتی آج تیری وجہ سے مجھے کڑوڑوں کا نقصان ُہوا ہے اب بولتی کیوں نہیں؟ کون بھرے گا سارے پیسے جو انویسٹڑز نے پہلے سے دے دیے تھیں کے ِاس بار بھی ہماری کمپنی کو پروجیکٹ مِلے گا بول  "۔

اشہد عزیز نشے کی حالت میں بپھرا ُہوا کہی سے بھی ایک مہذب بزنس مین نہیں لگ رہاتھا وہ جہالت سے اپنی سیکریٹڑی کو بالوں سے تھامے ہوا کھڑا تھا جو درد سے ِچلا رہی تھی۔

"اب میری نظروں کے سامنے مت آنا کبھی ورنہ ایک سیکینڈ نہیں لگاؤں گا تمہاری سانسیں بند کرنے میں  جاؤ یہاں سے "۔

وہ ُاسے دھکیلتے ہوۓ ہوٹل کے پچھلی جانب چلاگیا جہاں پانی کا ُپُول تھا۔

                             ۞۞۞۞۞۞۞۞

ہالے ُاس کی جواب کی منتظر تھی پر وہ تو یہاں ہوکے بھی جیسے موجود نہیں تھا ُاس کی ساری توجہ کا مرکز ایک انسان تھا ِجس سے ُاس کا کالج کے زمانے سے خدا واسطے کا بیر تھا

 اشہد عزیز ہاتھ میں ممنوع محلول کی بوتل تھامے لڑکھڑاتے ہوۓ قدموں سے زھرہ کی جانب آتے ہوۓ دِکھائ دیا جو اپنے آپ میں کہی خیالوں کی دنیا  میں کھوئ ہوئ تھی ۔زین العابدین  پلیٹ ٹیبل پر رکھ کر جلدی جلدی ڈگ بھرتا ہوا  نیچے کی جانب بھاگا  تھااسے ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے کچھ غلط ہونے لگا۔

"زین کہا جارہے ہو میری بات تو ُسنو "۔

مگر وہ ُاسے بِنا جواب دیۓ نیچے کی جانب چلاگیا۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

"جتنی تم --خوبصورت ہو-- ُاس سے کہی ---زیادہ--- زہین ہو ,مجھے تمہارے ---جیسی ہی لڑکی ---چاہیے جو میرے بزنس کو کیش کراسکے--- بتاؤ کتنا پیسہ--- لوگی زین العابدین-- کو چھوڑنے--- کا میں ---تمہیں مالا ---مال کردوں گا "۔

وہ لڑکھڑاتے ہوۓ قدموں کے ساتھ اٹک اٹک کر لفظوں  کو کھینچھ کربول رہاتھا۔ُاس کے منہ سے ُاٹھتی  بدبو سے زھرہ کو سانس لینا ُدشوار ہوگیاتھا۔وہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھتی ہوۓدو قدم۔پیچھے ہوئ۔جب ہی اشہد عزیز نے زھرہ کا ہاتھ تھامنا  چاہاجس پر وہ سیخ پا ہوکر اپنے غصے کو قابو ں میں نہ رکھ سکی اور اپنا ہاتھ اشہد عزیز پر ُاٹھا بیٹھی .


"اس تھپڑ کی گُونج ہمیشہ یاد رکھنا اشہد عزیز ہر لڑکی فروختنی نہیں ہوتی آج کے بعد اپنے یہ ناپاک ہاتھ میرے قریب بھی مت لانا  "۔

وہ زھرہ کے ایک شیرنی کی طرح ڈھاڑنے پر جیسے ہوش میں آیاتھا اس کا نشہ بھک سے ُاڑن ُچھوں ہوگیاتھپڑ کی گُونج سےنزدیک کھڑے اکا دکا لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگۓ تھیں۔


"تیری اتنی مجال جو تو نے اشہد عزیز سپال پر ہاتھ ُاٹھایا "۔


وہ غصبناک ہوا زھرہ کے اوپر ہاتھ ُاٹھا بیٹھا جسے زھرہ کے سامنے سیسہ پلائ دیوار بنے کھڑے زین العابدین نے ہوا میں ہی روک لیا اس نے جب اپنی آنکھیں وا کی تو زین العابدین ُاس کے آگےدیوار بنا اشہد عزیز کے ہاتھ کو مڑوڑے کھڑا تھا۔


"میں صبح سے سوچ رہاتھا کے یہاں تم نے اپنی اوقات نہیں ِدکھائ پر دیکھوں کُتے کی دُ م کبھی بھی سیدھی نہیں ہوتی آخر اپنی  ُپرانی اوقات دِکھا ہی دی تم نے مجھے!!خیر شرافت اسی میں ہے کے خاموشی سے چلے جاؤ یہاں سے کیوں کے میں اپنے ہاتھ تم پر ُاٹھا کر  صبح کی اخبار کی زینت نہیں  بننا چاہتا ِاس لیے دفعہ ہوجاؤ یہاں سے مسٹڑ سپال "۔۔۔

زین العابدین نے ُاس کے گِریبان کو سختی سے تھام کر پیچھے کی جانب جھٹکا دیا جِس پر وہ لڑکھڑا کے ُپول کے نزدیک پڑی کُرسی پہ گِر پڑا,زین العابدین اس وقت مشتعل ہوا ِبپھراشیر لگ رہاتھا جس کی دماغ کی رگیں غصے سے تن گئ تھی وہ ایک گہری سانس لے کر بنا پلٹے اپنے پیچھے کھڑی زھرہ کو سرد انداز میں بولا۔


"آپ اندر جاۓ اپنے کمرے میں مِس خان "۔

  جب ہی اشہد عزیز ایک بار پھر تیزی سے زھرہ کی جانب بڑھا جسے زین العابدین نے ُاس کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھوں سے جھٹکا دے کر پیچھے کی جانب دھکیلا , ُاس کے ہونٹ نزدیک پڑی کرسی سے ٹکرانے کی وجہ سے پھٹ پڑے وہ اپنے  منہ سے نکلتے خون کو دیکھ کر ُاسے اپنے بازوں سے صاف کرتا ہُوا ُاٹھ بیٹھا۔


"ابھی تو میں جارہاہوں زین العابدین پر تجھ سے میرے پہلے کے ِحساب بھی ُچکتا کرنا ہے اب تو دیکھ میں کیا کرتا ہوں ,اور تم کیا کہا تھا"۔

اشہد عزیز زھرہ کی جانب اپنی انگشت کیے کہنے لگا جس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہورہاتھا۔


" مجھے اپنے ناپاک ہاتھ  مت لگانا ,اب تم دیکھنا میں نہیں تمہیں یہ ناپاک کرے گایاد رکھنا , یہ اشہد عزیز کا وعدہ رہا تم سے"۔

وہ نشے کی حالت میں دھت اپنی انگشت ان کی جانب کرتے ہوۓ ڈھاڑا تھا ۔


"اپنی گندی زبان کو سنبھال کر رکھ رزیل انسان میں تیرا منہ توڑدوں گا  دفعہ ہوجایہاں سے "۔

زین العابدین ہلک کے بل ِ چلایا تھا جس کا غصہ سوا نیزے پہ پہنچ چکاتھاپر نزدیک ہوتے لوگوں کو دیکھ کر وہ اپنےپیچھے کھڑی بُت کے مانند زھرہ کا ہاتھ تھامے ہوٹل,کے اندرونی حِصے کی جا ِنب بڑھ گیا یہ نظارا اوپر آڈیٹوڑیم کی کھڑکی سے ہالے نے اپنی سرد ہوتی نظروں سے بخوبی دیکھاتھا۔


"اپنے روم کی چابی دو؟"۔

وہ اسے سیدھا  کمرے کی جانب لے آیا تھاجو اپنےبہتے ہوۓ آنسوؤں کو روک نہیں پارہی تھی جنہیں روکنے کی کوشش میں بے حال ہوتی ہوئ لال بھبوکا ہوگئ تھی ۔


"جب تمہیں معلوم تھاپاڑٹی اوپر ہورہی ہے تو تمہارا پُول کے پاس جانے کا کیا جواز بنتا تھا ۔اگرمیں وقت پر نہیں پہنچتا تو وہ نشے کی حالت میں تمہیں پتہ ہے کیا کرتا "۔


وہ روتی ہوئ زھرہ کو دیکھ کر غصے سےپاگل ہوۓ جارہاتھا جب ہی آگ بگولہ ہوا اس پر برس پڑا, وہ اچھے سے جانتا تھا اشہد عزیز سپال ,شہزادہ  انڈسٹڑی کا مالک سیالکوٹ کے ہر دو نمبر کام کرنے کا بے تاج بادشاہ جو اپنی بلیک منی کو وائیٹ واش کیسے کرتا تھا سب جانتے تھیں  پر ُاس پہ آج تک کوئ ہاتھ نہیں ڈال سکا تھا جس کی وجہ ُاس کا بڑا بھائ ناصر عزیز سپال تھا جو سیالکوٹ  کی ایک اہم وزارت کے عہدے پر فائز تھا ۔ اگر ُاس نے زھرہ کو دھمکی دی تھی تو وہ خالی دھمکی نہیں تھی اس کے ماتھے اور گردن کی رگیں نمودار ہونے لگی تھی جو ُاس کے غصے میں ہونے کی نشاندہی کررہاتھا۔زھرہ زین العابدین کے کسی بھی سوال کے جواب کے دینے کے بجاۓ بس روۓ جارہی تھی۔جس کو غیض و غضب میں دیکھ کر اس زبان تالو سے جا چپکی تھی۔


"اپنا سامان پیک کرلے ِمس خان آپ صبح واپس جارہی ہے کراچی"۔

وہ سرد انداز میں کہتے ہوۓاس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھ کر سخت کبیدہ ہوا اور اپنے قدم باہر کی جانب بڑھادیۓ۔

                            ۞۞۞۞۞۞۞۞

ہالے مضطرب سے انداز میں سگریٹ پر سگریٹ ُپھونک رہی تھی اور یہ سوچے جارہی تھی کے آخر وہ لڑکی کون تھی جس کا زین نے اتنے استحقاق سے ہاتھ تھاما تھاوہ ُاس کی ِاس عادت سے بخوبی واقف تھی کے وہ غصے کا تھوڑا تیز تھا پر زین العابدین کبھی کسی اپنے کے علاوہ کسی دوسرے کی لڑائ میں نہیں کودتا تھا تو پھروہ کون تھی یہ جس کے لیے زین اس لڑکے کے سامنے ڈٹ گیاتھا۔

تم سگریٹ پی رہی ہو "۔

زین العابدین نے ُاسے اوپر کی جانب کش لیتے ہوۓ دیکھ کر کہا 

"oh no darling ۔

وہ تو بس میں زہنی طور پر ڈسٹڑب تھی تو بس ایسے ہی پی لیاویسےوہ لڑکی کون تھی جس کے لیے تم لڑرہے تھے؟"۔

ہالے نے سگریٹ زمین پر پھینک کر اپنی ہائ ہیلز سے  مسلتے ہوۓ پوچھا۔

وہ میری ایک امپلائ ہے تم چلو اندر"۔

زین العابدین نےسپاٹ انداز میں ُکہتے ہوۓاسے اندر کی جانب لے جانا چاہا جس پر وہ دو قدم پیچھے سِرک گئ۔


"تم کب سے اپنے عام امپلائیز کے لیے لڑنے لگے زین العابدین حیات خان"۔

وہ ٹھنڈے لہجے میں اسے بولی ۔

"میرے خیال سے ہالے میں نے اپنی زندگی میں دخل اندازی کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی تمہارے لیے اتنا جاننا ضروری ہے کےوہ میری ایک عام سی امپلائ ہے اس کے علاوہ اگر تمہیں مجھ سے مزید کچھ پوچھنا ہےتو میں صفائیاں نہیں دے سکتا "۔

"oh no my darling ,i was a bit curious about you, ny how i iam going inside"

وہ بات بدلتے ہوۓ چہرے پہ مضنوعی مسکراہٹ سجا کر  اندر کی جانب بڑھ گئ ۔ 

                   ۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞

"مس خان آپ آفس جب تک نہیں آۓ گی جب تک میں آپ کو ُبلاؤں گا نہیں کسی بھی طرح کی کوئ بھی پروبلم ہو تو آپ مجھے ِاس نمبر پر کال کرے گی فوراً اور کوشش کیجیۓ گا جب تک میں کراچی نہیں آؤں آپ گھر سے باہر مت نکلیے گا پھر آکر ِاس مسئلے کا حل نکالتے ہے "۔


8x


وہ سگریٹ پیتے زین العابدین کی ساری باتیں نہایت توجہ سے ُسن رہی تھی جو ُاسے شاید اشہد عزیز کی دھمکی کی وجہ سے محتاط ہوکر رہنے کے لیے کہ رہاتھا۔

"سر پر آپ اکیلے کیسے کرے گے میں اپنا کام مکمل کرکے چلی جاؤں گی ابھی تو لاہور میں ایگزیبیشن بھی ہے "۔

وہ پریشانی سے اپنے نیچلے  لب کو دانتوں تلے دباتی  ہوئ بولی,جس نے چند لمحوں کے لیے ُاس اپسرا کی آنکھوں میں سرسری سا دیکھا تھاجس کی ُسوجی ہوئ آنکھیں ُاس کی رات بھر رونے کی چغلی کررہی تھی وہ اپنی نظروں کا زاویہ بدلتے ہوۓ سگریٹ کا ایک گہرا کش لیتے ہوۓ ُاس کی جانب پلٹا وہ کالے ٹڑاؤزراور ُسرمئ اپر پہنے عام سے حلیے میں بھی  محفل میں اپنی رعب دار شخصیت کے باعث چھایا ہوا لگ رہاتھا۔

9


"اس کے لیے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ نے انتہائ اہم کام بخوبی سر انجام دےدیا ہے جس کی وجہ سے کمپنی کو بہت فائدہ ہوا ہے میں نے ہمنا کو کال کردی ہے وہ سیدھا لاہور پہنچ جاۓ گی آپ بس واپس گھر چلی جاۓ کوئ ضرورت ہوئ تو کمپنی آپ سے خود رابطہ کرے گی "۔


وہ سگریٹ کا کش لیتے ہوۓ اس کے کمرے سے باہر نکل آیاتھا۔

                                  ۞۞۞۞۞۞۞۞

"تو نے ِبلکل اچھا نہیں کیا زین تیرا تو میں وہ حال کروں گا کے تجھے پانی بھی نصیب نہیں ہوگا اور وہ تیری سیکریٹری بہت اکڑتی ہے نہ اپنی عزت کے لیے ایک دن اسی کے لیے تجھ سے بھیک مانگے گی پھر میرے دل میں لگی آگ شاید ُبجھے گی"۔

وہ ہاتھ میں تھاما ہوا گلاس زمین پر پٹخ کے بولا ۔

                                 _________________


میرے بچے تو جلدی واپس آگئ تیرا تو ابھی کچھ اور دن کا کام تھا نہ وہاں "۔

فوزیہ نے بیٹی کاپژ مردہ مُرجھایاسا افسردہ چہرہ دیکھ کر ُاس سے پوچھا جو میز پر پرس رکھ کر اب نلکے سے پانی پی رہی تھی ۔



زھرہ نے چارپائی پہ بیٹھ کر پانی تین سانسوں میں پیتے ہوۓ کہا۔


"چلو اچھا ہےنہ تم آگئ ہو اب تمہارے بِنا رہنے کی عادت نہیں رہی تو پُورے گھر میں بولائی بولائی پھر رہی تھی جیسے کچھ قیمتی کھوگیا ہو میرا"۔


فوزیہ آنکھوں میں آنسوں سموۓ بیٹی کے ستے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر بولی جن کی کل کائنات ہی زھرہ تھی۔


"اووو میری پیاری امی میرا تو خود دل نہیں لگتا آپ کے بِنا میں تو بس مجبوری میں گئ تھی وہاں ورنہ میں آپ کو کبھی بھی اکیلے نہ چھوڑوں"۔


زھرہ نے ماں کو دلگرفتہ ہوتے دیکھ کر ان کے شانے کے گِرد اپنے بازوں حمائل کیۓ اپنا سر ان کے شانے پر ٹِکادیا ۔


"چلواب جلدی سے کپڑے بدلی کرو میں کھانا پروستی ہوں "۔

فوزیہ نے بات کے دوران تشتری دھوکر سِنک پر رکھی ۔


"کھانے میں کیا بنا ہے امی "۔

زھرہ چارپائی پہ آلتی پالتی مار کے بیٹھی تھی۔


"آلو کی ُبجھیاں بنائی ہے ساتھ میں چٹنی بھی ہے پودینے کی "۔

"جی امی بس ابھی آئی کپڑے بدل کر پھر مل کر کھاتے ہیں "۔


"جی امی کام جلدی ختم ہوگیا تھاتو میں واپس آگئ اب دودن کی ُچھٹی ہے پیر سے جاناہے آفِس "



 

Comments

Popular Posts