Tashna-e-Deedar Episode 1

"

شائن ہے کیسی لگی نئ والی کھیپ ؟"۔۔۔۔۔۔۔

شوکت نے صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ پوچھا جو اپنے شکنجے میں ایک کلی کو دبوچے ہوۓ بیٹھا تھا۔


"تمہاری نظروں کے سامنے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔

شائن یے نے دیوار میں نصب اسکرین کی جانب اشارہ کیا جسے شوکت للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا جس میں بچیوں کی عریاں فحش فلم چل رہی تھی جو خاص کمبوڈیاں سے اغواء کرکے لائی گئ تھی۔


"میں تو ان سے مل بھی آیا ہوں جناب آپ بتاۓ آپ کے دل کو کیسی لگی ؟"۔۔۔۔۔۔۔۔

شوکت سگار سلگاتے ہوۓ بولا ۔


ْ"سب کی سب اعلی درجے کی ہیں پر جو دل پہ جا لگی ہے وہ صرف میۓ ہے اف کیا حسن پایا ہے اس نوخیز کلی نے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شائن ہے  نے للچائی ہوئی نظروں سے میۓ کی تصویر کو دیکھا جو اس نے خاص اپنے کارندے سے منگوائی تھی ۔


"پھر اگلا کیا حکم ہے سر ہمارے لیے "۔۔۔۔۔۔۔۔

شوکت نے سوالیہ انداز میں شائن ہے کی جانب دیکھا۔

"اب کی بار ہمارا مشن تمہارا ملک ہے شوکی ,سنا ہے وہاں پر ہر سو خوبصورتی پھیلی ہوئی ہے تم وہاں سے اعلی قسم کی نوخیز کلیاں لاؤ گے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شائن ہے نے اپنے حصار میں لیے لڑکی پہ شکنجہ سخت کرتے ہوۓ کہا جس پر وہ تکلیف سے کراہ اٹھی ۔


"جو حکم آپ کا سرکار ہم پاکستان کے لیے جلد ہی نکلتے ہیں "۔۔۔۔۔۔

                                              ۞۞۞

"اماں جان میرے لیے دعا کیجیے گا آج ایک اہم میٹنگ ہے میری " ۔

اس نے اپنی اماں جان کے آگے سر ُجھکایا جنہوں نے ُاس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔

"اللہ تمہیں کامیاب کرے میرے بچے ,پر دل کو تمہارے جانے کے بعد عجیب سے وہم ستاتے رہتے ہے جانے تم کیسی نوکری کرتے ہو جو سارا سارا سال اپنی شکل نہیں ِدکھاتے "۔


وہ آنکھوں میں آنسوں سموۓ ہوۓاپنے لخت جگر کو دیکھ کر بولی۔


"اماں میرا کام ہی ایسا ہے ,آپ کے پاس بھیا ہے بھابھی ہے اور سب سے بڑی بات میرا جگری دوست میری جان میرا زینو ہے "۔

"ہاں ہاں سب پتہ ہے مجھے تمہارے یہ مسکے لگانا ,جاؤ جاؤ تمہیں دیر ہورہی ہے شام۔میں ِملے گے "۔

"جی اماں دعاؤں میں یاد رکھیے گا اللہ حافظ"۔۔۔۔۔


                                 ۞۞۞۞


اسلام علیکم میجر!!تشریف رکھے"۔۔۔۔۔۔

 ڈی ایس پی عظیم خان کے رعب و دبدے والی شخصیت دیکھ کر مرعوب ہوۓ تھے جو خاص اس کیس کے لیے چنے گۓ تھے۔


"یس سر"۔۔۔۔۔۔۔

اس نے پہلے ڈی ایس پی کو سلوٹ کیا پھر سلام کا جواب دیتے ہوا بیٹھ گیا۔اس کے سامنے انہوں نے ایک فائل بڑھائ جسے کھولتے ہی ایک چالیس پینتالس سال کے سانولے سےآدمی کی تصویر دیکھی ۔


"جوان یہ ہے ہمارا پہلا شکار شوکت عرف شوکی جو اس گروپ کے لیڈر کا رائٹ ہیڈ ہے جس کا کام غریب ممالک سے نابالغ بچیوں کو غیر قانونی طریقے سے تھائیلینڈ پہچانا ,جن کی برہنہ ویڈیوں بناکر ان کو بلیک میل کرنا یا جسم کے اعضاء میں ڈڑگز ڈال کر سپلائی کرنا ان کا اہم۔پیشہ ہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے بغور سنتے ہی اگلا صفحہ پلٹا ۔


"یہ ہے شائن ہے اس گروپ کا سرغنہ  یہ تھائیلینڈ میں رہ کے اپنے سارے کام شوکت سے کرواتا ہیں جو نشہ آوار دوائیاں بنانے سے لے کے لڑکیوں کی سپلائیاں تک ہائی لیول پہ کرتا ہے 

 اور سب سے بڑی بات ہمارے انڈڑ کور ایجنٹ سے جو  معلومات ملی ہے ان کے مطابق ان کا اگلا ٹارگٹ اس بار ہمارا ملک پاکستان ہے جسے کھوکھلا کرنے کے لیے شوکت عرف شوکی کا تیسرا چکر پاکستان کا لگ چکا ہے "۔۔۔۔۔۔۔


"اب تم بتاؤ جوان تم کیا کہتے ہو؟"ْ۔۔۔۔۔۔۔

ڈی ایس پی صاحب نے قلم میز پہ رکھتے ہوۓ پوچھا ۔


"سر کرنا کیا ہے چارا ڈال کے انتظار کرے گے بکری کے پھنسنے کا"۔۔۔۔۔۔۔

عظیم خان شائن ہے کی تصویر کو دیکھتے ہوۓ بولا ۔


"سر انشاءاللہ اس شائن ہے اور شوکت کو ہم جہنم واصل کریں گے جو بھی ہمارے ملک کی جانب میلی آنکھ سے بھی دیکھے گا اسے ایسی عبرتناک سزا دوں گا کےآنے والے ہر دہشتگرد کے لیے وہ ایک مثال ہوگی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ پر عظم لب ولہجے میں بولا ۔


"آئی ایم پڑاؤڈ آف یو میجر "۔۔۔۔۔۔۔

 ڈی ایس پی نے فخریہ نظروں سے اسے دیکھا جس کا انتخاب اس مشن کے لیے انہوں نے خود کیا تھا۔


"تو پھر جینٹلمین آپ اپنی ٹیم کے لیے جسے چاہے سلیکٹ کرسکتے ہیں یہ آپ کے اوپر ہے  اب مجھے اجازت دے تاکہ میں ہیڈ کواٹڑ جاکے انہیں آگاہ کروں ہماری درمیان ہوئی میٹنگ کے بارے میں "۔۔۔۔۔۔۔۔ڈی ایس پی میجر عظیم خان سے گرم۔جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوۓ بولے ۔

میجر عظیم احتراماً کھڑے ہوۓ ان سے ہاتھ ملا کر باہر کی جانب نکلتے چلے گۓ ۔۔۔۔۔۔

                                             ۞۞۞۞


مجھے بتاؤ لڑکی ہوا کیا ہے ؟"۔۔۔۔۔۔

فوزیہ نے اپنی بیٹی کو دیکھا جو مرجھائی سی آکر چٹائی پہ بیٹھی تھی۔


"امی مسسز ڈیسوزا مجھے دیکھ کر باہر گلی میں بہت  اونچا اونچا بول رہی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔


زھرہ نے ایک گہری سانس لی ۔


"کیوں بول رہی تھی وہ ؟"۔۔۔۔۔۔

فوزیہ نے چولہا جلاتے ہوۓ اس کی جانب دیکھا جو اپنی نازک انگلیوں سے چٹائی کے دھاگوں کو نوچ نوچ کے نکال رہی تھی اسی اثناء میں دروازے پہ دستک ہوئی ۔جہاں سے نرگس خالا پژمردہ مرجھائی سی داخل ہوئی ۔


"اسلام علیکیم فوزیہ۔۔۔۔۔

"وعلیکم اسلام۔"۔۔۔۔۔۔فوزیہ نے خوش دلی سے انہیں جواب دیا ۔

"خیریت ہے نرگس اتنی افسردہ کیوں ہو؟"۔۔۔۔۔۔۔

فوزیہ ان کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کربولی ۔


"وہ فوزیہ اصل میں "۔۔۔۔۔۔

اسی اثناء میں دروازے پر دستک ہوئی جہاں مسسز ڈیسوزا  اس قدر غصے میں کھڑی تھیں کے خود زھرہ کا دل بھی اندر سے سہما جارہاتھا ۔


"اے لڑکی کوئی شرم نام کی چیز بھی ہیں تم لوگوں میں کے نہیں ؟ پچھلے چھ ماہ کا کرایا تم لوگوں نے نہیں دیا اگر صبح تک سارے پیسے نہیں دیۓ تو دونوں ماں بیٹیاں مجھے یہاں نظر نہ آنا "۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں پہ غصہ بھڑاس نکالتی ہوئی باہر نکل گئ۔۔۔۔


"فوزیہ تم لوگ پریشان مت ہو اللّٰہ کوئی نہ کوئ بہتری کرے گا میں یہی بتانے آرہی تھی پر وہ موٹی خود ہی یہاں آگئ "۔۔۔۔۔

نرگس کا تو بس نہیں چل رہاتھا کہ وہ ڈیسوزا کا وجود تہس نہس کردیں جو ان یتیموں کو تنگ کرنے آجاتی تھی ۔وہی فوزیہ کے دل میں ہول اٹھنے لگےتھے اگر کل۔کے دن میں پیسے نہ ہوۓ تو ڈیسوزا واقعی اپنی کہی بات سچ کردکھاۓ گی۔

وہ بجھے ہوۓ دل کے ساتھ گھر سے باہر نکل آئی,اس وقت وہ اپنی امی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی   جو ِاس آس میں بیٹھی ہوئ  تھی کے شاید آج مالک مکان سے ہمیں تھوڑی مہلت  ِمل جاۓ گی پر اللہ جانےہمارے نصیب میں ابھی کتنی آزمائشیں باقی تھی وہ خود کو چادر سے ڈھانپ کر پرس لٹکاۓہوۓ بس اسٹاپ کی جانب ِنکل پڑی جہاں آج ُاس کا آفس میں سیکریٹری  کی پوسٹ کے لیے پہلادن تھا پر ُبرا ہو ان ہڑتال کرنے والوں کا جن کی بدولت آج سڑک پر سناٹا چھایا ہوا تھا وہ رکشے کے انتظار میں آہستہ آہستہ پیدل چلنے لگی کے شاید کوئی سواری ِمل جاۓ پر ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا تھاوہ سنبھل سنبھل کر تارکول کی بنی ہوئی سڑک پر سفید سوٹ پہنے اپنے قدم چکنی سڑک پرسہج سہج کر رکھ رہی تھی تاکہ روڈ پہ کھڑے پانی سے وہ ِپھسل کر نہ گرجاۓ جو شاید کل کی ہوئی بارش کے باعث تھا۔


وہ اپنے دھیان میں چلی جارہی تھی جب ہی ُاس کے نزدیک سےکالی رنگ کی ایسٹون مارٹن اسپورٹس کار گزری جس کے گزرنے سے سڑک کا آلودہ پانی زھرہ کے کپڑوں کو سلامی دے گیا وہ جو گھر سےغصے میں پہلے سے بھری ہوئی ِنکلی تھی اشتعال میں آکر سڑک سے پتھر ُاٹھا کےگاڑی کے پیچھے تیزی سے چلتے ہوۓ نشانہ لگایا۔


"ہم  غریب لوگ تمہیں سڑک پر چلتےہوۓ نظر نہیں آتے"۔

وہ حلق کے بل چلاتے ہوۓ بولی ,پتھربد قسمتی سے گاڑی کے پیچھے زور سے لگا جس سے سڑک پر پانی میں ِرینگتی اسپورٹس کار کے ٹائرزبریک لگنے سے چرچراۓ تھیں, زھرہ ہونقوں کی طرح گاڑی کو دیکھنے لگی۔اسے خطرے کی گھنٹیاں سی بجتی محسوس ہوئی۔


"یہ ُرک کیوں گئ ہے اللہ جی میں نے تو بس مزاق سے پھینکا تھا مجھے کیا پتہ تھا پتھر سچ میں لگ جاۓ گا "۔زھرہ کے گرد خوف کے ساۓ منڈلانے لگے۔


جب ہی اسپورٹس کار ریورس ہونے لگی اور ٹھیک زھرہ کے پاس جاکے ُرکی ,آٹومیٹِک ڈورکھلا جس میں سے وہ ُسرمئ رنگ کے پینٹ کوٹ میں مردانہ وجاہت کا بھرپور شاہکار چہرہ پہ آئ ہلکی داڑھی پہ ہاتھ پھیرتا ہوا  سامنے کھڑی لڑکی کو بھنویں سکیڑ کے دیکھنے لگاجو اپنا آدھے سے زیادہ چہرہ  آفس فائل سے ڈھانپے ہوۓ تھی۔


"تم نے میری اتنی قیمتی گاڑی پر پتھر کیوں پھینکا "۔زین العابدین لبوں کو بھینچے ہوۓ اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہاتھا ۔


"تو آپ نے بھی تو مجھ پر یہ ِکیچڑ پھینکا تھا"۔زھرہ اپنی فائل نیچے کیےزین العابدین سے درشت لہجے میں بولی جو کچھ پلوں کے لیے اسے دیکھ کر کھوساگیاتھاجس کی بھوری آنکھیں کسی سے مشابہت رکھتی تھی گھنی سایہ فگن پلکوں کی ُاٹھتی بند ہوتی جھالریں غصے سے تمتماتے عارض ان کے نزدیک ہی گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ جن سے غصہ کرتی وہ سفید لباس میں خود کوچادرسےچھپاۓ ہوۓ کوئی جنت کی پاک حور لگ رہی تھی جو بھٹک کرشاید ِادھر آگئ ہو۔زین العابدین جیسا مضبوط کردار کا مالک جس کے قدم آج اس حور کو دیکھ کر پہلی بار ڈگمگاۓ تھے دل پہلی بار الگ ہی لے میں ڈھڑکا تھا نظروں کی گرفت میں جیسے یہ چہرہ قید ہوگیا تھا ,  اعصاب پہ قابو پاتے ہی اس کے لباس پہ جابجا دھبے دیکھ کر عنابی لبوں پہ ایک مسکراہٹ چھائی تھی۔

 گیاتھا,جب ہی وہ زچ ہوکر بولی تھی۔


"ایسی بات نہیں ہے ہالے تم آؤ پھر ِملتے ہے میری آج ایک اہم ِمیٹنگ ہے پھر بات ہوگی ٹیک کیر"۔۔۔۔


زین نے اس کا جواب ُسنے بنا فون بند کردیا جو ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی بے عزتی کو میٹھے گھونٹ کی طرح پی گئ وہ کسی بھی صورت میں اپنے اس دولت مند منگیتر کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی ۔


زین العابدین دروازہ کھول کر اپنے ایک ہاتھ میں ُسرمئ کوٹ تھامے دوسرے شانے پر اپنا آفس بیگ لٹکاۓ بڑی شان سے چلتا ہوا آفس کے اندر داخل ہوا جہاں ُاسے سارا اسٹاف دیکھ کر احتراماً ُاٹھ کھڑا ہوا اس کے کمرے کے باہر کھڑے ہیڈ ِانچارج اور مینجر پھولوں کا ُگلدستہ تھامے اپنے نۓ مالک کو خوش آمدید کہ رہے تھےوہ پھولوں کا ُگلدستہ تھامتےہوۓ اپنے کمرے میں داخل ہوا ۔


"مسٹر معیز میری سیکریٹری کہا ہے انہیں اندر بھیجے اور سارے اسٹاف کی میٹنگ ُبلاۓ "۔۔۔۔

وہ مصروف سے انداز میں اپنے مینیجر سے بولا ۔


"سر وہ ِمس خان ابھی تک آئی نہیں ویسے تووہ بہت وقت کی پابند ہے مگر شاید ہڑتال کی وجہ سے ابھی تک نہیں پہنچ پائ"۔۔۔۔


فائلز کے پلندے کو اپنے سامنے رکھے زین العابدین نے سر ُاٹھا کر اپنے مینیجر کو دیکھا ۔


"تو آپ کیسے آۓ ہے ُاڑ کے؟ "۔۔۔۔

اس نے تنک کر مینیجر سے پوچھا۔


"سوری سر میرے پاس بائیک تھی مس خان کے پاس کوئی کنوینس نہیں ہے وہ پبلک ٹڑانسپوڑٹ سے آتی جاتی ہے "۔۔۔


۔

مینیجر کے تفصیلی جواب دینے پر اس کی پیشانی کے بل کچھ کم ہوۓ تھے۔


"تو پھر انہیں ِانفارم کرے کے آفس کی گاڑی انہیں ِپک کرنے کے لیے آرہی ہے وہ اگلے ِبیس منٹ میں مجھے یہاں چاہیۓ ورنہ نئ سیکریٹڑی اپوائنٹ کرے آج آفس کا پہلا دن ہے ِاسٹاف میٹنگ میں مجھےمس خان یہاں نظر آنی چاہیۓ "۔۔۔۔


وہ سرد لہجے میں بولتا ہوا کاغزوں کے پلندے کو فائل میں نتھی کرکے رکھنے لگا۔


"یس سر "۔معیز نے اپنی پیشانی پہ آۓ پسینے کو صاف کرتےہوۓ باہر کی راہ لی۔ 

                             ۞۞۞۞۞۞۞

"زھرہ یہ کہا جارہی ہو اتنی جلدی میں؟"۔۔۔۔۔


فوزیہ نے بیٹی کی تیاری دیکھی جو خود کو آسمانی رنگ کے شلوار کمیز پہ کالی رنگ کی چادر سے ڈھانپتے ہوۓ جلدی جلدی میں آفس کی فائلیں ِاکٹھی کررہی تھی ۔


"امی ایم ڈی صاحب نے میری پوسٹ تبدیل کردی ہے ہماری ایک ِامپلائی کی شادی ہوگئ ہےجس کی جگہ پہ مجھےوقتی طور پر رکھا گیا ہے,جیسے ہی نۓ بوس کی ریکوائرمینٹ کے حساب سے انہیں سیکریٹڑی مل جاۓ گی میں واپس اپنی پرانی سیٹ پر آجاؤں گی آپ بس دعا کیجیۓ گا "۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ جلدی جلدی میں تیار ی کرتے ہوۓ امی کو اپنے آفس کی باتیں بتانے لگی۔

"میری جان میری ُدعائیں تو  ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے اللّہ تمہیں اپنے ِحفظ و امان میں رکھے"۔۔۔۔۔

فوزیہ نے بیٹی پر آیت الکرسی کا ِحصار کیا جب ہی گاڑی کا ہارن بجا, زھرہ باہر کی جانب لپکی تھی۔

                         ۞۞۞۞۞۞۞۞


"ِمس خان بوس نے آپ کو آفس میں ُبلایا ہے فوراً جاۓ"۔۔۔۔معیز نے گھبراتے ہوۓ زھرہ کو اندر جانے کا پیغام دیا۔


"یس سر"۔۔۔۔


زھرہ دل کی تیزہوتی دھڑکنوں کو سنبھال کر ہم رنگ ُسوٹ کا دوپٹہ سر پہ جماتی ہوئی بوس کے کمرے کے باہر دستک دینے لگی زین العابدین جو ہاتھ میں فائل تھامے ہوۓ شیشے کی دیوار کی طرف ُکرسی کیے بیٹھا تھا دروازہ بجنے پر یس کہا۔وہ کمرے میں داخل ہوتے ہی بوس کی ٹیبل کی جانب دیکھنے لگی جو ُکرسی کا ُرخ دوسری جانب کیے بیٹھے تھے۔


"اسلام علیکم سر میں ِمس خان "۔۔۔۔

زھرہ نے لہجے میں شائستگی سموتے ہوۓ کہا۔


"جی کہیے ِمس خان ُفر صت مل گئ آپ کو  آفس آنے کی"۔وہ ہنوز سر فائل میں دیے شیشے کی دیوا رکی جانب ُرخ کیے بیٹھا 

تھا.

Post a Comment

0 Comments